بہتر ہے کہ یہاں روئیتِ ہلال کے حوالے سے چند بنیادی باتوں کا ذکر ہوجائے۔۔۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اکثر یہ اصطلاح استعمال کی جاتی ہے کہ "نئے چاند کی پیدائش"۔ اس اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ اگر زمین کے مرکز سے سورج تک ایک خطِ مستقیم یعنی سیدھی لائن کھینچی جائے اور چاند اس لائن کے اوپر آجائے تو اسے چاند اور سورج کا قران یعنی Conjunction کہتے ہیں اور نئے چاند کی پیدائش کا یہی وقت قرار دیا جاتا ہے (یہاں روئیت ہلال کی بات نہیں ہورہی)۔لیکن اس وقت ہم چاند کو دیکھ نہیں سکتے الّا یہ کہ سورج کو گرہن لگا ہو، لیکن چونکہ زمین کا سورج کے گرد مدار orbit اور چاند کا زمین کے گرد مدار ایک ہی مستویPlane میں نہیں ہے بلکہ چاند کا مدار زمین کے مدار سے 5 ڈگری کے زاویے پر ہے، چنانچہ ضروری نہیں کہ جب بھی سورج اور چاند کے درمیان صفر درجے کا فاصلہ(longitudinal) ہو تو سورج گرہن لگے گا، سورج گرہن اس مقام پر لگتا ہے جہاں دو شرائط پائی جائیں:
1- چاند کا مدار اور زمین کا مدار ایک دوسرے کو کراس کر رہے ہوں۔
2- اور اس وقت سورج اور چاند زمین کے ریفرنس سے درمیانی زاویہlongitude صفر ہو۔
چنانچہ جب بھی گرہن لگے گا ، نئے چاند کی پیدائش کے وقت ہی لگے گا لیکن ضروری نہیں کہ نیا چاند گرہن کے وقت پیدا ہو۔ کیونکہ اسکے لئے پہلی شرط کا ہونا بھی ضروری ہے کہ اس وقت زمین اور چاند کا مدار ایک دوسرے کو کراس کر رہے ہوں۔ اگر زمین اور چاند کا مدار ایک ہی مستوی planeمیں ہوتا تو ہر نئے چاند کے وقت سورج گرہن بھی لگتا، لیکن یہ ایک دوسرے سے 5 ڈگری کا زاویہ بناتے ہین اسلئے اسی وقت گرہن لگتا ہے جب دونوں کے مدار کے کراسنگ پوائنٹ پر چاند سورج اور زمین ایک لائن میں ہوں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر سورج گرہن نہ ہو تو نئے چاند کو دیکھنا ناممکن ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ چاند کی پیدائش ہوچکنے کے بعد، اسکو دیکھنے کیلئے ضروری ہے کہ ہلال (جو سورج کی روشنی کا ایک عکس ہے) کے بیک گراؤنڈ میں ہلال کی چمک سے زیادہ روشنی نہ ہو ورنہ ہلال نظر نہیں آئے گا۔ اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب یہ تین شرائط پائی جاتی ہوں:
1- سورج اور چاند کے درمیان کم از کم دس ڈگری کا فاصلہ پیدا ہوچکا ہو، ورنہ سورج کی روشنی میں ہلال کا نظر آنا ناممکن ہوگا۔
2- سورج غروب ہوئے کم ازکم پندرہ منٹ ہوچکے ہوں ورنہ افق پر پھیلی روشنی میں ہلال کی چمک کسی کو نظر نہیں آئے گی۔
3- چاند افق پر کم از کم دس ڈگری اوپر ہو، کیونکہ اگر مغربی افق پر یہ دس ڈگری سے نیچے ہوگا تو فضا میں گیسوں کی موجودگی، آلودگی اور زمین پر موجود سطح مرتفع، پہاڑوں کی وجہ سے نظر نہیں آئے گا۔
چنانچہ ان مذکورہ بالا دو شقوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم ناسا کا ریکارڈ دیکھتے ہیں جسکے مطابق پشاور شہر کے آسمان پر نئے چاند کی پیدائش اس وقت ہوئی جب دوپہر کے بارہ بج کر پندرہ منٹ ہوئے تھے۔ اس وقت سورج اور چاند کی longitudinal degree ایک ہی تھی یعنی جو زاویہ سورج زمین سے بنا رہا تھا وہی زاویہ چاند بھی بنا رہا تھا۔ لیکن جب 8 جولائی کا سورج پشاور میں غروب ہوا تو اس وقت تک سورج اور چاند کے درمیان تین اعشاریہ تینتیس ڈگری کا فاصلہ پیدا ہوچکا تھا۔ یہاں چونکہ پہلی شرط پوری نہیں ہوئی چنانچہ چاند کا اس دن نظر انا ناممکن تھا۔
اب اگلے دن یعنی نو جولائی، غروبِ آفتاب کے وقت تک سورج اور چاند کا درمیانی فاصلہ تیرہ اعشاریہ پچیس ڈگری ہوچکا تھا، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ روئیت ہلال کی پہلی شرط پوری ہورہی ہے، لیکنجب دوسری شرط پوری ہوئی یعنی سورج غروپ ہوئے پندرہ منٹ سے زیادہ کا وقت ہوگیا تو اس دوران چاند جو غروبِ آفتاب کے وقت اس سے تیرہ اعشاریہ پچیس ڈگری بلند تھا، ان پندرہ منٹوں میں ساڑھے سات ڈگری نیچے چلا گیا۔ اور چونکہ تیسری شرط کی رو سے اسے افق سے کم از کم دس ڈگری بلند ہونا چاہئیے، ہم دیکھتے ہیں کہ پہلی دو شرائط پوری ہونے کے باوجود، تیسری چرط پوری نہیں ہورہی کیونکہ اس وقت چاند تقریباّ 6 ڈگری افق سے بلند تھا جسکی وجہ سے اسے دیکھنا ممکن نہیں رہا۔۔۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ پورے پاکستان میں نو جولائی کو بھی چاند نظر نہیں آیا۔
چنانچہ روئیت ہلال کمیٹی کا اعلان بالکل درست ہے۔