کماں میں تھے مگر اب چلا دئیے گئے ہیں شاعر نوید حیدر ھاشمی

فیصل عزیز

محفلین
کماں میں تھے مگر اب چلا دئیے گئے ہیں
ہم ایک پل میں مسافر بنا دئیے گئے ہیں

بنامِ روشنی شہرِ شبِ سیاہ کے بیچ
دِیوں کے ساتھ بدن بھی جلا دئیے گئے ہیں

دیارِ چشم میں سیلاب آنے والا ہے
میرے دماغ سے پُشتے ہٹا دئیے گئے ہیں

چمکتی آنکھیں زمین پر گِری تو بھید کھلا
بدن کے طوق پہ چہرے سجا دئیے گئے ہیں

جنہیں زباں تک آنے میں عمر لگتی ہے
وہ راز خواب میں مجھ کو دیکھا دئیے گئے ہیں

ابھی کہانی کا انجام ہونا باقی ہے
ناجانے کیوں یہاں پردے گِرا دئیے گئے ہیں

ہم آج جیب میں لائے ہیں اُن کا رزق نوید
مگر شجر سے پرندے اُڑا دئیے گئے ہیں

نوید حیدر ھاشمی
کتاب
عشق سید ہے
https://www.facebook.com/2928330807...2278/812129195469328/?type=1&relevant_count=1
 

طارق شاہ

محفلین
کماں میں تھے مگر اب چلا دئیے گئے ہیں


کماں میں تھے مگر اب تو چَلا دئیے گئے ہیں
ہم ایک پل میں مسافر بنا دئیے گئے ہیں

بنامِ روشنی ، شہرِ شبِ سیاہ کے بیچ !
دِیوں کے ساتھ بدن بھی جَلا دئیے گئے ہیں

دیارِ چشم میں سیلاب آنے والا ہے
مِرے دماغ سے پُشتے ہٹا دئیے گئے ہیں

چمکتی آنکھیں زمیں پر گِری تو بھید کھُلا
بدن کے طوق پہ چہرے سجا دئیے گئے ہیں

جنھیں زبان تک آنے میں عمر لگتی ہے
وہ راز خواب میں مجھ کو دِکھا دئیے گئے ہیں

ابھی کہانی کا انجام ہونا باقی ہے
نجانے کیوں یہاں پردے گِرا دئیے گئے ہیں

ہم آج جیب میں لائے ہیں اُن کا رزق، نوید
مگر شجر سے پرندے اُڑا دئیے گئے ہیں

نوید حیدر ہاشمی
کتاب
عشق سید ہے
 
Top