کاشفی
محفلین
غزل
کوئی بھی کسی سے بھی بیش و کم نہیں ہوتا
کاش اس زمانے میں یہ ستم نہیں ہوتا
مِلتیں بیٹیاں اُس کو گر بجائے بیٹوں کے
بوڑھے باپ کا دیدہ روز نم نہیں ہوتا
بیکسوں پہ تم اتنا ظلم گر نہیں ڈھاتے
اُن کے ہاتھ میں شاید آج بم نہیں ہوتا
مغربی ممالک میں اس کو بیٹا کہتے ہیں
جس کو ماں کے مرنے کا کوئی غم نہیں ہوتا
جس نے درد بخشا ہے دے نہ وہ شفا جب تک
چارہ گر کے نسخوں سے درد کم نہیں ہوتا
خود ہی قافلہ ہوں میں خود ہی اک مسافر ہوں
میرا ہم نفس بھی اب ہم قدم نہیں ہوتا
جورِ یار پر جاوید کس لئے ہو تم حیراں
دل نہ جس کا پتھر ہو وہ صنم نہیں ہوتا
(جاوید بدایونی - ہندوستان)
کوئی بھی کسی سے بھی بیش و کم نہیں ہوتا
کاش اس زمانے میں یہ ستم نہیں ہوتا
مِلتیں بیٹیاں اُس کو گر بجائے بیٹوں کے
بوڑھے باپ کا دیدہ روز نم نہیں ہوتا
بیکسوں پہ تم اتنا ظلم گر نہیں ڈھاتے
اُن کے ہاتھ میں شاید آج بم نہیں ہوتا
مغربی ممالک میں اس کو بیٹا کہتے ہیں
جس کو ماں کے مرنے کا کوئی غم نہیں ہوتا
جس نے درد بخشا ہے دے نہ وہ شفا جب تک
چارہ گر کے نسخوں سے درد کم نہیں ہوتا
خود ہی قافلہ ہوں میں خود ہی اک مسافر ہوں
میرا ہم نفس بھی اب ہم قدم نہیں ہوتا
جورِ یار پر جاوید کس لئے ہو تم حیراں
دل نہ جس کا پتھر ہو وہ صنم نہیں ہوتا
(جاوید بدایونی - ہندوستان)