کمالِ ترک

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
مرا مقصد جستجو ہے اور پیہم جستجو
میری منزل ہے مری گردِ سفر کے سامنے

چلتے رہیں چلتے رہیں منزل پر بار بار نگاہ کرنے سے یا منزل تک پہنچنے کا راستہ ناپنے سے رفتار کم اور حوصلہ ماند پڑہنے لگتا ہے
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
تو خوش ہے کہ تجھ کو حاصل ہے
میں خوش ہوں کہ میرے حصے میں نہیں
ساحل سے موجیں اٹھتی ہیں
خاموش بھی طوفاں ہوتے ہیں
حضرت ذہین شاہ تاجی
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
من کی دنیا؟ من کی دنیا سوز و ہستی جذب و شوق
تن کی دنیا؟ تن کی دنیا سود و سودا مکر و فن
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے آتا ہے دھن جاتا ہے دھن!
 

الف نظامی

لائبریرین

سید ذیشان

محفلین
جی خوب۔
ان سے پہلے یہ خیال کسی کے گمان سے نہیں گذرا تھا۔

سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے​
اےبےخبر!جزا کی تمنّابھی چھوڑ دے​

اگر اس خیال کی بات کر رہے ہیں تو یہ دیکھیں:
امام علی کا قول ہے:
" ایک جماعت نے اللہ کی عبادت ثواب کی رغبت و خواہش کے پیشِ نظر کی، یہ سودا کرنے والوں کی عبادت ہے اور ایک جماعت نے خوف کی وجہ سے اس کی عبادت کی، اور یہ غلاموں کی عبادت ہے او ر ایک جماعت نے ازروئے شکر و سپاس گزاری اس کی عبادت کی، یہ آزادوں کی عبادت ہے۔"
(نہج البلاغہ، کلمات 237)
 

الف نظامی

لائبریرین
d0136.jpg

d0137.jpg
d0138.jpg

d0139.jpg
 

نایاب

لائبریرین
سبحان اللہ
کیا خوب شراکت کی ہے الف نظامی بھائی
مرغابی کا توکل
تربوز کی ہمہ صفتی
حنطل کی انفرادیت
 

عاطف بٹ

محفلین
کمالِ ترک کیا خوب وضاحت ہے اس خیال کی کہ صلے کی پرواہ مت کیجئے۔۔۔ عبادت سے مقصود گر خالق کی محبّت ہو تو وہ عبادت بے حد چاشنی دینے لگتی ہے۔۔۔ اک سرور رگ و پے میں سرایت کرنے لگتا ہے۔۔
یہ خیال دل میں رکھتے ہوئے کہ مجھے تو آپ سے مطلب آپ سے پیار ہے تو پھر کیوں نہ میں وہ کام کروں جس سے آپ خوش ہوں ہمیں ہر رویّے سے ہر توقع سے بے نیاز کر دیتا ہے ۔۔۔
تب نتائج کچھ بھی نکلیں ہم مایوس نہیں ہوتے۔
بہت خوب۔ کیا شاندار بات ہے!
 
جی جی۔ دراصل وحدۃ الوجود اسے نہیں کہتے۔ بعض صوفیا نے گرچہ وہ تشریح کی ہے جو آپ نے بیان کی۔ لیکن یہ ذرا ٹیڑھا فلسفہ ہے۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ ہمہ اوست کو وحدۃ الوجود کہتے ہیں اور ہمہ از اوست کو وحدۃ الشہود۔ اول الذکر میں چونکہ بہت سی خرابیاں پیدا ہونے اور غلط تشریحات ہوتی ہیں۔ اس لیے احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ نے وحدۃ الشہود پر زور دیا۔ اس میں وہ قباحتیں نہیں ہیں۔

ہم وحدۃ الوجود اور شہود میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ یہ صرف اصطلاحی فرق ہے۔ شہود کا مطلب در حقیقت وجود والا ہی ہے۔ بس وجود کی تشریح میں گمراہی کے ڈر سے اسے شہود کردیا گیا ہے۔ ورنہ وجود کا بھی وہی مطلب ہے جو شہود کا۔
یعنی لا موجود سوائے اللہ۔ مگر اس سے مراد یہ نہیں کہ جو دکھتا ہے یعنی مخلوق وہ خود اللہ کا حصہ ہے۔ نعوذ باللہ۔
بلکہ جیسے سورج کے آگے ستاروں کا کوئی وجود نہیں۔ بادشاہ کے آگے کسی غلام کی حیثیت نہیں، سمند کے آگے کسی جھاگ کی حیثیت نہیں اسی طرح خالق کے آگے مخلوق کا کوئی وجود نہیں۔
اور محققین کا یہی نظریہ ہے۔
 
Top