" بس۔۔۔ ۔۔بس۔۔۔ ۔۔ اب زیادہ باتیں نہ بناؤ، لاؤ ہمارا خط۔"
چچا تیز گام نے تیزی سے جمن کے ہاتھ سے خط جھپٹ لیا اور لگے اُ سے جلدی جلدی کھولنے۔
" مالک ذرا خط آرام سے کھولیے ، کہیں خط پھٹ ہی نہ جائے۔"چچا تیز گام کو تیزی سے خط کھولتے دیکھ کر استاد بول پڑا۔
" اچھا تو اب تم مجھے خط کھولنا سکھاؤ گے ؟" یہ کہتے ہوئے چچا تیز گام نے جلدی سے خط کھولا تو چر کی آواز آئی۔ چچا تیز گام نے چونک کر خط کی طرف دیکھا تو وہ پھٹ چکا تھا۔
" جاؤ جاکر سکاچ ٹیپ لے کر آؤ۔"
چچا تیز گام غصے سے بولے ۔ جمن دوڑ کر سکاچ ٹیپ لے آیا۔
" تم خط کو پکڑ کر رکھو میں ٹیپ لگاتا ہوں۔" چچا تیز گام ٹیپ لیتے ہوئے بولے۔ پھر جمن خط کو جوڑنے کےلیے دونوں ٹکڑوں کو ملانے لگا۔ چچا تیز گام سے بھلا کہاں صبر ہوتا تھا۔ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ جلدی سے ٹیپ کاٹ کر خط پر لگا دی ۔
" اوہ ۔۔۔ ۔۔ مالک یہ آپ نے کیا کردیا۔۔۔ ۔۔" جمن کے منہ سے نکلا۔
" اندھے ہو کیا ، دیکھتے نہیں ہم نے خط کوجوڑا ہے۔"
چچا تیز گام بولے۔
" دیکھ لیں ، آپ نے کس طرح خط جوڑا ہے۔"
جمن جڑے ہوئے خط کو چچا تیز گام کی آنکھوں کے سامنے لہراتے ہوئے بولا۔
"تم سے آج تک کوئی کام سیدھا ہوا بھی ہے، اب دیکھو خط الٹا جڑوا دیا ۔"چچا تیز گام اُلٹا جمن پر برس پڑے۔
"لاؤ مجھے دو خط ۔۔۔ ۔۔ میں جوڑتا ہوں۔۔۔ ۔۔" چچا تیز گام غصے سے جمن کی طرف دیکھتے ہوئے بولے اور خط جمن کے ہاتھ سے لے لیا۔
" مالک خط پر لگی ہوئی ٹیپ ذرا احتیاط سے اتارئیے گا۔" جمن کے اس مشورے پر چچا تیز گام نے کھا جانے والی نظروں سے اُس کی طرف دیکھا، لیکن منہ سے کچھ نہ بولے۔ اور ٹیپ اتارنے لگے۔ جب ٹیپ اتر چکی تو انھوں نے اس مرتبہ پوری احتیاط کے ساتھ ٹیپ لگائی اور یوں خدا خدا کرکے خط جڑا۔ پھر چچا تیز گام خط پڑھنے لگے ۔ خط پڑھ کر وہ مارے خوشی کے اچھل پڑے۔
" اوہ ۔۔۔ ۔۔ مارا۔۔۔ ۔۔" چچا تیز گام نے پُر جوش انداز میں نعرہ لگایا۔
" کوئی مچھر بھی آج تک آپ نے نہیں مارا، آج کس کو مار دیا۔۔۔ ۔۔" چچا کا زور دار نعرہ سن کر بیگم باورچی خانے سے باہر نکل آئیں۔
" بیگم تم بھی بس بات کا بتنگڑ بنا لیتی ہو۔ ہمیں کیا پڑی ہے جو کسی کو ماریں۔ اوہ مارا کا نعرہ تو ہم نے خوشی میں لگایا ہے۔ کیوں کہ گاؤں سے ہمارا جگری یار شیر محمد آرہا ہے۔"
" شیر محمد؟ وہی نا! جسے ملنے آپ گاؤں گئے تو وہ آپ کے گاؤں جانے سے پہلے ہی کہیں چلا گیا تھا۔" بیگم طنزیہ لہجے میں بولیں۔
" ہاں ۔۔۔ ۔۔ ہاں۔۔۔ ۔ ۔ وہی ۔۔۔ ۔" چچا تیز گام زور سے سر ہلاتے ہوئے بولے۔
" بیگم وہ گاؤں چھوڑ کر نہیں گیا تھا بلکہ ۔۔۔ ۔۔ بلکہ۔۔۔ ۔۔" چچا تیز گام اچانک کچھ کہتے کہتے رُک گئے۔
" کیا بلکہ۔۔۔ ۔؟ " بیگم نے پوچھا۔
" بلکہ یہ کہ ، بلکہ کچھ بھی نہیں۔" چچا تیز گام فورا بولے۔
اب بھلا وہ کیسے بتاتے کہ گاؤں میں شیر محمد سے اس لیے ملاقات نہیں ہوئی تھی کہ وہ بغیر اطلاع کیے گاؤں پہنچ گئے تھے۔
" یہ کیا بات ہوئی؟" بیگم نے عجیب سی نظروں سے چچا تیز گام کی طرف دیکھا۔
" بیگم بات کو چھوڑو اور ہمارے جگری یار شیر محمد کا خط سنو!
"آہا ۔۔۔ ۔۔ کیا پیارا خط لکھا ہے۔" چچا تیز گام بات ٹالتے ہوئے بولے: " پیارے دوست تنویر احمد !
مجھے یہ جان کر بے حد دکھ ہوا کہ آپ گاؤں آئے اور میں آپ کومل نہ سکا کیوں کہ میں کراچی ایک شادی میں گیا ہوا تھا۔ آپ بھی تو ۔۔۔ ۔ب۔۔۔ ۔بغیر ۔۔۔ ۔ا۔۔۔ ۔ط۔۔۔ ۔"