یاز
محفلین
ربط
سنگاکارا نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں اپنے ہم وطنوں سے کہا ہے کہ ہم اپنی آنکھوں پر نفرت اور خوف کے پردے پڑنے نہیں دے سکتے۔
یہ پیغام انھوں نے اپنے انسٹا گرام پیج پر جاری کیا ہے۔
کمارا سنگاکار خود آج کل متحدہ عرب امارات میں ہیں جہاں وہ پاکستان پریمیئر لیگ کی ٹیم ملتان سلطانز کی جانب سے کھیل رہے ہیں۔
کمارا سنگاکارا کا پیغام:
’میرے سری لنکن ہم وطنو کے نام! کیا ہم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا ہے۔ کیا ہم بہت ہی بنیادی انسانی شرافت اور پیار کو بھلا چکے ہیں؟
کیا ہم اخلاقی طور پر اتنے کرپٹ ہو چکے ہیں کہ ہم یہ دیکھ نہیں پا رہے کہ ہمارے بغیر سوچے سمجھے کیے گئے اقدامات کس طرح ہم سب کے مستقبل کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
ہم اپنے ہمسائیوں کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں، ہم اپنی بہنوں اور بھائیوں کے رکھوالے ہیں۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ سری لنکا میں نسل اور مذہب سے قطع نذر ہر کوئی محفوظ محسوس کرے، اسے محبت ملے اور وہ خود کو معاشرے کا حصہ سمجھے۔
جب ہم اپنے ہم وطن بہنوں اور بھائیوں کی آنکھوں میں دیکھیں تو ہم یہ نہ دیکھ رہے ہوں کہ وہ سنہالیز، مسلمان یا تامل ہے، بلکہ ہم ان میں خود کی ذات کو دیکھیں، ہم ان کی آنکھوں میں وہی امیدیں اور خواب دیکھیں، اپنے وطن اور ایک دوسرے کے لیے بھرپور محبت کو دیکھیں۔
ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہیے کہ ہماری اور ان کی آنکھوں پر نفرت اور خوف کے پردے پڑ جائیں۔
آئیں ہم مل کر نسل پرستی کو نہ بولیں۔‘
سنگاکارا نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں اپنے ہم وطنوں سے کہا ہے کہ ہم اپنی آنکھوں پر نفرت اور خوف کے پردے پڑنے نہیں دے سکتے۔
یہ پیغام انھوں نے اپنے انسٹا گرام پیج پر جاری کیا ہے۔
کمارا سنگاکار خود آج کل متحدہ عرب امارات میں ہیں جہاں وہ پاکستان پریمیئر لیگ کی ٹیم ملتان سلطانز کی جانب سے کھیل رہے ہیں۔
کمارا سنگاکارا کا پیغام:
’میرے سری لنکن ہم وطنو کے نام! کیا ہم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا ہے۔ کیا ہم بہت ہی بنیادی انسانی شرافت اور پیار کو بھلا چکے ہیں؟
کیا ہم اخلاقی طور پر اتنے کرپٹ ہو چکے ہیں کہ ہم یہ دیکھ نہیں پا رہے کہ ہمارے بغیر سوچے سمجھے کیے گئے اقدامات کس طرح ہم سب کے مستقبل کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
ہم اپنے ہمسائیوں کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں، ہم اپنی بہنوں اور بھائیوں کے رکھوالے ہیں۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ سری لنکا میں نسل اور مذہب سے قطع نذر ہر کوئی محفوظ محسوس کرے، اسے محبت ملے اور وہ خود کو معاشرے کا حصہ سمجھے۔
جب ہم اپنے ہم وطن بہنوں اور بھائیوں کی آنکھوں میں دیکھیں تو ہم یہ نہ دیکھ رہے ہوں کہ وہ سنہالیز، مسلمان یا تامل ہے، بلکہ ہم ان میں خود کی ذات کو دیکھیں، ہم ان کی آنکھوں میں وہی امیدیں اور خواب دیکھیں، اپنے وطن اور ایک دوسرے کے لیے بھرپور محبت کو دیکھیں۔
ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہیے کہ ہماری اور ان کی آنکھوں پر نفرت اور خوف کے پردے پڑ جائیں۔
آئیں ہم مل کر نسل پرستی کو نہ بولیں۔‘