حسیب احمد حسیب
محفلین
کن کٹی ماں !
کہتے ہیں ایک شخص کو اسکے جرائم کی وجہ سے پھانسی کی سزا ہوئی اس نے آخری خواہش اپنی ماں سے ملنے کی ظاہر کی جب ماں اس سے ملنے آئی تو اس نے کہا اے ماں اپنا کان میرے پاس لا تجھے ایک راز کی بات کہنی ہے ماں بے چاری سمجھی کہ مرنے سے پہلے کسی چھپی ہوئی دولت کی خبر دینا چاہتا ہے کہ میرا بڑھاپا سکون سے کٹے لیکن عجیب ماجرا ہوا اسکی ماں جب اپنا کان اسکے منہ کے پاس لے گئی تو اس نے اپنی ماں کا کان کاٹ لیا .....
لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی اور ماں بھی روتی پیٹتی زخمی کان لیے وہاں سے رخصت ہوئی کسی نے پوچھا ارے او ناہنجار نابکار جہنم کے ایندھن تو نے یہ کیا کیا ......؟
تو اس نے کہا ماں ہی جنت ماں ہی دوزخ اگر یہ ماں میری اچھی تربیت کرتی تو آج میرا مقدر پھانسی کا پھندا نہ ہوتا.........
یہ کہاوت یوں یاد آئی کہ ہمارے گھر کام کرنے والی ماسی رونی صورت بنائے روتی پیٹتی آئی یہ چاند رات کی بات ہے امی نے پوچھا کیا ہوا تو اس نے اپنا دکھڑا سنایا ......
جس گھر میں وہ کام کرتی ہے اس کی نچلی منزل میں ایک فیملی رہتی ہے سیڑھیوں کی صفائی کرتے وقت اس نے اپنا بٹوہ وہاں رکھ دیا جو اسکی آنکھوں کے سامنے نچلی منزل والی فیملی کا بچہ لیکر چمپت ہوگیا بچے کی عمر دس بارہ سال ہوگی جب اس نے واویلا کیا تو بچے کی ماں نے اپنے بچے کی طرفداری شروع کر دی اور اسے جھٹلا دیا وہ بیچاری خوب روئی پیٹی بہت واویلا کیا لوگ جمع ہوے سب نے ماسی کی ایمانداری اور سچے ہونے کی گواہی دی ایک موقع پر جب بچے نے قبول بھی لیا تو اسکی ماں نے اسے آنکھیں دکھا کر خاموش کروا دیا .......
ماسی کے بٹوے میں اسکی کل کمائی تھی جس سے اس نے اپنی بچوں کیلئے عید کی خریداری کرنی تھی اور اسکا شناختی کارڈ اور دوسرے ضروری کاغذات وغیرہ بھی ...
قصہ مختصر لوگوں کے زور دینے پر وہ عورت مان تو گئی لیکن الزام اپنے بوڑھے سسر پر دھر دیا کہ وہ چوری کے عادی ہیں ماسی کو خوب رو رلا کر اپنی جمع پونجی واپس ملی بوڑھے باریش سسر کی عزت خاک میں ملی لیکن ایک ماں اپنے بچے کے جرم پر پردہ ڈالنے میں کامیاب رہی ..........
لیکن میں سوچتا ہو یہ بچہ جوان ہوکر کیا بنے گا یہ کتنے گھر اجاڑے گا کتنوں کا مال لوٹے گا اور پھر مجھے پھانسی کا پھندہ اور ایک " کن کٹی ماں " دکھائی دیتی ہے .
حسیب احمد حسیب
کہتے ہیں ایک شخص کو اسکے جرائم کی وجہ سے پھانسی کی سزا ہوئی اس نے آخری خواہش اپنی ماں سے ملنے کی ظاہر کی جب ماں اس سے ملنے آئی تو اس نے کہا اے ماں اپنا کان میرے پاس لا تجھے ایک راز کی بات کہنی ہے ماں بے چاری سمجھی کہ مرنے سے پہلے کسی چھپی ہوئی دولت کی خبر دینا چاہتا ہے کہ میرا بڑھاپا سکون سے کٹے لیکن عجیب ماجرا ہوا اسکی ماں جب اپنا کان اسکے منہ کے پاس لے گئی تو اس نے اپنی ماں کا کان کاٹ لیا .....
لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی اور ماں بھی روتی پیٹتی زخمی کان لیے وہاں سے رخصت ہوئی کسی نے پوچھا ارے او ناہنجار نابکار جہنم کے ایندھن تو نے یہ کیا کیا ......؟
تو اس نے کہا ماں ہی جنت ماں ہی دوزخ اگر یہ ماں میری اچھی تربیت کرتی تو آج میرا مقدر پھانسی کا پھندا نہ ہوتا.........
یہ کہاوت یوں یاد آئی کہ ہمارے گھر کام کرنے والی ماسی رونی صورت بنائے روتی پیٹتی آئی یہ چاند رات کی بات ہے امی نے پوچھا کیا ہوا تو اس نے اپنا دکھڑا سنایا ......
جس گھر میں وہ کام کرتی ہے اس کی نچلی منزل میں ایک فیملی رہتی ہے سیڑھیوں کی صفائی کرتے وقت اس نے اپنا بٹوہ وہاں رکھ دیا جو اسکی آنکھوں کے سامنے نچلی منزل والی فیملی کا بچہ لیکر چمپت ہوگیا بچے کی عمر دس بارہ سال ہوگی جب اس نے واویلا کیا تو بچے کی ماں نے اپنے بچے کی طرفداری شروع کر دی اور اسے جھٹلا دیا وہ بیچاری خوب روئی پیٹی بہت واویلا کیا لوگ جمع ہوے سب نے ماسی کی ایمانداری اور سچے ہونے کی گواہی دی ایک موقع پر جب بچے نے قبول بھی لیا تو اسکی ماں نے اسے آنکھیں دکھا کر خاموش کروا دیا .......
ماسی کے بٹوے میں اسکی کل کمائی تھی جس سے اس نے اپنی بچوں کیلئے عید کی خریداری کرنی تھی اور اسکا شناختی کارڈ اور دوسرے ضروری کاغذات وغیرہ بھی ...
قصہ مختصر لوگوں کے زور دینے پر وہ عورت مان تو گئی لیکن الزام اپنے بوڑھے سسر پر دھر دیا کہ وہ چوری کے عادی ہیں ماسی کو خوب رو رلا کر اپنی جمع پونجی واپس ملی بوڑھے باریش سسر کی عزت خاک میں ملی لیکن ایک ماں اپنے بچے کے جرم پر پردہ ڈالنے میں کامیاب رہی ..........
لیکن میں سوچتا ہو یہ بچہ جوان ہوکر کیا بنے گا یہ کتنے گھر اجاڑے گا کتنوں کا مال لوٹے گا اور پھر مجھے پھانسی کا پھندہ اور ایک " کن کٹی ماں " دکھائی دیتی ہے .
حسیب احمد حسیب