عثمان رضا
محفلین
روزنامہ جنگ
کل جماعتی کانفرنس:دہشت گردی کے خلاف قوم کو متحد کرنے کا عزم
کل جماعتی کانفرنس:دہشت گردی کے خلاف قوم کو متحد کرنے کا عزم
اسلام آباد…سوات آپریشن اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے متعلق آل پارٹیز کانفرنس نے متفقہ طور پر سوات آپریشن کی حمایت کی ہے اور بے گھر افراد کی ہر ممکن امداد اور بحالی پر زور دیا ہے۔وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس میں پارلے منٹ کے اندر اور باہر ملک بھر کی سیاسی قیادت ایک چھت کے نیچے اکھٹی ہوئی۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم گیلانی نے کہا کہ جو تجاویز اور سفارشارت سامنے لائی گی ہیں ان سے قومی سلامتی پالیسی مرتب کرنے میں مدد ملے گی۔ آپریشن کی وجوہات بتا تے ہوئے انہوں نے کہا کہ توقع تھی کہ نظام عدل ریگولیشن کے بعد شدت پسند ہتھیار ڈال دیں گے لیکن انہوں نے ہتھیار پھینکنے سے انکار کر دیا۔مولانا صوفی محمدنے آئین،جمہوریت اور پارلیمنٹ کو ماننے سے انکار کر دیااورحکومت کی رٹ کو چیلنج کیا۔انہوں نے کہا کہ مشاورت اور غور و خوض کے بعد حکومت نے فوج کو آپریشن کا حکم دیا۔وزیر اعظم نے کہا کہ آرمی ایکشن کسی مسئلے کا پائیدار حل نہیں ۔انہوں نے کہا کہ امن کی بحالی اورنقل مکانی کرنیوالے افراد کی واپسی تک فوج ان علاقوں میں رہے گی۔وزیراعظم نے کہا کہ علاقے کے عوام کی املاک کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے گا،نقل مکانی کرنیوالے خود کو بے یار و مددگار اور لاوارث نہ سمجھیں وہ پورے پاکستان کے مہمان اور محسن ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایٹمی اثاثے غیر محفوظ ہونے کا تاثر بالکل غلط ہے۔کانفرنس میں شریک اکثر جماعتوں نے آرمی آپریشن کی حمایت کی لیکن جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے اسے غلط آپشن قرار دیاتاہم ان جماعتوں نے بھی ملکی سلامتی کویقینی بنانے کیلئے حکومت کو مکمل حمایت کا یقین دلایا ۔سیاسی رہ نماؤں نے بے گھر ہونے والے افراد کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے اور کیمپوں کی صورتحال پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور متاثرین کی مکمل آباد کاری تک دیکھ بھال کا مطالبہ کیا شرکا نے حکومت کو ڈرونز حملوں کے خلاف سخت پالیسی اپنانے پر زور دیا۔
تصویر اے پی پی
بی بی سی اردو
وزیر اعظم نے کہا کہ مالاکنڈ میں فوجی آپریشن کامیابی سے جاری ہے اور شدت پسند اب حلیے بدل کر فرار ہو رہے ہیں لیکن آپریشن اس وقت تک جاری رہے گا جب تک نقل مکانی کرنے والے افراد واپس اپنے گھروں میں پہنچ نہیں جاتے اور پائیدار امن قائم نہیں ہو جاتا۔
یہ بات وزیر اعظم نے اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس کے افتتاح کے موقع پر کہی۔یہ کانفرنس مالاکنڈ اور دیگر علاقوں کی صورتحال پر طلب کی گئی ہے اور اس کانفرنس کا مقصد ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو حکومتی پالیسی سے آگاہ کرنا اور ان سے مشاورت کرکے ان قائدین کو اس سارے عمل میں شامل کیا جائے۔حکومت کی دعوت پر ملک کی چالیس سے زائد سیاسی جماعتیں اس کانفرنس میں حصہ لے رہی ہیں۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی صدارت میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں حکومت مالاکنڈ میں جاری فوج آپریشن پر ان سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے گی۔ تاہم بلوچستان سے تعلق رکھنے والی دو سیاسی جماعتوں نے اس کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی کو اس کانفرنس میں بلوچستان کے مسئلے کو شامل نہ کرنے پر اعتراض ہے۔
دو روز پہلے فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی اہم سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈروں کو فوجی آپریشن کے بارے میں بریفنگ دی تھی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ شدت پسند افراد نے پاکستان میں خوف و ہراس اور بد امنی کی ایک ایسی فضا قائم کی ہے جس سے پرامن دنیا کو پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں تشویش لاحق ہو گئی ہے اور بعض علاقوں میں یہ تاثر ابھرا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ نہیں ہیں اور یہ دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ انھوں نے کہ وہ یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں اور محفوظ رہیں گے ان اثاثوں کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والے ہمیشہ نامراد رہیں گے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت نے مذاکرات کو ترجیح دی تھی اور اس سلسلے میں پیش رفت کی گئی لیکن حکومت کی مفاہمت کی پالیسی کے جواب میں شدت پسندوں نے اپنا اثر بڑھانا شروع کردیا تھا اور عام لوگوں کو ظلم کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ خواتین کو سر بازار رسوا کیا گیا، صوفیا کے مزاروں کو نشانہ بنایا گیا، سکولوں کالجوں کو تباہ کیا گیا اور نوجوانوں کو دہشت گردی پر اکسایا گیا جس کے بعد حکومت نے ان علاقوں میں فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس آل پارٹیز کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور قائدین نے شرکت کی ہے جن میں محمد نواز شریف، مولانا فضل الرحمان۔ چوہدری شجاعت حسین، اسفندیار ولی خان، محمود خان اچکزئی، آفتاب احمد خان شیر پاؤ، ظفراللہ جمالی، شیخ رشید احمد اور دیگر شامل تھے۔
وزیر اعظم نے تمام رہنماؤں سے کہا ہے کہ وہ اپنے مشورے اور تجاویز دیں تاکہ ان کی بنیاد پر قومی پالیسی ترتیب دی جائے۔ انھوں نے کہا کہ فوجی آپریشن کبھی مستقل حل نہیں ہوتا ہے اور مذاکرات سے ہی پائدار امن تلاش کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے تمام سیاسی رہنما اپنا کردار ادا کریں۔ اس کانفرنس کے اختتام پر ایک اعلامیے جاری کیا جائے گا۔
یہ ملکی تاریخ میں غیرمعمولی کانفرنس قرار دی جا رہی ہے جہاں سیاسی سوچ کا تقریباً ہر رنگ موجود ہوگا۔
مبصرین کے خیال میں یہ کانفرنس حکومت کی مالاکنڈ میں جاری فوجی کارروائی کے لیے پارلیمان کے اندر اور باہر سیاسی مکمل حمایت حاصل کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے کانفرنس سے ایک روز قبل ایک بیان میں واضح کیا کہ عسکریت پسندوں اور ملک کو عدم استحکام کا شکارکرنے کی سازش کرنے والوں کے خلاف آپریشن ان کے خاتمے تک جاری رہے گا۔
اتوار کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی علماءاہلسنت اور مشائخ عظام کے کنونشن نے بھی مالاکنڈ میں شرپسندوں کے خلاف جاری آپریشن کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ علاقہ سے شدت پسندوں کے مکمل خاتمہ تک آپریشن جاری رکھا جائے۔
کانفرنس کے شرکاء کا مؤقف تھا کہ یہ پاکستان کی سلامتی و استحکام کی جنگ ہے جس میں علماءو مشائخ اور پوری قوم پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔
کانفرنس میں آپریشن کے متاثرین کو بھرپور امداد فراہم اور ان کی دلجوئی کرنے، ڈرونز حملے پاکستان کی خود مختاری کے خلاف ہیں انہیں بند کرنے اور حکومت اس پر امریکہ سے احتجاج کرنے کے علاوہ پارلیمان کی مشترکہ قرارداد پر عملدرآمد کو یقینی بنانے جیسے مطالبات بھی کیئے گئے۔