حمیرا عدنان
محفلین
مجھے آج بھی سردیوں کےوہ دن یاد ہے جب ہم سب بہن بھائیوں اپنی ماں کے گرد ایسے بلکل ایسے بیٹھے ہوتے تھے جیسے چھوٹے چھوٹے چوزے مرغی کے پروں کے نیچے ایک انتہائی مظبوط حصار میں..
اور ماں اکثر کہا کرتی تھی میری ساری بچے دنیا کی سیر کریں گے اور ان کی بات بلکل سچ ثابت ہوئی آج ہم سب بہن بھائی دنیا کے الگ الگ حصوں میں بیٹھ کر اکثر اپنے بچپن کی ان کھٹی میٹھی یادوں کو یاد کرتے ہیں تو دل ایک دم سے مچل سا جاتا ہے.
اور گھنٹوں اداس رہتی ہوں اپنے گھر کو اپنے بچپن کو اپنے وطن کو یاد کر کے پھر خود کو حوصلہ دیتی ہوں یہ کہ کر اللہ میاں جو کرتا ہیں بہتر کرتا ہیں.
اور کبھی یہ سوچ کر خوش ہو جاتی ہوں پھر کیا ہو ہم سب دور دور ہیں لیکن دل تو پاس پاس ہیں، ابھی پرسوں ہی تو بڑے بھائی کا فون آیا تھا ابھی کل ہی تو چھوٹے بھائی سے اور ابو جان سے بات ہوئی تھی آج بھابھی اور بچوں سے دو گھنٹے بات ہوئی تھی ایسی سوچوں کے ساتھ دل کو بہلانا پڑتا ہے.
دل تو کرتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے واپس لوٹ جائیں لیکن سچ مانے تو اب اپنا وطن بھی پردیس سا لگتا ہے کیونکہ نہ تو وہ بچپن ہو گا نہ بھائی بہن اور نہ ماں باپ.
سب اپنی اپنی زندگی میں اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے مشقت کر رہے ہیں.
کیا میں اپنے بچوں کی پرورش بلکل اس انداز میں کر پاوں گی جیسے ہم سب بہن بھائیوں کی پرورش ہمارے والدین نے کی تھی ابو نے صبح کی نماز پڑھ کر آنا تو خشخاش کو کونڈی میں ڈال کر رگڑائی شروع کر دینی تاکہ ہمارے لیے سردائی بنا سکیں امی نے نماز پڑھ کر فارغ ہونا تو ساتھ میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے رہنا اور ساتھ میں ہمارے لیے پراٹھے بنا رہے ہونا ان سب باتوں سے الگ ہم بہن بھائیوں نے قرآن پاک پڑھ کر آنا تو آتے ہی ناشتہ تیار ملنا اور ناشتہ کرنے کے بعد وہ پانچ منٹ کے کارٹون دیکھنا جو کبھی ڈونلڈک کی صورت میں اور کبھی پنک پینتھر کی شکل کیسی انعام سے کم نہیں ہوتے تھے..
یہاں پردیس میں ہم کبھی ایسا ناشتہ بنائیں تو اس دن سب بہن بھائیوں کو فون کر کے بتاتی ہوں آج ہم نے بلکل ویسا ناشتہ کیا جیسا ہم بچپن میں کرتے تھے.
خیر ابھی تو میرا بیٹا بہت چھوٹا ہے لیکن قرآن پاک کی تعلیم کے کیے ایک قاری کی خدمات حاصل ہیں باقی سارے معاملات بھی اللہ نے چاہا تو بلکل ویسے ہی ہوں گے جیسے ہمارے بچپن میں ہوا کرتے تھے لیکن وہ ماحول نہیں ہو گا وہ انداز نہیں ہو گا...
کچھ احساسات ہیں کچھ خود کلامی جملے ہیں
کوئی تحریر نہیں ہے کوئی تحریر نہیں ہے
اور ماں اکثر کہا کرتی تھی میری ساری بچے دنیا کی سیر کریں گے اور ان کی بات بلکل سچ ثابت ہوئی آج ہم سب بہن بھائی دنیا کے الگ الگ حصوں میں بیٹھ کر اکثر اپنے بچپن کی ان کھٹی میٹھی یادوں کو یاد کرتے ہیں تو دل ایک دم سے مچل سا جاتا ہے.
اور گھنٹوں اداس رہتی ہوں اپنے گھر کو اپنے بچپن کو اپنے وطن کو یاد کر کے پھر خود کو حوصلہ دیتی ہوں یہ کہ کر اللہ میاں جو کرتا ہیں بہتر کرتا ہیں.
اور کبھی یہ سوچ کر خوش ہو جاتی ہوں پھر کیا ہو ہم سب دور دور ہیں لیکن دل تو پاس پاس ہیں، ابھی پرسوں ہی تو بڑے بھائی کا فون آیا تھا ابھی کل ہی تو چھوٹے بھائی سے اور ابو جان سے بات ہوئی تھی آج بھابھی اور بچوں سے دو گھنٹے بات ہوئی تھی ایسی سوچوں کے ساتھ دل کو بہلانا پڑتا ہے.
دل تو کرتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے واپس لوٹ جائیں لیکن سچ مانے تو اب اپنا وطن بھی پردیس سا لگتا ہے کیونکہ نہ تو وہ بچپن ہو گا نہ بھائی بہن اور نہ ماں باپ.
سب اپنی اپنی زندگی میں اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے مشقت کر رہے ہیں.
کیا میں اپنے بچوں کی پرورش بلکل اس انداز میں کر پاوں گی جیسے ہم سب بہن بھائیوں کی پرورش ہمارے والدین نے کی تھی ابو نے صبح کی نماز پڑھ کر آنا تو خشخاش کو کونڈی میں ڈال کر رگڑائی شروع کر دینی تاکہ ہمارے لیے سردائی بنا سکیں امی نے نماز پڑھ کر فارغ ہونا تو ساتھ میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے رہنا اور ساتھ میں ہمارے لیے پراٹھے بنا رہے ہونا ان سب باتوں سے الگ ہم بہن بھائیوں نے قرآن پاک پڑھ کر آنا تو آتے ہی ناشتہ تیار ملنا اور ناشتہ کرنے کے بعد وہ پانچ منٹ کے کارٹون دیکھنا جو کبھی ڈونلڈک کی صورت میں اور کبھی پنک پینتھر کی شکل کیسی انعام سے کم نہیں ہوتے تھے..
یہاں پردیس میں ہم کبھی ایسا ناشتہ بنائیں تو اس دن سب بہن بھائیوں کو فون کر کے بتاتی ہوں آج ہم نے بلکل ویسا ناشتہ کیا جیسا ہم بچپن میں کرتے تھے.
خیر ابھی تو میرا بیٹا بہت چھوٹا ہے لیکن قرآن پاک کی تعلیم کے کیے ایک قاری کی خدمات حاصل ہیں باقی سارے معاملات بھی اللہ نے چاہا تو بلکل ویسے ہی ہوں گے جیسے ہمارے بچپن میں ہوا کرتے تھے لیکن وہ ماحول نہیں ہو گا وہ انداز نہیں ہو گا...
کچھ احساسات ہیں کچھ خود کلامی جملے ہیں
کوئی تحریر نہیں ہے کوئی تحریر نہیں ہے