احمد ندیم قاسمی کوئی ظالم جو چھُپ کر گا رہا ہے - احمد ندیم قاسمی

کاشفی

محفلین
کوئی ظالم جو چھُپ کر گا رہا ہے
دلِ بے تاب کو برما رہا ہے
مجھے کیا چاہئے اس سے زیادہ
میں روتا ہوں کوئی شرما رہا ہے
فرشتے ڈھونڈھتے پھرتے ہیں شعلے
کوئی عاشق بنایا جا رہا ہے
خمیر اک پیکرِ زھرہ جبیں کا
ستاروں سے اٹھایا جا رہا ہے
یہ آنسو؟۔۔کون جانے ان کا مطلب!
پرانا واقعہ یاد آرہا ہے
مجھے یاد آرہا ہے اک حسیں خواب
دلِ مجبور بیٹھا جا رہا ہے
کسی نے لطف کی نظروں سے دیکھا
گیا وقت آج واپس آرہا ہے
مرے مقصد کو بھی کوئی سمجھتا!
مجھے سارا جہاں سمجھا رہا ہے
(احمد ندیم قاسمی)
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب!

اچھا انتخاب ہے۔

کوئی ظالم جو چھُپ کر گا رہا ہے
دلِ بے تاب کو برما رہا ہے

یہاں شاید ٹائپو ہے اگر میں غلط نہیں‌ہوں تو دل کو گرمایا جا رہا ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
اس غزل کا پہلا مصرع جب بھی نظر سے گزرتا ہے مجھے مجید لاہوری کا یہ شعر یا آجاتا ہے۔ سو آپ سب کی نذر۔ :)

ڈاں ڈاں ڈڈاں ڈاں ڈاں ڈاں، ڈاں ڈاں ڈڈاں ڈاں ڈاں
یوں گا رہا تھا کوئی لونڈا تری گلی میں
 
Top