غفران محسن
محفلین
نہ جانے کیوں ہمیں یہ خوش فہمی ہے کہ ہم دنیا کی اعلی و ارفع ترین قوم ہیں ،فی الحال اگر ہمیں مار پڑ رہی ہے تو یہ مار ویسی ہی ہے جو کسی فلم کے انٹر ول تک ولن کے ہاتھوں ہیرو کو پڑتی ہے ، انٹرول کے بعد ڈھائی فٹ کا بالشتئیا ہیرو یکایک رستم زماں بن کر ولن کو مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیتا ہے اور ہنسی خوشی گھر داماد بن کر رہنے لگتا ہے ۔ہمیں لگتا ہے ”The End“ میں خدا ہمارے بھی سارے گناہ معاف کر دے گا کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور دنیا پر حکمرانی کا حق صرف ہمارا ہے۔ لیکن فی الحال صورتحال یہ ہے کہ ہمار ی اوقات دو ٹکے کی بھی نہیں جبکہ دنیا سے ہم پروٹوکول سپر پاور کا ڈیمانڈ کرتے ہیں ۔ہمیں اس بات کی بہت تکلیف ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک ہماری منشا کے مطابق اپنی پالیسیاں کیوں نہیں ترتیب دیتے ،ان کی خارجہ پالیسی میں بھارت دشمنی سر فہرست کیوں نہیں ہے ،ان سب ممالک نے بھی اپنے اپنے رکشوں کے پیچھے یہ نعرہ کیوں نہیں لکھوایا کہ ”بھارت سے رشتہ کیا،نفرت کا انتقام کا“…اور باقی دنیا بھی ہماری طرح اپنے اپنے معاشروں میں اسلامی نظام کیوں نہیں نافذ کرتی جس کی ہم سر توڑ کوشش کر رہے ہیں ؟آخر انہیں سمجھ کیوں نہیں آتی کہ ہمارے پاس ہر مرض کا شافی علاج اور ہر مسئلے کا حل موجود ہے چاہے وہ حل خود کش بمباروں کے ذریعے ڈرون حملے روکنا ہی کیوں نہ ہو!
ہم اس بات پر بھی بہت جز بز ہوتے ہیں کہ دنیا ہمارے تراشے ہوئے سازشی نظریات کو خاطر میں کیوں نہیں لاتی ؟کیوں کسی کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ نائن الیون خود امریکہ نے کروایا تھا ؟آخر امریکہ اتنا کم عقل کیوں ہے کہ یہودیوں کی سازش کو جان نہیں پایا ،افغانستان کی بجائے اس نے اسرائیل پر بمباری کر کے کیوں نیست و نابود نہیں کر دیا؟ہم اتنے چالاک ہیں کہ ہر بات کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں اور اس میں چھپی سازش کو بے نقاب کر کے دم لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود آئے روز نت نئی سازشیوں کا شکار بھی بنتے رہتے ہیں ۔ابھی کل کی بات ہے خود میرے ساتھ ایک سازش ہو گئی ،میرے گھر کے باہر کوئی کوڑا پھینک گیا ہے ،مجھے یقین ہے کہ اس کے پیچھے بلیک واٹر،سی آئی اے یا”را“ کا ہاتھ ہے ۔آج جب اس ہاتھ نے دوبارہ کوڑا ڈھیر کیا تو میں نے فوراً پہچان لیا ،وہ ہمارے ہمسائے کی نوکرانی تھی ،یقینا وہ پارٹ ٹائم ”را“ کی نوکری کر تی ہوگی ،آج سے میں اس پر نظر رکھوں گا ،ویسے بھی اس کی شکل کچھ کچھ بپاشہ باسو سے ملتی ہے اور یہ بات اسے را کا ایجنٹ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے ۔
ہمیں اس بات کا بھی بہت زعم ہے کہ ملک خداداد میں کچھ ایسے نا معلوم ولی بستے ہیں جن کی وجہ سے اس ملک کی تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے،وہ دن دور نہیں جب ہم کرہ ارض کی قیادت سنبھال کربحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے کے قابل ہو جائیں گے ۔ویسے اس بات میں تو مجھے بھی شبہ نہیں کیونکہ جیسے ہمارے کرتوت ہیں ،ایک دن ہم گھوڑوں اور خچروں پر ہی سفر کرتے پائے جائیں گے۔یہ نا معلوم ولی یہ بھی بتلاتے ہیں کہ امریکہ کے دن گنے جا چکے ہیں۔پچھلے دنوں ایسے ہی ایک ولی کا مجھے امریکہ سے فون بھی آیا تھا۔اس قومی خبط عظمت سے متعلق تازہ ترین لطیفہ آسکر ایوارڈ کا ہے ۔اس سال آسکر کی 84سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک پاکستانی خاتون شرمین عبید چنائے فلمی دنیا کا یہ اعلی ترین اعزاز جیتنے میں کامیاب ہوئی لیکن ہم نے اس پر بھی اعتراض اٹھا دئیے۔اعتراض نمبر ایک ،یہ ایوارڈ شرمین کو نہیں ملا بلکہ اس موضوع کو ملا ہے جس پر اس نے فلم بنائی ،چونکہ عورتوں کے چہروں پر تیزاب پھینکنے سے متعلقہ فلم بنانے سے ہماری ”بزتی“ ہوئی ہے اس لئے شرمین کو ایسی فلم نہیں بنانے چاہئے تھی۔اعتراض نمبر دو،اگر یہی خاتون امریکی ڈرون حملو ں میں مرنے والوں پر یا عافیہ صدیقی کی مظلومیت پر فلم بناتی تو امریکی لابی اسے کبھی آسکر نہ دیتی کیونکہ فلاں فلاں سن میں جب فلاں فلاں ہدایتکاروں نے امریکی مفادات کے خلاف فلمیں بنائیں تو انہیں آسکر نہیں دیا گیا۔اعتراض نمبر تین،شرمین کو چاہئے تھا کہ اپنا آسکر ایوارڈ لینے سے انکار کر دیتی تاکہ امریکہ بہادر کو شرم دلائی جا سکتی (کس بات کی شرم،یہ واضح نہیں)۔آخری اعتراض ،شرمین کی فلم تکنیکی اعتبار سے کمزور تھی لیکن اس کے باوجود اسے محض اس لئے ایوارڈ دیا گیا کیونکہ موضوع ان کی پسند کا تھاپس ثابت ہوا کہ آسکر کی جیوری بھی جانبدار ہے لہذا ہم نہیں مانتے ،بس!جواب آں غزل کے طور پر عرض ہے کہ اگر شرمین کی فلم کا موضوع اس لحاظ سے قابل اعتراض تھا کہ اس سے پاکستان کا امیج متاثر ہوا تو معافی چاہتا ہوں کیا اس سے پہلے پاکستان نے مریخ کے گرد چکر لگانے والا راکٹ ایجادکر رکھا تھا یا پھر ہمارے ہاں عورتوں کے چہروں پر تیزاب نہیں پھینکا جاتا؟دنیا جہان میں فلمیں اپنے ملکوں کے مسائل اور برائیوں کو اجاگر کرنے کے موضوعات پر ہی بنتی ہیں ،حتی کہ مشہور زمانہ فلم ”Farenheit 9/11“ جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی میڈیا کے کردار کا پردہ چاک کیا خود امریکہ میں بنی۔دنیا کا کوئی موضوع ایسا نہیں جس پر امریکہ یا یورپ حتی کہ بھارت میں فلم نہ بنتی ہو ۔اگر برائیوں پر پردہ ڈال کر ہی رکھنا ہے توپھر آئیندہ ہمیں پی ٹی وی کی بنی ہوئی کوئی دستاویزی فلم آسکر میلے میں بھجوا دینی چاہئے جس میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والے گھرانوں کو خوشی کے شادیانے بجاتے ہوئے دکھایا گیا ہو! شرمین نے تو جس موضوع پر فلم بنانی تھی بنا لی ، اب اگر کوئی فرزند توحید عافیہ صدیقی پر فلم بناناچاہتا ہے تو کس کافر نے اس کا ہاتھ پکڑ رکھاہے ،آئے میدان میں اور گاڑ لے جھنڈے۔پر نہیں ،فلم بنانے اور اسے آسکر تک لے جانے کا ٹیلنٹ چونکہ ہم میں نہیں لہذا جس نے یہ کام کر لیا ہے ،اس میں ہی کیڑے نکالے جائیں۔جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ شرمین کو ایوارڈ لینے سے ہی انکار کر دینا چاہئے تھا تو اس قسم کا اعتراض کرنے والوں کو خود اگر ٹنڈو الہ یار کلب کا کوئی ایوارڈ بھی ملے تو وہ اسے حاصل کرنے لئے اپنے خرچے پر بس میں بیٹھ کر جائیں۔ اوررہی بات کہ آسکر کی جیوری ہی جانبدار ہے تو عرض یہ ہے کہ دنیا بھر کے فلمی میلوں میں ایوارڈ تکنیکی بنیادوں پر نہیں بلکہ contentپر دئیے جاتے ہیں کیونکہ اگر فلم کی تکنیک پر ایوارڈ دینے کا سلسلہ شروع ہو جائے تو کوئی ایوارڈ ہالی وڈ سے باہر نہ جائے۔اس کے باوجود اگر ہمیں کوئی اعتراض ہے تو پوری مسلم دنیا جس کی آبادی اس وقت ماشاللہ ڈیڑھ ارب کو چھور ہی ہے ،اپنا ایک ایوارڈ بنا لے ،اس کا معیار اتنا کڑا رکھے کہ لوگ آسکر کو بھول جائیں اور پھر بے شک عافیہ صدیقی پر فلم بنانے والے کو وہ ایوارڈ دے ڈالے ،کس نے روکا ہے ۔لیکن بات وہی ہے کہ ڈھنگ کا کام کرنے کی ہماری بساط نہیں لہذا ہم دوسروں کو آرڈر لگاتے ہیں کہ ہمارے لئے کام کرواور ہماری مرضی سے کام کرو… سٹیفن سپیلز برگ کو چاہئے کہ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم پر فلم بنائے ،آسکر جیوری کو چاہئے کہ ہماری مرضی کے مطابق ایوارڈ بانٹے،شرمین کو چاہئے کہ عافیہ صدیقی پر فلم بنائے…اور مجھے چاہئے کہ اب میں یہ کالم یہیں ختم کر دوں !!!
بشکریہ جنگ
ہم اس بات پر بھی بہت جز بز ہوتے ہیں کہ دنیا ہمارے تراشے ہوئے سازشی نظریات کو خاطر میں کیوں نہیں لاتی ؟کیوں کسی کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ نائن الیون خود امریکہ نے کروایا تھا ؟آخر امریکہ اتنا کم عقل کیوں ہے کہ یہودیوں کی سازش کو جان نہیں پایا ،افغانستان کی بجائے اس نے اسرائیل پر بمباری کر کے کیوں نیست و نابود نہیں کر دیا؟ہم اتنے چالاک ہیں کہ ہر بات کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں اور اس میں چھپی سازش کو بے نقاب کر کے دم لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود آئے روز نت نئی سازشیوں کا شکار بھی بنتے رہتے ہیں ۔ابھی کل کی بات ہے خود میرے ساتھ ایک سازش ہو گئی ،میرے گھر کے باہر کوئی کوڑا پھینک گیا ہے ،مجھے یقین ہے کہ اس کے پیچھے بلیک واٹر،سی آئی اے یا”را“ کا ہاتھ ہے ۔آج جب اس ہاتھ نے دوبارہ کوڑا ڈھیر کیا تو میں نے فوراً پہچان لیا ،وہ ہمارے ہمسائے کی نوکرانی تھی ،یقینا وہ پارٹ ٹائم ”را“ کی نوکری کر تی ہوگی ،آج سے میں اس پر نظر رکھوں گا ،ویسے بھی اس کی شکل کچھ کچھ بپاشہ باسو سے ملتی ہے اور یہ بات اسے را کا ایجنٹ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے ۔
ہمیں اس بات کا بھی بہت زعم ہے کہ ملک خداداد میں کچھ ایسے نا معلوم ولی بستے ہیں جن کی وجہ سے اس ملک کی تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے،وہ دن دور نہیں جب ہم کرہ ارض کی قیادت سنبھال کربحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے کے قابل ہو جائیں گے ۔ویسے اس بات میں تو مجھے بھی شبہ نہیں کیونکہ جیسے ہمارے کرتوت ہیں ،ایک دن ہم گھوڑوں اور خچروں پر ہی سفر کرتے پائے جائیں گے۔یہ نا معلوم ولی یہ بھی بتلاتے ہیں کہ امریکہ کے دن گنے جا چکے ہیں۔پچھلے دنوں ایسے ہی ایک ولی کا مجھے امریکہ سے فون بھی آیا تھا۔اس قومی خبط عظمت سے متعلق تازہ ترین لطیفہ آسکر ایوارڈ کا ہے ۔اس سال آسکر کی 84سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک پاکستانی خاتون شرمین عبید چنائے فلمی دنیا کا یہ اعلی ترین اعزاز جیتنے میں کامیاب ہوئی لیکن ہم نے اس پر بھی اعتراض اٹھا دئیے۔اعتراض نمبر ایک ،یہ ایوارڈ شرمین کو نہیں ملا بلکہ اس موضوع کو ملا ہے جس پر اس نے فلم بنائی ،چونکہ عورتوں کے چہروں پر تیزاب پھینکنے سے متعلقہ فلم بنانے سے ہماری ”بزتی“ ہوئی ہے اس لئے شرمین کو ایسی فلم نہیں بنانے چاہئے تھی۔اعتراض نمبر دو،اگر یہی خاتون امریکی ڈرون حملو ں میں مرنے والوں پر یا عافیہ صدیقی کی مظلومیت پر فلم بناتی تو امریکی لابی اسے کبھی آسکر نہ دیتی کیونکہ فلاں فلاں سن میں جب فلاں فلاں ہدایتکاروں نے امریکی مفادات کے خلاف فلمیں بنائیں تو انہیں آسکر نہیں دیا گیا۔اعتراض نمبر تین،شرمین کو چاہئے تھا کہ اپنا آسکر ایوارڈ لینے سے انکار کر دیتی تاکہ امریکہ بہادر کو شرم دلائی جا سکتی (کس بات کی شرم،یہ واضح نہیں)۔آخری اعتراض ،شرمین کی فلم تکنیکی اعتبار سے کمزور تھی لیکن اس کے باوجود اسے محض اس لئے ایوارڈ دیا گیا کیونکہ موضوع ان کی پسند کا تھاپس ثابت ہوا کہ آسکر کی جیوری بھی جانبدار ہے لہذا ہم نہیں مانتے ،بس!جواب آں غزل کے طور پر عرض ہے کہ اگر شرمین کی فلم کا موضوع اس لحاظ سے قابل اعتراض تھا کہ اس سے پاکستان کا امیج متاثر ہوا تو معافی چاہتا ہوں کیا اس سے پہلے پاکستان نے مریخ کے گرد چکر لگانے والا راکٹ ایجادکر رکھا تھا یا پھر ہمارے ہاں عورتوں کے چہروں پر تیزاب نہیں پھینکا جاتا؟دنیا جہان میں فلمیں اپنے ملکوں کے مسائل اور برائیوں کو اجاگر کرنے کے موضوعات پر ہی بنتی ہیں ،حتی کہ مشہور زمانہ فلم ”Farenheit 9/11“ جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی میڈیا کے کردار کا پردہ چاک کیا خود امریکہ میں بنی۔دنیا کا کوئی موضوع ایسا نہیں جس پر امریکہ یا یورپ حتی کہ بھارت میں فلم نہ بنتی ہو ۔اگر برائیوں پر پردہ ڈال کر ہی رکھنا ہے توپھر آئیندہ ہمیں پی ٹی وی کی بنی ہوئی کوئی دستاویزی فلم آسکر میلے میں بھجوا دینی چاہئے جس میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والے گھرانوں کو خوشی کے شادیانے بجاتے ہوئے دکھایا گیا ہو! شرمین نے تو جس موضوع پر فلم بنانی تھی بنا لی ، اب اگر کوئی فرزند توحید عافیہ صدیقی پر فلم بناناچاہتا ہے تو کس کافر نے اس کا ہاتھ پکڑ رکھاہے ،آئے میدان میں اور گاڑ لے جھنڈے۔پر نہیں ،فلم بنانے اور اسے آسکر تک لے جانے کا ٹیلنٹ چونکہ ہم میں نہیں لہذا جس نے یہ کام کر لیا ہے ،اس میں ہی کیڑے نکالے جائیں۔جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ شرمین کو ایوارڈ لینے سے ہی انکار کر دینا چاہئے تھا تو اس قسم کا اعتراض کرنے والوں کو خود اگر ٹنڈو الہ یار کلب کا کوئی ایوارڈ بھی ملے تو وہ اسے حاصل کرنے لئے اپنے خرچے پر بس میں بیٹھ کر جائیں۔ اوررہی بات کہ آسکر کی جیوری ہی جانبدار ہے تو عرض یہ ہے کہ دنیا بھر کے فلمی میلوں میں ایوارڈ تکنیکی بنیادوں پر نہیں بلکہ contentپر دئیے جاتے ہیں کیونکہ اگر فلم کی تکنیک پر ایوارڈ دینے کا سلسلہ شروع ہو جائے تو کوئی ایوارڈ ہالی وڈ سے باہر نہ جائے۔اس کے باوجود اگر ہمیں کوئی اعتراض ہے تو پوری مسلم دنیا جس کی آبادی اس وقت ماشاللہ ڈیڑھ ارب کو چھور ہی ہے ،اپنا ایک ایوارڈ بنا لے ،اس کا معیار اتنا کڑا رکھے کہ لوگ آسکر کو بھول جائیں اور پھر بے شک عافیہ صدیقی پر فلم بنانے والے کو وہ ایوارڈ دے ڈالے ،کس نے روکا ہے ۔لیکن بات وہی ہے کہ ڈھنگ کا کام کرنے کی ہماری بساط نہیں لہذا ہم دوسروں کو آرڈر لگاتے ہیں کہ ہمارے لئے کام کرواور ہماری مرضی سے کام کرو… سٹیفن سپیلز برگ کو چاہئے کہ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم پر فلم بنائے ،آسکر جیوری کو چاہئے کہ ہماری مرضی کے مطابق ایوارڈ بانٹے،شرمین کو چاہئے کہ عافیہ صدیقی پر فلم بنائے…اور مجھے چاہئے کہ اب میں یہ کالم یہیں ختم کر دوں !!!
بشکریہ جنگ