کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
السلام علیکم،

کل تقریباََ 8 سے 10 لوگ راولپنڈی میں بربریت کا شکار ہوئے اور بے رحمی سے ہلاک کر دیے گئے۔
آج 1 بجے سے 2 بجے تک میں تمام چینل دیکھتا رہا باری باری بدل بدل کر لیکن ان کے خون آلود کپڑے اٹھا اٹھا کر نہیں دکھائے جا رہے تھے۔
ان پر حملہ آور لوگوں کو نہیں دکھایا جا رہا تھا، ان کو ذبح کرتے نہیں دکھایا گیا۔ کوئی خبر نہیں کوئی ذکر نہیں۔
جیو نیوز اور جیو تیز پر الطاف کی طرف سے بلائی گئی پارٹی میٹنگ اور نیٹو کنٹینر پر فائرنگ ہی ٹکرز کا موضوع تھے۔
دنیا نیوز پر شہید اور حرام موت پر بحث ہو رہی تھی
ڈان نیوز پر محرم کی حرمت پہ بات چل رہی تھی، جس میں ایک خاتون اپنی حالیہ مصروفیت کی وجہ سے خراب گلے کے باوجود پورا زور لگا کر محرم کی روح بیان کر رہی تھیں۔

اور کم و بیش یہی حال تمام چینلز کا تھا۔

یہاں اردو محفل پہ شیعہ جنیو سائڈ اور شیعوں کی نسل کشی کی خبریں دینے والے بھی بہت خاموش ہیں۔

ٹوئیٹر پر ہر ذاتی رنجشوں کے واقعات کو بھی بنیاد بنا کر شعیہ جینو سائڈ کی ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹویٹس کی بھر مار کرنے والے بھی آج خاموش ہیں۔

انسانیت کا بول بالا کرنے والے مسنگ پرسنز اور بلا بلا پر چیخنے والوں کو بھی کل مرنے والے انسان نظر نہیں آئے۔

ترازو کے دو پلڑے اور ان دونوں میں موجود اجزاء اب کھل کر سامنے ہیں۔ کہ کون کس پلڑے میں ہے اور کون کس پلڑے میں۔

تف ہے ایسی انسانیت پر ، لعنت ہے ایسے میڈیا پر، انسان دوستی پر اور انسانیت کا پرچار کرنے والوں پر۔
 
آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
کافی افسوسناک واقعہ ہے۔ چاہے کچھ بھی ہو کسی کو اس طرح سے کسی کی جان لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔

جہاں تک میڈیا کی بات ہے تو ایسے واقعات کو عام طور پر سینسر کرتے ہیں کہ مزید اشتعال نہ پھیلے۔ یہ انسٹرکشنز جی ایچ کیو کی طرف سے آتی ہیں۔ اگرچہ میں میڈیا کی آزادی کے حق میں ہوں لیکن پاکستان میں شائد ایسا کرنا ضروری ہے کہ لوگ بہت جوشیلے ہیں اور جلدی بھڑک اٹھتے ہیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
آپ کو بھی تھوڑا دماغ کو ٹھنڈا رکھنا چاہیے اور حقیقت کو ویسے ہی پیش کریں جیسے وہ ہے۔

یہ ہیں تازہ ترین اطلاعات۔ میڈیکل رپورٹس کے مطابق کسی بچے کو ذبح نہیں کیا گیا اور تمام اموات گولیوں کے لگنے سے ہوئی۔ پہلے سے ہی گھمبیر صورتحال کو مزید گھمبیر کرنے سے گریز کریں۔ اور حقائق پوری طرح سامنے آنے دیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
آپ کو بھی تھوڑا دماغ کو ٹھنڈا رکھنا چاہیے اور حقیقت کو ویسے ہی پیش کریں جیسے وہ ہے۔

یہ ہیں تازہ ترین اطلاعات۔ میڈیکل رپورٹس کے مطابق کسی بچے کو ذبح نہیں کیا گیا اور تمام اموات گولیوں کے لگنے سے ہوئی۔ پہلے سے ہی گھمبیر صورتحال کو مزید گھمبیر کرنے سے گریز کریں۔ اور حقائق پوری طرح سامنے آنے دیں۔
یہ کس کو دماغ ٹھنڈا رکھنے کا مشورہ دے رہے ہیں؟
 

نایاب

لائبریرین
اک افسوس ناک قابل مذمت سانحہ رونما ہو چکا ۔
اب بحث و ابحاث اپنی جگہ چلتی رہیں گی ۔ ہر کوئی معصوم بنتے دوسرے کو فسادی قرار دے گا ۔
لیکن یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ
شیعہ سنی وہابی اور دیگر مسالک سے تعلق رکھنے والے وہ تمام انسان بلا شک و شبہ لعنتی اور جہنمی ہیں ۔
جو کہ تحریر و تقریر سے شر و فساد پھیلاتے اور معصوم انسانوں کی ہلاکت کا سبب بنتے ہیں ۔
کوئی کسی بھی مسلک سے ہو یوم آخر اپنے قول و عمل و فعل کے بل پر ہی سزا و جزا پائے گا ۔
مجھے تو درج ذیل تحریر سے اس خبر کی آگہی ملی ۔
محترم خرم شہزاد خرم بھائی نے اپنے بلاگ پر یہ تحریر پیش کی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شام کے وقت جب میں گھر پہنچا تو امی جی اور ابو جی کو بہت پریشان دیکھا۔ ٹی وی پر چلنے والی خبر نے مجھے بھی پریشان کر دیا۔ خبر تھی راجا بازار میں ہنگامہ، پھتراو، فائرنگ اور مدینہ مارکیٹ کو آگ لگا دی گئی ہے۔ مدینہ مارکیٹ کی خبر نے تو جیسے سب کو ہی بہت پریشان کر دیا۔ پریشانی کی اہم وجہ ہمارا چھوٹا بھائی ثاقب تھا۔ جو پولیس میں ہے اور اس کی ڈیوٹی مدینہ مارکیٹ کی چھت پر لگی ہوئی تھی۔ وہاں مسجد بھی تھی۔ اور اسی مسجد میں ان کی ڈیوٹی لگی ہوئی تھی۔ پریشانی کی وجہ سے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کیا جائے۔ فیصلہ کیا گیا کہ میں خود جا کر وہاں کا جائزہ لوں اور ثاقب کو کسی طرح گھر لے کر آؤں۔ جب میں گھر سے نکلا تو میرے بعد میرا چھوٹا بھائی عمر بھی چلا گیا۔ میں نے جب وہاں جا کر دیکھا تو عوام کا ایک ہجوم تھا سب لوگ شعیوں کے خلاف نارے لگا رہے تھے۔گنج منڈی والے پل سے آگے کسی کو جانے نہیں دیا جا رہا تھا۔ میں نے ثاقب کی تلاش کرنی تھی اس لیے میں نے دوسرے راستے کی طرف رخ کر لیا۔ باقی تمام طرف کوئی ہنگامہ نہیں تھا بس مدینہ مارکیٹ کی طرف جانے والے راستے پر ہی ہنگامہ تھا باقی تمام طرف اہل تشع ماتم کر رہے تھے اور پولیس نے ان کو سکورٹی فرہام کی تھی لیکن راجا بازار اور مدینہ مارکیٹ کی طرف بہت ہنگامہ تھا وہاں اہل تشع دکانوں کو آگ لگا رہے تھے اور پتھراو کر رہے تھے اور اس طرف سے لوگوں کو پولیس اور آرمی آگے نہیں جانے دے رہی تھی۔ میں نے ہر طرف سے کوشش کی لیکن میرا رابطہ کسی بھی طرح ثاقب سے نا ہو سکا اور میں افسوردہ خالی ہاتھ لے کر گھر کی طرف آ گیا۔

گھر آ کر میں میں والد صاحب کو تسلی دیتا رہا کہ نہیں جی کوئی ہنگامہ نہیں ہے حالات ٹھیک ہیں بس کچھ لوگ ہی پتھراو کر رہے ہیں۔ لیکن حالات خود دیکھ کر آیا تھا بہت خراب تھے۔ کچھ ہی دیر میں ثاقب کا گھر کے نمبر پر فون آ گیا کہ وہ خیریت سے ہے اور آفس پہنچ گیا ہے اور عمر بھی اس کے آفس میں ہے۔ سب کو تسلی ہوئی اور 9 بجے ثاقب گھر پہنچ گیا۔ سب سے پہلی خبر تو اس نے یہ سنائی کہ اس کا موٹرسائکل جلا دیا گیا ہے۔ پھر میں نے اس سے تفصیل پوچھی کہ ہوا کیا تھا یہ سارا مسئلہ کہاں سے شروع ہوا تو اس نے کچھ یوں تفصیل سنائی۔

” مولوی صاحب جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے۔ اور اس مسجد کے مولوی صاحب دیوبند مسلک کے تھے جو شعیوں کے خلاف بہت جزباتی تقریر کر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں وہاں شیعوں کا جلوس آنا تھا اور مولوی صاحب انتہائی جوش سے شعیوں کے خلاف تقریر کر رہے تھے۔ جب جلوس وہاں پہنچا تو شعیوں نے پتھراو شروع کر دیا لیکن مولوی صاحب نے تقریر جاری رکھی جس کی وجہ سے شعیوں کو بھی غصہ آ گیا اور انہوں نے پتھروں کے ساتھ ساتھ مارکیٹ میں کھڑے موٹر سائکلز کو آگ لگانا شروع کر دی اور جب آگ مارکیٹ میں لگنا شروع ہوئی تو مولوی حضرات نے ہم سے اسلئہ چھیننے کی کوشش کی ۔ اسی دوران باہر شعوں نے بھی پولیس سے اسلئہ چھین لیا اور فائرنگ شروع کر دی۔ ادھر ہم صرف دو پولیس والے تھے اس لیے پھر ہم بڑی مشکل سے چھتوں سے چھلانگے لگا کر وہاں سے نکلے اور آفس پہنچے”

اس کے بعد کا جو ہنگامہ ہے وہ سب آپ کو سچی اور چھوٹی خبروں کے ساتھ سننے اور پڑھنے کو مل گیا ہے۔

میرے خیال میں ایک چھوٹی سی بات کی وجہ سے اتنا بڑا مسئلہ بنا ہے۔ اگر آج کے خطبہ میں مولوی صاحب اہل تشع کے خلاف تقریر نا کرتے جب کہ وہ جانتے تھے کہ آج ان کا جلوس بھی یہاں ہی آنا ہے اور یہاں آ کر جلوس نے ختم ہونا ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے تقریر کی اور خالص شعوں کے خلاف تقریر کی تو پھر ایسا مسئلہ تو ہونا تھا۔ اب ایک مولانا صاحب کی تقریر کی وجہ سے ایک مسجد شہید ہوگئی۔ سو سے زیادہ دکانوں کو آگ لگا دی گئی۔ کتنے ہی انسانوں کی جانے چلی گئی اور کتنے ہی زخمی حالت میں ہسپتالوں میں موجود ہیں۔ اور اس پر یہ چھوٹی خبروں نے اور نقصان پہنچایا ہے۔

یا اللہ پاکستان کی خیر فرما آمین
 
نذرِ آتش کی گئی مسجد

1458499_10201732496665718_1666482151_n.jpg
 
مدرسہ کو آگ لگانے کے بعد فائر بریگیڈ کی گاڑی پہ چڑھ کر نعرہ بازی کی جارہی جبکہ فائر بریگیڈ کو کام کرنے سے روکا گیا

1466177_10201732499825797_745437042_n.jpg
 

حسینی

محفلین
یہاں اردو محفل پہ شیعہ جنیو سائڈ اور شیعوں کی نسل کشی کی خبریں دینے والے بھی بہت خاموش ہیں۔
ٹوئیٹر پر ہر ذاتی رنجشوں کے واقعات کو بھی بنیاد بنا کر شعیہ جینو سائڈ کی ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹویٹس کی بھر مار کرنے والے بھی آج خاموش ہیں۔

بھائی جی ہم نہیں چاہتے تھے کہ یہ حساس مسئلہ محفل میں ڈسکس ہو۔۔۔ چونکہ معلوم تھا بحث انتہائی حساس ہے اور ہر دو طرف سے الزامات کی بارش ہو رہی ہے۔۔۔ اور ہر کوئی اپنے ُ آپ کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
جیسا کہ ذیشان بھائی نے بھی کہا۔۔۔ کہ میڈیا نے ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔۔۔ ورنہ اگر خبر فورا پھیل جاتی تو ہر دو طرف سے مزید لوگ جمع ہوجاتے۔۔۔ اور یہ چیز جلتی پر تیل کا کام کرتی۔
باقی عقل مند کے لیے یہ بات کافی ہے۔۔۔ کہ پورے پاکستان میں عاشور کے دن جلوس نکلتے ہیں۔۔۔ تمام روٹس پر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں وہابی دیوبندی مساجد ہیں۔۔۔ لیکن صرف اس مسجد کو کیوں نشانہ بنایا گیا؟؟؟ چونکہ صرف اسی مسجد سے منظم سازش کے تحت فتنہ شروع کیا گیا۔
شرارت مسجد سے شروع ہوئی تھی۔۔۔ کہ اس حساس موقعے پر کہ جب لوگوں کے دینی احساسات آسمان کو چھو رہے ہوتے ہیں۔۔۔ اس فتنہ پرور مولوی نے اتنے حساس موضوع پر اپنے خطبہ جمعہ میں سر عام بولنا شروع کیا ۔۔۔ اور یزید پلید کی حمایت اور مولا امام حسین علیہ السلام کی شان میں گستاخی شروع کی۔۔ اور لوگ اشتعال میں آگئے۔۔۔ اور انتظامیہ نے ذمہ داری کا ثبوت نہیں دیا۔۔۔ ورنہ اس مولوی کو روک کر اسی وقت حالات کو قابو میں کیا جا سکتا تھا۔
 

حسینی

محفلین
ضرورت اس امر کی ہے۔۔۔ کہ ہم ان فتنہ پروروں کے دھوکے میں نہ آئیں۔۔۔۔ اور عملی وحدت کا مظاہرہ کر کے اس سازش کو ناکام بنا دیں۔۔۔
یہ سازشی عناصر چاہتے یہی ہے کہ مسلمان مسلمان سے درگیر ہو۔۔۔ آپس میں دست وگریباں ہوں۔۔۔
لہذا پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔۔۔
 

حسینی

محفلین

آگ لگانے والے شناسا لوگ نہیں تھے - میں راولپنڈی کے شیعہ اور سنی دونوں کو جانتا ہوں.
یہ چہرے پہلے پنڈی میں نہیں دیکھے - بازاروں کو پیچھے سے آگ لگای گئی - گلے کاٹنے کی کوئی رپورٹ نہیں ملی. جمعہ اور عاشورہ کی وجہ سے مسجد باہر سے سیل تھی - باہر سے کسی کے اندر جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی پریس کونفرنس
 

حسینی

محفلین
راولپنڈی: رات گئے شرپسندوں نے قدیمی امام بارگاہ کو آگ لگادی تمام شبیہ اور علم پاک کو بھی آگ لگادی گئی ہے جبکہ امام بارگاہ کے متولی راجہ ظہور کے گھر کو جلایا گیا اور راجہ ظہور کے بیوی بچوں کو قریبی سنی بھائیوں نے اپنے گھروں میں پناہ دی اور جان بچائی
رات ساڑھے بارہ بجے کے قریب ڈیڑھ سو دہشتگردوں نے امام بارگاہ پر حملہ کردیا پولیس تماشائی بنی رہی امام بارگاہ پر اس وقت صرف چار پولیس اہلکار موجود تھے جو غائب ہوئے۔
۔


Uploaded with ImageShack.us

a9tjjl.jpg
[/IMG]
 

محب اردو

محفلین
میرے خیال سے زیادہ غلطی شیعہ حضرات کی ہے انہیں چاہیے تھا اگر واقعتا وہ فساد کرنا نہیں چاہتے تھے تو انہیں جلوس اس طرف سے نہیں لانا چاہیے تھا جہاں ان کے مخالف مکتب فکر کا ایک بڑا مرکز تھا ۔
بلکہ اس سے بھی پہلے یہ کہ انہیں اس طرح کے کام کسی ایسی جگہ پر جاکر کرنے چاہییں جہاں ان کی اکثریت ہواور فتنے کا خدشہ نہ ہو۔ کیونکہ ظاہر ہے اعداء صحابہ کی وجہ سے محبان صحابہ پر پابندیاں نہیں لگائی جاسکتیں ۔
اہل جلوس کے خلاف تقریر کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ مولوی صاحب ان لوگوں کا دفاع کر رہے تھے جن کو یہ حضرات جہنمی سمجھتے ہیں یعنی دفاع صحابہ پر تقریر ہورہی ہوگی ۔ اس بات پر شیعہ کو غصے میں نہیں آنا چاہیے تھا ۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ اگر ان کی مسلمہ شخصیات یعنی اہل بیت کے خلاف کوئی تبرا بازی کررہا ہوتو ان کا یہ معقول عذر ہے لیکن ایسا کام کوئی مسلمان نہیں کرسکتا ۔
جلوس کا عین خطبہ جمعہ کے وقت لے کر آنا اور پھر لڑائی میں پہل کرنا یہ اس طرح کی باتیں ہیں جن سے کافی شک ہوتا ہے کہ یہ سب کام جان بوجھ کرکیا گیا ہے ۔
 

گرائیں

محفلین
السلام علیکم،

کل تقریباََ 8 سے 10 لوگ راولپنڈی میں بربریت کا شکار ہوئے اور بے رحمی سے ہلاک کر دیے گئے۔
آج 1 بجے سے 2 بجے تک میں تمام چینل دیکھتا رہا باری باری بدل بدل کر لیکن ان کے خون آلود کپڑے اٹھا اٹھا کر نہیں دکھائے جا رہے تھے۔
ان پر حملہ آور لوگوں کو نہیں دکھایا جا رہا تھا، ان کو ذبح کرتے نہیں دکھایا گیا۔ کوئی خبر نہیں کوئی ذکر نہیں۔
جیو نیوز اور جیو تیز پر الطاف کی طرف سے بلائی گئی پارٹی میٹنگ اور نیٹو کنٹینر پر فائرنگ ہی ٹکرز کا موضوع تھے۔
دنیا نیوز پر شہید اور حرام موت پر بحث ہو رہی تھی
ڈان نیوز پر محرم کی حرمت پہ بات چل رہی تھی، جس میں ایک خاتون اپنی حالیہ مصروفیت کی وجہ سے خراب گلے کے باوجود پورا زور لگا کر محرم کی روح بیان کر رہی تھیں۔

اور کم و بیش یہی حال تمام چینلز کا تھا۔

یہاں اردو محفل پہ شیعہ جنیو سائڈ اور شیعوں کی نسل کشی کی خبریں دینے والے بھی بہت خاموش ہیں۔

ٹوئیٹر پر ہر ذاتی رنجشوں کے واقعات کو بھی بنیاد بنا کر شعیہ جینو سائڈ کی ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹویٹس کی بھر مار کرنے والے بھی آج خاموش ہیں۔

انسانیت کا بول بالا کرنے والے مسنگ پرسنز اور بلا بلا پر چیخنے والوں کو بھی کل مرنے والے انسان نظر نہیں آئے۔

ترازو کے دو پلڑے اور ان دونوں میں موجود اجزاء اب کھل کر سامنے ہیں۔ کہ کون کس پلڑے میں ہے اور کون کس پلڑے میں۔

تف ہے ایسی انسانیت پر ، لعنت ہے ایسے میڈیا پر، انسان دوستی پر اور انسانیت کا پرچار کرنے والوں پر۔

ارے امجد صاحب، آپ تو ایسے ہی جذباتی ہو ریلے۔ انسان مرتے تو انسان دوست میڈیا سب کچھ چھوڑ کر وہاں پہنچ جاتا۔ انسان مرتے تو ان کی موت کی مذمت کے لئے سڑکوں پر ان کے جنازوں کو رکھ کر دھرنا دیا جاتا۔ انسان مرتے تو ہڑتالیں کی جاتیں۔ انسان مرتے تو عاصمہ جہانگیر، انصار برنی اور اسی قبیل کے سارے بھونپو اپنے اپنے بلوں سے نکل آتے اور ہم سب کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگاتے کہ کیا ظلم ہوچکا ہے۔

کل انسان تو نہیں مارے گئے۔ کچھ کیڑے مکوڑے تھے جو انسانوں کے قدموں تلے آ کر پس گئے۔ اہم کام تو عزا داری تھی۔ اس کو ہر حال میں مکمل کرنا تھا۔ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مظلومیت پر تقاریر کرنی تھیں۔ ان کے جانے کا سوگ منانا تھا۔ وہ زیادہ ضروری کام تھا۔ اآپ بھی نا بس!!
 

سید ذیشان

محفلین
جو حضرات جلوسوں پر پابندیاں لگانے کی باتیں کر رہے ہیں تو ان سے یہ سوال کروں گا کہ کیا جلوس صرف پاکستان میں ہی نکلتے ہیں؟ دنیا کے کئی ممالک میں جلوس نکلتے ہیں۔ ان لوگوں کو تو ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے (جبکہ اکثر ممالک غیر مسلم بھی ہیں)۔ دوسری بات یہ کہ بجائے اس کے کہ مذہبی رواداری کی بات کی جائے مذہبی اظہار پر پابندیاں لگانے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ مذہبی آزادی، اجتماع کی آزادی (right to assembly) اور احتجاج کرنے کی آزادی ہر مہذب جمہوری معاشرے میں موجود ہے۔
آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مراسم عزاداری (جلوس، تعزیہ۔ علم وغیرہ) کافی صدیوں سے موجود ہیں۔ اور ان سے اہل تشیع کا جذباتی اور مذہبی لگاؤ ہے۔ اور یہ جلوس انہی راستوں پر رواداری سے نکلتے رہے ہیں۔ اب ایسا کیا ہو گیا ہے کہ جلوسوں کو بند کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں؟ کیا آپ اپنے لئے پسند کریں گے کہ کسی ایسی چیز پر پابندی لگ جائے جس کے لئے آپ مذہبی جذبات رکھتے ہوں؟
اصل مسئلہ مذہبی رواداری کے فقدان کا ہے نہ کہ مخصوص طریقہ اظہار کا ہے۔
 
بھائی جی ہم نہیں چاہتے تھے کہ یہ حساس مسئلہ محفل میں ڈسکس ہو۔۔۔ چونکہ معلوم تھا بحث انتہائی حساس ہے اور ہر دو طرف سے الزامات کی بارش ہو رہی ہے۔۔۔ اور ہر کوئی اپنے ُ آپ کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
جیسا کہ ذیشان بھائی نے بھی کہا۔۔۔ کہ میڈیا نے ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔۔۔ ورنہ اگر خبر فورا پھیل جاتی تو ہر دو طرف سے مزید لوگ جمع ہوجاتے۔۔۔ اور یہ چیز جلتی پر تیل کا کام کرتی۔
باقی عقل مند کے لیے یہ بات کافی ہے۔۔۔ کہ پورے پاکستان میں عاشور کے دن جلوس نکلتے ہیں۔۔۔ تمام روٹس پر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں وہابی دیوبندی مساجد ہیں۔۔۔ لیکن صرف اس مسجد کو کیوں نشانہ بنایا گیا؟؟؟ چونکہ صرف اسی مسجد سے منظم سازش کے تحت فتنہ شروع کیا گیا۔
شرارت مسجد سے شروع ہوئی تھی۔۔۔ کہ اس حساس موقعے پر کہ جب لوگوں کے دینی احساسات آسمان کو چھو رہے ہوتے ہیں۔۔۔ اس فتنہ پرور مولوی نے اتنے حساس موضوع پر اپنے خطبہ جمعہ میں سر عام بولنا شروع کیا ۔۔۔ اور یزید پلید کی حمایت اور مولا امام حسین علیہ السلام کی شان میں گستاخی شروع کی۔۔ اور لوگ اشتعال میں آگئے۔۔۔ اور انتظامیہ نے ذمہ داری کا ثبوت نہیں دیا۔۔۔ ورنہ اس مولوی کو روک کر اسی وقت حالات کو قابو میں کیا جا سکتا تھا۔
پہلی بات تو بہت اچھی ہے کہ آپ نے اور میڈیا نے بہت عقلمندی کا ثبوت دیا اور اس سانحے سے متعلق کوئی تبصرہ، خبر اور بات نشر نہیں کی۔
لیکن ایسا صرف اہلِ تشیع کی طرف سے سنیوں کو قتل کیے جانے کے بعد سنیوں کے جذبات نہ اٹھنے کے لیے ہی کیوں؟؟؟
یہ بھائی چارہ آپ لوگوں کو اور آپ کے پروردہ میڈیا کو اس وقت کیوں یاد نہیں آتا جب غیر قانونی طور پر گھسنے والے روسی پاکستانی سیکیورٹی پر معمور لوگوں کے ہاتھوں ہلاک ہوتے ہیں۔
ایس جذبے کا پرچار آپ اس وقت کیوں نہیں کرتے جب ملک بھر میں جاری دہشت گردی کی کارروائیوں جیسا ایک واقعہ کوئٹہ میں بھی ہوتا ہے اور ہزارہ کمیونیٹی سے لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔
ان خیر سگالی کے جذبات کا اس وقت تو کہیں دور دور تک نشان نظر نہیں آتا جب نعوذ باللہ کسی کے منہ یا کسی تحریر سے کسی ایرانی لیڈر پر کوئی تنقید سامنے آ جائے۔

باقی یہ بات آپ کی انتہائی غیر معقول اور احمقانہ ہے کہ حضرت حسن یا حضرت حسین کی شان کے بارے میں کوئی سنی چاہے کتنا ہی سخت گیر کیوں نا ہو، کوئی سنی دہشت گرد ہی کیوں نہ ہو، کتنا ہی شیعہ مخالف کیوں نہ ہو ہرزہ سرائی کر سکتا ہے۔

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/11/131116_ashoora_muharam_violence_pakistan_tk.shtml
 
اک افسوس ناک قابل مذمت سانحہ رونما ہو چکا ۔
اب بحث و ابحاث اپنی جگہ چلتی رہیں گی ۔ ہر کوئی معصوم بنتے دوسرے کو فسادی قرار دے گا ۔
لیکن یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ
شیعہ سنی وہابی اور دیگر مسالک سے تعلق رکھنے والے وہ تمام انسان بلا شک و شبہ لعنتی اور جہنمی ہیں ۔
جو کہ تحریر و تقریر سے شر و فساد پھیلاتے اور معصوم انسانوں کی ہلاکت کا سبب بنتے ہیں ۔
کوئی کسی بھی مسلک سے ہو یوم آخر اپنے قول و عمل و فعل کے بل پر ہی سزا و جزا پائے گا ۔
مجھے تو درج ذیل تحریر سے اس خبر کی آگہی ملی ۔
محترم خرم شہزاد خرم بھائی نے اپنے بلاگ پر یہ تحریر پیش کی ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

شام کے وقت جب میں گھر پہنچا تو امی جی اور ابو جی کو بہت پریشان دیکھا۔ ٹی وی پر چلنے والی خبر نے مجھے بھی پریشان کر دیا۔ خبر تھی راجا بازار میں ہنگامہ، پھتراو، فائرنگ اور مدینہ مارکیٹ کو آگ لگا دی گئی ہے۔ مدینہ مارکیٹ کی خبر نے تو جیسے سب کو ہی بہت پریشان کر دیا۔ پریشانی کی اہم وجہ ہمارا چھوٹا بھائی ثاقب تھا۔ جو پولیس میں ہے اور اس کی ڈیوٹی مدینہ مارکیٹ کی چھت پر لگی ہوئی تھی۔ وہاں مسجد بھی تھی۔ اور اسی مسجد میں ان کی ڈیوٹی لگی ہوئی تھی۔ پریشانی کی وجہ سے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کیا جائے۔ فیصلہ کیا گیا کہ میں خود جا کر وہاں کا جائزہ لوں اور ثاقب کو کسی طرح گھر لے کر آؤں۔ جب میں گھر سے نکلا تو میرے بعد میرا چھوٹا بھائی عمر بھی چلا گیا۔ میں نے جب وہاں جا کر دیکھا تو عوام کا ایک ہجوم تھا سب لوگ شعیوں کے خلاف نارے لگا رہے تھے۔گنج منڈی والے پل سے آگے کسی کو جانے نہیں دیا جا رہا تھا۔ میں نے ثاقب کی تلاش کرنی تھی اس لیے میں نے دوسرے راستے کی طرف رخ کر لیا۔ باقی تمام طرف کوئی ہنگامہ نہیں تھا بس مدینہ مارکیٹ کی طرف جانے والے راستے پر ہی ہنگامہ تھا باقی تمام طرف اہل تشع ماتم کر رہے تھے اور پولیس نے ان کو سکورٹی فرہام کی تھی لیکن راجا بازار اور مدینہ مارکیٹ کی طرف بہت ہنگامہ تھا وہاں اہل تشع دکانوں کو آگ لگا رہے تھے اور پتھراو کر رہے تھے اور اس طرف سے لوگوں کو پولیس اور آرمی آگے نہیں جانے دے رہی تھی۔ میں نے ہر طرف سے کوشش کی لیکن میرا رابطہ کسی بھی طرح ثاقب سے نا ہو سکا اور میں افسوردہ خالی ہاتھ لے کر گھر کی طرف آ گیا۔

گھر آ کر میں میں والد صاحب کو تسلی دیتا رہا کہ نہیں جی کوئی ہنگامہ نہیں ہے حالات ٹھیک ہیں بس کچھ لوگ ہی پتھراو کر رہے ہیں۔ لیکن حالات خود دیکھ کر آیا تھا بہت خراب تھے۔ کچھ ہی دیر میں ثاقب کا گھر کے نمبر پر فون آ گیا کہ وہ خیریت سے ہے اور آفس پہنچ گیا ہے اور عمر بھی اس کے آفس میں ہے۔ سب کو تسلی ہوئی اور 9 بجے ثاقب گھر پہنچ گیا۔ سب سے پہلی خبر تو اس نے یہ سنائی کہ اس کا موٹرسائکل جلا دیا گیا ہے۔ پھر میں نے اس سے تفصیل پوچھی کہ ہوا کیا تھا یہ سارا مسئلہ کہاں سے شروع ہوا تو اس نے کچھ یوں تفصیل سنائی۔

” مولوی صاحب جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے۔ اور اس مسجد کے مولوی صاحب دیوبند مسلک کے تھے جو شعیوں کے خلاف بہت جزباتی تقریر کر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں وہاں شیعوں کا جلوس آنا تھا اور مولوی صاحب انتہائی جوش سے شعیوں کے خلاف تقریر کر رہے تھے۔ جب جلوس وہاں پہنچا تو شعیوں نے پتھراو شروع کر دیا لیکن مولوی صاحب نے تقریر جاری رکھی جس کی وجہ سے شعیوں کو بھی غصہ آ گیا اور انہوں نے پتھروں کے ساتھ ساتھ مارکیٹ میں کھڑے موٹر سائکلز کو آگ لگانا شروع کر دی اور جب آگ مارکیٹ میں لگنا شروع ہوئی تو مولوی حضرات نے ہم سے اسلئہ چھیننے کی کوشش کی ۔ اسی دوران باہر شعوں نے بھی پولیس سے اسلئہ چھین لیا اور فائرنگ شروع کر دی۔ ادھر ہم صرف دو پولیس والے تھے اس لیے پھر ہم بڑی مشکل سے چھتوں سے چھلانگے لگا کر وہاں سے نکلے اور آفس پہنچے”

اس کے بعد کا جو ہنگامہ ہے وہ سب آپ کو سچی اور چھوٹی خبروں کے ساتھ سننے اور پڑھنے کو مل گیا ہے۔

میرے خیال میں ایک چھوٹی سی بات کی وجہ سے اتنا بڑا مسئلہ بنا ہے۔ اگر آج کے خطبہ میں مولوی صاحب اہل تشع کے خلاف تقریر نا کرتے جب کہ وہ جانتے تھے کہ آج ان کا جلوس بھی یہاں ہی آنا ہے اور یہاں آ کر جلوس نے ختم ہونا ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے تقریر کی اور خالص شعوں کے خلاف تقریر کی تو پھر ایسا مسئلہ تو ہونا تھا۔ اب ایک مولانا صاحب کی تقریر کی وجہ سے ایک مسجد شہید ہوگئی۔ سو سے زیادہ دکانوں کو آگ لگا دی گئی۔ کتنے ہی انسانوں کی جانے چلی گئی اور کتنے ہی زخمی حالت میں ہسپتالوں میں موجود ہیں۔ اور اس پر یہ چھوٹی خبروں نے اور نقصان پہنچایا ہے۔

یا اللہ پاکستان کی خیر فرما آمین


یہ لیں اس تحریر کا ایک اور ورژن

اگر خرم اہلِ تشیع ہوتے تو یہ تحریر یوں ہی ہوتی شاید :)

https://www.facebook.com/photo.php?...71283.339260312789483&type=1&relevant_count=1

شام کے وقت جب میں گھر پہنچا تو امی جی اور ابو جی کو بہت پریشان دیکھا۔ ٹی وی پر چلنے والی خبر نے مجھے بھی پریشان کر دیا۔ خبر تھی راجا بازار میں ہنگامہ، پتھراؤ ، فائرنگ اور مدینہ مارکیٹ کو آگ لگا دی گئی ہے۔ مدینہ مارکیٹ کی خبر نے تو جیسے سب کو ہی بہت پریشان کر دیا۔ پریشانی کی اہم وجہ ہمارا چھوٹا بھائی ثاقب تھا۔ جو پولیس میں ہے اور اس کی ڈیوٹی مدینہ مارکیٹ کی چھت پر لگی ہوئی تھی۔ وہاں دیوبندی مسجد بھی تھی۔ اور اسی مسجد میں ان کی ڈیوٹی لگی ہوئی تھی۔ پریشانی کی وجہ سے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کیا جائے۔ فیصلہ کیا گیا کہ میں خود جا کر وہاں کا جائزہ لوں اور ثاقب کو کسی طرح گھر لے کر آؤں۔ جب میں گھر سے نکلا تو میرے بعد میرا چھوٹا بھائی عمر بھی چلا گیا۔ میں نے جب وہاں جا کر دیکھا تو سپاہ صحابہ کے دیوبندیوں کا ایک ہجوم تھا کا سب لوگ شیعوں کے خلاف نارے لگا رہے تھے۔گنج منڈی والے پل سے آگے کسی کو جانے نہیں دیا جا رہا تھا۔ میں نے ثاقب کی تلاش کرنی تھی اس لیے میں نے دوسرے راستے کی طرف رخ کر لیا۔ باقی تمام طرف کوئی ہنگامہ نہیں تھا بس مدینہ مارکیٹ کی طرف جانے والے راستے پر ہی ہنگامہ تھا باقی تمام طرف اہل تشع ماتم کر رہے تھے اور پولیس نے ان کو سکیورٹی فرہام کی تھی لیکن راجا بازار اور مدینہ مارکیٹ کی طرف بہت ہنگامہ تھا وہاں لوگ دکانوں کو آگ لگا رہے تھے اور پتھراو کر رہے تھے اور اس طرف سے لوگوں کو پولیس اور آرمی آگے نہیں جانے دے رہی تھی۔ میں نے ہر طرف سے کوشش کی لیکن میرا رابطہ کسی بھی طرح ثاقب سے نا ہو سکا اور میں افسردہ خالی ہاتھ لے کر گھر کی طرف آ گیا۔
گھر آ کر میں میں والد صاحب کو تسلی دیتا رہا کہ نہیں جی کوئی ہنگامہ نہیں ہے حالات ٹھیک ہیں بس کچھ لوگ ہی پتھراو کر رہے ہیں۔ لیکن حالات خود دیکھ کر آیا تھا بہت خراب تھے۔ کچھ ہی دیر میں ثاقب کا گھر کے نمبر پر فون آ گیا کہ وہ خیریت سے ہے اور آفس پہنچ گیا ہے اور عمر بھی اس کے آفس میں ہے۔ سب کو تسلی ہوئی اور 9 بجے ثاقب گھر پہنچ گیا۔ سب سے پہلی خبر تو اس نے یہ سنائی کہ اس کا موٹرسائکل جلا دیا گیا ہے۔ پھر میں نے اس سے تفصیل پوچھی کہ ہوا کیا تھا یہ سارا مسئلہ کہاں سے شروع ہوا تو اس نے کچھ یوں تفصیل سنائی۔
مولوی صاحب جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے۔ اور اس مسجد کے مولوی صاحب دیوبند مسلک کے تھے جو شیعوں کے خلاف بہت نفرت انگیز تقریر کر رہے تھے مسجد میں سپاہ صحابہ کے لوگ اسلحے سمیت موجود تھے اور لاؤڈ سپیکر پر کافر کافر شیعہ کافر، یزیدیت زندہ باد کے نعرے لگوا رہے تھے کچھ ہی دیر میں وہاں شیعوں کا جلوس آنا تھا اور مولوی صاحب انتہائی جوش سے شعیوں کے خلاف تقریر کر رہے تھے۔ جب جلوس وہاں پہنچا تو نفرت انگیز نعرے سن کر شیعوں نے پتھراو شروع کر دیا لیکن مولوی صاحب نے تقریر جاری رکھی تقریر میں انہوں نے میلاد اور عاشورہ کے جلوسوں میں شرکت کرنے والے سنی اور شیعہ مسلمانوں کو کافر اور مشرک قرار دے دیا جس کی وجہ سے جلوس میں شامل سنی اور شیعہ کو بھی غصہ آ گیا احتجاج کیا اس پر دیوبندی مسجد سے پتھراو شروع ہو گیا اور سپاہ صحابہ کے راجہ بازار کے صدر اور اس کے رشتہ داروں نے جلوس پر فائرنگ شروع کردی اور انہوں نے پتھروں کے ساتھ ساتھ مارکیٹ میں کھڑے موٹر سائکلز کو آگ لگانا شروع کر دی اور جب آگ مارکیٹ میں لگنا شروع ہوئی تو سپاہ صحابہ کے مولوی حضرات نے پولیس سے اسلحہ چھیننے کی کوشش کی ۔ اسی دوران باہر شیعوں اور بریلویوں نے بھی پولیس سے اسلحہ چھین لیا اور اپنے دفاع میں فائرنگ شروع کر دی۔ ادھر ہم صرف دو پولیس والے تھے اس لیے پھر ہم بڑی مشکل سے چھتوں سے چھلانگے لگا کر وہاں سے نکلے اور آفس پہنچے”
اس کے بعد کا جو ہنگامہ ہے وہ سب آپ کو سچی اور چھوٹی خبروں کے ساتھ سننے اور پڑھنے کو مل گیا ہے۔
میرے خیال میں ایک چھوٹی سی بات کی وجہ سے اتنا بڑا مسئلہ بنا ہے۔ اگر آج کے خطبہ میں دیوبند مولوی صاحب اہل تشیع اور سنی بریلویوں کے خلاف تقریر نا کرتے جب کہ وہ جانتے تھے کہ آج ان کا جلوس بھی یہاں ہی آنا ہے اور یہاں آ کر جلوس نے ختم ہونا ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے تقریر کی اور خالص شعوں کے خلاف تقریر کی تو پھر ایسا مسئلہ تو ہونا تھا۔ پھر اس کے بعد سپاہ صحابہ کے مسلح لوگوں نے جلوس پر پتھراو اور فائرنگ شروع کر دی اور سنی بریلوی اور شیعہ کو اغوا کر کے دوبندی مسجد میں لے آئے کچھ بے گناہ شیعہ اور سنی زندہ جلا دیا گئے اور سپاہ صحابہ والے دیوبندی بھا گ گئے ایک مسجد شہید ہوگئی۔ سو سے زیادہ دکانوں کو آگ لگا دی گئی۔ کتنے ہی انسانوں کی جانے چلی گئی اور کتنے ہی زخمی حالت میں ہسپتالوں میں موجود ہیں۔ اور اس پر یہ چھوٹی خبروں نے اور نقصان پہنچایا ہے۔
اس واقعے کی کوریج پرمامور اسلام آباد میں ایک ٹی وی کے رپورٹر نے بی بی سی کے نامہ نگار محمود جان بابر کو بتایا کہ وہ فوارہ چوک میں ڈیوٹی پرموجود ہیں اور ابھی کچھ دیر پہلے علاقے سے قریباً دیوبندی لوگوں نے ان کی گاڑیوں اورکیمروں پر ہلہ بول دیا اور انہیں زبردستی یہ کہتے ہوئے رہائشی علاقے کے اندر لے گئے کہ لاشیں اندر پڑی ہیں تباہی اندر ہوئی ہے اور میڈیا باہر سے کس چیز کی کوریج کررہا ہے۔.


حد ہے یار۔
 

گرائیں

محفلین
بھائی جی ہم نہیں چاہتے تھے کہ یہ حساس مسئلہ محفل میں ڈسکس ہو۔۔۔ چونکہ معلوم تھا بحث انتہائی حساس ہے اور ہر دو طرف سے الزامات کی بارش ہو رہی ہے۔۔۔ اور ہر کوئی اپنے ُ آپ کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
جیسا کہ ذیشان بھائی نے بھی کہا۔۔۔ کہ میڈیا نے ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔۔۔ ورنہ اگر خبر فورا پھیل جاتی تو ہر دو طرف سے مزید لوگ جمع ہوجاتے۔۔۔ اور یہ چیز جلتی پر تیل کا کام کرتی۔
باقی عقل مند کے لیے یہ بات کافی ہے۔۔۔ کہ پورے پاکستان میں عاشور کے دن جلوس نکلتے ہیں۔۔۔ تمام روٹس پر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں وہابی دیوبندی مساجد ہیں۔۔۔ لیکن صرف اس مسجد کو کیوں نشانہ بنایا گیا؟؟؟ چونکہ صرف اسی مسجد سے منظم سازش کے تحت فتنہ شروع کیا گیا۔
شرارت مسجد سے شروع ہوئی تھی۔۔۔ کہ اس حساس موقعے پر کہ جب لوگوں کے دینی احساسات آسمان کو چھو رہے ہوتے ہیں۔۔۔ اس فتنہ پرور مولوی نے اتنے حساس موضوع پر اپنے خطبہ جمعہ میں سر عام بولنا شروع کیا ۔۔۔ اور یزید پلید کی حمایت اور مولا امام حسین علیہ السلام کی شان میں گستاخی شروع کی۔۔ اور لوگ اشتعال میں آگئے۔۔۔ اور انتظامیہ نے ذمہ داری کا ثبوت نہیں دیا۔۔۔ ورنہ اس مولوی کو روک کر اسی وقت حالات کو قابو میں کیا جا سکتا تھا۔

ایک ربط پیش کر رہا ہوں۔ اگر کھلی آنکھوں اور کھلے ذہن کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔
http://abdullahadam.blogspot.com/2013/11/blog-post.html
میڈیا پر موجود غیر اعلانیہ سنسر شپ کے باعث علم نہیں ہو پارہا کہ کتنے افراد عزاداران کی بربریت کا نشانہ بنے۔ مگر بلاگز پر موجود آرا کے مطابق کم از کم ستر افراد مارے گئے۔ اورعینی شاہدین تو یہ کہہ رہے ہیں کہ شرارت مسجد سے شروع نہیں ہوئی تھی۔ کیا اپ عینی شاہد تھے؟ جو آپ اتنے دعویٰ سے کہہ رہے ہیں کہ شرارت کا آغاز مسجد سے ہوا تھا؟

کب تک یہ جھوٹ، مظلومیت کا لبادہ استعمال کیا جاتا رہے گا؟ کب تک؟ آسمان گر کیوں نہیں جاتا، زمین بھٹ کیوں نہیں جاتی اے اللہ؟ اے اللہ؟ اے اللہ؟
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top