بزرگوں اور اساتذہ نے بچپن میں ہمیں یہی بتایا تھا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور ہم نے بھی اس پر یقین کر لیا۔ لیکن آج تک کسی نے ہمیں یہ نہیں کہا کہ پاکستان اسلام کے لئیے بنایا گیا۔ وہ اسلام کے جو ایک انسان کے نا حق قتل کو پوری انسانیت کا قتل کہتا ہے۔ لہذا پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس بات کا ثبوت فراہم کرتا ہے کہ ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پہ بنایا لیکن اپنے ذاتی ، گروہی ، فروعی ، لسانی ، مسلکی اور نہ جانے کون کون سے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئیے۔ اسلام کے لئیے نہیں۔ یہ وہ پاکستان ہی نہیں جو محمد علی جناح کا مطمع نظر تھا۔ آج بابائے قوم کے شہر ہی میں اس ملک کے قانون کے رکھوالوں نے جس قسم کی بر بریت کا مظاہرہ کیا وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ اور اپنے جرم پہ جس مکروہ طریقے سے ان خباثت کے پر کالوں نے پردہ ڈالنے کی کوشش کی وہ کمینگی کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔
ابھی اس خبر پہ دل جل ہی رہا تھا کہ دوسری خبر نظر سے گزری اور ایک حل طلب سوال چھوڑ گئی کہ ہمارے ارباب اختیار اتنے بے حس اور بے بس کیوں ہیں کہ کوئی ایک گروہ دوسرے گروہ کو بر سرعام قتل کی دھمکیاں دے وہ بھی تحریری ثبوت کے ساتھ اور ان کے ذمہ دار اداروں اور اہلکاروں کو اس کی خبر ہی نہیں۔
لا قانونیت اور جبر کی وہ انتہا ہے کہ الفاظ اس کی تصویر کشی نہیں کر سکتے لیکن ہمارے حکمران بتیسیاں نکال نکال کر یوں عوام کے سامنے جلوہ افروز ہوتے ہیں کہ خون کھول اٹھتا ہے۔
معاشرہ اور معاش دونوں ان کے ہاتھوں تباہ ہوئے ۔ بصیرت تو ان کی جیسی تھی ہی ، بصارت اتنی کمزور کہ نوشتہ دیوار بھی نہیں پڑھ سکتے۔ کوئی ان سے کیا توقع رکھے؟۔
ابھی اس خبر پہ دل جل ہی رہا تھا کہ دوسری خبر نظر سے گزری اور ایک حل طلب سوال چھوڑ گئی کہ ہمارے ارباب اختیار اتنے بے حس اور بے بس کیوں ہیں کہ کوئی ایک گروہ دوسرے گروہ کو بر سرعام قتل کی دھمکیاں دے وہ بھی تحریری ثبوت کے ساتھ اور ان کے ذمہ دار اداروں اور اہلکاروں کو اس کی خبر ہی نہیں۔
لا قانونیت اور جبر کی وہ انتہا ہے کہ الفاظ اس کی تصویر کشی نہیں کر سکتے لیکن ہمارے حکمران بتیسیاں نکال نکال کر یوں عوام کے سامنے جلوہ افروز ہوتے ہیں کہ خون کھول اٹھتا ہے۔
معاشرہ اور معاش دونوں ان کے ہاتھوں تباہ ہوئے ۔ بصیرت تو ان کی جیسی تھی ہی ، بصارت اتنی کمزور کہ نوشتہ دیوار بھی نہیں پڑھ سکتے۔ کوئی ان سے کیا توقع رکھے؟۔