کوثر نیازی : ایک خوبصورت آزاد نظم

سید زبیر

محفلین
میٹھا، رسیلا ، صاف ، سنہرا،جوان سا
اک سیب دھم سے فرشِ زمین پر ٹپک پڑا
موسم بہار کی ساری لطافتی
خوشبو ، ہوائیں ، رنگ ، شعائیں ، تمازتیں
پی کر جواں جسم میں اپنے بسائے تھا
ایک کوا
۔۔۔آنکھوں کے باوجود وہ اندھا تھا کور تھا
دیکھا نہ اس نے رنگ کو نہ اسکے روپ کو
اس کی مٹھاس کو نہ اس کی مہک کو پا سکا
کم ذوق ، سیب میں تھا فقط کیڑا ڈھونڈتا
مولانا کوثر نیازی کا روسی نظم کا ترجمہ
 

عاطف بٹ

محفلین
واہ، بہت خوب۔
سر، یہ ترجمہ براہِ راست روسی زبان سے کیا گیا ہے یا روسی نظم کے انگریزی ترجمے کا ترجمہ ہے؟ شاعر کا نام بھی اگر معلوم ہوسکے تو ممنون ہوں گا!
 

سید زبیر

محفلین
واہ، بہت خوب۔
سر، یہ ترجمہ براہِ راست روسی زبان سے کیا گیا ہے یا روسی نظم کے انگریزی ترجمے کا ترجمہ ہے؟ شاعر کا نام بھی اگر معلوم ہوسکے تو ممنون ہوں گا!
یہ مولانا کوثر نیازی کی کتاب میں کوئی دس پندرہ سال پہلے پڑھا تھا ۔کلام پسند آیا تھا اس وقت ڈائری میں تحریر کرلیا تھا آج جب نظر پڑی تو خواہش ہوئی کہ اس کو بھی شریک محفل کردوں ۔جیسے ہی مجھے تفصیل معلوم ہوگی ضرور نذر کرونگا
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہ
کلاسیک
بہت خوب ترجمہ کیا مولانا کوثر نیازی صاحب نے
نظم اپنے خیال کو مکمل روانی سے بیان کر رہی ہے ۔
بہت شکریہ شراکت پر محترم سید بھائی
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
واہ
خوبصورت ترجمہ
۔۔۔ آنکھوں کے باوجود وہ اندھا تھا کور تھا
دیکھا نہ اس نے رنگ کو نہ اسکے روپ کو
اس کی مٹھاس کو نہ اس کی مہک کو پا سکا
کم ذوق ، سیب میں تھا فقط کیڑا ڈھونڈتا
 

سید زبیر

محفلین
واہ، بہت خوب۔
سر، یہ ترجمہ براہِ راست روسی زبان سے کیا گیا ہے یا روسی نظم کے انگریزی ترجمے کا ترجمہ ہے؟ شاعر کا نام بھی اگر معلوم ہوسکے تو ممنون ہوں گا!
محترم عاطف بٹ ! یہ ترجمہ انگریزی زبان سے اردو میں کیا گیا ہے ۔
 
Top