کاشفی
محفلین
کوئی ظالم جو چھُپ کر گا رہا ہے
دلِ بے تاب کو برما رہا ہے
مجھے کیا چاہئے اس سے زیادہ
میں روتا ہوں کوئی شرما رہا ہے
فرشتے ڈھونڈھتے پھرتے ہیں شعلے
کوئی عاشق بنایا جا رہا ہے
خمیر اک پیکرِ زھرہ جبیں کا
ستاروں سے اٹھایا جا رہا ہے
یہ آنسو؟۔۔کون جانے ان کا مطلب!
پرانا واقعہ یاد آرہا ہے
مجھے یاد آرہا ہے اک حسیں خواب
دلِ مجبور بیٹھا جا رہا ہے
کسی نے لطف کی نظروں سے دیکھا
گیا وقت آج واپس آرہا ہے
مرے مقصد کو بھی کوئی سمجھتا!
مجھے سارا جہاں سمجھا رہا ہے
(احمد ندیم قاسمی)