کوئی بات نہیں ٭ ام حفصہ

سین خے

محفلین
ذبردست! بہت ہی عمدہ پیغام پہنچاتی تحریر :) تحریر میں روانی بہت اچھی ہے اور بے سبب تحریر کو کھینچا بھی نہیں گیا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
کوئی بات نہیں
تحریر: ام حفصہ

یہ جملہ آج بہت سے گھروں سے ناپید ہو چکا ہے۔اور چونکہ معاشرہ افراد پر مبنی ہوتا یے تو اس لحاظ سے لوگوں میں یہ رجحان کم ہوتا جا رہا ہے کہ دوسرے کی غلطی معاف کر دیں اور کوئی بات نہیں کہہ کر بات کو ختم کر دیں۔

کل ہی کہیں کسی صاحب کا واقعہ پڑھنے کو ملا وہ کہتے ہیں کہ آج جب دفتر سے گھر لوٹا تو میری بیوی انتہائی پریشان تھی۔
میں نے پوچھا کہ کیا ہوا تو کہنے لگی آج واشنگ مشین میں کپڑے دھوتے ہوئے اچانک نظر پڑی کہ آپ کا پاسپورٹ بھی ساتھ ہی دھل گیا ہے۔
وہ صاحب بتاتے ہیں کہ پہلے تو مجھے بہت ہی شدید غصہ آیا اور دل چاہا کہ فورا ہی پھٹ پڑوں مگر فوراً ہی ایک خیال آیا اور بیوی سے کہا: "خیر ہے کوئی بات نہیں"۔ یہ سننا تھا کہ میری بیوی جس کی ہوائیاں اڑ رہی تھیں، فورا ہی نارمل ہو گئی اور مسکرانے لگی۔ وہ صاحب کہتے ہیں کہ مجھے فوری کوئی سفر کرنا تھا لہٰذا مجھے پاسپورٹ کی بھی اشد ضرورت تھی میں نے سوچا پاسپورٹ تو نیا بنوانا ہی ہے تو بجائے اسکے کہ چیخ و پکار کی جائے اس معاملے کو ختم کردیاجائے اس طرح ہم میاں بیوی بھی پرسکون ہو گئے اور گھر کا ماحول بھی خراب نہیں ہوا۔

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا ہی خوبصورت فرمان ہے
ارشاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم : جو شخص انتقام کی قدرت کے باوجود غصہ پی جاتا ہے تو اللہ تعالی قیامت کے دن اس شخص کو تمام مخلوقات کے سامنے بلا کر فرمائے گا کہ آج تم جنت کی جس حور کا انتخاب کرنا چاہو جاکر انتخاب کرلو ۔ [ ابو داود الترمذی ، بروایت انس بن معاذ ] ۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ غصہ کرنے اور پھٹ پڑنے سے معاملات سلجھ جائیں گے۔جبکہ اس سے معاملات اور بگڑ جاتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ جب تک ہم غصہ نہ کریں اپنی بات نہ کہہ دیں ہم پرسکون نہیں ہوتے۔

ہمارا دین ہمیں عفو درگزر اور معاف کردینے کی تعلیم دیتا ہے۔ اگر ہم چاہیں تو ناخوشگوار واقعات اور حالات کے وقت اپنے آپ پر قابو پاسکتے ہیں اور اس بات کی دلیل سورہ آل عمران کی اس آیت سے ملتی ہے۔

الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاء وَالضَّرَّاء وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿سوره آل عمران آیت نمبر 134﴾
ترجمہ : "وہ جو اللہ کے راہ میں خرچ کرتے ہیں خوشی میں اور رنج میں اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے، اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔"

یعنی اللہ نے جو جذبات ہمارے اندر رکھے ہیں وہ ان سے سب سے زیادہ بخوبی واقف ہے ۔ اگر اس نے انسانوں کے اندر غصے کا جذبہ رکھا ہے تو وہی جانتا ہے کہ اس پر قابو بھی پایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بشارت الگ کے ایسے لوگ اللہ کو محبوب ہوتے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ میرے چھوٹے بھائی سے موٹرسائیکل کہیں ٹکرا گئی گھر آیا تو اس کو کافی چوٹیں لگیں ہوئی تھیں اس نے مجھے بھی والدین کو بتانے سے منع کر دیا اور خود بھی نہیں بتایا۔ظاہر ہے کہ اسے والد صاحب کی ڈانٹ کا خوف اور ان کی ناراضگی کا ڈر تھا جس کی وجہ سے وہ بتانا نہیں چاہتا تھا۔
اس کی چوٹوں کو دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے جاکر والد صاحب کو بتا دیا وہ انتہائی پریشانی کے عالم میں کمرے میں آئے اور بھائی کو پیار کیا اور بار بار یہی کہتے رہے
"کوئی بات نہیں بیٹا، کوئی بات نہیں"
بائیک کا بھی کافی نقصان ہوا تھا مگر میرے والد صاحب نے پھر بھی بھائی کو بالکل نہ ڈانٹا اور آرام سے سمجھاتے رہے۔

میں سوچتی ہوں کہ اگر اس وقت والد صاحب نرمی کا برتاؤ نہ کرتے تو اس کے کتنے برے اثرات میرے بھائی پر پڑتے وہ آئندہ ہمیشہ کے لیے والد صاحب سے متنفر ہو جاتا۔ اپنی باتوں کو والد صاحب سے چھپانے میں ہی عافیت سمجھتا۔

تین الفاظ پر مشتمل یہ جملہ آپ کو زندگی بھر کے پچھتاوے ، شرمندگی اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے وقت غصہ کرنے کے بعد کی کڑواہٹ، بدمزگی اور عرصہ دراز تک کی دل آزاری جیسے احساسات سے بچا سکتا ہے۔

کچھ دن پہلے بازار جانا ہوا وہاں ایک آدمی اپنی بائیک پارکنگ ایریا سے نکال رہا تھا۔ پیچھے نہ دیکھنے کی وجہ سے بائیک گاڑی سے ٹکرا گئی اور اس کے سامنے والی لائٹیں ٹوٹ گئیں۔
بظاہر تو یہ بہت بڑا نقصان ہوا۔ اور غصے والی بات بھی تھی مگر بائیک والے نے فوراً ہی اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگی اور گاڑی کے مالک سے کہا کہ "آپ کا نقصان پورا کرنے کی میری استطاعت نہیں"۔
گاڑی والے نے بھی اپنے غصے پر قابو پایا اور بولا "کوئی بات نہیں غلطی ہو جاتی ہے"۔
گھر آ کر میں سوچتی رہی کہ اگر وہ بندہ بائیک والے کو معاف نہ کرتا تو کتنا جھگڑا ہوتا ساری دنیا تماشہ دیکھتی اور دو لوگ ایک دوسرے کے دست و گریبان ہوجاتے۔

اسی طرح میرے دونوں بڑے جیٹھوں کے ساتھ الگ الگ یہ واقعہ پیش آچکا ہے۔کہ وہ اپنی گاڑی ٹویٹا کرولا میں سفر کر رہے تھے کہ ایک ٹرک نے اور میرےایک جیٹھ کی گاڑی کو سکواڈ کی ایک گاڑی نے ٹکر ماردی۔دونوں کو 8٬10 ہزار کا نقصان اٹھانا پڑا مگر اس وقت جب یہ واقعات پیش آئے تو دونوں نے ہی گفت و شنید کے بعد متحمل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاف کردیا۔

لوگوں کو معاف کرنے سے ہی معاف کرنے کی عادت پیدا ہوتی ہے۔
اس جملہ کو اپنی زندگی میں رائج کرنے کے لئے چند باتوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
1- ہر وقت لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم اور تعوذ کا ورد رکھیں اس سے شیطان آپ سے دور رہے گا۔
2- گھریلو خواتین گھر میں کھانا پکاتے ہوئے آٹا گوندھتے ہوئے ،روٹیاں پکاتے ہوئے اور پانی پر بھی سورہ الناس و الفلق پڑھ کر پھونکتی رہیں۔
اس طرح آپ کے کام بھی ہوتے رہیں گے اور ساتھ ساتھ ذکر الہی بھی ہوتا رہے گا۔
3- دن میں دس میں سے ایک بات پر روزانہ اس جملے کو کہنے کی عادت بنائیں۔
4_مسئلوں کا حل نکالیے۔بجائے ہر بار تنگ ہونے کے۔جھگڑوں اورباتوں کو دوہرانے سے مسئلہ اپنی جگہ کھڑا رہتا ہے۔
5_ ایک بار بات دوسرے کو سمجھا دیں اور مختصراً بات کریں۔یہ بھی سنت ہے۔ ۔کچھ عرصہ خاموشی اختیار کیجئے۔ پھر بھی مسائل حل نہ ہوں۔ تب دوبارہ بات کیجئے۔ مسلسل کا سمجھانا لمبے لمبے لیکچر دینا۔ بات کی اہمیت کو ختم کر دیتا ہے۔

یہاں ایک بات اور بھی سمجھ لی جائے بچوں کی تربیت گھریلو معاملات کو سلجھانے اور معاشرے میں ہونے والے کبیرہ گناہ مثلاً قتل، چوری، زنا، عدالتوں کی ناانصافی ان باتوں کو ہم، خیر ہے کوئی بات نہیں، جیسا جملہ کہہ کر ٹال نہیں سکتے بلکہ ان پر فوری ردعمل کی اور قانون کی پابندی کروانے کی ضرورت ہو گی۔

اگر ہم یہ بات سوچیں کے درگزر کرنا اللہ کی اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے تو اس پر عمل کرنا ہمارے لیے قدرے آسان ہو گا۔

اس زمرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بدو کو معاف کر دینے والا واقعہ کیا ہی خوبصورت مثال ہے
۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ کی ایک روایت کتاب الوضو اور کتاب الادب دونوں میں نقل کی گئی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک بدو مسجد نبوی میں پیشاب کرنے لگا۔ اس کی اس حرکت کو دیکھ کر صحابہؓ اسے پکڑنے کے لئے دوڑے۔ آنحضورﷺبھی یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ آپ نے صحابہ ؓ کو روکا اور فرمایا: ”اسے چھوڑ دو“۔ جب وہ پیشاب کر چکا تو آنحضورؐ نے صحابہؓ کو حکم دیا کہ جس جگہ اس نے پیشاب کیا ہے وہاں پانی بہا کر جگہ کو صاف کر دو ”فانما بعثتم میسرین و لم تبعثوا معسرین“ (یعنی تم امت مسلمہ کے لوگ، انسانیت کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی خاطر بھیجے گئے ہو، مشکلات پیدا کرنے کے لئے نہیں)۔
اگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بدو کو معاف نہ کرتے تو بات بڑھ جاتی اور وہ اسلام جیسی نعمت سے محروم رہ جاتا۔

وقتی طور پر کسی تلخ بات کو ہضم کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے مگر اس کے ثمرات ہمیں آگے جا کر سمجھ آتے ہیں اور جب ہم اخروی فائدے کو پیش نظر رکھتے ہیں تو اس پر عمل کرنا اور بھی آسان ہو جاتا ہے۔
اس جملے کو کہاں کیسے اور کب استعمال کرنا ہے اب یہ آپ پر منحصر ہے۔
تابش میاں !!!!
سبحان اللہُ جیتی رہیں آپکی دلہن ڈھیروں دعائیں۔بڑی خوش اسلوبی سے بہت گھمبیر مسئلہ سمجھایا ۔تھوڑا سا تحمل اور برداشت اور غصہّ پی جانے سے کسطرح بڑے مسائل سے بچا جاسکتا ہے ۔اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین کیونکہ اسلام ہمیں قدم قدم عفو و درگزر کی تعلیم دیتا ہے ۔بڑی خوبصورتی سے احادیث کا حوالہ دے کر بات سمجھائی ہے اور ذکر کی طرف راغب کیا ہے گھریلو کام کاج کے دوران خواتین کو ۔شاد وآباد رہیں اور اسی طرح آسانیاں بانٹتی رہیں ۔۔۔ آمین
 
آخری تدوین:
Top