باباجی
محفلین
کل نالہء قمری کا صدا تک نہیں آئی
کیا ماتمِ گُل تھا کہ صباء تک نہیں آئی
آدابِ خرابات کا کیا ذکر یہاں تو
رِندوں کو بہکنے کی ادا تک نہیں آئی
تجھ ایسے مسیحا کے تغافل کا گلہ کیا
ہم جیسوں کی پرسش کو قضا تک نہیں آئی
جلتے رہے بے صرفا چراغوں کی طرح ہم
تُو کیا، تیرے کُوچے کی ہوا تک نہیں آئی
اس در پہ ، یہ عالم ہُوا دل کا کہ لبوں پر
کیا حرفِ تمنا کہ، دعا تک نہیں آئی