ریحان
محفلین
<p align="right"><font size="4" face="Nafees Web Naskh">پاکستان میں ہونے والے
اپنے وقت کے سب سے بڑے سانہہ کو گزرے ہوے کافی وقت ہو چکا ہے ، آہستہ آہستہ اس
ہولناک سانہہ کا زکر ہماری سب کی زبانوں سے بھی مٹتا جا رہا ہے پس اب یہ ٹیلی وشن
چینل اور نیوس میڈیا ہے جو ہمیں یاد دلائے ہے بار بار کے قوم کا ایک حصہ کس قدر
مصیبت میں ہے میں اپنی اس پوسٹ میں زلزلہ زدگان کی تکلیفوں پر بہس کرنے نہیں جارہا
جبکہ میں ایک اور شے کی طرف بات کرنے جا رہا ہو جس نے مجھے زلزلہ کے واقعات کے بعد
سے ایک عجیب کشمکش میں ڈالا ہوا ہے اور وہ ہے برظانیہ کی وہ ٹیم جس نے اسلام آباد
میں زمین بوس ہوی عمارت میں سے قیمتی جانوں کو بچایا ، کچھ سوال تھے جن کے جواب
مجھے مل چکے ، ایسی ایک ٹیم پاکستان کے پاس کیوں نہیں اور کیوں نہیں تھی ؟
زلزلوں میں اب آپ برظانیہ کی مثال لیں ، برطانیہ کی تاریخ کا سب سے بڑا زلزلہ ١٩٣١
میں آیا تھا ، اس زلزلہ کی شدت ٦۔١ تھی اور اسکا مرکز "یارماؤتھ" تھااس زلزلہ سے
برطانیہ کا نا کوئی زہری ہلاک ہوا نا کوئی زخمی لیکن اسکے باوجود برطانیہ نے زلزلہ
سے نبٹنے کا ایک یونٹ بنا لیا۔ یہ یونٹ آج تک کام کر رہا ہے ١٩٦٠ء کی دہائی میں
اسیونٹ کو ٣٠ سال ہوگئے تو کسی نے اس کے وجود پر اعتراض کیا مگر حکومت نے یہ ادارہ
ختم کرنے کے بجائے اسے مزید وسعت دے دی ۔ برطانیہ نے ١٩٦٣ء میں ڈی ای سی (ڈیزاسٹر
ایمرجنسی کمیٹی) کے نام سے ایک بڑا ادارہ بنایا اور زلزلہ کے متاثرین کے لیے بننے
والے ١٣ بڑے اداروں کے ساتھ منسلک کر دیا جس کے بعد اس نے عالمی شہرت اختیار کرلی۔
آج دنیا میں جہاں کہی بھی زلزلہ آتا ہے ڈی ای سی کے ورکرز فوراّ وہاں پہنچ جاتے ہیں
اور امدادی سرگرمیاں شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے ادارہ کے کارکنوں کی پریکٹس بھی
ہوجاتی ہے اور برطانیہ کا امیج بھی بہتر ہوجاتا ہے ، ان اداروں کو بنے اب ٧٤ برس ہو
چکے ہیں، ٧٥ سالوں سے انکے لیے ہر سال بطٹ رلیز ہوتا ہے ، ان کی کارکردگی کو دیکھتے
ہوے برطانیہ میں آج تک کسی نے ان اداروں کو معاشی بوجھ قرار دیا اور نہ ہی کسی نے
ان کو بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہی صورت حال دوسرے ممالک کی بھی ہے اس وقت پاکستان
میں ٢٨٧٣ امدادی ورکرز کام کر رہے ہیں ، یہ ورکرز متحدہ عرب امارات ، سویٹزرلینڈ ،
چین ، فرانس ، جاپان ، ایران ، برطانیہ ، ترکی ، جرمنی ، روس ، ملایشیا ، سپین ،
پولینڈ ، اٹلی ، آزر بائیجان ، سنگاپور ، اردن ، ہنگری ، سویڈن اور جنوبی کوریا سے
تعلق رکھتے ہیں ۔ ان ٢٠ ممالک میں سے صرف جاپان میں زلزلے آتے ہیں ۔ یورپ کے ١٦
ممالک میں پچلھے ١٠٠ سال سے کوئی بڑا زلزلہ نہیں آیا لیکن اس کے باوجود ان ممالک نے
نا صرف ریسکیو کے ادارے بنا رکھے ہیں بلکہ ان کے ورکرز ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرکے
پاکستان جیسے ممالک میں خدمت سرانجان دیتے ہیں۔ آپ حد دیکھے کہ ماحرین نے یورپ کو
زلزلوں سے محفوظ کرار دیرکھا ہے لیکن اس کے باوجود یورپ کے تمام ممالک میں زلزلہ کے
ریسکیو مرکز موجود ہیں جبکہ اس کے مقابلہ میں ہم پاکستانی زلزلوں کے دہانوں پر رہتے
ہیں مگر پورے ملک میں ایک بھی ایسا ادارہ نہیں جو ملبہ میں دبے لوگوں کو انکی موت
سے پہلے نکال سکیں ۔ ہم نے ١٩٦٥ء میں ہنگامی صورتحال سے نبٹنے کے لیے شہری دفاع کا
محکمہ بنایا تھا ، اس محکمے کے اہلکار ٤٠ سال سے تنخواہیں لے رہے ہیں لیکن جب ملک
میں ہنگامی صورتحال آئی تو یہ محکمہ شاید کہی نظر نہیں آیا پتا چلا کہ اس محکمہ کے
پاس ایک گاڑی اور سیڑھی تک موجود نہیں ، ابھی تو ہمیں سبق سیکھ کر اس اپنے اس محکمے
کو پوری طرح آرگنایز کر لینا چاہیے۔ برطانیہ کی طرح ہم بھی گر کہی بھی دنیا میں کو
ئی سنگین حادثہ ہو تو ہم شہری دفاع کے کارکنوں کو وہاں بھجوادیں ، اس سے ان کی
پریکٹس بھی ہوگی اور اپنے ملک کا ٹھوڑا بہت جو امیج ہے وہ بہتر ہوگا۔
اب آجایے پاکستان میں زلزلے کی صورتحال پر ۔ اسلام آباد پاکستان کا جدید ترین و
خوبصورت ترین شہر ہے ۔ ٨ اکتوبر کو یہاں صرف ایک عمارت گری اور ہم پاکستانی اپنے
تمام تو وسائیل کے ساتھ اس عمارت کے ملبے سے نعشیں نہیں نکال سکے ، برطانیہ کے
ورکروں نے آکر اس ملبے سے زندہ لوگ نکالے تھے ۔ ذرا سوچئے اگر خدانخواستہ اسلام
آباد کی دس بیس عمارتیں گر جاتیں تو ہمارا کیا حشر ہوتا۔ می یہ ایک ایسے ملک کی
صورتحال بتا رہا ہوں جو پچھلے ٥٨ برسوں سے حالت جنگ میں ہے ، جو ٥٠ برسوں میں ٥
جنگیں لڑ چکا ہے اور اس خطے کو "فلیش پواینٹ" کرا دیتے ہیں ابھی یہ فلیش پواینٹ کیا
ہوتا مجھے خود ایک جنگی وڈیو گیم کھیل کر پتا چلا ، اور اس ملک کی تیاری کا یہ عالم
کہ وہ اپنے دارلحکومت کی صرف ایک عمارت کے ملبے سے نعشیں تک نہیں نکال سکتا ۔اور
ابھی میں نے امدادی سرگرمیوں کی بات نہیں کی۔ ذرا تصور کریں اگر جنگ ہوجائے اور
ہمارا دشمن ہمارے ٥ بڑے شہروں ہر ١٠ ، ٢٠ بم گرا دے تو ہماری کیا حالت ہوگی۔ مارگلہ
ٹاور کا ملبہ ہم سے سوال ہی پوچھتا ہوگا اور پتا نہیں ملبہ اٹھانے سے پہلے اسکو
سوال کا جواب ملا بھی ہوگا یا نہیں ، جواب ڈھونڈنے سے ملتا ہے سو ہمیں ڈھونڈنا
چاہیے۔
اب میں بات کرونگا جی امداد کے بارے میں جس پر میڈیا والوں کے بہرو کرم سے مجھے غور
کرنے کا وافر موقعہ ملا ، ہمیں ایک ہفتہ میں پاکستان بھر سے اور دنیا بھر سے ریکارڈ
امداد ملی ، والمی برادری اس وقت ٤٠٠ ملین ڈالر نقد اور ٥٠٠ ملین ڈالر کا سامان
بھجوا چکی ہے ایکن یہ امداد صرف ان علاقوں تک محدود ہے جو سڑک کے کنارے پر موجود
ہیں اور انگنت ایسے علاقے ہیں جہاں پانی کی بوند تک نہیں پہنچی ، انتظامات کا
اندازہ لگائیے کے لوگ کراچی سے امداد لاتے تھے اور کوہالہ کے پل ہر تقسیم کر کے
واپس چلے جاتے تھے جس کی وجہ سے کوہالہ سے مظفرآباد سے مانسہرہ سے بالاکوٹ تک راستے
کے تمام گھر گودام بن گئے جبکہ اصل حقدار امداد کا راستہ ہی تکتے رہے ، اس سے ظاہر
ہوتا ہے کہ ہم تمام حقداروں کو امداد تقسیم کرنے کے بھی احل نہیں ہے ۔ سامان تو
موجود ہے پر ضرورت مندوں تک نہیں پہنچا سکتے۔ امریکہ میں پچھلے ٧٠ برسوں میں کترینا
اور ریٹا جیسے دو سیلانب آئے لیکن انہوں نے دسٹری بیوٹیشن کا باقائدہ ناظام بنا
رکھا تھا اور امداد کے ١٠٠ ٹرک ایک ساتھ روانا ہوتے تھے ان کا پہلا ٹرک پہلی منظل
پر رک جاتا تھا جبکہ باقی ٹرک سفر جاری رکھتے تھے۔ دوسرا ٹرک دوسرے مقام تیسرا
تیسرے مقام اور چوتھا چوتھے مقام پر رکتا رہتا یہاں تک کے آخری ٹرک آخری مقام تک
پہنچ جاتا تھا اس طرح امریکیوں نے اپنے ہر متاثرہ انسان تک امداد پہنچائی گر ہم
پاکستانیوں میں سبق سیکھنے کی سقت ہو تو ہم ایک ایسا ادارہ بنالیں جسکا کام امدادی
سرگمیوں کی کوآرڈینیشن ہو جو امدادی سامان کو ٹرکوں کی ایک لاین میں کھڑا کرے انکو
قافلہ کی شکل میں روانہ کرے تو ہم مستقبل میں چند ناگزیر خیالات سے بچ جائنگے جو اس
وقت مجھ جیسے تقریباّہر پاکستانی کے زہن میں ہیں جو زلزلہ کے اس کہر سے بچ گئے
کہتے ہیں قدرت اور قمست ایک بار معقہ دیتی ہے پھر آزماتی ہے ۔۔۔ موقعہ شاید مل چکا
آزمایش ابھی باقی ہے میں اپنی پوسٹ اس بات سے ختم کرونگا کے ابھی بھی میرے زہن میں
سوال موجود ہیں جن کا جواب میں ڈھونڈ رہا ہوں شاید چند جوابات مجھے آپ پڑھنے والوں
سے مل جاہیں ، آپ کے کمنٹس کی شکل میں جوابات کا انتظار رہے گا آپ بتائیے کہ آپ کیا
جانتے ہیں کہ ایک ہنگامی صورتحال سے کیسے نمٹا جائے[/</font></p>
اپنے وقت کے سب سے بڑے سانہہ کو گزرے ہوے کافی وقت ہو چکا ہے ، آہستہ آہستہ اس
ہولناک سانہہ کا زکر ہماری سب کی زبانوں سے بھی مٹتا جا رہا ہے پس اب یہ ٹیلی وشن
چینل اور نیوس میڈیا ہے جو ہمیں یاد دلائے ہے بار بار کے قوم کا ایک حصہ کس قدر
مصیبت میں ہے میں اپنی اس پوسٹ میں زلزلہ زدگان کی تکلیفوں پر بہس کرنے نہیں جارہا
جبکہ میں ایک اور شے کی طرف بات کرنے جا رہا ہو جس نے مجھے زلزلہ کے واقعات کے بعد
سے ایک عجیب کشمکش میں ڈالا ہوا ہے اور وہ ہے برظانیہ کی وہ ٹیم جس نے اسلام آباد
میں زمین بوس ہوی عمارت میں سے قیمتی جانوں کو بچایا ، کچھ سوال تھے جن کے جواب
مجھے مل چکے ، ایسی ایک ٹیم پاکستان کے پاس کیوں نہیں اور کیوں نہیں تھی ؟
زلزلوں میں اب آپ برظانیہ کی مثال لیں ، برطانیہ کی تاریخ کا سب سے بڑا زلزلہ ١٩٣١
میں آیا تھا ، اس زلزلہ کی شدت ٦۔١ تھی اور اسکا مرکز "یارماؤتھ" تھااس زلزلہ سے
برطانیہ کا نا کوئی زہری ہلاک ہوا نا کوئی زخمی لیکن اسکے باوجود برطانیہ نے زلزلہ
سے نبٹنے کا ایک یونٹ بنا لیا۔ یہ یونٹ آج تک کام کر رہا ہے ١٩٦٠ء کی دہائی میں
اسیونٹ کو ٣٠ سال ہوگئے تو کسی نے اس کے وجود پر اعتراض کیا مگر حکومت نے یہ ادارہ
ختم کرنے کے بجائے اسے مزید وسعت دے دی ۔ برطانیہ نے ١٩٦٣ء میں ڈی ای سی (ڈیزاسٹر
ایمرجنسی کمیٹی) کے نام سے ایک بڑا ادارہ بنایا اور زلزلہ کے متاثرین کے لیے بننے
والے ١٣ بڑے اداروں کے ساتھ منسلک کر دیا جس کے بعد اس نے عالمی شہرت اختیار کرلی۔
آج دنیا میں جہاں کہی بھی زلزلہ آتا ہے ڈی ای سی کے ورکرز فوراّ وہاں پہنچ جاتے ہیں
اور امدادی سرگرمیاں شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے ادارہ کے کارکنوں کی پریکٹس بھی
ہوجاتی ہے اور برطانیہ کا امیج بھی بہتر ہوجاتا ہے ، ان اداروں کو بنے اب ٧٤ برس ہو
چکے ہیں، ٧٥ سالوں سے انکے لیے ہر سال بطٹ رلیز ہوتا ہے ، ان کی کارکردگی کو دیکھتے
ہوے برطانیہ میں آج تک کسی نے ان اداروں کو معاشی بوجھ قرار دیا اور نہ ہی کسی نے
ان کو بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہی صورت حال دوسرے ممالک کی بھی ہے اس وقت پاکستان
میں ٢٨٧٣ امدادی ورکرز کام کر رہے ہیں ، یہ ورکرز متحدہ عرب امارات ، سویٹزرلینڈ ،
چین ، فرانس ، جاپان ، ایران ، برطانیہ ، ترکی ، جرمنی ، روس ، ملایشیا ، سپین ،
پولینڈ ، اٹلی ، آزر بائیجان ، سنگاپور ، اردن ، ہنگری ، سویڈن اور جنوبی کوریا سے
تعلق رکھتے ہیں ۔ ان ٢٠ ممالک میں سے صرف جاپان میں زلزلے آتے ہیں ۔ یورپ کے ١٦
ممالک میں پچلھے ١٠٠ سال سے کوئی بڑا زلزلہ نہیں آیا لیکن اس کے باوجود ان ممالک نے
نا صرف ریسکیو کے ادارے بنا رکھے ہیں بلکہ ان کے ورکرز ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرکے
پاکستان جیسے ممالک میں خدمت سرانجان دیتے ہیں۔ آپ حد دیکھے کہ ماحرین نے یورپ کو
زلزلوں سے محفوظ کرار دیرکھا ہے لیکن اس کے باوجود یورپ کے تمام ممالک میں زلزلہ کے
ریسکیو مرکز موجود ہیں جبکہ اس کے مقابلہ میں ہم پاکستانی زلزلوں کے دہانوں پر رہتے
ہیں مگر پورے ملک میں ایک بھی ایسا ادارہ نہیں جو ملبہ میں دبے لوگوں کو انکی موت
سے پہلے نکال سکیں ۔ ہم نے ١٩٦٥ء میں ہنگامی صورتحال سے نبٹنے کے لیے شہری دفاع کا
محکمہ بنایا تھا ، اس محکمے کے اہلکار ٤٠ سال سے تنخواہیں لے رہے ہیں لیکن جب ملک
میں ہنگامی صورتحال آئی تو یہ محکمہ شاید کہی نظر نہیں آیا پتا چلا کہ اس محکمہ کے
پاس ایک گاڑی اور سیڑھی تک موجود نہیں ، ابھی تو ہمیں سبق سیکھ کر اس اپنے اس محکمے
کو پوری طرح آرگنایز کر لینا چاہیے۔ برطانیہ کی طرح ہم بھی گر کہی بھی دنیا میں کو
ئی سنگین حادثہ ہو تو ہم شہری دفاع کے کارکنوں کو وہاں بھجوادیں ، اس سے ان کی
پریکٹس بھی ہوگی اور اپنے ملک کا ٹھوڑا بہت جو امیج ہے وہ بہتر ہوگا۔
اب آجایے پاکستان میں زلزلے کی صورتحال پر ۔ اسلام آباد پاکستان کا جدید ترین و
خوبصورت ترین شہر ہے ۔ ٨ اکتوبر کو یہاں صرف ایک عمارت گری اور ہم پاکستانی اپنے
تمام تو وسائیل کے ساتھ اس عمارت کے ملبے سے نعشیں نہیں نکال سکے ، برطانیہ کے
ورکروں نے آکر اس ملبے سے زندہ لوگ نکالے تھے ۔ ذرا سوچئے اگر خدانخواستہ اسلام
آباد کی دس بیس عمارتیں گر جاتیں تو ہمارا کیا حشر ہوتا۔ می یہ ایک ایسے ملک کی
صورتحال بتا رہا ہوں جو پچھلے ٥٨ برسوں سے حالت جنگ میں ہے ، جو ٥٠ برسوں میں ٥
جنگیں لڑ چکا ہے اور اس خطے کو "فلیش پواینٹ" کرا دیتے ہیں ابھی یہ فلیش پواینٹ کیا
ہوتا مجھے خود ایک جنگی وڈیو گیم کھیل کر پتا چلا ، اور اس ملک کی تیاری کا یہ عالم
کہ وہ اپنے دارلحکومت کی صرف ایک عمارت کے ملبے سے نعشیں تک نہیں نکال سکتا ۔اور
ابھی میں نے امدادی سرگرمیوں کی بات نہیں کی۔ ذرا تصور کریں اگر جنگ ہوجائے اور
ہمارا دشمن ہمارے ٥ بڑے شہروں ہر ١٠ ، ٢٠ بم گرا دے تو ہماری کیا حالت ہوگی۔ مارگلہ
ٹاور کا ملبہ ہم سے سوال ہی پوچھتا ہوگا اور پتا نہیں ملبہ اٹھانے سے پہلے اسکو
سوال کا جواب ملا بھی ہوگا یا نہیں ، جواب ڈھونڈنے سے ملتا ہے سو ہمیں ڈھونڈنا
چاہیے۔
اب میں بات کرونگا جی امداد کے بارے میں جس پر میڈیا والوں کے بہرو کرم سے مجھے غور
کرنے کا وافر موقعہ ملا ، ہمیں ایک ہفتہ میں پاکستان بھر سے اور دنیا بھر سے ریکارڈ
امداد ملی ، والمی برادری اس وقت ٤٠٠ ملین ڈالر نقد اور ٥٠٠ ملین ڈالر کا سامان
بھجوا چکی ہے ایکن یہ امداد صرف ان علاقوں تک محدود ہے جو سڑک کے کنارے پر موجود
ہیں اور انگنت ایسے علاقے ہیں جہاں پانی کی بوند تک نہیں پہنچی ، انتظامات کا
اندازہ لگائیے کے لوگ کراچی سے امداد لاتے تھے اور کوہالہ کے پل ہر تقسیم کر کے
واپس چلے جاتے تھے جس کی وجہ سے کوہالہ سے مظفرآباد سے مانسہرہ سے بالاکوٹ تک راستے
کے تمام گھر گودام بن گئے جبکہ اصل حقدار امداد کا راستہ ہی تکتے رہے ، اس سے ظاہر
ہوتا ہے کہ ہم تمام حقداروں کو امداد تقسیم کرنے کے بھی احل نہیں ہے ۔ سامان تو
موجود ہے پر ضرورت مندوں تک نہیں پہنچا سکتے۔ امریکہ میں پچھلے ٧٠ برسوں میں کترینا
اور ریٹا جیسے دو سیلانب آئے لیکن انہوں نے دسٹری بیوٹیشن کا باقائدہ ناظام بنا
رکھا تھا اور امداد کے ١٠٠ ٹرک ایک ساتھ روانا ہوتے تھے ان کا پہلا ٹرک پہلی منظل
پر رک جاتا تھا جبکہ باقی ٹرک سفر جاری رکھتے تھے۔ دوسرا ٹرک دوسرے مقام تیسرا
تیسرے مقام اور چوتھا چوتھے مقام پر رکتا رہتا یہاں تک کے آخری ٹرک آخری مقام تک
پہنچ جاتا تھا اس طرح امریکیوں نے اپنے ہر متاثرہ انسان تک امداد پہنچائی گر ہم
پاکستانیوں میں سبق سیکھنے کی سقت ہو تو ہم ایک ایسا ادارہ بنالیں جسکا کام امدادی
سرگمیوں کی کوآرڈینیشن ہو جو امدادی سامان کو ٹرکوں کی ایک لاین میں کھڑا کرے انکو
قافلہ کی شکل میں روانہ کرے تو ہم مستقبل میں چند ناگزیر خیالات سے بچ جائنگے جو اس
وقت مجھ جیسے تقریباّہر پاکستانی کے زہن میں ہیں جو زلزلہ کے اس کہر سے بچ گئے
کہتے ہیں قدرت اور قمست ایک بار معقہ دیتی ہے پھر آزماتی ہے ۔۔۔ موقعہ شاید مل چکا
آزمایش ابھی باقی ہے میں اپنی پوسٹ اس بات سے ختم کرونگا کے ابھی بھی میرے زہن میں
سوال موجود ہیں جن کا جواب میں ڈھونڈ رہا ہوں شاید چند جوابات مجھے آپ پڑھنے والوں
سے مل جاہیں ، آپ کے کمنٹس کی شکل میں جوابات کا انتظار رہے گا آپ بتائیے کہ آپ کیا
جانتے ہیں کہ ایک ہنگامی صورتحال سے کیسے نمٹا جائے[/</font></p>