کوئی اُمید نہ تھی، پھر بھی پاس آہی گیا - راج کمار قیس

کاشفی

محفلین
غزل
(راج کمار قیس)

کوئی اُمید نہ تھی، پھر بھی پاس آہی گیا
اگرچہ وعدہ تھا جھوٹا مگر نبھا ہی گیا

وہ التفات پہ آیا پر احتیاط کے ساتھ
نظر ملائی مگر حالِ دل چھپا ہی گیا

دل تباہ کو زخموں سے مالا مال کیا
خزاں کا دَور تھا لیکن وہ گل کھلا ہی گیا

مرے قریب سے گزرا خیال کی صورت
سکوتِ ناز مگر کچھ نہ کچھ سنا ہی گیا

نظر کی کاٹ کچھ ایسی کہ جان لےہی گئی
بدن کا لوچ کچھ ایسا کہ دل ہلا ہی گیا

پھر آج ایک تبسم پہ ہوش کھو بیٹھا
پھر آج عشق کو دیکھا، فریب کھا ہی گیا

مرا سکون اُسے ناگوار تھا اتنا
مرے مزار پہ آیا، مجھے جگا ہی گیا

کبھی گھٹا، کبھی بجلی، کبھی شفق بن کر
زمیں کا شخص تھا پر آسماں پہ چھا ہی گیا

ہو ذکر اُس کا تو پڑھتے ہیں لوگ شعر مرے
مرا کلام زمانے کے کام آہی گیا

یہ قیس جیسا بھی ہے، اس قدر برا تو نہیں
تمہاری بزم میں آیا، غزل سنا ہی گیا
 

جیا راؤ

محفلین
وہ التفات پہ آیا پر احتیاط کے ساتھ
نظر ملائی مگر حالِ دل چھپا ہی گیا


بہت خوبصورت غزل ہے۔۔۔ شئیر کرنے کا شکریہ۔۔ :)
 

کاشفی

محفلین
سخنور صاحب
-
فاتح صاحب
-
جیاراؤ صاحبہ
اور
علی فاروقی صاحب
آپ تمام کا بیحد شکریہ۔۔خوش رہیں۔
 
Top