قابل اجمیری کوئے قاتل میں ہم ہمیں بڑھ کے صدا دیتے ہیں۔ قابل اجمیری کی آخری غزل

کوئے قاتل میں ہمیں بڑھ کےصدا دیتے ہیں
زندگی آج تیرا قرض چُکا دیتے ہیں
حادثے زیست کی توقیر بڑھا دیتے ہیں
اے غمِ یار تجھے ہم تو دُعا دیتے ہیں
کوئے محبوب سی چُپ چاپ گزرنے والے
عرصہِ زیست میں اک حشر اُٹھا دیتے ہیں
تیرے اخلاص کے افسوں تیرے وعدوں کے طلسم
ٹوٹ جاتے ہیں تو کچھ اور مزہ دیتے ہیں
ہاں یہی خاک بسر سوختہ ساماں اے دوست
تیرے قدموں میں ستاروں کو جُھکا دیتے ہیں
سینہ چاکانِ محبت کو خبر ہے کہ نہیں
شہرِ خوباں کے در و بام صدا دیتے ہیں
ہم نے اُس کے لب و رُخسار کو چھُو کر دیکھا
حوصلے آگ کو گُلزار بنا دیتے ہیں
 

حسان خان

لائبریرین
شہزاد بھائی، یہاں محفل پر تصویری اردو کے بجائے تحریری اردو کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، کیونکہ اُسے دوبارہ گوگل وغیرہ سے ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ آپ ان غزلوں کو ٹائپ کر کے پوسٹ کریں تو بڑی مہربانی ہوگی۔ :)
 
معذرت خواہ ہوں
جو کچھ ہوا لاعلمی کی وجہ سے ہوا
خیر آپ خاطر جمع رکھیں
آپ کا اعتراض ابھی دور کر دیتا ہوں
دوبارہ ٹائپ کر کے پوسٹ کرتا ہوں
 
کوئے قاتل میں ہمیں بڑھ کے صدا دیتے ہیں
زندگی آج ترا قرض چکا دیتے ہیں
حادثے زیست کی توقیر بڑھا دیتے ہیں
اے غمِ یار تجھ کو تو ہم دعا دیتے ہیں
کوئے محبوب سے چپ چاپ گزرنے والے
عرصہِ زیست میں اک حشر اُٹھا دیتے ہیں
تیرے اخلاص کے افسوں ترے وعدوں کے طلسم
ٹوٹ جاتے ہیں تو کچھ اور مزا دیتے ہیں
ہاں یہی خاک بسر سوختہ ساماں اے دوست
تیرے قدموں میں ستاروں کو جھکا دیتے ہیں
سینہ چاکان محبت کو خبر ہے کہ نہیں
شہر خوبا ں کے درو بام صدا دیتے ہیں
ہم نے اس کے لب و رخسار کو چھو کر دیکھا
حوصلے آگ کو گلزار بنا دیتے ہیں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
لاجواب!!! کیا بات ہے !! کہا جاتا ہے کہ یہ قابل کی آخری غزل ہے۔

حوصلے آگ کو گُلزار بنا دیتے ہیں
سبحان اللہ سبحان اللہ !! کیامصرع ہے!!!

بہت شکریہ ناصر صاحب یہ غزل پوسٹ کرنے کا !​
 
Top