الف نظامی
لائبریرین
کوئی خدا نہیں!
یہ کائنات بس ایک حادثہ کا نتیجہ ہے؟
بیس ارب سال پہلے نہ زماں تھا نہ مکاں، اچانک ایک دھماکہ ہوا اور کائنات وجود میں آگئی۔
یہ کائنات جس میں ایک سو کروڑ سے زیادہ کہکشائیں ہیں۔ہر کہکشاں میں ایک ارب سے زیادہ ستارے ہیں، اور اتنی بڑی ہے کہ روشنی اپنی ایک لاکھ اسی ہزار میل کی رفتار سے اربوں سال بھی سفر کرتی رہے تو دوسرا کنارا ہاتھ نہ آئے، ایک ایسا شاندار متوازن نظام جس کے زمان و مکان میں ایک ہی قانون کار فرما ہے، کبھی نہیں ہوا کہ زمین اپنے محور سے ادھر ادھر ہو جائے، سورج چاند کو اپنی کشش کے بل بوتے پر کھینچ لے یا ستارے اپنا راستہ بھول جائیں۔
سارے کا سارا نظام، ہر جگہ، ہر وقت، سبھی کے سبھی ستارے اور سیارے اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ زمان و مکان کی قیود سے بالاتر وہی سائنسی قوانین جو زمین پر کارفرما ہیں دوسری دنیاوں کو قابو میں رکھے ہوئے ہیں۔
کیا یہ کروڑوں ، اربوں ، کھربوں ستاروں اور سیاروں کا نظام یونہی وجود میں آ گیا ہے؟
اس کے پیچھے کوئی ہاتھ نہیں؟
اسکو کوئی کنٹرول کرنے والا نہیں؟
یہ بس ایک حادثہ ہے۔
سورج فضا میں ایک مقرر راستہ پر پچھلے پانچ ارب سال سے چھ سو میل فی سیکنڈ کی رفتار سے بھاگا جا رہا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ اسکے خاندان کے ۹ سیارے، ۲۷ چاند اور لاکھوں میٹرائٹ کا قافلہ اسی رفتار سے جارہا ہے،کبھی نہیں ہوا کہ تھک کر کوئی پیچھے رہ جائے یا کوئی آگے نکل جائے۔چاند تین لاکھ ستر ہزار میل دور زمین پر سمندروں کے پانی کو ہر روز دو دفعہ مدوجزر سے ہلاتا رہتا ہے تاکہ ان میں بسنے والی مخلوق کے لیے ہوا سے مناسب مقدار میں آکسیجن کا انتظام ہوتا رہے ، پانی صاف ہوتا رہے، اس میں تعفن پیدا نہ ہو۔
سمندروں کا پانی ایک خاص مقدار میں کھارا ہے۔ پچھلے تین ارب سال سے نہ زیادہ نہ کم نمکین، بلکہ ایک مناسب توازن برقرار رکھے ہوئے ہے تاکہ اس میں چھوٹے بڑے سب آبی جانور آسانی سے تیر سکیں اور مرنے کے بعد ان کی لاشوں سے بو بھی نہ پھیلے۔انہی میں کھاری اور میٹھے پانی کی نہریں ساتھ ساتھ بہتی ہیں ۔سطح سمندر کے نیچے بھی میٹھے پانی کے سمندر ہیں جو کھاری پانی کے کھلے سمندروں سے ملے ہوئے ہیں لیکن میٹھا پانی میٹھا رہتا ہے اور کھاری پانی کھاری۔ سب میں ایک غیبی پردہ حائل ہے۔
کیا یہ بھی ایک حادثہ ہے؟
اپنے آپ ہوگیا تھا اور خود بخود قائم ہے؟
اس کے لئے کسی عقل کی ضرورت نہیں؟
نو مولود بچے کو کس نے سمجھایا کہ بھاک کے وقت رو کر ماں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائے؟
ماں کو کس نے حوصلہ دیا کہ ہر خطرے کے سامنے سینہ سپر ہوکر بچے کو بچائے؟
ایک معمولی چڑیا شاہیں سے مقابلہ پر اتر آتی ہے ۔یہ حوصلہ اسے کدھر سے ملا؟
مرغی کے بچےانڈے سے نکلتے ہی کیوں چلنے لگتے ہیں؟
حیوانات کے بچے بغیر سکھائے ماوں کی طرف دودھ کے لئے کیسے لپکتے ہیں؟
جانوروں کے دلوں میں کون محبت ڈال یتا ہے کہ اپنی چونچوں میں خوراک لا کر اپنے بچوں کے مونہوں میں ڈالیں؟
ان سب کو کون آدابِ زندگی سکھاتا ہے؟
لیکن پھر بھی کوئی خدا نہیں! یہ سب حادثہ ہے۔
شہد کی مکھی دور دور باغوں میں پھول پھول سے رس چوس کر نہایت ایمانداری سے لاکر چھتے میں جمع کرتی جاتی ہے۔ ایک ماہر سائنسدان کی طرح جانتی ہے کہ کچھ پھول زہریلے ہوتے ہیں اور ان کے پاس نہیں جاتی ، ایک قابل انجینیر کی طرح شہد اور موم کو علیحدہ علیحدہ کرنے فن بھی جانتی ہے ، جب گرمی ہوتی ہے تو شہد کو پگھل کر بہ جانے سے بچانے کے لئے وہ اپنے پروں کی حرکت سے پنکھا چلا کر ٹھنڈا کرتی ہے، موم سے ایسا گھر بناتی ہے جس کو دیکھ کر بڑے سے بڑا آرکیٹیکٹ عش عش کر اٹھتا ہے،ہزاروں کی تعداد میں ایسے منظم طریقے سے کام کرتی ہے کہ عقل دنگ ہے، ہر ایک میں ایسا راڈار نظام لگا ہوا ہے کہ وہ دور دور نکل جاتی ہے لیکن اپنے گھر کا راستہ نہیں بھولتیں۔
یہ کیسے ممکن ہوا ؟ شہد کی مکھی کو یہ عقل کس نے سکھائی؟
کیا یہ سب محض ایک بے معنی حادثہ کا نتیجہ ہے؟
مکڑا اپنے منہ کے لعاب سے شکار پکڑنے کے لئے ایسا جال بناتا ہے کہ جس کی نفاست اور مضبوطی کو ابھی تک ٹیکسٹائل انجینئر نقل نہیں کرسکے، بڑے سے بڑے کیمسٹ ایسا مضبوط اور نفیس دھاگا بنانے سے قاصر ہیں۔
یہ انجینئرنگ اسے کس نے سکھائی؟
گھریلو چیونٹی گرمیوں میں جاڑے کے لئے خوراک کو جمع کرتی ہے۔ اپنے بچوں کے لئے گھر بناتی ہے ، ایک تنظیم سے رہتی ہے۔ جہاں نظامت کے تمام اصول حیران کن حد تک کارفرما ہیں۔
معاشرتی نظامت کے یہ اصول اسے کس نے سکھائے؟
کیا یہ سب کچھ خود بخود ہی ہوگیا؟
کیا زمین اسقدر عقل مند ہے کہ اس نے بھی خودبخود لیل و نہار کا نظام قائم کرلیا، خودبخود ہی اپنے محور پر 67.5 ڈگری جھک گئی تاکہ بہار، گرمی، سردی اور خزاں کے موسم آتے رہیں اور انسان کو ہر طرح کی سبزیاں، پھل اور خوراک ملتی رہے۔نہ صرف یہ بلکہ زمین نے اپنے اندر شمالا جنوبا ایک طاقتور مقناطیسی میدان بھی خود بخود ہی قائم کرلیا تاکہ اسکے مقناطیسی اثر کی وجہ سے بادلوں میں بجلیاں کڑکیں جو ہوا کی نائٹروجن کو نائٹرس آکسائڈ میں بدل کر زمین میں پودوں کے لئے کھاد مہیا کریں، سمندروں پر چلنے والے بحری جہاز ، سبمیرین (Submarine) اور ہواوں میں اڑنے والے طیارے اس مقناطیس کی مدد سے اپنا راستہ پائیں، نیز آسمانوں سے آنے والی مہلک شعائیں اس مقناطیسی قوت سے ٹکرا کر واپس پلٹ جائیں تاکہ زمین پر مخلوق ان کے مہلک اثرات سے محفوظ رہے۔
کیا اس عظیم نظام کے پیچھے کوئی ہاتھ ہے ؟ یا یہ سب کچھ بھی فضا اور زمین نے مل کر خود ہی سوچا اور کرلیا؟
پھردیکھیے! زمین ، سورج ، ہواوں ، پہاڑوں اور میدانوں نے اپنے آپ ہی سمندروں سے سمجھوتہ کرلیا کہ سورج کی گرمی سے آبی بخارات اٹھیں گے ، ہوائیں اربوں ٹن پانی کو اپنے دوش پر اٹھا کر پہاڑوں اور میدانوں تک لائیں جی ، ستاروں سے آنے والے ریڈیائی ذرے بادلوں میں موجود پانی کو اکٹھا کرکے قطروں کی شکل دیں گے اور پھر یہ میٹھا پانی خشک میدانوں کو سیراب کرنے کے لئے برسے گا ۔ جب سردیوں میں پانی کی کم ضرورت ہوگی ان دنوں یہ پہاڑوں پر برف کے ذخیرے کی صورت میں جمع ہوتا جائے گا۔ گرمیوں میں جب زیادہ پانی چاہیے تو یہ پگھل کر ندی نالوں اور دریاوں کی صورت میں میدانوں کو سیراب کرتے ہوئے واپس سمندروں تک پہنچ جائے گا۔ ایک ایسا نظام جو سب کو پانی دیتا ہے اور کچھ ضائع نہیں جاتا۔
کیا اس سب کے پیچھے کوئی ڈیزائن نہیں؟
کیا ہماری اپنی زندگی بھی ایک حادثہ ہے؟ ہمارے پنکریے خون میں شوگر کی ایک خاص مقدار کو بڑھنے نہیں دیتے ، دل کا پمپ ہر منٹ ستر اسی دفعہ بغیر آرام بلاتھکان 75 سالہ زندگی میں تقریبا تین ارب دفعہ دھڑکتا ہے۔ ہمارے گردے ایسے بے مثل عجیب فلٹر ہیں جو جانتے ہیں کہ خون میں جو مفید ہے وہ رکھ لینا ہے اور فضلات کو باہر پھینک دینا ہے۔ معدہ حیران کن کیمیکل فیکٹری ہے جو خوراک سے زندگی بخش اجزا مثلا پروٹین ، کاربوہائڈریٹ وغیرہ کو علیحدہ کرکے فضلات کو باہر پھینک دیتا ہے۔
کیا انسانی جسم کے یہ شاہکار ، انجینئرنگ اور سائنس کے یہ بے مثل نمونے ، چھوٹے سے پیٹ میں یہ لاجواب فیکٹریاں ،
یہ سب کچھ بھی ایسے ہی بن گئے، کسی ذیزائنر ، موجد اور خالق کی ضرورت نہیں؟
۔۔۔۔ جاری ہے۔۔۔
از سلطان بشیر محمود ، ستارہ امتیاز ایٹمی سائنسدان
سابقہ ڈائریکٹر جنرل پاکستان اٹامک انرجی کمیشن
یہ کائنات بس ایک حادثہ کا نتیجہ ہے؟
بیس ارب سال پہلے نہ زماں تھا نہ مکاں، اچانک ایک دھماکہ ہوا اور کائنات وجود میں آگئی۔
یہ کائنات جس میں ایک سو کروڑ سے زیادہ کہکشائیں ہیں۔ہر کہکشاں میں ایک ارب سے زیادہ ستارے ہیں، اور اتنی بڑی ہے کہ روشنی اپنی ایک لاکھ اسی ہزار میل کی رفتار سے اربوں سال بھی سفر کرتی رہے تو دوسرا کنارا ہاتھ نہ آئے، ایک ایسا شاندار متوازن نظام جس کے زمان و مکان میں ایک ہی قانون کار فرما ہے، کبھی نہیں ہوا کہ زمین اپنے محور سے ادھر ادھر ہو جائے، سورج چاند کو اپنی کشش کے بل بوتے پر کھینچ لے یا ستارے اپنا راستہ بھول جائیں۔
سارے کا سارا نظام، ہر جگہ، ہر وقت، سبھی کے سبھی ستارے اور سیارے اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ زمان و مکان کی قیود سے بالاتر وہی سائنسی قوانین جو زمین پر کارفرما ہیں دوسری دنیاوں کو قابو میں رکھے ہوئے ہیں۔
کیا یہ کروڑوں ، اربوں ، کھربوں ستاروں اور سیاروں کا نظام یونہی وجود میں آ گیا ہے؟
اس کے پیچھے کوئی ہاتھ نہیں؟
اسکو کوئی کنٹرول کرنے والا نہیں؟
یہ بس ایک حادثہ ہے۔
سورج فضا میں ایک مقرر راستہ پر پچھلے پانچ ارب سال سے چھ سو میل فی سیکنڈ کی رفتار سے بھاگا جا رہا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ اسکے خاندان کے ۹ سیارے، ۲۷ چاند اور لاکھوں میٹرائٹ کا قافلہ اسی رفتار سے جارہا ہے،کبھی نہیں ہوا کہ تھک کر کوئی پیچھے رہ جائے یا کوئی آگے نکل جائے۔چاند تین لاکھ ستر ہزار میل دور زمین پر سمندروں کے پانی کو ہر روز دو دفعہ مدوجزر سے ہلاتا رہتا ہے تاکہ ان میں بسنے والی مخلوق کے لیے ہوا سے مناسب مقدار میں آکسیجن کا انتظام ہوتا رہے ، پانی صاف ہوتا رہے، اس میں تعفن پیدا نہ ہو۔
سمندروں کا پانی ایک خاص مقدار میں کھارا ہے۔ پچھلے تین ارب سال سے نہ زیادہ نہ کم نمکین، بلکہ ایک مناسب توازن برقرار رکھے ہوئے ہے تاکہ اس میں چھوٹے بڑے سب آبی جانور آسانی سے تیر سکیں اور مرنے کے بعد ان کی لاشوں سے بو بھی نہ پھیلے۔انہی میں کھاری اور میٹھے پانی کی نہریں ساتھ ساتھ بہتی ہیں ۔سطح سمندر کے نیچے بھی میٹھے پانی کے سمندر ہیں جو کھاری پانی کے کھلے سمندروں سے ملے ہوئے ہیں لیکن میٹھا پانی میٹھا رہتا ہے اور کھاری پانی کھاری۔ سب میں ایک غیبی پردہ حائل ہے۔
کیا یہ بھی ایک حادثہ ہے؟
اپنے آپ ہوگیا تھا اور خود بخود قائم ہے؟
اس کے لئے کسی عقل کی ضرورت نہیں؟
نو مولود بچے کو کس نے سمجھایا کہ بھاک کے وقت رو کر ماں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائے؟
ماں کو کس نے حوصلہ دیا کہ ہر خطرے کے سامنے سینہ سپر ہوکر بچے کو بچائے؟
ایک معمولی چڑیا شاہیں سے مقابلہ پر اتر آتی ہے ۔یہ حوصلہ اسے کدھر سے ملا؟
مرغی کے بچےانڈے سے نکلتے ہی کیوں چلنے لگتے ہیں؟
حیوانات کے بچے بغیر سکھائے ماوں کی طرف دودھ کے لئے کیسے لپکتے ہیں؟
جانوروں کے دلوں میں کون محبت ڈال یتا ہے کہ اپنی چونچوں میں خوراک لا کر اپنے بچوں کے مونہوں میں ڈالیں؟
ان سب کو کون آدابِ زندگی سکھاتا ہے؟
لیکن پھر بھی کوئی خدا نہیں! یہ سب حادثہ ہے۔
شہد کی مکھی دور دور باغوں میں پھول پھول سے رس چوس کر نہایت ایمانداری سے لاکر چھتے میں جمع کرتی جاتی ہے۔ ایک ماہر سائنسدان کی طرح جانتی ہے کہ کچھ پھول زہریلے ہوتے ہیں اور ان کے پاس نہیں جاتی ، ایک قابل انجینیر کی طرح شہد اور موم کو علیحدہ علیحدہ کرنے فن بھی جانتی ہے ، جب گرمی ہوتی ہے تو شہد کو پگھل کر بہ جانے سے بچانے کے لئے وہ اپنے پروں کی حرکت سے پنکھا چلا کر ٹھنڈا کرتی ہے، موم سے ایسا گھر بناتی ہے جس کو دیکھ کر بڑے سے بڑا آرکیٹیکٹ عش عش کر اٹھتا ہے،ہزاروں کی تعداد میں ایسے منظم طریقے سے کام کرتی ہے کہ عقل دنگ ہے، ہر ایک میں ایسا راڈار نظام لگا ہوا ہے کہ وہ دور دور نکل جاتی ہے لیکن اپنے گھر کا راستہ نہیں بھولتیں۔
یہ کیسے ممکن ہوا ؟ شہد کی مکھی کو یہ عقل کس نے سکھائی؟
کیا یہ سب محض ایک بے معنی حادثہ کا نتیجہ ہے؟
مکڑا اپنے منہ کے لعاب سے شکار پکڑنے کے لئے ایسا جال بناتا ہے کہ جس کی نفاست اور مضبوطی کو ابھی تک ٹیکسٹائل انجینئر نقل نہیں کرسکے، بڑے سے بڑے کیمسٹ ایسا مضبوط اور نفیس دھاگا بنانے سے قاصر ہیں۔
یہ انجینئرنگ اسے کس نے سکھائی؟
گھریلو چیونٹی گرمیوں میں جاڑے کے لئے خوراک کو جمع کرتی ہے۔ اپنے بچوں کے لئے گھر بناتی ہے ، ایک تنظیم سے رہتی ہے۔ جہاں نظامت کے تمام اصول حیران کن حد تک کارفرما ہیں۔
معاشرتی نظامت کے یہ اصول اسے کس نے سکھائے؟
کیا یہ سب کچھ خود بخود ہی ہوگیا؟
کیا زمین اسقدر عقل مند ہے کہ اس نے بھی خودبخود لیل و نہار کا نظام قائم کرلیا، خودبخود ہی اپنے محور پر 67.5 ڈگری جھک گئی تاکہ بہار، گرمی، سردی اور خزاں کے موسم آتے رہیں اور انسان کو ہر طرح کی سبزیاں، پھل اور خوراک ملتی رہے۔نہ صرف یہ بلکہ زمین نے اپنے اندر شمالا جنوبا ایک طاقتور مقناطیسی میدان بھی خود بخود ہی قائم کرلیا تاکہ اسکے مقناطیسی اثر کی وجہ سے بادلوں میں بجلیاں کڑکیں جو ہوا کی نائٹروجن کو نائٹرس آکسائڈ میں بدل کر زمین میں پودوں کے لئے کھاد مہیا کریں، سمندروں پر چلنے والے بحری جہاز ، سبمیرین (Submarine) اور ہواوں میں اڑنے والے طیارے اس مقناطیس کی مدد سے اپنا راستہ پائیں، نیز آسمانوں سے آنے والی مہلک شعائیں اس مقناطیسی قوت سے ٹکرا کر واپس پلٹ جائیں تاکہ زمین پر مخلوق ان کے مہلک اثرات سے محفوظ رہے۔
کیا اس عظیم نظام کے پیچھے کوئی ہاتھ ہے ؟ یا یہ سب کچھ بھی فضا اور زمین نے مل کر خود ہی سوچا اور کرلیا؟
پھردیکھیے! زمین ، سورج ، ہواوں ، پہاڑوں اور میدانوں نے اپنے آپ ہی سمندروں سے سمجھوتہ کرلیا کہ سورج کی گرمی سے آبی بخارات اٹھیں گے ، ہوائیں اربوں ٹن پانی کو اپنے دوش پر اٹھا کر پہاڑوں اور میدانوں تک لائیں جی ، ستاروں سے آنے والے ریڈیائی ذرے بادلوں میں موجود پانی کو اکٹھا کرکے قطروں کی شکل دیں گے اور پھر یہ میٹھا پانی خشک میدانوں کو سیراب کرنے کے لئے برسے گا ۔ جب سردیوں میں پانی کی کم ضرورت ہوگی ان دنوں یہ پہاڑوں پر برف کے ذخیرے کی صورت میں جمع ہوتا جائے گا۔ گرمیوں میں جب زیادہ پانی چاہیے تو یہ پگھل کر ندی نالوں اور دریاوں کی صورت میں میدانوں کو سیراب کرتے ہوئے واپس سمندروں تک پہنچ جائے گا۔ ایک ایسا نظام جو سب کو پانی دیتا ہے اور کچھ ضائع نہیں جاتا۔
کیا اس سب کے پیچھے کوئی ڈیزائن نہیں؟
کیا ہماری اپنی زندگی بھی ایک حادثہ ہے؟ ہمارے پنکریے خون میں شوگر کی ایک خاص مقدار کو بڑھنے نہیں دیتے ، دل کا پمپ ہر منٹ ستر اسی دفعہ بغیر آرام بلاتھکان 75 سالہ زندگی میں تقریبا تین ارب دفعہ دھڑکتا ہے۔ ہمارے گردے ایسے بے مثل عجیب فلٹر ہیں جو جانتے ہیں کہ خون میں جو مفید ہے وہ رکھ لینا ہے اور فضلات کو باہر پھینک دینا ہے۔ معدہ حیران کن کیمیکل فیکٹری ہے جو خوراک سے زندگی بخش اجزا مثلا پروٹین ، کاربوہائڈریٹ وغیرہ کو علیحدہ کرکے فضلات کو باہر پھینک دیتا ہے۔
کیا انسانی جسم کے یہ شاہکار ، انجینئرنگ اور سائنس کے یہ بے مثل نمونے ، چھوٹے سے پیٹ میں یہ لاجواب فیکٹریاں ،
یہ سب کچھ بھی ایسے ہی بن گئے، کسی ذیزائنر ، موجد اور خالق کی ضرورت نہیں؟
۔۔۔۔ جاری ہے۔۔۔
از سلطان بشیر محمود ، ستارہ امتیاز ایٹمی سائنسدان
سابقہ ڈائریکٹر جنرل پاکستان اٹامک انرجی کمیشن