نیرنگ خیال
لائبریرین
میں گزشتہ دنوں سے غم و غصے کی جس کیفیت میں ہوں شاید میں اس کو الفاظ میں کبھی بھی نہ ڈھال سکوں۔ خدا گواہ ہے کہ جب میں سوشل میڈیا پر انا للہ و انا الیہ راجعون لکھ رہا تھا تو میرے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ ایک لہر تھی جو میرے پورے وجود میں دوڑ رہی تھی۔ میں اس کو غم سمجھ رہا تھا۔ لیکن مجھے احساس ہوا کہ یہ نفرت کی لہر تھی۔ جو میرے پورے احساسات اور وجود پر حاوی ہو گئی تھی۔ نفرت اور اس قدر شدید نفرت۔ مجھے اپنے آپ سے الجھن ہو رہی تھی۔ اپنی حلیم طبع مجھے بار محسوس ہو رہی تھی۔ میری مروت اخلاق لحاظ داری سب کچھ ایک جھٹکے میں اتر چکا تھا۔ میں ہذیان بک رہا تھا۔ اور بکے چلے جا رہا تھا۔ لعنت و ملامت کا جو دورہ مجھے پڑا تھا اس سے مجھے چھٹکارے کی کوئی صورت ابھی تک نظر نہیں آرہی۔ خود پر ملامت، ان اہلکاروں پر ملامت جو اپنی مصروفیتوں میں اس قدر مگن تھے کہ انہیں خبر نہ ہوئی۔
لوگ کہتے ہیں کہ اور قیامت کس کو کہتے ہیں۔ کیسی ہوگی قیامت۔ مگر مجھے لگ رہا کہ قیامت کہ دن تو کوئی کسی کو نہ مارے گا۔ کوئی بھی نہ مرے گا۔ سب زندہ کیے جائیں گے۔ تو پھر یہ کیسی قیامت ہے کہ جس میں لوگ مارے جا رہے ہیں۔ نہتے بچوں پر کچھ بیسواؤں کی اولادیں اپنی نشانہ بازی کی مشقیں کر رہی ہیں۔ عورتوں کو زندہ جلایا جا رہا ہے۔ شیطان کے پجاری ننگا ناچ رہے ہیں۔
دفتر میں روزمرہ کے معمولات میں مصروف تھے ہم کہ چائے پینے جب کیفے میں آئے تو سامنے ٹی وی پر دردناک مناظر نظر آنے لگے۔ اس کے بعد خبریں ملنا شروع ہوئیں۔ اور دل کا وہ عالم ہواکہ "اشکوں سے بحر ہوگیا صحرا نہیں رہا"۔ اس کے بعد کام میں دل نہ لگا۔ شام کو گھر آتے ہی نصف بہتر کو دیکھا جو اپنے باورچی خانہ کے کاموں میں الجھی تھی۔ دونوں بچے سب سے بےفکر ایک دوسرے سے لڑائی میں مصروف تھے۔ کبھی ایک کھلونے پر لڑائی جاری ہے۔ تو کبھی دوسرے پر۔ میں نے نصف بہتر سے کہا کہ آج پشاور میں جو کچھ گزرا ہے۔ قیامت کا لفظ بھی مجھے چھوٹا لگ رہا ہے۔ تو اس نے جواب دیا کہ کیا ہوا۔ مجھے تو آج پورا دن ٹی وی دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا، کیا ہوا ہے؟ تفصیل بتائیں۔ آپ بچوں کو سنبھالیں اب۔ یہ سن کر میرا درد اور بھی بڑھ گیا۔ کتنی ہی مائیں ہوں گی جو اپنے بچوں کو اس دن اسکول بھیج کر مطمئن ہو گئی ہوں گی۔ اپنے کام کاج میں پتا نہیں انہیں خبر بھی ملی ہوگی کہ نہیں کہ ان کا لخت جگر کچھ انسان صورت کتوں کے ہاتھوں شہید ہوچکا ہے۔ پتا نہیں کب انہوں نے بھی ٹی وی چلایا ہوگا۔ شاید کسی ہمسائے نے آکر بتایا ہو کہ آج اس اسکول پر یہ قیامت گزر گئی۔ لوگ کیسے بھاگے ہوں گے۔ باپ بھاگا ہوگا۔ میرا بچہ بھی تو وہیں پڑھتا ہے۔ میں دیکھوں۔ اللہ اکبر۔۔۔ اللہ اکبر۔۔۔
ساری رات آنکھوں میں کاٹ دی۔ کبھی ایک بچے کو دیکھتا۔ کبھی دوسرے کو۔ میری آنکھوں کی روشنی ان سے ہے۔ میرے والدین کی آنکھوں کی روشنی مجھ سے ہے۔ کیسے کوئی ظالم ہوگا جو ان روشنیوں کو بجھا دے گا۔ اولاد تو سرمایہ ہے۔ روشنی ہے۔ راستہ ہے۔ دل کٹتا جاتا ہے۔ جتنا سوچتا ہوں تلافی ممکن نہیں نظر آتی۔ کتابوں میں پڑھا تھا کہ فرعون بڑا ظالم تھا۔ بچے مار دیتا تھا۔ ہلاکو خان چنگیز خان نے سب کو مارا۔ لیکن یوں بھی کسی نے کبھی مارا ہوگا۔ مجھے تو ان طوائف زادوں میں سے کسی کا نام بھی نہیں آتا، کہ فرعون ، ہلاکو خان اور چنگیز خان کے مقابل پیش کر سکوں۔ دیکھو اسی بات پر تم اتراتے تھے کہ تم سے زیادہ ظالم کوئی تاریخ میں نہ آئے گا۔ آج چند افراد اٹھے ہیں جنہوں نے تمہارے ظلم کو دھندلا دیا ہے۔ لیکن افسوس کہ مجھے ان کے نام نہیں آتے۔ وگرنہ میں لکھتا اور اپنی آنے والی نسلوں کو تاکید کر کے جاتا کہ دیکھو ان ناموں میں کوئی نام اپنے آنے والے بچوں کہ نہ رکھ دینا۔ کہ ان سے منسوب انسان نما جانوروں پر تمام قوم کی لعنت ہے۔
وقت تو یہ ہے کہ ہم سب ہتھیار اٹھا لیں ان جنونی درندوں کتوں کی مخالفت میں۔ جو نہ صرف انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں۔ بلکہ جنہوں نے مذہب کو بھی اس قدر بدنام کر دیا ہے کہ لوگ اب خود کو مسلم کہتے ہوئے سر جھکا لیتے ہیں۔ ان پیسے کے لئے بکنے والے کتوں نے نہ انسانیت کا پاس رکھا اور نہ مذہب کا۔ مذہب سے تو خیر ان کا تعلق تھا ہی نہیں لیکن انسانیت تو سب کے لئے ایک جیسی رہتی ہے۔ اس سے بھی منہ موڑ لیا۔
ہمارا یہاں دل پھٹ گیا ہے۔ لوگ ابھی تک غم و غصے اور نفرت کی لہر سے باہر نہیں آئے۔ تو وہ گھرانے جن پر یہ قیامت بیت گئی۔ جو ان خون آشام درندوں کی درندگی کا شکار ہوگئے۔ وہاں کیسی صف ماتم بچھی ہوگی۔ دیکھنے کی ہمت نہیں۔ سننے کی تاب نہیں۔ کاش شتر مرغ ہوتے ہم ۔ کاش ہم بھی ریت میں سر دبا لیتے۔ کاش۔ کاش کاش۔۔۔۔۔ اب تو بس ایک ہی خواہش ہےکہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے یہ تمام شیطان کے کارندے اپنے انجام کو پہنچیں۔ جتنی جلدی ممکن ہو سکے۔۔۔
لوگ کہتے ہیں کہ اور قیامت کس کو کہتے ہیں۔ کیسی ہوگی قیامت۔ مگر مجھے لگ رہا کہ قیامت کہ دن تو کوئی کسی کو نہ مارے گا۔ کوئی بھی نہ مرے گا۔ سب زندہ کیے جائیں گے۔ تو پھر یہ کیسی قیامت ہے کہ جس میں لوگ مارے جا رہے ہیں۔ نہتے بچوں پر کچھ بیسواؤں کی اولادیں اپنی نشانہ بازی کی مشقیں کر رہی ہیں۔ عورتوں کو زندہ جلایا جا رہا ہے۔ شیطان کے پجاری ننگا ناچ رہے ہیں۔
دفتر میں روزمرہ کے معمولات میں مصروف تھے ہم کہ چائے پینے جب کیفے میں آئے تو سامنے ٹی وی پر دردناک مناظر نظر آنے لگے۔ اس کے بعد خبریں ملنا شروع ہوئیں۔ اور دل کا وہ عالم ہواکہ "اشکوں سے بحر ہوگیا صحرا نہیں رہا"۔ اس کے بعد کام میں دل نہ لگا۔ شام کو گھر آتے ہی نصف بہتر کو دیکھا جو اپنے باورچی خانہ کے کاموں میں الجھی تھی۔ دونوں بچے سب سے بےفکر ایک دوسرے سے لڑائی میں مصروف تھے۔ کبھی ایک کھلونے پر لڑائی جاری ہے۔ تو کبھی دوسرے پر۔ میں نے نصف بہتر سے کہا کہ آج پشاور میں جو کچھ گزرا ہے۔ قیامت کا لفظ بھی مجھے چھوٹا لگ رہا ہے۔ تو اس نے جواب دیا کہ کیا ہوا۔ مجھے تو آج پورا دن ٹی وی دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا، کیا ہوا ہے؟ تفصیل بتائیں۔ آپ بچوں کو سنبھالیں اب۔ یہ سن کر میرا درد اور بھی بڑھ گیا۔ کتنی ہی مائیں ہوں گی جو اپنے بچوں کو اس دن اسکول بھیج کر مطمئن ہو گئی ہوں گی۔ اپنے کام کاج میں پتا نہیں انہیں خبر بھی ملی ہوگی کہ نہیں کہ ان کا لخت جگر کچھ انسان صورت کتوں کے ہاتھوں شہید ہوچکا ہے۔ پتا نہیں کب انہوں نے بھی ٹی وی چلایا ہوگا۔ شاید کسی ہمسائے نے آکر بتایا ہو کہ آج اس اسکول پر یہ قیامت گزر گئی۔ لوگ کیسے بھاگے ہوں گے۔ باپ بھاگا ہوگا۔ میرا بچہ بھی تو وہیں پڑھتا ہے۔ میں دیکھوں۔ اللہ اکبر۔۔۔ اللہ اکبر۔۔۔
ساری رات آنکھوں میں کاٹ دی۔ کبھی ایک بچے کو دیکھتا۔ کبھی دوسرے کو۔ میری آنکھوں کی روشنی ان سے ہے۔ میرے والدین کی آنکھوں کی روشنی مجھ سے ہے۔ کیسے کوئی ظالم ہوگا جو ان روشنیوں کو بجھا دے گا۔ اولاد تو سرمایہ ہے۔ روشنی ہے۔ راستہ ہے۔ دل کٹتا جاتا ہے۔ جتنا سوچتا ہوں تلافی ممکن نہیں نظر آتی۔ کتابوں میں پڑھا تھا کہ فرعون بڑا ظالم تھا۔ بچے مار دیتا تھا۔ ہلاکو خان چنگیز خان نے سب کو مارا۔ لیکن یوں بھی کسی نے کبھی مارا ہوگا۔ مجھے تو ان طوائف زادوں میں سے کسی کا نام بھی نہیں آتا، کہ فرعون ، ہلاکو خان اور چنگیز خان کے مقابل پیش کر سکوں۔ دیکھو اسی بات پر تم اتراتے تھے کہ تم سے زیادہ ظالم کوئی تاریخ میں نہ آئے گا۔ آج چند افراد اٹھے ہیں جنہوں نے تمہارے ظلم کو دھندلا دیا ہے۔ لیکن افسوس کہ مجھے ان کے نام نہیں آتے۔ وگرنہ میں لکھتا اور اپنی آنے والی نسلوں کو تاکید کر کے جاتا کہ دیکھو ان ناموں میں کوئی نام اپنے آنے والے بچوں کہ نہ رکھ دینا۔ کہ ان سے منسوب انسان نما جانوروں پر تمام قوم کی لعنت ہے۔
وقت تو یہ ہے کہ ہم سب ہتھیار اٹھا لیں ان جنونی درندوں کتوں کی مخالفت میں۔ جو نہ صرف انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں۔ بلکہ جنہوں نے مذہب کو بھی اس قدر بدنام کر دیا ہے کہ لوگ اب خود کو مسلم کہتے ہوئے سر جھکا لیتے ہیں۔ ان پیسے کے لئے بکنے والے کتوں نے نہ انسانیت کا پاس رکھا اور نہ مذہب کا۔ مذہب سے تو خیر ان کا تعلق تھا ہی نہیں لیکن انسانیت تو سب کے لئے ایک جیسی رہتی ہے۔ اس سے بھی منہ موڑ لیا۔
ہمارا یہاں دل پھٹ گیا ہے۔ لوگ ابھی تک غم و غصے اور نفرت کی لہر سے باہر نہیں آئے۔ تو وہ گھرانے جن پر یہ قیامت بیت گئی۔ جو ان خون آشام درندوں کی درندگی کا شکار ہوگئے۔ وہاں کیسی صف ماتم بچھی ہوگی۔ دیکھنے کی ہمت نہیں۔ سننے کی تاب نہیں۔ کاش شتر مرغ ہوتے ہم ۔ کاش ہم بھی ریت میں سر دبا لیتے۔ کاش۔ کاش کاش۔۔۔۔۔ اب تو بس ایک ہی خواہش ہےکہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے یہ تمام شیطان کے کارندے اپنے انجام کو پہنچیں۔ جتنی جلدی ممکن ہو سکے۔۔۔