کمال لوگ ،کمال باتیں

ام اریبہ

محفلین
اماں خط لکھتی تو نیچے اپنا نام نہیں لکھتی تھی ۔۔۔۔۔ اُس کا نام صغرا تھا ۔۔۔۔۔
میں پوچھتا ۔۔۔۔ اماں تُو اپنا نام کیوں نہیں لکھتی ۔۔۔۔۔
اماں کہتی ۔۔۔۔ صغرا تو چند ایک سال کے لیے جئ تھی ، پھر تو پیدا ہو گیا تو صغرا ختم ہو گئ ۔۔۔۔۔ والدہ ممتاز بن گئ ۔۔۔۔۔ پھر ساری زندگی وہ تیرے لیے جئ ، خود کے لیے نہیں ۔۔۔۔۔
ساری زندگی وہ والدہ ممتاز رہی ۔۔۔۔۔۔

ممتاز مفتی
 

ام اریبہ

محفلین
ﺭﺍﺗﯿﮟ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺗﺎﺭﯾﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﯼٴ ﺗﺎﺭﯾﮏ ﺭﺍﺕ ﺍﯾﺴﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻮ ﺩﻥ
ﮐﮯ ﺍﺟﺎﻟﮯ ﭘﮧ ﺧﺘﻢ ﻧﮧ ﮨﻮ۔
ﺳﻮﺭﺝ ﺿﺮﻭﺭ ﻃﻠﻮﻉ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﺎﻣﺮﺍﻧﯿﻮﮞ ﮐﺎ، ﺳﺮﻓﺮﺍﺯﯾﻮﮞ ﮐﺎ۔۔
ﺣﻀﺮﺕ ﻭﺍﺻﻒ ﻋﻠﯽ ﻭﺍﺻﻒ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ
 

ام اریبہ

محفلین
منگل سنگھ

اسکول کا اصلی ہوا مسٹر منگل سنگھ ہی تھے اردو پڑھانے میں انہیں خاص ملکہ حاصل تھا اردو کا سبق وہ ٹھیٹ پنجابی میں دیا کرتے تھے اور اشعار کی تشریح کرنے میں ان کا اپنا ہی نرالا انداز تھا۔ایک بار غالب کا یہ شعرِ

سادگی و پرکاری ،بے خودی وہ ہوشیاری
حسن کو تغافل میں جرات آزما پایا

انہوں نے ہمیں یوں سکھایا۔

سادگی تے اس دے نال پرکاری بے خودی تے اس دے نال ہوشیاری حسن نوں تغافل دے وچ کیا پایا شاعر کہندا اے اس نے حسن نوں تغافل دے وچ جراب آزما پایا۔

لئو اپنی جئی گل سے غالب شعر بناندا بناندا مر گیا۔میں شعر سمجھاندے سمجھاندے مر جانا اے تہاڈی کوڑھ مغزاں دے پلے ککھ نئیں پینا ہے اگے چلو۔

قدرت اللہ شہاب کی کتاب “شہاب نامہ“ سے اقتباس
 

ام اریبہ

محفلین
بابِ ملتزم پر دعائیں مانگتے ہوئے ایک عجیب طرح کا احساس ہونا کہ فلاں دعا تو قبول ہو جائے گی اور فلاں رہ جائے گی۔ اس مقام پر دوستوں، دشمنوں، عزیز رشتہ داروں اور قابل نفرت لوگوں کے لیے بھی خشوع و خضوع کے ساتھ دعا مانگنا۔ حطیم میں دوگانا نفل ادا کرنے کے بعد جب غلافِ کعبہ پر دونوں ہتھیلیاں لگا کر اُسے بوسہ دینا اور اس پر اپنا چہرہ ملنا تو دونوں ہتھیلیوں کا غلاف کے ساتھ چپک جانا۔ جیسے غلاف کعبہ مجھے تھوڑی دیر اور توقف کرنے پر مجبور کر رہا ہو۔

(بابا صاحبا سے اقتباس)
 

ام اریبہ

محفلین
"چیزیں بے حیا نہیں ہوتیں جو کچھ اُن سے منسوب کیا جاتا ہے وہ بےحیا یا باحیا ہوتا ہے۔ حیا بھی نظر میں ہوتی ہے اور بےحیائی بھی۔"
 

ام اریبہ

محفلین
کبھی گمنام خوابوں کے کٹھن سنگلاخ رستوں پہ
انا کا سوگ ماتھے کی لکیروں میں سجا کر تم جہاں بھی لڑ کھڑاؤ گے

مجھے نہ بھول پاؤ گے
 

ام اریبہ

محفلین
" ایمان کسی منڈی کی شے نہیں کہ تمہں خرید کر لا دیا جائے یہ دل کی دکان پر عمل صالح کی نقدی ہی سے دستیاب ہو سکتا ہے "
امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد
 

ام اریبہ

محفلین
ہمارے ہاں چونکہ بچے کا نام رکھتے وقت اسکی مرضی پوچھنے کا رواج نہیں لہٰذا بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو اپنے نام کے شروع میں کوئی انگریزی کا حرف لگا کر تسکین حاصل کر لیتا ہے۔ میاں بشیر "ایم بشیر" بن جاتا ہے اور محمد بوٹا شاہ " ایم بی شاہ" ہو جاتا ہے۔ کئی ایسے نام ہیں جنہیں سن کر دل میں ترنگ سی بج اٹھتی ہے خود میں نے اپنے نام کی بدولت بڑے بڑے پارساؤں کے سینے چھلنی کئے ہیں۔ ایک صاحب مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپکا نام لڑکیوں والا کیوں ہے؟ میں نے پوچھا آپکا نام کیا ہے؟ اطمینان سے بولے "شمیم"۔
کچھ نام ایسے ہوتے ہیں جنہیں سن کر لگتا ہے جیسے نامکمل سے ہیں، مثلا" آج میری نظر ایک ڈاکٹر صاحب کے بورڈ پر پڑی جہاں لکھا ہوا تھا "ڈاکٹر کاش"۔ حالانکہ پورا نام ہونا چاہئیے تھا "ڈاکٹر کاش تم نے میرا علاج نہ کیا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر! کاش میں نے تمہاری دوائی نہ کھائی ہوتی"۔ اسی طرح کچھ نام اتنے لمبے ہوتے ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ نام کہاں ہے، میرے ایک کولیگ کا نام تھا " سردار مشتاق احمد نگینہ ککے زئی وزیر آبادی"۔ میں نے حیرت سے پوچھا " کس نام سے پکاروں ، کیا نام ہے تمہارا"۔ مسکرا کر بولے، جو پسند آتا ہے کہہ لو۔۔۔۔۔ میں نے خوش ہو کر پوچھا " کینچوا" کہہ لوں؟ یہ سنتے ہی انہوں نے برا منایا اور نصف گھنٹہ مجھ پر تشدد کیا، پتا نہیں کیوں؟
اللہ جانتا ہے میرا اس وقت دیوار سے ٹکریں مارنے کو جی کرتا ہے جب کوئی مجھ سے پوچھتا ہے گل نو خیز کا مطلب کیا ہے؟ مطلب سمجھاتا ہوں تو آنکھیں پھاڑ کر میری طرف دیکھتے ہین اور پھر پیٹ پکڑ کر ہنستے ہنستے دہرے ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ میں بار بار بتا چکا ہوں کہ "پڑھنے لکھنے کے سوا۔۔۔۔۔ گل نو خیز کا مطلب کیا!!!" خواجہ آن لائن والے مسعود خواجہ صاحب میرے برے پیارے دوست ہیں، ایک دفعہ کہنے لگے کہ جب تک میں نے آپکو دیکھا نہیں تھا میں آپکو "عورت" سمجھتا رہا، میں نے دانت پیس کر کہا، خواجہ صاحب میں بھی جب تک آپ سے نہیں ملا تھا آپکو "مرد" ہی سمجھتا رہا، لیکن دیکھ لیں دونوں کے اندازے غلط نکلے۔

"نام میرا بدنام" از "گل نو خیز اختر" کا کچھ حصہ
 

ام اریبہ

محفلین
ایسا لگتا جیسے ساری دنیا غائب ہوگئی ہو اور بس دھند اور اس کا وجود باقی بچا ہو..اور وہ بھاگے جا رہی ہے دنیا ایک صحراکی مانند لگ رہی تھی ۔۔وہ شاید بھا بھاگ کر تھک گئی تھی ۔۔اسے تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ کیوں بھاگ رہی ہے۔۔اس کا دل چاہتا کوئی ٹھنڈی میٹھی چھاوں والا گاوں ہو جہاں وہ کچھ دیر رک جائے۔۔۔کچھ دیر سکون لے لے ۔۔مگر کہاں؟۔۔۔یہی تلاش تو اسے صدیوں سے بھگائے پھر رہی تھی ۔۔۔یوں لگتا وہ اکیلی رہ گئی ہے ۔اس کے اندر ایک آگ تھی جسے وہ بجھانا چاہتی تھی ۔۔۔مگر کیسے ؟؟؟سکون کہاں ملے گا ؟ٹھنڈا اور میٹھا گاوں کہاں ہے ؟نظر ہی نہیں آرہا تھا ۔۔۔وہ لوگ جو زندگی اساس معلوم ہوتے تھے نہ جانے کہاں گم ہو گئے تھے ۔۔۔اس کا دل چاہا وہ چیخ چیخ کر سب کو پکارے مگر ۔۔آواز ۔۔۔گلے میں ہی کہیں پھنس گئی تھی ۔۔۔
اداس جذبوں کی کوٹھری میں
اندھیرا بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔
۔وہ بےدم ہو کر سی گئی آنسو بےاختیار آنکھوں سے رواں تھے ۔۔۔اس کے منہ سے بےساختہ پکار نکلی ۔۔۔یا اللہ ۔۔۔میں کیا کروں؟۔۔۔اسے یوں لگا اس پکار سے اک لمحہ سکوں تھا جو گذر چکا تھا مگر دل میں ٹھنڈ سی پڑی تھی ۔۔وہ جس کی صدیوں سے تلاش میں تھی
رات کے حسن پہ پھیلا ہو یادوں کا غبار
رقص کرتی ہوئی تنہائی کے پیاسے سائے
میں اکیلی ہوں ۔۔۔
مگر پھر بھی اکیلی تو نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے لگا وہ تنہا نہیں ہے ۔۔کوئی ہے جو اس کا ہے ۔۔بس صرف اس کی پکار کا منتظر تھا ۔۔اس کے پکارنے کی ہی دیر تھی ۔۔کہ اس کا پیار جوش میں آچکا تھا ۔۔سکون تھا کہ رگ و پے میں اتر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔الا بذكر الله تطمئن القلوب۔۔۔تلاش ختم ہو گئی تھی ۔۔وہ بے تحاشہ رو رہی تھی کتنی نادان تھی ۔۔دل کے سکون کو دنیا میں تلاش کر رہی تھی ۔۔اور سکون ملا تو کہا ں؟۔۔۔۔۔بس ایک پکار سے ۔۔۔۔۔۔۔اس کا دل چاہا ۔۔وہ سب کو بتائے ۔۔اور چیخ چیخ کر بتائے کہ ۔۔۔نادانوں کہیں تم سب بھی میری طرح ۔۔۔زندگی کے سارے تلاش میں ہی ختم نہ کر لینا ۔۔۔سکوں کا تو بس ایک ہی راستہ ہے ۔۔۔اس کے ہو جاو ۔۔وہ سب کچھ سمیت تمھارا ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ام اریبہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ام اریبہ

محفلین
قرآن پاک میں ارشاد ہے-
ترجمہ:- ذرہ بھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں-نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں-اور کوئی چیز ذرے سے چھوٹی یا بڑی نہیں-مگر کتاب روشن (لکھی ہوئی)ہے-(سورہ صبا)
( ا )ذرہ کا انگریزی ترجمہ ایٹم ہے-
( ب )ذرہ سے چھوٹا گارڈ پارٹیکل کہلائے گا-گارڈ پارٹیکل ایک چمک ہے-لفظ محمدﷺ اس پر سبط ہے-
( ج )روشن کتاب یا تجلی ایک ہی چیز ہے-یہ ایک نقطہ ہے-سب کچھ اس کے اندر ہے-
( د )نفس واحدہ کا ترجمہ سائنس دان ، روحانی اور غیر روحانی عالم cell کر رہے ہیں-اس کو بنیاد بنا کر ہم تخلیقی سوچ کو بہتر طریقے سے آگے بڑھا سکتے ہیں-
درحقیقت کھنکھناتی ہوئی مٹی cell کی ساخت ہی کو ظاہر کر ہی ہے- cell تجلی کے خمیر سے نسمہ کے واسطے سے گارڈ پارٹیکل بن جاتا ہے جو مٹی کی صورت ہے-نسمہ کی ترتیب یہ ہے جیسے برتن بنانے والا مٹی سے برتن تیار کرتا ہے-اس لئے یہ دعویٰ کہ ہم صدیوں سے قرآن سمجھ رہے ہیں مناسب معلوم نہیں ہوتا مغربی ممالک بڑی بڑی تجربہ گاہیں بنا کر گارڈپارٹیکل کی تلاش میں ہیں لیکن ہم صرف روایات کی حد تک عالم ہیں ہمیں خدائی علوم کا عالم بننا ہو گا جو ہمارے Inner میں ہیں-اقتباس-من و یزداں(کن سے کن تک)-صوبیدارمحمدبشیر
 

ام اریبہ

محفلین
لڑکو! تم بڑے ہو گے تو تمہیں افسوس ہوگا.......

لڑکو! تم بڑے ہو گے تو تمہیں افسوس ہوگا۔ جوں جوں تمہارا تجربہ بڑھتاجائے گا، تمہارے خیالات میں پختگی آتی جائے گی اور یہ افسوس بھی بڑھتا جائے گا۔یہ خواب پھیکے پڑتے جا ئیں گے۔ تب اپنے آپ کو فر یب نہ دے سکو گے۔بڑے ہو کر تمہیں معلوم ہو گا کہ زندگی بڑی مشکل ہے۔جینے کے لیئے مرتبے کی ضرورت ہے۔آسائش کی ضرورت ہےاور ان کے لیئے روپے کی ضرورت ہے۔اور روپیہ حاصل کرنے کے لیے مقابلہ ہوتا ہے۔مقابلے میں جھوٹ بولنا پڑتا ہے،دھوکا دینا پڑتا ہے،غداری کرنی پڑتی ہے۔یہاں کوئی کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔دنیا میں دوستی ،محبت،انس،سب رشتے مطلب پر قائم ہیں

۔محبت آمیز باتوں ،مسکراہٹوں،مہر بانیوں،شفقتوں--ان سب کی تہہ میں کوئی غرض پوشیدہ ہے۔یہاں تک کہ خدا کو بھی لوگ ضرورت پڑنے پر یاد کرتے ہیں۔اور جب خدا دعا قبول نہیں کرتا تو لوگ دہریے بن جاتے ہیں،اس کے وجود سے منکر ہو جاتے ہیں۔اور دنیا کو تم کبھی خوش نہیں رکھ سکتے۔اگر تم سادہ لوح ہوئے تو دنیا تم پر ہنسےگی،تمہارا مذاق اُڑاے گی۔اگر عقلمند ہوئے تو حسد کرے گی۔اگر الگ تھلگ رہے تو تمہیں چڑچڑا اور مکار گردانا جائے گا۔اگر ہر ایک سے گھل مل کر رہے تو تمہیں خوشامدی سمجھا جائے گا۔اگر سوچ سمجھ کر دولت خرچ کی تو تمہیں پست خیال اور کنجوس کہیں گے اور اگر فراخ دل ہوئے تو بیوقوف اور فضول خرچ۔ عمر بھر تمہیں کوئی نہیں سمجھے گا،نہ سمجھنے کی کوشش کرے گا۔تم ہمیشہ تنہا رہو گے حتی کہ ایک دن آئے گااور چپکے سے اس دنیا سے رخصت ہو جاؤ گے۔یہاں سے جاتے وقت تم متحیرہو گے کہ یہ تماشا کیا تھا۔ اس تماشےکی ضرورت کیا تھی۔یہ سب کچھ کس قدر بےمعنی اور بے سود تھا۔“

نیلی جھیل--حماقتیں “ شفیق الرحمان
ماہی احمد ،،،،،،،،،،،،،
 

زیک

مسافر
قرآن پاک میں ارشاد ہے-
ترجمہ:- ذرہ بھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں-نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں-اور کوئی چیز ذرے سے چھوٹی یا بڑی نہیں-مگر کتاب روشن (لکھی ہوئی)ہے-(سورہ صبا)
( ا )ذرہ کا انگریزی ترجمہ ایٹم ہے-
( ب )ذرہ سے چھوٹا گارڈ پارٹیکل کہلائے گا-گارڈ پارٹیکل ایک چمک ہے-لفظ محمدﷺ اس پر سبط ہے-
( ج )روشن کتاب یا تجلی ایک ہی چیز ہے-یہ ایک نقطہ ہے-سب کچھ اس کے اندر ہے-
( د )نفس واحدہ کا ترجمہ سائنس دان ، روحانی اور غیر روحانی عالم cell کر رہے ہیں-اس کو بنیاد بنا کر ہم تخلیقی سوچ کو بہتر طریقے سے آگے بڑھا سکتے ہیں-
درحقیقت کھنکھناتی ہوئی مٹی cell کی ساخت ہی کو ظاہر کر ہی ہے- cell تجلی کے خمیر سے نسمہ کے واسطے سے گارڈ پارٹیکل بن جاتا ہے جو مٹی کی صورت ہے-نسمہ کی ترتیب یہ ہے جیسے برتن بنانے والا مٹی سے برتن تیار کرتا ہے-اس لئے یہ دعویٰ کہ ہم صدیوں سے قرآن سمجھ رہے ہیں مناسب معلوم نہیں ہوتا مغربی ممالک بڑی بڑی تجربہ گاہیں بنا کر گارڈپارٹیکل کی تلاش میں ہیں لیکن ہم صرف روایات کی حد تک عالم ہیں ہمیں خدائی علوم کا عالم بننا ہو گا جو ہمارے Inner میں ہیں-اقتباس-من و یزداں(کن سے کن تک)-صوبیدارمحمدبشیر
گارڈ پارٹیکل؟؟؟
 
Top