ناصر کاظمی کوئی سمجھائے یہ کیا رنگ ہے میخانے کا - ناصر کاظمی

فرذوق احمد

محفلین
غزل

[کوئی سمجھائے یہ کیا رنگ ہے میخانے کا
آنکھ ساقی کی اُٹھے نام ہو پیمانے کا

گرمئی شمع کا افسانہ سنانے والو
رقص دیکھا نہیں تم نے ابھی پروانے کا

چشمِ ساقی مجھے ہر گام پہ یاد آتی ہے
راستہ بھول نہ جاؤں کہیں میخانے کا

اب تو ہر شام گزرتی ہے اُسی کوچے میں
یہ نتیجہ ہوا ناصر“ ترے سمجھانے کا /color]

ناصر کاظمی
 

شاہد دہلوی

محفلین
یہ غزل "ناصر کاظمی" کی نہیں بلکہ اقبال صفی پوری کی ہے۔
کوئی سمجھائے یہ کیا رنگ ہے میخانے کا
آنکھ ساقی کی اُٹھے نام ہو پیمانے کا
۔۔۔۔۔
گرمئی شمع کا افسانہ سنانے والو
رقص دیکھا نہیں تم نے ابھی پروانے کا
۔۔۔۔۔
کس کو معلوم تھی پہلے سے خرد کی قیمت
عالمِ ہوش پہ احسان ہے دیوانے کا
۔۔۔۔۔
چشمِ ساقی مجھے ہر گام پہ یاد آتی ہے
راستہ بھول نہ جاؤں کہیں میخانے کا
۔۔۔۔۔
اب تو ہر شام گزرتی ہے اُسی کوچے میں
یہ نتیجہ ہوا ناصح ترے سمجھانے کا
۔۔۔۔۔
منزل غم سے گزرنا تو ہے آساں اقبالؔ
عشق ہے نام خود اپنے سے گزر جانے کا
۔۔۔۔۔۔۔۔
اقبال صفی پوری
 
Top