’’تب تو میری مبارک باد قبول فرمائیے۔‘‘ علی شیر نے کہا۔
بادشاہ حسین نے اپنے درباریوں کو مخاطب کر کے عیارانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا:
’’آپ لوگوں نے سنا؟ ہمارے بڑے وزیر ہمارے شادی کرنے کے ارادے کو معقول بتا رہے ہیں۔ اب ہماری خواہش ہے کہ ہمارے دوست اور ہمارے بڑے وزیر ہونے کے ناطے علی شیر لڑکی والوں کے ہاں ہماری طرف سے شادی کا پیغام لے کر جائیں۔‘‘
کسی بات کا شبہ کیے بغیر علی شیر نے جھک کر بادشاہ کی تعظیم کی اور پھر کہا:
’’بادشاہ کی طرف سے شادی کا پیغام لے کر جانے سے زیادہ عزت کی اور کوئی بات نہیں ہو سکتی، لیکن کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ مجھے حضور کا پیغام کس کے ہاں پہنچانا ہوگا؟‘‘
’’جلاہے ابو صالح کے ہاں۔‘‘ بادشاہ نے جواب دیا۔
یہ سن کر علی شیر سناٹے میں آگئے، لیکن اپنے آپ کو قابو میں رکھتے ہوئے انہوں نے کہا:
’’میں حضرت عالی کا یہ حکم بجا لانے سے معذور ہوں۔‘‘
بادشاہ حسین آگ بگولہ ہو گیا۔ اس نے گرج کر کہا:
’’اچھا! تو پھر یہ بات سچ ہی معلوم ہوتی ہے کہ آپ نے اپنی بات مجھ سے چھپائے رکھی ہے۔جائیے، جاکر میرا پیغام لڑکی والوں تک پہنچائیے۔ ورنہ مجھ سے رحم و کرم کی امید نہ رکھئیے۔‘‘
علی شیر کی محبت نہایت پکی اور سچی تھی۔ وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ انہوں نے پھر بادشاہ کی تعظیم کی اور کہا:
’’یہ کتنی غیر فطری بات ہوگی کہ کوئی شخص اپنی منگیتر کے گھر کسی دوسرے شخص کا پیغام لے کر جائے، وہ دوسرا شخص خود بادشاہ سلامت ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
بادشاہ حسین نے غصے میں آکر اسی وقت علی شیر کو سمر قند سے نکال باہر کرنے کے فرمانِ عالی پر مہر لگادی اور شادی کا پیغام لے جانے کا کام اس نے چھوٹے وزیر مجید الدین کے سپرد کیا۔
دربار سے نکل کر علی شیر اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اسے سرپٹ دوڑاتے ، مصیبت کا پیغام لیے ہوئے ابوصالح کے گھر پہنچے۔ چمن میں چاروں طرف خوشبو بکھیرتے ہوئے پھولوں کے