پاکستانی
محفلین
ساری دنیاکی طرح پاکستان میں بھی جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے دو کان، دو آنکھیں، دو ہاتھ، دو پاؤں اور دنیا کے ہر بچے جتنا ہی اس کا دماغ ہوتا ہے۔ لیکن جیسے ہی وہ الفاظ کو معنی پہنانے اور اشاروں کو سمجھنے کے قابل ہوتا ہے تو اسے دنیا کے مشکل ترین امتحان میں ڈال دیا جاتا ہے۔ وہ ابھی ایک زبان پر ایک فیصد عبور بھی حاصل نہیں کر پایا ہوتا کہ اس پر چار زبانیں حملہ آور ہو جاتی ہیں۔ کتاب سے آشنا ہوتے ہی چار زبانیں اس کی نصف سے زیادہ صلاحیتوں کو خاموش کر دیتی ہیں۔ سب سے پہلے اسے مادری زبان سمجھنا پڑتی ہے کہ ساری عمر اس کا اسی فیصد ابلاغ اسی زبان میں ہوتا ہے۔ اسی زبان میں اس ستر فیصد دوست احباب اور رشتےدار اسے ملتے ہیں، وہ اسی زبان میں سوچتا اور پروگرام بناتا ہے، وہ دنیا میں کہیں چلا جائے مادری زبان اور لہجہ اس کے خون میں سرایت کر چکے ہوتے ہیں، اس کے ڈی این اے کا حصہ بن چکے ہوتے ہیں۔ مادری زبان سکھانے کے باوجود والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے قومی زبان سکھائی جائے۔ ماں بولی کے ہر لفظ اور جملے کا اسے اردو میں ترجمہ یاد رکھنا پڑتا ہے۔ مادری زبان میں وہ گالیاں نکالنا سکھتا ہے تو اردو میں وہ دوسرے کو ‘تو‘ کی جگہ ‘آپ‘ جیسے محترم الفاظ بولنا سکھتا ہے۔والدین مذہبی تعلیم کے لئے اسے کسی مولوی صاحب کے حوالے یا کسی مدرسے میں ڈالتے تو اسے تیسری زبان عربی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد سکول بھیجنے سے پہلے والدین اسے چوتھی زبان انگلش سے آشنا کرا چکے ہوتے ہیں۔ وہ اسے بڑے پیار سے بتاتے ہیں کہ ناک کو نوز، آنکھوں کو آئیز، پیشانی کو فورہیڈ، ہاتھوں کو ہینڈز، ٹانگوں کو فینگرز، منہ کو ماؤتھ، انگلیوں کو فنگرز، ہونٹوں کو لپس اور انگوٹھے کو تھمب کہتے ہیں۔ اگرچہ چھوٹی عمر کے بچے میں سکھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ ہر بچے کی خداداد صلاحیتوں کو زبان کے ساتھ اس چومکھی لڑائی میں ضائع کیا جائے؟ جو زبان جتنا کم فائدہ دیتی ہے بچے کو اسے سیکھنے کے لئے اس پر اتنی زیادہ محنت کرنے پڑتی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں مادری یا قومی زبان کے علاوہ اسے اور کوئی زبان نہیں سکھنا پڑتی۔ اس کا سارا ابلاغ اور تعلیم ایک ہی زبان میں ہی ہوتی ہیں۔ اسی طرح وہ اپنی پچھتر فیصد دماغی قوت اور صلاحیت دیگر تعمیری اور پیداواری علوم سکھنے میں استعمال کرتا ہے۔ وہ بارہ سال کی عمر سے ہی دریافتوں، تحقیقاتوں، تجربوں اور ایجادوں میں مصروف ہو جاتا ہے۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی، کینیڈا، ہالینڈ، آسٹریلیا، امریکہ، کوریا، جاپان، چین، ملائشیا، اٹلی، سوئٹزرلینڈ، روس اور دیگر ترقی شناس ممالک میں بچوں کو ایک سے زائد زبانوں کی بھٹی سے نہیں گزارا جاتا۔ ہمارے ہاں سارے یورپ کے باشندوں کو ہی انگریز سمجھا جاتا ہے، انگلش بلا شبہ بین الاقوامی زبان ہونے کا درجہ رکھتی ہے لیکن چند ملکوں کے سوا دنیا بھر میں کہیں انگلش نہیں بولی جاتی، وہ لوگ اپنی زبانوں سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ ابھی چند دن پہلے آپ نے یہ خبر پڑی یا سنی ہو گی کہ برسلز میں یورپی یونین کے ایک اجلاس میں فرانس کے صدر شیراک، وزیر خارجہ اور وزیرخزانہ اس وقت اجلاس سے واک آؤٹ کے گئے جب ان کے ایک ہم وطن نے انگریزی زبان میں تقریر شروع کر دی۔ یہ تھی ایک چھوٹی سی جھلک اپنی زبان محبت کی، ان ملکوں مقامی زبان کے علاوہ کسی اور زبان کو اہمیت نہیں دی جاتی، ان کے صدور اگر کسی تقریب میں بھولے سے انگلش کے چند الفاظ بول دیں تو اگلے دن ان کے خلاف ہنگامے شروع ہو جاتے ہیں، اخبارات میں مستعفی ہونے کی شہ سرخیاں لگتی ہیں، بھوک ہڑتالیں کی جاتی ہیں، اداریے لکھے جاتے ہیں، یہاں تک کہ یا اسے استعفٰی دینا پڑتا ہے یا آئندہ انگلش بولنے سے توبہ کر کے قوم سے معافی مانگنی پڑتی ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ فرانسیسی صدر کی ملاقات ہو، کوئی عالمی سیمینار ہو یا اقوام متحدہ کا اجلاس ہو فرانسیسی صدر‘مائی ڈیئر‘ کے بجائے ‘موسیو‘ سے اپنی تقریر شروع کرے گا اور دوسری زبان کا ایک لفظ بولے بغیر اپنا خطاب مکمل کرے گا۔ البتہ سامعین کو مترجم کی سہولت فراہم کر دی جاتی ہے۔
آپ ہالینڈ، اٹلی، کوریا، جاپان، چین، ملائشیا، سوئٹزرلینڈ اور روس کو لے لیں، کیا ادھر کے حکمرانوں نے کبھی کسی تعلیمی ادارے کا منہ نہیں دیکھا؟ کیا وہ ان پڑھ ہیں؟ کہ دنیا کے ہر فورم پر اپنی بات اپنی زبان میں ہی کرتے ہیں اور اپنی زبان کے سوا دنیا کی کسی دوسری کو درخور اعتناء ہی نہیں سمجھتے۔ ان ممالک کا کوئی سربراہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہے تو کوئی فلسفے میں ایم فل کئے ہوئے ہے، کسی نے بزنس کی ایڈمنسٹریشن میں پوسٹ گریجویشن کر رکھی ہے تو کسی نے معاشیات میں آنرز کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے، حد تو یہ کہ لینگویج میں ماسٹر کئے ہونے کے باوجود وہ صرف اپنی زبان بول سکتے ہیں۔ دفتروں میں مقامی زبان استعمال ہوتی ہے، تمام سرکاری کاغذات مقامی زبان میں تیار کئے جاتے ہیں۔ آپ میڈیا کو ہی لے لیں ان ممالک کا ننانوے فیصد میڈیا مقامی زبان میں اپنے اخبارات، رسالے، مجلے، میگزین، اور بلیٹن جاری کرتا ہے۔ تشہیری فلمیں مقامی زبانوں میں تیار کی جاتی ہیں۔ ملکی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں اشہتاری بورڈ تیار کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ہالی وڈ کو اپنی فلمیں مقامی زبانوں میں ڈبنگ کے ساتھ پیش کرنا پڑتی ہیں۔ یہ ممالک انگلش کو رابطے کی زبان کے طور پر ضرور استعمال کرتے ہیں لیکن وہ بھی صرف مترجم کے ذریعے۔ ان ممالک نے اپنے بچوں کو زبانوں کے جنجال سے بچا کر ان کی صلاحیتوں، دماغی استعداد اور ذہنی توانائیوں کو مثبت، تعمیری اور ایجادی سرگرمیوں کی بھٹی میں ڈال دیا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کا بچہ کندن بن کر نکلا۔ ان پر ڈی این اے نے اپنے اسرار عیاں کر دئیے۔ ان پر کلوننگ کے بھید ظاہر ہو گئے۔ لوہا ان کے ہاتھ میں موم ہو کر رہ گیا۔ گیسوں کے آوارہ مالیکیولز اپنی مرضی سے حرکت کرنے پر قادر نہ رہے۔سمندر ان کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے۔ چاند نے ان کے قدموں کو بوسے لئے۔ اب مریخ ان کے پاؤں چومنے کے لئے بےقرار ہے۔ زمین اپنے خزانے اور فضاء اپنے راز ان پر مسلسل کھول رہی ہے۔ مگر ہمارے ساتھ کیا ہوا؟ ہم نے بچوں کو چار چار زبانیں تو پڑھا دیں لیکن ان کے دماغ خاموش کرا دئیے۔ ہم نے ان کے ہاتھوں میں کند تلواریں تھما کر بی ففٹی ٹو کے مقابلے میں اتار دیا۔ جہاں تک ٹیلنٹ کی بات ہے تو پاکستانی بچے دنیا کی کسی قوم سے کم نہیں لیکن اس کے باوجود اے لیول میں نوایز حاصل کر کے دنیا بھر میں ریکارڈ قائم کرنے والے بچے کے بارے میں پورے وثوق سے یہ بات نہیں کہی جا سکتی کہ کل وہ کچھ ایجاد بھی کرے گا۔ وہ سینہ قدرت سے کوئی راز نکائے لائے گا۔ مہینے بھر کا راشن ایک دن میں ہڑپ کرنے والوں کو باقی کے انتیس دن بھوکا ہی رہنا پڑتا ہے۔ وہ گاڑیاں جو گول چکروں کے گرد گھوم کر ہی اپنا ایندھن جلا ڈالیں کبھی منزلوں پر نہیں پہنچا کرتی، بچوں کو کند سے کندن بنانے کے لئے صرف ‘ن‘ کا اضافہ ہی کافی نہیں اس کے لئے ہمیں اپنے بچوں کو زبانوں کے ہاتھوں ذبح ہونے سے بچانا ہو گا۔
ایک خبر ۔ جاپان کی اوساکا یونیورسٹی آف فارن سٹیڈیز کے شعبہ جنوبی ایشیا کے ایسوسی ایٹ پروفیسر سویما نے کہا ہے کہ اردو تاریخی اور ثقافتی زبان ہے اسے انگریزی زبان کی دستبرد سے بچانا جائے، اس کے لئے شعوری کوشش ہونا چاہیے۔ جاپان میں حکومت نے اپنی زبان کو انگریزی اور دوسری بڑی ثقافتوں کی یلغار سے بچانے کے لئے یہ ہدایت کی ہے کہ دفاتر میں جتنے انگریزی کے الفاظ استعمال ہو رہے ہیں ان کا جاپانی ترجمہ کیا جائے اور آئندہ ان ترجمہ شدہ الفاظ کا ستعمال کیا جائے۔ یوینسف کی رپورٹ میں اردو کو دنیا کی تیسری بڑی زبان قرار دیا گیا اگر اتنی بڑی زبان کو بچانے کی شعوری کوشش نہ کی گئی تو یہ بدقسمتی ہو گی۔
ترقی یافتہ ممالک میں مادری یا قومی زبان کے علاوہ اسے اور کوئی زبان نہیں سکھنا پڑتی۔ اس کا سارا ابلاغ اور تعلیم ایک ہی زبان میں ہی ہوتی ہیں۔ اسی طرح وہ اپنی پچھتر فیصد دماغی قوت اور صلاحیت دیگر تعمیری اور پیداواری علوم سکھنے میں استعمال کرتا ہے۔ وہ بارہ سال کی عمر سے ہی دریافتوں، تحقیقاتوں، تجربوں اور ایجادوں میں مصروف ہو جاتا ہے۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی، کینیڈا، ہالینڈ، آسٹریلیا، امریکہ، کوریا، جاپان، چین، ملائشیا، اٹلی، سوئٹزرلینڈ، روس اور دیگر ترقی شناس ممالک میں بچوں کو ایک سے زائد زبانوں کی بھٹی سے نہیں گزارا جاتا۔ ہمارے ہاں سارے یورپ کے باشندوں کو ہی انگریز سمجھا جاتا ہے، انگلش بلا شبہ بین الاقوامی زبان ہونے کا درجہ رکھتی ہے لیکن چند ملکوں کے سوا دنیا بھر میں کہیں انگلش نہیں بولی جاتی، وہ لوگ اپنی زبانوں سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ ابھی چند دن پہلے آپ نے یہ خبر پڑی یا سنی ہو گی کہ برسلز میں یورپی یونین کے ایک اجلاس میں فرانس کے صدر شیراک، وزیر خارجہ اور وزیرخزانہ اس وقت اجلاس سے واک آؤٹ کے گئے جب ان کے ایک ہم وطن نے انگریزی زبان میں تقریر شروع کر دی۔ یہ تھی ایک چھوٹی سی جھلک اپنی زبان محبت کی، ان ملکوں مقامی زبان کے علاوہ کسی اور زبان کو اہمیت نہیں دی جاتی، ان کے صدور اگر کسی تقریب میں بھولے سے انگلش کے چند الفاظ بول دیں تو اگلے دن ان کے خلاف ہنگامے شروع ہو جاتے ہیں، اخبارات میں مستعفی ہونے کی شہ سرخیاں لگتی ہیں، بھوک ہڑتالیں کی جاتی ہیں، اداریے لکھے جاتے ہیں، یہاں تک کہ یا اسے استعفٰی دینا پڑتا ہے یا آئندہ انگلش بولنے سے توبہ کر کے قوم سے معافی مانگنی پڑتی ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ فرانسیسی صدر کی ملاقات ہو، کوئی عالمی سیمینار ہو یا اقوام متحدہ کا اجلاس ہو فرانسیسی صدر‘مائی ڈیئر‘ کے بجائے ‘موسیو‘ سے اپنی تقریر شروع کرے گا اور دوسری زبان کا ایک لفظ بولے بغیر اپنا خطاب مکمل کرے گا۔ البتہ سامعین کو مترجم کی سہولت فراہم کر دی جاتی ہے۔
آپ ہالینڈ، اٹلی، کوریا، جاپان، چین، ملائشیا، سوئٹزرلینڈ اور روس کو لے لیں، کیا ادھر کے حکمرانوں نے کبھی کسی تعلیمی ادارے کا منہ نہیں دیکھا؟ کیا وہ ان پڑھ ہیں؟ کہ دنیا کے ہر فورم پر اپنی بات اپنی زبان میں ہی کرتے ہیں اور اپنی زبان کے سوا دنیا کی کسی دوسری کو درخور اعتناء ہی نہیں سمجھتے۔ ان ممالک کا کوئی سربراہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہے تو کوئی فلسفے میں ایم فل کئے ہوئے ہے، کسی نے بزنس کی ایڈمنسٹریشن میں پوسٹ گریجویشن کر رکھی ہے تو کسی نے معاشیات میں آنرز کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے، حد تو یہ کہ لینگویج میں ماسٹر کئے ہونے کے باوجود وہ صرف اپنی زبان بول سکتے ہیں۔ دفتروں میں مقامی زبان استعمال ہوتی ہے، تمام سرکاری کاغذات مقامی زبان میں تیار کئے جاتے ہیں۔ آپ میڈیا کو ہی لے لیں ان ممالک کا ننانوے فیصد میڈیا مقامی زبان میں اپنے اخبارات، رسالے، مجلے، میگزین، اور بلیٹن جاری کرتا ہے۔ تشہیری فلمیں مقامی زبانوں میں تیار کی جاتی ہیں۔ ملکی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں اشہتاری بورڈ تیار کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ہالی وڈ کو اپنی فلمیں مقامی زبانوں میں ڈبنگ کے ساتھ پیش کرنا پڑتی ہیں۔ یہ ممالک انگلش کو رابطے کی زبان کے طور پر ضرور استعمال کرتے ہیں لیکن وہ بھی صرف مترجم کے ذریعے۔ ان ممالک نے اپنے بچوں کو زبانوں کے جنجال سے بچا کر ان کی صلاحیتوں، دماغی استعداد اور ذہنی توانائیوں کو مثبت، تعمیری اور ایجادی سرگرمیوں کی بھٹی میں ڈال دیا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کا بچہ کندن بن کر نکلا۔ ان پر ڈی این اے نے اپنے اسرار عیاں کر دئیے۔ ان پر کلوننگ کے بھید ظاہر ہو گئے۔ لوہا ان کے ہاتھ میں موم ہو کر رہ گیا۔ گیسوں کے آوارہ مالیکیولز اپنی مرضی سے حرکت کرنے پر قادر نہ رہے۔سمندر ان کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے۔ چاند نے ان کے قدموں کو بوسے لئے۔ اب مریخ ان کے پاؤں چومنے کے لئے بےقرار ہے۔ زمین اپنے خزانے اور فضاء اپنے راز ان پر مسلسل کھول رہی ہے۔ مگر ہمارے ساتھ کیا ہوا؟ ہم نے بچوں کو چار چار زبانیں تو پڑھا دیں لیکن ان کے دماغ خاموش کرا دئیے۔ ہم نے ان کے ہاتھوں میں کند تلواریں تھما کر بی ففٹی ٹو کے مقابلے میں اتار دیا۔ جہاں تک ٹیلنٹ کی بات ہے تو پاکستانی بچے دنیا کی کسی قوم سے کم نہیں لیکن اس کے باوجود اے لیول میں نوایز حاصل کر کے دنیا بھر میں ریکارڈ قائم کرنے والے بچے کے بارے میں پورے وثوق سے یہ بات نہیں کہی جا سکتی کہ کل وہ کچھ ایجاد بھی کرے گا۔ وہ سینہ قدرت سے کوئی راز نکائے لائے گا۔ مہینے بھر کا راشن ایک دن میں ہڑپ کرنے والوں کو باقی کے انتیس دن بھوکا ہی رہنا پڑتا ہے۔ وہ گاڑیاں جو گول چکروں کے گرد گھوم کر ہی اپنا ایندھن جلا ڈالیں کبھی منزلوں پر نہیں پہنچا کرتی، بچوں کو کند سے کندن بنانے کے لئے صرف ‘ن‘ کا اضافہ ہی کافی نہیں اس کے لئے ہمیں اپنے بچوں کو زبانوں کے ہاتھوں ذبح ہونے سے بچانا ہو گا۔
ایک خبر ۔ جاپان کی اوساکا یونیورسٹی آف فارن سٹیڈیز کے شعبہ جنوبی ایشیا کے ایسوسی ایٹ پروفیسر سویما نے کہا ہے کہ اردو تاریخی اور ثقافتی زبان ہے اسے انگریزی زبان کی دستبرد سے بچانا جائے، اس کے لئے شعوری کوشش ہونا چاہیے۔ جاپان میں حکومت نے اپنی زبان کو انگریزی اور دوسری بڑی ثقافتوں کی یلغار سے بچانے کے لئے یہ ہدایت کی ہے کہ دفاتر میں جتنے انگریزی کے الفاظ استعمال ہو رہے ہیں ان کا جاپانی ترجمہ کیا جائے اور آئندہ ان ترجمہ شدہ الفاظ کا ستعمال کیا جائے۔ یوینسف کی رپورٹ میں اردو کو دنیا کی تیسری بڑی زبان قرار دیا گیا اگر اتنی بڑی زبان کو بچانے کی شعوری کوشش نہ کی گئی تو یہ بدقسمتی ہو گی۔