کوئی نکالے بات سے سو بات، کچھ ھو بات

محمد حسین

محفلین
کوئی نکالے بات سے سو بات، کچھ ھو بات
کرنے جو بیٹھے بات تو دکھلائے کائنات

جس بارے ذکر کیجے اسی فن میں بادشاہ
ھوتی ہے ایسی کوئی تو لاکھوں میں ایک ذات

ان گنت کوشش اور جہدِ مسلسل کے بعد ھے
اک ایک جملہ بر لبِ حق صفت شخصیات

ہمارے ہاں جو قابل محنتی ھوں چھپ کے رہتے ہیں
حسین ان کو زمانہ بعد میں روتا ہے پھر دن رات!
 

الف عین

لائبریرین
پہلے دو اشعار ایک بحر میں ہیں، اور آخری مختلف میں۔ تیسرا شعر دونوں بحور سے خارج ہے۔
شاید ان گنت کو گنت کی نون ساکن کے ساتھ باندھا گیا ہے، یہ تلفظ غلط ہے۔ نون مفتوح ہے۔
کوئی نکالے بات سے سو بات، کچھ ھو بات
کرنے جو بیٹھے بات تو دکھلائے کائنات
۔۔کوئی نکالے بات سے سو بات، تب ہو بات
بہتر ہے، دوسرا مصرع مزید بہتر ہو سکتا ہے۔

جس بارے ذکر کیجے اسی فن میں بادشاہ
ھوتی ہے ایسی کوئی تو لاکھوں میں ایک ذات
÷÷اسی‘ وزن میں نہیں آتا، محض ’اس‘ آتا ہے۔ اس لئے بات مکمل نہیں ہوتی

موضوع چاہے کچھ بھی ہو، اس فن میں طاق ہو
ایسی تو کوئی ہوتی ہے لکااھوں۔۔۔
آخری شعر کو بھی اس بحر میں ڈھالا جا سکتا ہے لیکن ’دن رات‘ نہیں آتا
 

محمد حسین

محفلین
جی۔ قوافی ملتے تھے اس لیے ایک غزل میں ہو گئے!
دوسرے شعر میں کیجے ڈالا تھا، لیکن کیجیے بہتر لگ رہا ہے۔
 
Top