کمسنی جاتی ہے تو عہدِ شباب آتا ہے - عشرت لکھنوی

کاشفی

محفلین
غزل
(خواجہ محمد الرئوف عشرت لکھنوی)

کمسنی جاتی ہے تو عہدِ شباب آتا ہے
جو مری جان کو آتا ہے عذاب آتا ہے

خط جلاتے ہیں کہ قاصد پہ عتاب آتا ہے
دیکھئے کیا مری قسمت سے جواب آتا ہے

خلوت خاص میں شرمانے کا باعث کیا ہے
بے محل آپ کو اس وقت حجاب آتا ہے

حُسن کی اس کو پرکھ ہے نہ وفاداروں کی
آندھی کی طرح دل خانہ خراب آتا ہے

خط کے پُرزے اُڑے قاصد بھی وہاں قتل ہوا
منتظر ہم ہیں کہ نامے کا جواب آتا ہے

فضل کی اُس کے نہ کچھ حد ہے نہ رحمت کا شمار
پھر ہمیں کیا ہے اگر روزِ حساب آتا ہے

فیض ساقی ازل سے ہیں سخن کے میخوار
اک نیا روز یہاں جام شراب آتا ہے

مہلت اک دم کی نہیں بحر فنا میں حاصل
جو حباب آتا ہے وہ نقشِ بر آب آتا ہے

انتہا ہوگئی عشرت کی بداعمالی کی
کہ فرشتوں کو بھی لکھنے میں حجاب آتا ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
مہلت اک دم کی نہیں بحر فنا میں حاصل
جو حباب آتا ہے وہ نقشِ بر آب آتا ہے

بہت عمدہ انتخاب ہے۔ بہت شکریہ کاشفی صاحب!
 

Fari

محفلین
فضل کی اُس کے نہ کچھ حد ہے نہ رحمت کا شمار
پھر ہمیں کیا ہے اگر روزِ حساب آتا ہے

ّواہ- بہت زبردست-
 
Top