کوئی حالت بھی اب طاری نہیں ہے
تو کیا یہ دل کی ناداری نہیں ہے
میں ہوں ایسے سفر پر جانے والا
کہ جس کی کوئی تیاری نہیں ہے
ہوں ضد پر اس طرح تیرِ فنا کی
ابھی جیسے میری باری نہیں ہے
کہوں کیا ، کتنا بے آرام ہوں میں
میری امید ابھی ہاری نہیں ہے
میں اپنے آپ سے ہوں غیر کتنا
کسی سے بھی میری یاری نہیں ہے
ہوں بیحد تنگ اپنے آپ سے میں
کہ اب تک خود سے بیزاری نہیں ہے
یہ میری زندگی ، میری اذیت
ہے ایسا وار ، جو کاری نہیں ہے
علم اٹھتے تو ہیں اب بھی ہمارے
مگر وہ گریہ و زاری نہیں ہے
گلہ کر اب بچھڑنے میں ہمارے
میری جان ! کوئی دشواری نہیں ہے