قرۃالعین اعوان
لائبریرین
دو عالم سے کرتی ہی بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
تو خوش ہے کہ تجھ کو حاصل ہے
میں خوش ہوں کہ میرے حصے میں نہیں
ساحل سے موجیں اٹھتی ہیں
خاموش بھی طوفاں ہوتے ہیں
حضرت ذہین شاہ تاجی
جی خوب۔
ان سے پہلے یہ خیال کسی کے گمان سے نہیں گذرا تھا۔
بہت خوب۔ کیا شاندار بات ہے!کمالِ ترک کیا خوب وضاحت ہے اس خیال کی کہ صلے کی پرواہ مت کیجئے۔۔۔ عبادت سے مقصود گر خالق کی محبّت ہو تو وہ عبادت بے حد چاشنی دینے لگتی ہے۔۔۔ اک سرور رگ و پے میں سرایت کرنے لگتا ہے۔۔
یہ خیال دل میں رکھتے ہوئے کہ مجھے تو آپ سے مطلب آپ سے پیار ہے تو پھر کیوں نہ میں وہ کام کروں جس سے آپ خوش ہوں ہمیں ہر رویّے سے ہر توقع سے بے نیاز کر دیتا ہے ۔۔۔
تب نتائج کچھ بھی نکلیں ہم مایوس نہیں ہوتے۔
جی جی۔ دراصل وحدۃ الوجود اسے نہیں کہتے۔ بعض صوفیا نے گرچہ وہ تشریح کی ہے جو آپ نے بیان کی۔ لیکن یہ ذرا ٹیڑھا فلسفہ ہے۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ ہمہ اوست کو وحدۃ الوجود کہتے ہیں اور ہمہ از اوست کو وحدۃ الشہود۔ اول الذکر میں چونکہ بہت سی خرابیاں پیدا ہونے اور غلط تشریحات ہوتی ہیں۔ اس لیے احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ نے وحدۃ الشہود پر زور دیا۔ اس میں وہ قباحتیں نہیں ہیں۔