محمد خرم یاسین
محفلین
السلام علیکم! ایڈورڈ سیڈ کی کتاب کورنگ اسلام، مغربی میڈیا کے اسلام کے حوالے سے نفرت پھیلانے کے اوچھے ہتھکنڈوں پر گرفت ہے۔ بندہ نا چیز نے اسے اردو ترجمہ کیا ہے۔ اس کا ملخص یا سمری جائزے کی صورت میں دی جارہی ہے۔ امید ہے آ پ کو پسند آئے گی ۔ یہ تجزیہ درج ذیل لنک سے بھی پڑھا جاسکتا ہے:
http://www.jahan-e-urdu.com/covering-islam-author-edwaed-said-review-khurram-yaseen/
http://www.jahan-e-urdu.com/covering-islam-author-edwaed-said-review-khurram-yaseen/
کورِنگ اسلام Covering Islam کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ
مصنف : ایڈورڈ سیڈ
مصنف : ایڈورڈ سیڈ
تجزیہ : محمد خرم یاسین
(پی ایچ ڈی سکالر) فیصل آباد
دنیا بھر میں جہاں بھی چلے جائیں اسلام دشمنی تیزی سے پھیلتی ہوئی محسوس ہوگی ۔ مغرب کی استعماری طاقتیں ہوں یا مذہبی جنون، ہر جگہ اسلام کو بدنام کرنے اور اس کا تشخص برباد کرنے کی بھر پور مذموم کوششیں جاری ہیں۔ میڈیا وار اس حوالے سے سب سے اہم کر دار ادا کررہی ہے ۔ عقل و دانش سے پیدل مغربی دنیا بنا سوچے سمجھے میڈیا کے دکھائے کو سچ مانتے ہوئے اندھی تقلید کے ذریعے اسلام سے مسلمانوں سے بد دل ہوتی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے ایڈورڈ سیڈ جن کی کتاب کو ایرانی زبان یں ترجمہ کرتے ہوئے ایڈورسعید بھی لکھا گیا ہے، نے قلم اٹھایا اور کورنگ اسلام یعنی اسلام کو ڈھانپنا اور اس کے حقائق کو چھپانا جیسی کتاب لکھ کر حقائق کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا یہ کام اسلام فوبیا میں مبتلا مغرب کی سوچ کو للکارنے کے مترادف ہے اور اگر اسے حقائق کی بازیافت کہا جائے تو بھی غلط نہیں ہے۔ ذیل میں اس کتاب کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے جو دراصل کتاب کے مندرجات کی مختصر وضاحت ہی کی ایک کڑی ہے۔
کتاب کامعروضی مطالعہ کریں تو کورنگ اسلام Covering Islam کا زمرہ تاریخ و مذہب (اسلام) ہے۔مصنف کی وطنیت فلسطین ہے اور اس کی وجہ تصنیف اسلام فوبیا کے حوالے سے دفاعِ اسلام و حقیقی تاریخ نویسی ہے ۔کورنگ اسلام کو ۱۹۸۱ء میں ونٹیج بکس Vintage Books نے شایع کیا جبکہ اسکے صفحات کی تعداد ۲۰۰اور ابواب پانچ ہیں۔ موضوعی اعتبار سے یہ مصنف کی پہلی دو کتا بو ںOrientalism” “اورThe Question of Palestine”‘‘کے سلسلے کا ہی ایک تسلسل ہے ۔یہ سلسلہ اسلام کے بارے میں مغربی میڈیا کے غلط رویے اور اس کے تشخص کو تباہی سے ہمکنار کرنے کی مذموم کوشش کا رد عمل ہے۔ ایڈورڈ سیڈ ان حق شناس لوگوں میں شامل ہے جو کسی ذات، رنگ مذہب اور قومیت پر یقین رکھنے کے بجائے فلاحِ انسانیت اور حقوقِ انسانیت کے مقصد کے تحت زندگی گزارنا پسند کر تے ہیں اور بلا ضرورت کسی بھی مذہب کو طنز و تشنیع کا نشانہ بنانے سے گریز کرنے کا درس دیتے ہیں۔ کورنگ اسلام کو لکھنے کی غر ض و غایت کے حوالے سے وکی پیڈیا کا یہ اقتباس ملا حظہ کیجیے:
Covering Islam deals with issues during and after the Iranian hostage crisis, and how the Western media has speculated on the realities of Islamic life. Said questions the objectivity of the media, and discusses ۱ the relations between knowledge, power and the Western media
اقتباس میں ایران کی یر غمالی سے فلسطین پر قبضے اور اس کے ساتھ ساتھ مغربی میڈیا کی ہٹ دھرمی کا ذکر کیا گیا ہے۔ اگر کتاب کے سرورق پر غور کریں تو مصنف کے نام کے ساتھ یہ عبارت لکھی نظر آئے گی،جو کہ در اصل اس کا تعارف ہے :
۲ “Author of Culture and Imperialism”
ترجمہ: ثقافت اور سامراجیت کا لکھاری۔
اس کے بعد کتاب کے نام کے نیچے یہ عبارت درج ہے:
How the Media and the Experts Determine How we see the rest of the ۳ World
ترجمہ: میڈیااور ماہرین کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں(اور)بقایا دنیا کس طرح سے دیکھتی/سوچتی ہے ۔
اسی سرورق کے نیچے ایک ڈبے میں اس یہ عبارت درج ہے:
No one studying the relations between the West and the decolonizing. World can ignore Mr. Said’s work… ۴(The New Youk Times Book Review)
ترجمہ: کوئی بھی شخص مغرب اور آبادیاتی نظام کو نہیں دیکھ رہا۔۔۔مسٹر سیڈ کے تمام کام کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ (نیویارک بک ریویو)
درج بالا ریویو سے اندازہ ہوتا ہے کہ مغرب بے ایڈورڈ کی تحقیق و تنقید کو منفی معنوں میں لیا ہے اور یقیناًاس کے کام سے نا خوش ہے۔
سیڈ نے کتاب کو پانچ ابواب کو بالترتیب ان موضوعات میں تقسیم کیا ہے:اسلام اور مغرب،وضاحتی کمیونیٹیاں، اسلام کی وضاحت کرتے سیاستدان،تقلید پسند اور متضاد علم ، علم اوراس کی وضاحت۔ذیل میں ان ابواب کا ملخص پیش کیا جا رہا ہے
باب اول:اسلام اور مغرب
اس باب میں اسلام اورمغربی عیسائیت کے روابط کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ ایڈورڈ کہتا ہے کہ موجودہ عہد یا دورِ جدید میں کہا جاسکتا ہے کہ مغرب نے اپنی سوچ کے ذریعے (سوچے سمجھے منصوبے کے تحت)اسلام پر مسلط ہونے کی کوشش کی ہے۔
“Modern Occidental reactions to Islam have been dominated by a radically simplified type of thinking.”
وہ مزیدلکھتاہے کہ نا صرف اسلام مغر ب (یہود و نصاریٰ )کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ ان کا اچھا مقابل بھی ہے۔
Islam represents not only an impressive competitor but also a challenge to Christianity itself.
قرونِ وسطیٰ میں، عیسائیوں نے اسلام کے بارے میں تعصب پال رکھا تھا اور وہ اسلام کوdemonic religionیعنی معا ذاللہ ارتداد پذیر برے مذہب ،کفر و بے حرمتی کے مذہب اور ابہام پر مشتمل پیچیدہ مذہب کے طور متعصبانہ نظروں سے دیکھتے تھے۔ اور اسلام کی موجودگی ان کی نظروں میں مد مقابل کے طور پر کھٹکتی تھی ۔ ان کا نظریہ تھا کہ اچھے کے لیے لازم ہے کہ وہ برے پر قابض ہو اور اسے ختم کرے۔ اسی حوالے سے انہوں نے صلیبی جنگوں کا آغاز کیا جس میں انہوں نے اسلام کو برائی سمجھتے ہوئے ختم کرنے کی مذموم کوشش کی۔( یہ کوشش عیسائی پادریوں کی جانب سے بھی تھی جنہیں حق کے سامنے ہوتے ہوئے خوف محسوس ہوتا تھا اور ان کا وجود ڈولنے لگتا تھا )
During the Middle Ages, Christians viewed Islam as a “demonic religion of apostasy, blasphemy, and obscurity,” intensified by the presence of Islam as an active competitor with Christianity. In the Christian “good must prevail over evil,” Islam was seen as the evil that must be defeated during ۵ the Crusades.
ایڈورڈ مزید لکھتا ہے کہ اسلام کبھی بھی نہیں لگتا کہ مکمل طور پر مغرب کے قبضے میں رہا ہے۔ اس نے تیل کی قیمتوں کی جنگ میں فتح حاصل کی ہے اور مغرب کو دہشت گردی کے حوالے سے سہما دیا ہے۔
جس طرح سے اسلام کو(برے اندازمیں مسخ کرکے) پیش کیا جاتا ہے اس طرح اس کا مطالعہ مغربی لوگوں کے لیے کبھی بھی ممکن نہیں رہتاکہ وہ اسلام کے بارے میں جانیں۔ مغربی میڈیا زیادہ ہی آسانی سے اسلام کے تشخص کو مسخ کرکے پیش کرتا ہے اور مسلمان علما ء اپنی پر جوش تقریروں اور ولولہ انگیز باتوں سے (یہ جہاد کے بارے میں بات ہے۔قیاس)دوسروں کے دلوں میں کم دوستانہ رویہ پیدا کرتے ہیں ۔ امریکہ کا بھی مسلمانوں کے حوالے سے بہت کم تجربہ ہے۔ اس کے بر عکس یورپی لوگ جو کہ مسلمان ممالک پر حکومتیں قائم کر چکے ہیں (Have Colonized)اور ان کے اپنے ممالک میں مسلمانوں کی تعداد بھی زیادہ ہے ان کا اندازہ نسبتاً بہتر ہے۔ امریکہ کا مسلمانوں کے بارے میں کم تجربہ اسے جہالت کی حد تک اسلام کو نا سمجھنے کی جانب لے کر گیا ہے۔ سیڈ لکھتا ہے کہ ثقافتی طور پرورلڈ واردوم سے قبل اسلام کے لیے امریکہ میں کوئی اچھا مقام نہیں رہا ۔
“Culturally there was no distinct place in America for Islam before World War II.”
سیڈ لکھتا ہے کہ ثقافتی طور پرورلڈ واردوم سے قبل اسلام کے لیے امریکہ میں کوئی اچھا مقام نہیں رہا اسلام اور عیسائی دنیا کے تعلق کی تاریخی اہم ہے یہ سمجھنے کے لیے کہ کس طرح سے خیالات کو میڈیا فریم کرتا ہے۔ تعلق سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ مشرق کی دوسری تہذیبوں کے بر خلاف اسلام کبھی بھی مغرب کے تابع نہیں رہا۔ سیڈ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ جس طرح ۷۰کی دہائی میں تیل کی قیمتیں بڑھیں اس سے لگتا ہے کہ مسلمان دنیا پر قابض ہونا چاہتے ہیں اور اس سے مغربی دنیا ڈری سہمی لگتی ہے ۔ سرد جنگ کے اختتام پر ایران اور اسلام کو با ضا بطہ اور بالخصوص تیل کی حکمرانی اور دہشت گرد قرار دیا گیا کیوں کہ انہوں نے حزب اللہ کی حمایت کی تھی اور حزب اللہ نے خلیج اور عرب میں بیرونی(امریکن) تسلط کے خلاف کلمہ حق بلند کیا تھا ۔ سرد جنگ کے اختتام تک میڈیا کوریج اسی چیز پر زور دیا جاتا رہا ہے کہ اسلام برا ہے۔اسلام سے متعلق ذراسی معلومات اور خبر کو بھی بہت اہمیت دی جاتی اور بڑھا چڑھا کے پیش کیا جاتا رہا ہے۔ یہ سمجھنا کہ کس طرح سے وہ اسلام کے تشخص کو برباد کرتے ہیں، میڈیا کے فریم ورک کو سمجھنا ضروری ہے ۔ اس باب میں فریمنگ پر زور دیا گیا ہے اور سمجھنے کے حوالے سے بھی اصرار موجود ہے ۔ بالخصوص یہ سمجھنا کہ کس طرح سے میڈیا اس تصور کو لاگوکرتاہے کہ وہ تیل کے حوالے سے اسلام کا تصور خراب کرتاہے۔ اس سے پتہ لگے کا کہ ہمارا میڈیا کس حد تک ذمے دار اور قصور ورا ہے ۔
باب دوم:وضاحتی کمیونیٹیاں Communities of interpretation
ایڈورڈ کہتا ہے کہ مغربی دنیا میں اسلام کا تصور ایک ایسے مذہب اور قوم کا تصورہے جس کی نا تو کوئی تاریخ ہے ، نا کوئی انقلابی کام یا انقلاب ہے اور نا ہی اس کی کوئی شنا خت ہے ۔ مغربی صحافیوں کی ذہنیت کے مطابق مسلمان لوگوں کے خیالات اور افکار نہایت محدود ہیں اور دائروں میں بند ہیں۔ سیڈ کہتا ہے کہ مغربی میڈیا اسلام کا تصور دورِ جاہلیہ کے لوگوں کا پیش کرتا ہے اور ان کے پالیسی میکر امریکہ کے زندگی کے سٹائل کے خلاف ہے۔ اسی سبب امریکہ کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اسلام اور مسلمان دشمن رویہ پایاجاتاہے۔ ایک فلاسفر C. Wright Millsکے مطابق انسان اپنے تجربے سے بہت کچھ زیادہ جانتا ہے ۔ اس کا یہ علم بہت سے مختلف ذرایع سے حاصل ہوتاہے۔
“Human beings are aware of much more than they have personally experienced; and their own experience is always indirect.” ۶
بالکل اسی طرح اگر C. Wright Mills کے نظریے کو سامنے رکھیں تو امریکن لوگوں کا علم ان کے ذاتی تجربے سے بہت زیادہ ہے اور یہ در اصل اس بیمار دماغ کی پیداوار ہے جو امریکن میڈیا کی صورت میں اسلام دشمن رویے کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہوتاہے۔میڈیا بالواسطہ ان کی جانکاری کو نقصان پہنچا رہا ہے اور اسلام دشمن رویہ پرورش پا رہا ہے ۔ میڈیا اسلام کی مسخ شدہ شکل پیش کرتا ہے ۔ مثال کے طور پر سیڈ دو نمونے پیش کرتا ہے ۔ ان میں سے پہلا نمونہ Robert Tuckerکی صورت میں ہے جو “Oil: The Issue of American Intervention” جیسے مو ضوعات پر لکھ کر عوام کی رائے بدلتا ہے اور اسے اسلام کے خلاف بھڑکاتا ہے ۔ دوسرا نمونہMoynihanکی تحریر کا ہے جو “The United States in Opposition”جیسی تحریر کے ذریعے اسلام دشمن رویے کو ہوا دیتا ہے۔ وہ اپنے کالم میں مسلمان لوگوں کو امریکن پالیسی کے خلاف چلانے والا دکھائی دیتا ہے ۔ جبکہ دوسرا یہ کہتا ہے کہ مغربی دنیا میں چونکہ جمہوریت نہیں ہے اس لیے وہ ان کی جمہوریت کے لیے خطرہ بنیں گے ۔بالفاظِ دیگر وہ امریکہ کے مفادات ( انٹرسٹInterest) کے خلاف ہو جائیں گے/ہیں۔ سیڈ ان دونوں اشخاص کی مثال دے کر بتاتا ہے کہ ان کی تحاریر امریکن عوام کو یہ مسلسل باور کراتی ہیں کہ مسلمان امریکہ کو تیل دینے کے بہت زیادہ خلاف ہیں اور اس سے امریکہ شہریوں کی اس آزادی کو خطرہ لا حق ہے کہ وہ با آسانی چل پھر سکیں یا اپنی گاڑیاں چلا سکیں۔مغربی دنیا کا میڈیا عوام کو براہِ راست سچ تک رسائی نہیں دیتا۔ تصاویر اور خیالات نا صرف حقائق سے نہیں نکلتے ہیں بلکہ در اصل سچ موجود ہی نہیں ہوتا۔ ہمارے پاس نہیں ہوتا uncertainedنہیں ہوتا۔
“pictures and ideas do not merely spring from reality into our eyes and minds, truth is not directly available, we do not have an unrestrained
variety at our disposal.” ۷
ایڈورڈ کا خیال ہے کہ سچائی کے فقدان کی جڑیں میڈیا سے ہی نشو نما پاتی اور پھلتی پھولتی ہیں تا کہ کچھ خیالات کی تشہیر ( پروموٹ) کر سکیں او ر کچھ کو چھپا سکیں یا اپنے خیالات کو دوسروں تک پھیلاسکیں۔ اور یہ امریکہ کی فارن پالیسی کا ایک حصہ بھی ہے اور اسے بنانے بگاڑنے میں بھی اہم کر دار ادا کرتا ہے ۔ مغربی صحافی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ خبر کیا بنانی ہے، اس سے کیا نتائج لینے ہیں اور کس طرح سے عوامی سوچ کو بدلنا ہے۔ لوگوں تک اس کی رسائی کیسے ہوگی اور کیا نتائج لینے ہیں۔ سیڈ کہتا ہے کہ مغرب میں اسی حوالے سے برے اور منفی انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔حالانکہ اسلامی زندگی نا تو محض تحریروں تک محدود ہے نا ہی شخصیات تک اورنا ہی سادہ تعمیرات تک لیکن ان ہی حوالوں سے بار بار اسلام کانام استعمال کیا جاتا ہے ۔ یہ ایک نا قابلِ یقین ذریعہ معلومات ہے۔
“So much of Islamic life is neither bound by texts nor confined to personalities or neat structures as to make the overused word “Islam” an unreliable index of what we try to apprehend.” ۸
سیڈ کی مغربی میڈیا کے حوالے سے یہ بھی بحث کرتا ہے کہ امریکی میڈیا فرانسیسی اور برطانوی میڈیا سے مختلف ہے کیونکہ یہ ایک superpowerہے اور اگرچہ امریکہ کا خیال نہیں کہ یہ ان کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوتاہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ایسا ہوتا ہے ۔ ان کے مطابق مسلمان تیل کی قیمتوں کو بڑھا کر امریکہ کو تباہی سے ہمکنار کرنے کی سازشیں کررہے ہیں۔سیڈ Charlotte Ryan’sکی اس خیال سے متفق ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ اسلام کے بارے میں لکھے گئے آرٹیکلز کو خصوصی طور پر بنایا جاتا یا Frameکیا جاتا ہے تا کہ مغربی دنیا کو اپنے مذموم مقاصد حاصل ہو سکیں۔اس طرح سے مسلمانوں کا تصور ایسے گروپ کی شکل میں دیا جاتا ہے جو عقل و دانش سے پیدل اور محدود سوچ کے حامل ہیں۔ اس طرح سے امریکہ کو اپنے برائے نام اور خود سے دکھائے جانے والے دشمنوں کے مقابل قوم کو یکجا کرنے کا موقع بھی ملتا ہے اور قومیت Nationalismپروان چڑھتی ہے۔
سیڈ کہتا ہے اس اندا ز میں مغربی میڈیا ایک تیر سے دو شکار کرتا ہے۔ ایک طرف و ہ سیاسی طرفداری کے ساتھ معلومات مہیا کرتا ہے جس سے قومی اتحاد کو فروغ ملتا ہے جبکہ دوسری جانب اسلام کی غلط تفہیم ہوتی ہے ۔ Time for Kids,نامی رسالے کی مثال لے لیجیے اس میں ہر کہانی امریکہ اور اس کی اقدار کی شان و شوکت سے متعلق ہی ہوتی ہے ۔ اس میں امریکیوں کو شاندار، عقل مند اورصاف ستھرا دکھایا جاتاہے جبکہ افغانی فوجی کی تصویر کو غلیظ اور جنگلی بنا کر دکھایا جاتاہے ۔
باب سوم: اسلام کی وضاحت کرتے سیاستدان: تقلید پسند اور متضاد علم
جب مغرب اسلام کا ذکر میڈیا میں کرتا ہے تو یہ انہی مقاصد کے تحت ہوتا ہے جس کا وہ پہلے سے تعین کرچکے ہوتے ہیں(مغربی دانشوراور صحافی)۔ جب میڈیا کسی مضمون کو دائرہ کار میں لانا اور بتانا چاہتا ہے تو اس کے ماہرین کی غیر موجودگی کی وجہ سے جھوٹ گھڑتا ہے اور اس کی راہ کم علمی جیسی بنیادی چیز حائل نہیں ہوتی کیوں کہ وہ اپنی تمام تر کم علمی اور کج فہمی کے باوجود جو چاہتا ہے کہتا اور لکھتا چلا جاتا ہے۔ وہ مسلم تاریخ، معاشرت اور سیاسی سمجھ بوجھ نا ہوتے ہوئے بھی اسلام کے بارے میں خوب زہر فشانی کرتا ہے۔ اسی حوالے سے ایڈورڈ لکھتا ہے :
“the media hides more than it reveals” when covering issues in the Middle East.
یعنی میڈیا نے کچھ دکھانا ہوتا ہے اس سے زیادہ چھپانا ہوتا ہے۔ایسا وہ بالخصوص مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے دانستہ طور پر کرتا ہے ۔
ایسا ہی معاملہ “Princess Episode” کا ہے جو کہ برطانوی ڈائریکٹرBritish director Anthony Thomas نے بنائی ہے۔ اس میں سعودی عرب کے لوگوں اور اسلام دونوں کو طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔(ایسی ہی ایک اور فلم لارنس آف تھلیویا بھی ہے)۔ اس میں اسلام کے حوالے سے افواہیں پھیلانے کی کوشش بھی کی گئی ہے جس کا حتمی نتیجہ لوگوں کو اسلام سے دور کرنا اور اس کا منفی کردار پیش کرنا ہے۔ اس فلم کے بارے میں ایک جگہ لکھا گیا ہے :
The film generalized and portrayed a bad picture of Saudi Arabia in particular.
اس فلم کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی اور ساتھ میں سیاسی و معاشرتی تناظر کے ذریعے حقائق کو مسخ کرنے کی سازش بھی کی گئی تھی ۔ اب جب کہ لوگوں نے جو کچھ دیکھا وہ چونکہ اس کی پس منظر سے نا صرف نا واقف تھے بلکہ حقائق کو جانتے ہیں نہیں تھے (اسلامی معاشرت اور سیاست کے حوالے سے)تو وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہ فلم درست یا غلط ہے۔(ایسی صورت میں یقیناًوہ اسی پر یقین کریں گے جو کہ وہ دیکھ رہے ہوں )۔فلم نے اس سلسلے میں جو کچھ کیا وہ اس خیال کی آبیاری کے سوا اور کیا کچھ ہو سکتا تھا کہ مسلمان متشدد اور بنیاد پرست ہیں اور بہت حد تک جاہل بھی۔اسی طرح کی ایک اور فلم “Jihad in America,” بھی مسلمانوں کے خلاف ہی فلمائی گئی تھی (اس کے بعد zero dark thirtyبھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے)۔اس کا واحد مقصد امریکن لوگوں کو یہ باور کرانا تھا کہ امریکہ مسلمانوں کے لیے میدان جنگ تھا تاکہ وہ اس میں خوف و ہراس پھیلا سکیں ۔
“America was the battleground for Muslims plotting terror and horrifying warfare against us in our midst.”
اس سے انہیں” ہم اور تم” کے نظریات ملے یعنی دو مختلف جہتوں ، دو مختلف خیالات، افکار اور سمتوں کا تعین ہوا۔ کیا اس طرح کی خبروں اور تشہیر سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اسلام در اصل کیا ہے ؟اس باب میں اس بات کا ذکر ہے کہ فریمنگ کی کس طرح جاتی ہے ۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح محض دو فلموں نے لوگوں کوسوچ اور افکار کے حوالے سے تقسیم کیا خیالات کیا ۔ مزید یہ بھی کہ کس طرح سعودی عرب کی تحقیر کرکے اسے اسلام کا نمائندہ ظاہر کیا گیا۔
’’Time For Kids ‘‘کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ کس طرح قاری کو لکھاری کے خیالات سے غیر محسوس انداز میں ہم آہنگ کیا جاتا ہے ۔ “A Look at Islam” کے آرٹیکل میں بڑا مقصد یہ رہا کہ دہشت گردی مذہب میں پنپتی ہے اگرچہ یہ ایک امن پسند مذہب ہی ہو ۔ اس آرٹیکل کا آغاز دہشت گردی کی گفتگو سے ہوتا ہے اور پھر یہ مذہب سے ہوتا ہوا دوبارہ سے دہشت گردی کی جانب چلا جاتاہے۔اسلام کے بارے میں کوئی اچھی رائے کیوں قائم کرے گا جبکہ اسے یہی تربیت دی جارہی ہوگی کہ یہ کنٹرول سے باہر ہے، اوراس کے تمام ماننے والوں کے عقائد ایک جیسے ہیں، سیاسیات اور معاشی نا انصافی سب کچھ ایک ہی ہے۔ Time for Kids بچوں کو مسلسل یہی سبق دے رہا ہے کہ ہم اور ہیں اور مسلمانوں کی ثقافت کچھ اور۔مسلمان اور ان کی اقدار دونوں برائی ہیں جب کہ امریکی اور ان کی اقدار سب سے بہترین ہیں۔
باب چہارم: اسلام کی وضاحت کرتے سیاستدان: تقلید پسند اور متضاد علم
سیڈ سوال کرتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک کلچر کے لوگ دوسرے کلچر سے نا واقفیت کے باوجود اس پر مکمل رائے قائم کر لیں ؟اس کے جواب میں وہ کہتا ہے کہ یہ مغرب کا وطیرہ بن چکا ہے کہ وہ دوسرے کلچر کے لوگوں کے بارے میں رائے قائم کر لیتے ہیں ۔ بیکن کہتا
ہے کہ :
“Human knowledge is only what human beings have made. External reality, then, is no more the modifications of the human mind.”
انسانی علم محض وہی ہے جو اس نے بنا لیا ہے ۔ حتمی سچائی تو یہی ہے کہ انسانی دماغ کی مزید تبدیلی نہیں کی جاسکتی ۔(یعنی انسان نے بہت سوچ سمجھ کے بعد بہت سے علوم بنائے ہیں اور ان میں اب مزید تبدیلیاں واقع نہیں ہورہیں۔)
تاہم مغربی لوگوں کے ہاں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں معروضی علم وجود میں نہیں آرہا ۔یورپی دوسرے کلچرز کو تجارت، فتح یا حادثے کی صورت میں رونما ہونے والی کلچر کی صورت میں دیکھتے اور بیان کرتے ہیں۔Interestکی جڑیں ضرورت سے جڑی ہوتی ہیں اور ضرورت سامراجیت کو بھوک، خوف اور دلچسپی و تجسس کے تحت اکٹھا رہنے پر اکساتی ہے۔ امریکیوں نے برطانویوں سے جو کچھ سیکھا ہے یا لیا ہے وہ اسی کی بنیاد پر ہمارے کلچر کو دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔قدیم کلچرز کا تعلق ہمیشہ کمرشل، سامراجی کالونیوں اور فوجوں کی بڑھوتری سے رہا ہے۔جب تک ایک کلچر کو دوسرے کلچر کے قریب ترین رہنے کا موقع میسر نہیں آتا، یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کی تفہم کی جائے ۔ اسلام کی تفہیم کے حوالے سے مغرب میں کچھ بھی ’’آزاد ‘‘نہیں ہے بلکہ یہ کسی نا کسی ایجنڈے کے تحت ہے۔
امریکہ اور یورپ دونوں کی خبروں میں اسلام تضحیک کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔مغرب میں اسلام کے پڑھے لکھے فہیم جو کہ میڈیا، گورنمنٹ اور زمینی اہمیت کے جانکار لوگ ہیں سبھی کے سب اس نظریے کے حامی ہیں کہ اسلام مغرب کا دشمن ہے جس کے نتیجے میں اسلام کے حوالے سے منفی خیالات پروان چڑھ رہے ہیں۔اسی حوالے سے پرنسٹن میں چار سیمینار منعقد ہوئے جو کہ امریکہ کے فنڈڈ تھے ۔ ا ن میں بار بار اسی بات پر زور دیا جاتا رہا کہ اسلام ایکMake-believeدنیا میں رہتے ہیں جہاں پر خاندان آزاد نہیں ۔ مزید یہ کہ تمام لیڈرز نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں اور معاشرہ بھی ابھی پختہ نہیں ہے۔ ان سیمیناروں میں اسلام کے تشخص کو خراب کرنے کی پوری کوشش کی گئی اور مقررین کے خطابات سے لگتا تھا جیسے مغرب میں اسلام کے حوالے سے ایمر جنسی نا فذ ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوررنگ اسلام جیسی کتاب پر امریکہ میں تنقید کی گئی اور اسے آڑھے ہاتھوں لیا گیا ۔
ایڈورڈ کہتا ہے کہ اسلام میں تین قسم کے متضاد علوم ہیں اور تین ہی طاقتیں ہیں۔ ایک نوجوان علماء کا گروپ ہے جو کہ سیاسی طور پر شفافیت اور ایمانداری کے قائل ہیں ۔ دوسری قسم بزرگ علماء کی ہے جو کہ متشدد قسم کے خیالات کے پابند لوگوں کے خلاف ہیں۔تیسرا لکھاری ، مفکرین اور مصلح لوگوں کا گروہے جنہیں اسلام کا ماہر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ یہ جنگ اور سامراجیت کے مخالف ہیں۔یہ ملائیت کے خلاف ہیں، مفکرین اور اساتذہ ہیں۔ایڈورڈ کہتا ہے کہ تینوں قسم کے لوگوں کا مکمل علم اور ادراک ہی انسان کو اس قابل بنا سکتا ہے کہ وہ کوئی رائے قائم کر سکے۔ ورنہ وہ ہر خبر اور بات پر محض سرِ تسلیم خم کرنے والوں میں سے ہوجاتے ہیں۔ اپنی بات کومنطقی انجام تک پہنچا کر ختم کرتے ہوئے سیڈ یہ خیال پیش کرتا ہے کہ علم کوکسی خاص قوم، نسل یا مذہب کا زاویے سے سمجھنے کے بجائے سیاسی اور انسانی دونوں حوالوں سے سمجھا اورحاصل کرنا ضروری ہے ۔
جب کوئی بچہ Time for Kidsکا رسالہ اٹھاتا ہے تو وہ اس لکھاری پر انحصار کرتا ہے جو کہ اسے باہر کی دنیا سے ملاقات کروانے میں پل کا کردار ادا کرتا ہے کہ وہ اسے حقائق تک پہنچائے گا یا رسائی کو ممکن بنائے گا۔ یہ لکھاری بچوں کے حوالے سے ماہر ہوتے ہیں اور جو کہ ان کی سوچ اور خیالات کو اپنی مضموم مقاصد کے تحت ڈھال لیتے ہیںیا مسلسل ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان لکھاریوں کا اسلام دشمنی اور ملک کے معاشی ، معاشرتی و سیاسی اداروں سے گہرا تعلق ہے جو کہ دراصل ملک کو چلارہے ہیں۔امریکی میں اقدار اور علم کو سمجھنے کے لیے اکیڈمیز، کانگریس، میڈیا ،یونیورسٹیوں اور وزارتِ خارجہ کے دفاتر سے مدد لی جاتی ہے ۔ شہری ہونے کے ناطے ان اداروں پر بھروسہ کیا جاتا ہے کہ وہ جو کچھ کہیں گے اور بتائیں گے اس میں اغلاط کے امکانات بہت کم اور سچائی بہت زیادہ ہوگی ۔ تاہم اسلام کے حوالے سے جہاں ان کے مفادات ہوتے ہیں وہ عملی اور تجرباتی ، دونوں سطحوں پر بھرپور محاز قائم کرتے ہیں۔ اب اس ساری صورتِ حال میں چونکہ Time for Kidsرسالہ امریکہ کے اداروں کے چندے پر چلتا ہے اس لیے وہ شروع ہی سے بچوں کے ذہن میں اسلام کو خطرنا ک اور بربریت کے شاہکار کی تصویر نقش کرتا ہے۔ بعد میں ایسے تصورات کو امریکی سپاہیوں اور افغانی سپاہیوں کی صورت میں اور بھی اجاگر کیا جاتا ہے ۔ یعنی امریکی
سپاہی دنیا کے بہترین اور حق پرست انسان جبکہ افغانی سپاہی یا مجاہد بد ترین لوگ ۔
When a journal views Islam as a commodity and not as a culture, the images corresponding to Islam will distort the child’s objective knowledge. That child will then consume the contaminated interpretation as a projection of reality.
ترجمہ: جب کسی رسالے میں اسلام کو ایک کلچر کے بجائے ایک بھیڑ چال کے طور پر دکھایا جاتا ہے تو بچہ حقیقی علم تک پہنچنے سے قاصر رہا ہے ۔ پھر یہی بچہ متعصب ہوئے بنا سوچ نہیں پاتا اور نا ہی حقائق کا علم حاصل کرپانے میں کامیاب ہو پاتا ہے ۔
American children are the future of this country, and if their initial exposure to Islam is from the government, corporations or universities, who have connections with one another, the information they are receiving is pure commodity. This leaves the future leaders of the “great” nation targets of consumer globalization
ترجمہ: اگرچہ امریکی بچے اس ملک کا سرمایہ ہیں ۔اگر ابتدا ء ہی میں انہیں ان کے معزز اداروں جیسی یونیورسٹیوں، میڈیااور گورنمنٹ کی جانب سے اسلام کو اس طرح منفی انداز میں پیش کیا جائے گا تواس سے اس بڑی قوم کی بنیادی جڑیں مضبوط نہیں ہو پاتی اور وہ گلوبلائزیشن کے دور میں مادی فوائد کا بندہ ہو کر رہ جاتا ہے ۔
باب پنجم :علم اوراس کی وضاحت
سیڈ کے مطابق علم کا تعلق تاریخ سے ہوتا ہے اور یہ انسانی معاشرے میں نتائج نکالنے اور کوئی فیصلہ کرنے کا نام ہے ۔ حتیٰ کہ اگرچہ تاریخ حقائق کی بازیافت کا نام ہے ، حقائق اس حوالے سے انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کہ ان سے کیا نتائج اخذ کیے جاتے ہیں۔جب کہ کسی چیز کی سمجھ بوجھinterpretationکا تعلق کسی دوسری چیز کی سمجھ بوجھ سے براہ راست ہوتا ہے ۔ اسے اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی تحریر اصل نہیں ہوتی ۔ در حقیقت اس کی کوئی نا کوئی توجیہہ یا شبیہہ انسانی دماغ میں ضرور موجود ہوتی ہے جو اسے سمجھنے میں مدد دیتی ہے ۔ سیڈ کے مطابق interpretationچار چیزوں سے تعلق رکھتی ہے یا ان پر منحصر ہوتی ہے : interpreterسمجھانے والا کون ہے ؟وہ کس سے مخاطب ہے ؟سمجھانے میں اس کا کیا مقصد مضمر ہے ؟ اور کس تاریخی واقعے کے ساتھ اس کے ادراک interpretationکی کوشش کی جارہی ہے ۔ تمام قسم کی interpretation کا تعلق دماغی سرگرمی ، اسے بنانے اور بگاڑنے سے ہوتاہے ۔ عبارت کی interpretation کا تعلق ہمارے کلچر سے ہے اور اس کو اس وقت تک ہر گز نہیں سمجھا جاتا جب تک کہ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھنا چاہیے۔
جب کسی چیز کی interpretation کی جاتی ہے تو اس میں محسوسات، عادات، وابستگی ہر چیز کے تعلق کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے ۔ کوئی بھی شخص جب interpretation کرتا ہے تو کلچر کی اقدار جس میں بعض چیزوں کی اجازت اور بعض سے منع کیا گیا ہوتا ہے ، کے تحت کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ کسی بھی چیز کو اپنے نقطہ نظر کے مطابق ہی دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ ایسے میں اس کے وہ خیالات جو اس کے کلچر کے اقدار کے زیرِ اثر ہوتے ہیں اگر interpretation ہونے والی چیز یا بات سے متصادم ہوتے ہیں تو وہ انہیں چھوڑ دیتا ہے یا اس کی نفی کرتا ہے جب کہ اگر اس کی اقدار کے مطابق ہوں تو ان کی تائید کرتا ہے ۔سیڈ کہتا ہے کہ جہاں طلب یا دلچسپی نا ہو وہاں ممکن ہی نہیں کہ interpretation، علم یا سمجھنے کی طاقت موجود ہو۔ سیڈ اس حوالے سے ہنس جارج گڈمیرHans-Georg Gadamer کا حوالہ دیتا ہے :
“A person trying to understand a text is prepared for it to tell him something.”
ترجمہ: ایک شخص جو کسی تحریر کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے در اصل وہ اس کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوتا ہے ۔ یا ۔ وہ چیز بھی اسے ادراک دیتی ہے ۔
سیڈ اس بات کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے کہ ہمارامعاشروں، مذاہب اور کلچرز کے حوالے سے جو علم ہے وہ اشخا ص کے ذاتی علم اور دوسرے بہت سے بالواسطہ نتائج کے مجموعے سے نکلتا ہے۔جو کچھ علم کو اچھا یا برا بناتا ہے وہ معاشروں کی ضروریات سے مشروط ہوتا ہے۔ کوئی بھی چیز کاخا لص تجزیہ نہیں ہوتا کیوں کہ اس کی بنیاد گزشتہ تجربات کی بنیاد پر ہوتی ہے ۔ یہ تجربات و مشاہدات جو تعلیم اسے مہیا کی گئی ہوتی ہے اس سے ، اس کے تعلیمی اداروں، گورنمنٹ اور میڈیا سے ملتی ہے۔ اس لیے کسی اجنبی کلچر کے بارے میں جونظریات اور خیالات لوگوں تک پہنچائے جاتے ہیں وہ اپنی مرضی سے ہی پہنچا ئے جاتے ہیں ۔ ایسی صورتِ حال میں اس کلچر سے متعلق چیزیں غلط انداز میں سیکھی اور سکھائی جاتی ہیں جس کی ایک بڑی مثا ل اسلام یا مسلمانوں کا کلچر ہے ۔
سیڈ کے مطابق آج کے دور میں اسلام کو مغرب نے تیل کی سیاست اور اس کے بحران ، بنیاد پرستی، دہشت گردی ، میڈیا میں مذاق بنانے اور خوامخواہ اس کی غلط توجیہات پیش کرنے کے لیے پسند کیا ہوا ہے ۔ جب کبھی اسلام کے بارے میں معلومات پیش کی جاتی ہیں تو اس کو بہت ساری پہلے بیان کی گئی باتوں کے ساتھ ملا کر پیش کیا جاتا ہے ۔
سیڈ کی کتاب کے حوالے سے نیٹ پر موجود ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر سیڈ کے بتائے گئے حقائق کو درست مان لیا جائے تو انداز ہ ہوگا کہ مغرب اپنے بچوں کو اسلام کے حوالے سے کیا تعلیمات دے رہا ہے اور کس طرح اسلام کے تشخص کو برباد کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔
If Said is correct in stating that all views are connected and based upon other interpretations, the children reading Time for Kids, will create a foundation of Islam based on the American projection of their culture and country in the future. Whether or not a particular reader comes across the “other side” to the Islamic culture, his or her interpretation will still have connection to the message presented in Time for Kids.
بچوں کے حوالے سے Charlotte Ryan’s نے بھی اپنے آرٹیکل “Prime Time Activism”میں سیڈ کی بات کا اعادہ کرتے ہوئے یہ لکھا ہے :
Time for Kids is presenting a frame of cultural resonances: cultural stereotypes are used to reinforce general social goals.
ایڈورڈ سیڈ کی کتاب کے حوالے سے Islam and Edward Said: An Overviewعنوان کے تحت آرٹیکل میں
ڈھاکہ یونیورسٹی کے انگلش ڈیپارٹمنٹ غلام غوث القادری اور بنگلہ دیش یونیورسٹی کے انگلش یونیورسٹی کے حبیب اللہ نے ایک مقالہ پڑھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :
ایڈ ورڈ کی کتاب کا بہت سی ادبی اصطلاحات کے ساتھ ساتھ (ادب کے مطالعے کے ساتھ ساتھ )مو ضو عی مطالعہ بھی کیا گیا تاکہ یہ دیکھا اور جانچا جا سکے کہ ایڈورڈ نے جو کچھ مغرب کے بارے میں کہا ہے آیا وہ درست ہے یا نہیں ؟اس میں یہ بھی جانچنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس کی یہ کتاب مغربی عفریت (ان کے میڈیا، سیاستدانوں اور دانشوروں کی سوچ اور اسلام کو بدنام کرنے کی با قاعدہ سازش )کے خلاف اسلام کے دفاع کی کوشش ہے ۔ ایڈورڈ کی اس کوشش کی بنیاد اس کے سکالر ہونے ، ذہانت اور مصمم ارادے کی ترجمان ہے۔ یہ بین الاقوامی سیاسی صورتِ حال کی تفہیم بھی کرتی ہے اور اس کے اسلام سے تعلق کو بھی وا ضح کرتی ہے۔ سیڈ کی یہ کاوش اسلام کے بارے میں غورو فکر کرنے والوں کی آنکھیں روشن کرے گی ۔ سیڈ نے اپنے آپ کو امریکہ اور مغرب میں ایک تجزیہ کاراور حقیقت نگار کے طور پر پیش کیا ہے اور مغرب کی ابہام پرستی اور جھوٹ کی کھل کر نفی کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
وکی پیڈیا پر ایڈورڈ کی کتاب کا ملخص اس طرح پیش کیا گیا ہے:
ایڈورڈ سیڈ کہتا ہے کہ علم طاقت ہے اور وہ لو گ سب سے زیادہ طاقتور ہیں جو مغرب کے میڈیا کو کنٹرول کرتے ہیں۔ کیوں کہ وہ لوگوں کی پسند نا پسند کو سمجھنے اور بدل دینے کی پوری طاقت رکھتے ہیں۔ عقل ایک شخص کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ سوچے ، سمجھے، سوال کرے اور اپنی اچھائی برائی کو جان پائے۔ اسلام کے مطابق یہ اس کا شعور ہی ہے جو اسے اشرف المخلوقات بناتا ہے۔ انسان فطری طورپر ایک آزاد خیال اور شعور والا ہے لیکن مغربی میڈیا چاہتا ہے کہ وہ عقل و شعور چھوڑ کر صر ف و صرف اسی کی بات مانے۔ کسی خیال کو بنا کسی سوال یا سوچ وچار کے مان لینا در اصل کم عقلی اور بے شعوری ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ایک شخص کو یہ اختیار دے دینا کہ دوسرا ہی اس کے لیے سوچے اور اس کے لیے فیصلہ کرے۔ وہ میڈیا کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ اس قابل ہے کہ معلومات کو کنٹرول اورفلٹر کر سکے، لوگوں کو جو دکھانا چاہتا ہے وہ دکھا سکے اور جو چھپانا چاہتا ہے وہ چھپا سکے۔معلومات کے اس دور میں، سیڈ کہتا ہے کہ یہ میڈیا ہی ہے جو معلومات کو فلٹر کرتاہے ۔اس حوالے سے اس کا کہنا ہے کہ مغرب نے معیار مقرر کر لیا ہے کہ اسلام کے بارے میں کیا بتائے اور کیا نہ بتائے ۔اسلام کو مغرب ظالم دکھاتا ہے (خواتین کا حجاب میں ہونا مغرب کے لیے ظلم کی علامت ہے
جب کہ ان کی Nuns، Mothersجو حجاب اوڑھتی ہیں وہ فخر کی علامت ہے ) سنگسار(زنا کی صورت میں سنگسار ان کے ہاں ظلم ہے جب کہ امریکہ میں دنیا بھر سے زیادہ زنا ہوتے ہیں اور دیگر بہت سے ممالک میں منشیات کی سزا موت ہے اس پر امریکہ کبھی گفتگو نہیں کرتا )کتابیں جلانا (ان کے خیال میں مسلمان علم دشمن ہیں اور کتابیں جلاتے ہیں جبکہ ان کے آباؤ اجداد نے جو دنیا بھر میں لائبریریاں جلائیں وہ قابلِ فخر ہے مزیدیہ کہ وہ یہ فرضی کہانی سناتے ہیں کہ مسلمان علم دشمن ہیں حالانکہ ایسا نہیں)بہت سے معاملات میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں (شراب کا استعمال اور جوا منع ہے ۔جس سے مغرب کو بہت تکلیف ہے)یہ متشدد ہیں(الجزائر، لبنان اور سوڈان کی مثالیں)جاہل ہیں(پاکستان، سعودی عرب اور سوڈان کی مثالیں)دنیا بھر میں ان کی وجہ سے جھگڑے ہیں(فلسطین ،کشمیر اورانڈونیشیا)بہت خطرناک ہیں (ایران اور ترکی)۔
and Said claims that the media has determined very selectively what Westerners should and should not know about Islam and the Muslim world. Islam is portrayed as oppressive (women in Hijab); outmoded (hanging, beheading and stoning to death); anti-intellectualist (book burning); restrictive (bans on post- and extramarital affairs, alcohol and gambling); extremist (focusing on Algeria, Lebanon and of course Egypt); backward (Pakistan, Saudi Arabia and the Sudan); the cause of worldwide conflict (Palestine, Kashmir and Indonesia); and dangerous (Turkey and Iran).
سیڈ کہتا ہے کہ مغربی میڈیا نہیں چاہتا کہ کسی بھی طرح لوگ اسلام کے بارے میں یہ جانیں کہ مرد اور عورتیں برابر ہیں، اسلام برائی اور جرم سے روکتا ہے اور اس کے خلاف بھی ہے، اسلام ٹھوس تشخص کا مذہب ہے اوراخلاقیات کے ضابطے کا پابند ہے، اسلام معاشرتی طور پر بھائی چارے اور برابری کے تصور پر قائم ہے اور یہ بھی کہ اسلام ایک روحانی اور عملی مذہب ہے ۔سیڈ دعویٰ کرتا ہے کہ اسلام کے متعلق بے ہودہ اور بے معنی جھوٹی باتیں زور و شور سے آزادی، مقصدیت، جمہوریت اور ترقی کے نام پر پھیلائی جارہی ہیں ۔
حوالہ جات
۰۱۔ https://en.wikipedia.org/wiki/Covering_Islam
۰۲۔. Edward W. Said, Covering Islam (New York: First Vintage Book Edition, 1997) , P 48
۰۳۔Edward W. Said, Covering Islam (New York: First Vintage Book Edition, 1997) P 65.
۰۴۔Edward W. Said, Covering Islam (New York: First Vintage Book Edition, 1997) Flap
۰۵۔Edward W. Said, Covering Islam (New York: First Vintage Book Edition, 1997)P 18
۰۶۔Edward W. Said, Covering Islam (New York: First Vintage Book Edition, 1997)P 46
۰۷۔Edward W. Said, Covering Islam (New York: First Vintage Book Edition, 1997)P 48
۰۸۔Edward W. Said, Covering Islam (New York: First Vintage Book Edition, 1997) P 65.
۰۹۔ https://en.wikipedia.org/wiki/Covering_Islam
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
- See more at: http://www.jahan-e-urdu.com/coverin...d-review-khurram-yaseen/#sthash.Igm01jBh.dpuf(پی ایچ ڈی سکالر) فیصل آباد
دنیا بھر میں جہاں بھی چلے جائیں اسلام دشمنی تیزی سے پھیلتی ہوئی محسوس ہوگی ۔ مغرب کی استعماری طاقتیں ہوں یا مذہبی جنون، ہر جگہ اسلام کو بدنام کرنے اور اس کا تشخص برباد کرنے کی بھر پور مذموم کوششیں جاری ہیں۔ میڈیا وار اس حوالے سے سب سے اہم کر دار ادا کررہی ہے ۔ عقل و دانش سے پیدل مغربی دنیا بنا سوچے سمجھے میڈیا کے دکھائے کو سچ مانتے ہوئے اندھی تقلید کے ذریعے اسلام سے مسلمانوں سے بد دل ہوتی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے ایڈورڈ سیڈ جن کی کتاب کو ایرانی زبان یں ترجمہ کرتے ہوئے ایڈورسعید بھی لکھا گیا ہے، نے قلم اٹھایا اور کورنگ اسلام یعنی اسلام کو ڈھانپنا اور اس کے حقائق کو چھپانا جیسی کتاب لکھ کر حقائق کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا یہ کام اسلام فوبیا میں مبتلا مغرب کی سوچ کو للکارنے کے مترادف ہے اور اگر اسے حقائق کی بازیافت کہا جائے تو بھی غلط نہیں ہے۔ ذیل میں اس کتاب کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے جو دراصل کتاب کے مندرجات کی مختصر وضاحت ہی کی ایک کڑی ہے۔
کتاب کامعروضی مطالعہ کریں تو کورنگ اسلام Covering Islam کا زمرہ تاریخ و مذہب (اسلام) ہے۔مصنف کی وطنیت فلسطین ہے اور اس کی وجہ تصنیف اسلام فوبیا کے حوالے سے دفاعِ اسلام و حقیقی تاریخ نویسی ہے ۔کورنگ اسلام کو ۱۹۸۱ء میں ونٹیج بکس Vintage Books نے شایع کیا جبکہ اسکے صفحات کی تعداد ۲۰۰اور ابواب پانچ ہیں۔ موضوعی اعتبار سے یہ مصنف کی پہلی دو کتا بو ںOrientalism” “اورThe Question of Palestine”‘‘کے سلسلے کا ہی ایک تسلسل ہے ۔یہ سلسلہ اسلام کے بارے میں مغربی میڈیا کے غلط رویے اور اس کے تشخص کو تباہی سے ہمکنار کرنے کی مذموم کوشش کا رد عمل ہے۔ ایڈورڈ سیڈ ان حق شناس لوگوں میں شامل ہے جو کسی ذات، رنگ مذہب اور قومیت پر یقین رکھنے کے بجائے فلاحِ انسانیت اور حقوقِ انسانیت کے مقصد کے تحت زندگی گزارنا پسند کر تے ہیں اور بلا ضرورت کسی بھی مذہب کو طنز و تشنیع کا نشانہ بنانے سے گریز کرنے کا درس دیتے ہیں۔ کورنگ اسلام کو لکھنے کی غر ض و غایت کے حوالے سے وکی پیڈیا کا یہ اقتباس ملا حظہ کیجیے:
Covering Islam deals with issues during and after the Iranian hostage crisis, and how the Western media has speculated on the realities of Islamic life. Said questions the objectivity of the media, and discusses ۱ the relations between knowledge, power and the Western media
اقتباس میں ایران کی یر غمالی سے فلسطین پر قبضے اور اس کے ساتھ ساتھ مغربی میڈیا کی ہٹ دھرمی کا ذکر کیا گیا ہے۔ اگر کتاب کے سرورق پر غور کریں تو مصنف کے نام کے ساتھ یہ عبارت لکھی نظر آئے گی،جو کہ در اصل اس کا تعارف ہے :
۲ “Author of Culture and Imperialism”
ترجمہ: ثقافت اور سامراجیت کا لکھاری۔
اس کے بعد کتاب کے نام کے نیچے یہ عبارت درج ہے:
How the Media and the Experts Determine How we see the rest of the ۳ World
ترجمہ: میڈیااور ماہرین کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں(اور)بقایا دنیا کس طرح سے دیکھتی/سوچتی ہے ۔
اسی سرورق کے نیچے ایک ڈبے میں اس یہ عبارت درج ہے:
No one studying the relations between the West and the decolonizing. World can ignore Mr. Said’s work… ۴(The New Youk Times Book Review)
ترجمہ: کوئی بھی شخص مغرب اور آبادیاتی نظام کو نہیں دیکھ رہا۔۔۔مسٹر سیڈ کے تمام کام کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ (نیویارک بک ریویو)
درج بالا ریویو سے اندازہ ہوتا ہے کہ مغرب بے ایڈورڈ کی تحقیق و تنقید کو منفی معنوں میں لیا ہے اور یقیناًاس کے کام سے نا خوش ہے۔
سیڈ نے کتاب کو پانچ ابواب کو بالترتیب ان موضوعات میں تقسیم کیا ہے:اسلام اور مغرب،وضاحتی کمیونیٹیاں، اسلام کی وضاحت کرتے سیاستدان،تقلید پسند اور متضاد علم ، علم اوراس کی وضاحت۔ذیل میں ان ابواب کا ملخص پیش کیا جا رہا ہے
باب اول:اسلام اور مغرب
اس باب میں اسلام اورمغربی عیسائیت کے روابط کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ ایڈورڈ کہتا ہے کہ موجودہ عہد یا دورِ جدید میں کہا جاسکتا ہے کہ مغرب نے اپنی سوچ کے ذریعے (سوچے سمجھے منصوبے کے تحت)اسلام پر مسلط ہونے کی کوشش کی ہے۔
“Modern Occidental reactions to Islam have been dominated by a radically simplified type of thinking.”
وہ مزیدلکھتاہے کہ نا صرف اسلام مغر ب (یہود و نصاریٰ )کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ ان کا اچھا مقابل بھی ہے۔
Islam represents not only an impressive competitor but also a challenge to Christianity itself.
قرونِ وسطیٰ میں، عیسائیوں نے اسلام کے بارے میں تعصب پال رکھا تھا اور وہ اسلام کوdemonic religionیعنی معا ذاللہ ارتداد پذیر برے مذہب ،کفر و بے حرمتی کے مذہب اور ابہام پر مشتمل پیچیدہ مذہب کے طور متعصبانہ نظروں سے دیکھتے تھے۔ اور اسلام کی موجودگی ان کی نظروں میں مد مقابل کے طور پر کھٹکتی تھی ۔ ان کا نظریہ تھا کہ اچھے کے لیے لازم ہے کہ وہ برے پر قابض ہو اور اسے ختم کرے۔ اسی حوالے سے انہوں نے صلیبی جنگوں کا آغاز کیا جس میں انہوں نے اسلام کو برائی سمجھتے ہوئے ختم کرنے کی مذموم کوشش کی۔( یہ کوشش عیسائی پادریوں کی جانب سے بھی تھی جنہیں حق کے سامنے ہوتے ہوئے خوف محسوس ہوتا تھا اور ان کا وجود ڈولنے لگتا تھا )
During the Middle Ages, Christians viewed Islam as a “demonic religion of apostasy, blasphemy, and obscurity,” intensified by the presence of Islam as an active competitor with Christianity. In the Christian “good must prevail over evil,” Islam was seen as the evil that must be defeated during ۵ the Crusades.
ایڈورڈ مزید لکھتا ہے کہ اسلام کبھی بھی نہیں لگتا کہ مکمل طور پر مغرب کے قبضے میں رہا ہے۔ اس نے تیل کی قیمتوں کی جنگ میں فتح حاصل کی ہے اور مغرب کو دہشت گردی کے حوالے سے سہما دیا ہے۔
جس طرح سے اسلام کو(برے اندازمیں مسخ کرکے) پیش کیا جاتا ہے اس طرح اس کا مطالعہ مغربی لوگوں کے لیے کبھی بھی ممکن نہیں رہتاکہ وہ اسلام کے بارے میں جانیں۔ مغربی میڈیا زیادہ ہی آسانی سے اسلام کے تشخص کو مسخ کرکے پیش کرتا ہے اور مسلمان علما ء اپنی پر جوش تقریروں اور ولولہ انگیز باتوں سے (یہ جہاد کے بارے میں بات ہے۔قیاس)دوسروں کے دلوں میں کم دوستانہ رویہ پیدا کرتے ہیں ۔ امریکہ کا بھی مسلمانوں کے حوالے سے بہت کم تجربہ ہے۔ اس کے بر عکس یورپی لوگ جو کہ مسلمان ممالک پر حکومتیں قائم کر چکے ہیں (Have Colonized)اور ان کے اپنے ممالک میں مسلمانوں کی تعداد بھی زیادہ ہے ان کا اندازہ نسبتاً بہتر ہے۔ امریکہ کا مسلمانوں کے بارے میں کم تجربہ اسے جہالت کی حد تک اسلام کو نا سمجھنے کی جانب لے کر گیا ہے۔ سیڈ لکھتا ہے کہ ثقافتی طور پرورلڈ واردوم سے قبل اسلام کے لیے امریکہ میں کوئی اچھا مقام نہیں رہا ۔
“Culturally there was no distinct place in America for Islam before World War II.”
سیڈ لکھتا ہے کہ ثقافتی طور پرورلڈ واردوم سے قبل اسلام کے لیے امریکہ میں کوئی اچھا مقام نہیں رہا اسلام اور عیسائی دنیا کے تعلق کی تاریخی اہم ہے یہ سمجھنے کے لیے کہ کس طرح سے خیالات کو میڈیا فریم کرتا ہے۔ تعلق سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ مشرق کی دوسری تہذیبوں کے بر خلاف اسلام کبھی بھی مغرب کے تابع نہیں رہا۔ سیڈ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ جس طرح ۷۰کی دہائی میں تیل کی قیمتیں بڑھیں اس سے لگتا ہے کہ مسلمان دنیا پر قابض ہونا چاہتے ہیں اور اس سے مغربی دنیا ڈری سہمی لگتی ہے ۔ سرد جنگ کے اختتام پر ایران اور اسلام کو با ضا بطہ اور بالخصوص تیل کی حکمرانی اور دہشت گرد قرار دیا گیا کیوں کہ انہوں نے حزب اللہ کی حمایت کی تھی اور حزب اللہ نے خلیج اور عرب میں بیرونی(امریکن) تسلط کے خلاف کلمہ حق بلند کیا تھا ۔ سرد جنگ کے اختتام تک میڈیا کوریج اسی چیز پر زور دیا جاتا رہا ہے کہ اسلام برا ہے۔اسلام سے متعلق ذراسی معلومات اور خبر کو بھی بہت اہمیت دی جاتی اور بڑھا چڑھا کے پیش کیا جاتا رہا ہے۔ یہ سمجھنا کہ کس طرح سے وہ اسلام کے تشخص کو برباد کرتے ہیں، میڈیا کے فریم ورک کو سمجھنا ضروری ہے ۔ اس باب میں فریمنگ پر زور دیا گیا ہے اور سمجھنے کے حوالے سے بھی اصرار موجود ہے ۔ بالخصوص یہ سمجھنا کہ کس طرح سے میڈیا اس تصور کو لاگوکرتاہے کہ وہ تیل کے حوالے سے اسلام کا تصور خراب کرتاہے۔ اس سے پتہ لگے کا کہ ہمارا میڈیا کس حد تک ذمے دار اور قصور ورا ہے ۔
باب دوم:وضاحتی کمیونیٹیاں Communities of interpretation
ایڈورڈ کہتا ہے کہ مغربی دنیا میں اسلام کا تصور ایک ایسے مذہب اور قوم کا تصورہے جس کی نا تو کوئی تاریخ ہے ، نا کوئی انقلابی کام یا انقلاب ہے اور نا ہی اس کی کوئی شنا خت ہے ۔ مغربی صحافیوں کی ذہنیت کے مطابق مسلمان لوگوں کے خیالات اور افکار نہایت محدود ہیں اور دائروں میں بند ہیں۔ سیڈ کہتا ہے کہ مغربی میڈیا اسلام کا تصور دورِ جاہلیہ کے لوگوں کا پیش کرتا ہے اور ان کے پالیسی میکر امریکہ کے زندگی کے سٹائل کے خلاف ہے۔ اسی سبب امریکہ کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اسلام اور مسلمان دشمن رویہ پایاجاتاہے۔ ایک فلاسفر C. Wright Millsکے مطابق انسان اپنے تجربے سے بہت کچھ زیادہ جانتا ہے ۔ اس کا یہ علم بہت سے مختلف ذرایع سے حاصل ہوتاہے۔
“Human beings are aware of much more than they have personally experienced; and their own experience is always indirect.” ۶
بالکل اسی طرح اگر C. Wright Mills کے نظریے کو سامنے رکھیں تو امریکن لوگوں کا علم ان کے ذاتی تجربے سے بہت زیادہ ہے اور یہ در اصل اس بیمار دماغ کی پیداوار ہے جو امریکن میڈیا کی صورت میں اسلام دشمن رویے کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہوتاہے۔میڈیا بالواسطہ ان کی جانکاری کو نقصان پہنچا رہا ہے اور اسلام دشمن رویہ پرورش پا رہا ہے ۔ میڈیا اسلام کی مسخ شدہ شکل پیش کرتا ہے ۔ مثال کے طور پر سیڈ دو نمونے پیش کرتا ہے ۔ ان میں سے پہلا نمونہ Robert Tuckerکی صورت میں ہے جو “Oil: The Issue of American Intervention” جیسے مو ضوعات پر لکھ کر عوام کی رائے بدلتا ہے اور اسے اسلام کے خلاف بھڑکاتا ہے ۔ دوسرا نمونہMoynihanکی تحریر کا ہے جو “The United States in Opposition”جیسی تحریر کے ذریعے اسلام دشمن رویے کو ہوا دیتا ہے۔ وہ اپنے کالم میں مسلمان لوگوں کو امریکن پالیسی کے خلاف چلانے والا دکھائی دیتا ہے ۔ جبکہ دوسرا یہ کہتا ہے کہ مغربی دنیا میں چونکہ جمہوریت نہیں ہے اس لیے وہ ان کی جمہوریت کے لیے خطرہ بنیں گے ۔بالفاظِ دیگر وہ امریکہ کے مفادات ( انٹرسٹInterest) کے خلاف ہو جائیں گے/ہیں۔ سیڈ ان دونوں اشخاص کی مثال دے کر بتاتا ہے کہ ان کی تحاریر امریکن عوام کو یہ مسلسل باور کراتی ہیں کہ مسلمان امریکہ کو تیل دینے کے بہت زیادہ خلاف ہیں اور اس سے امریکہ شہریوں کی اس آزادی کو خطرہ لا حق ہے کہ وہ با آسانی چل پھر سکیں یا اپنی گاڑیاں چلا سکیں۔مغربی دنیا کا میڈیا عوام کو براہِ راست سچ تک رسائی نہیں دیتا۔ تصاویر اور خیالات نا صرف حقائق سے نہیں نکلتے ہیں بلکہ در اصل سچ موجود ہی نہیں ہوتا۔ ہمارے پاس نہیں ہوتا uncertainedنہیں ہوتا۔
“pictures and ideas do not merely spring from reality into our eyes and minds, truth is not directly available, we do not have an unrestrained
variety at our disposal.” ۷
ایڈورڈ کا خیال ہے کہ سچائی کے فقدان کی جڑیں میڈیا سے ہی نشو نما پاتی اور پھلتی پھولتی ہیں تا کہ کچھ خیالات کی تشہیر ( پروموٹ) کر سکیں او ر کچھ کو چھپا سکیں یا اپنے خیالات کو دوسروں تک پھیلاسکیں۔ اور یہ امریکہ کی فارن پالیسی کا ایک حصہ بھی ہے اور اسے بنانے بگاڑنے میں بھی اہم کر دار ادا کرتا ہے ۔ مغربی صحافی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ خبر کیا بنانی ہے، اس سے کیا نتائج لینے ہیں اور کس طرح سے عوامی سوچ کو بدلنا ہے۔ لوگوں تک اس کی رسائی کیسے ہوگی اور کیا نتائج لینے ہیں۔ سیڈ کہتا ہے کہ مغرب میں اسی حوالے سے برے اور منفی انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔حالانکہ اسلامی زندگی نا تو محض تحریروں تک محدود ہے نا ہی شخصیات تک اورنا ہی سادہ تعمیرات تک لیکن ان ہی حوالوں سے بار بار اسلام کانام استعمال کیا جاتا ہے ۔ یہ ایک نا قابلِ یقین ذریعہ معلومات ہے۔
“So much of Islamic life is neither bound by texts nor confined to personalities or neat structures as to make the overused word “Islam” an unreliable index of what we try to apprehend.” ۸
سیڈ کی مغربی میڈیا کے حوالے سے یہ بھی بحث کرتا ہے کہ امریکی میڈیا فرانسیسی اور برطانوی میڈیا سے مختلف ہے کیونکہ یہ ایک superpowerہے اور اگرچہ امریکہ کا خیال نہیں کہ یہ ان کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوتاہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ایسا ہوتا ہے ۔ ان کے مطابق مسلمان تیل کی قیمتوں کو بڑھا کر امریکہ کو تباہی سے ہمکنار کرنے کی سازشیں کررہے ہیں۔سیڈ Charlotte Ryan’sکی اس خیال سے متفق ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ اسلام کے بارے میں لکھے گئے آرٹیکلز کو خصوصی طور پر بنایا جاتا یا Frameکیا جاتا ہے تا کہ مغربی دنیا کو اپنے مذموم مقاصد حاصل ہو سکیں۔اس طرح سے مسلمانوں کا تصور ایسے گروپ کی شکل میں دیا جاتا ہے جو عقل و دانش سے پیدل اور محدود سوچ کے حامل ہیں۔ اس طرح سے امریکہ کو اپنے برائے نام اور خود سے دکھائے جانے والے دشمنوں کے مقابل قوم کو یکجا کرنے کا موقع بھی ملتا ہے اور قومیت Nationalismپروان چڑھتی ہے۔
سیڈ کہتا ہے اس اندا ز میں مغربی میڈیا ایک تیر سے دو شکار کرتا ہے۔ ایک طرف و ہ سیاسی طرفداری کے ساتھ معلومات مہیا کرتا ہے جس سے قومی اتحاد کو فروغ ملتا ہے جبکہ دوسری جانب اسلام کی غلط تفہیم ہوتی ہے ۔ Time for Kids,نامی رسالے کی مثال لے لیجیے اس میں ہر کہانی امریکہ اور اس کی اقدار کی شان و شوکت سے متعلق ہی ہوتی ہے ۔ اس میں امریکیوں کو شاندار، عقل مند اورصاف ستھرا دکھایا جاتاہے جبکہ افغانی فوجی کی تصویر کو غلیظ اور جنگلی بنا کر دکھایا جاتاہے ۔
باب سوم: اسلام کی وضاحت کرتے سیاستدان: تقلید پسند اور متضاد علم
جب مغرب اسلام کا ذکر میڈیا میں کرتا ہے تو یہ انہی مقاصد کے تحت ہوتا ہے جس کا وہ پہلے سے تعین کرچکے ہوتے ہیں(مغربی دانشوراور صحافی)۔ جب میڈیا کسی مضمون کو دائرہ کار میں لانا اور بتانا چاہتا ہے تو اس کے ماہرین کی غیر موجودگی کی وجہ سے جھوٹ گھڑتا ہے اور اس کی راہ کم علمی جیسی بنیادی چیز حائل نہیں ہوتی کیوں کہ وہ اپنی تمام تر کم علمی اور کج فہمی کے باوجود جو چاہتا ہے کہتا اور لکھتا چلا جاتا ہے۔ وہ مسلم تاریخ، معاشرت اور سیاسی سمجھ بوجھ نا ہوتے ہوئے بھی اسلام کے بارے میں خوب زہر فشانی کرتا ہے۔ اسی حوالے سے ایڈورڈ لکھتا ہے :
“the media hides more than it reveals” when covering issues in the Middle East.
یعنی میڈیا نے کچھ دکھانا ہوتا ہے اس سے زیادہ چھپانا ہوتا ہے۔ایسا وہ بالخصوص مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے دانستہ طور پر کرتا ہے ۔
ایسا ہی معاملہ “Princess Episode” کا ہے جو کہ برطانوی ڈائریکٹرBritish director Anthony Thomas نے بنائی ہے۔ اس میں سعودی عرب کے لوگوں اور اسلام دونوں کو طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔(ایسی ہی ایک اور فلم لارنس آف تھلیویا بھی ہے)۔ اس میں اسلام کے حوالے سے افواہیں پھیلانے کی کوشش بھی کی گئی ہے جس کا حتمی نتیجہ لوگوں کو اسلام سے دور کرنا اور اس کا منفی کردار پیش کرنا ہے۔ اس فلم کے بارے میں ایک جگہ لکھا گیا ہے :
The film generalized and portrayed a bad picture of Saudi Arabia in particular.
اس فلم کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی اور ساتھ میں سیاسی و معاشرتی تناظر کے ذریعے حقائق کو مسخ کرنے کی سازش بھی کی گئی تھی ۔ اب جب کہ لوگوں نے جو کچھ دیکھا وہ چونکہ اس کی پس منظر سے نا صرف نا واقف تھے بلکہ حقائق کو جانتے ہیں نہیں تھے (اسلامی معاشرت اور سیاست کے حوالے سے)تو وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہ فلم درست یا غلط ہے۔(ایسی صورت میں یقیناًوہ اسی پر یقین کریں گے جو کہ وہ دیکھ رہے ہوں )۔فلم نے اس سلسلے میں جو کچھ کیا وہ اس خیال کی آبیاری کے سوا اور کیا کچھ ہو سکتا تھا کہ مسلمان متشدد اور بنیاد پرست ہیں اور بہت حد تک جاہل بھی۔اسی طرح کی ایک اور فلم “Jihad in America,” بھی مسلمانوں کے خلاف ہی فلمائی گئی تھی (اس کے بعد zero dark thirtyبھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے)۔اس کا واحد مقصد امریکن لوگوں کو یہ باور کرانا تھا کہ امریکہ مسلمانوں کے لیے میدان جنگ تھا تاکہ وہ اس میں خوف و ہراس پھیلا سکیں ۔
“America was the battleground for Muslims plotting terror and horrifying warfare against us in our midst.”
اس سے انہیں” ہم اور تم” کے نظریات ملے یعنی دو مختلف جہتوں ، دو مختلف خیالات، افکار اور سمتوں کا تعین ہوا۔ کیا اس طرح کی خبروں اور تشہیر سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اسلام در اصل کیا ہے ؟اس باب میں اس بات کا ذکر ہے کہ فریمنگ کی کس طرح جاتی ہے ۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح محض دو فلموں نے لوگوں کوسوچ اور افکار کے حوالے سے تقسیم کیا خیالات کیا ۔ مزید یہ بھی کہ کس طرح سعودی عرب کی تحقیر کرکے اسے اسلام کا نمائندہ ظاہر کیا گیا۔
’’Time For Kids ‘‘کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ کس طرح قاری کو لکھاری کے خیالات سے غیر محسوس انداز میں ہم آہنگ کیا جاتا ہے ۔ “A Look at Islam” کے آرٹیکل میں بڑا مقصد یہ رہا کہ دہشت گردی مذہب میں پنپتی ہے اگرچہ یہ ایک امن پسند مذہب ہی ہو ۔ اس آرٹیکل کا آغاز دہشت گردی کی گفتگو سے ہوتا ہے اور پھر یہ مذہب سے ہوتا ہوا دوبارہ سے دہشت گردی کی جانب چلا جاتاہے۔اسلام کے بارے میں کوئی اچھی رائے کیوں قائم کرے گا جبکہ اسے یہی تربیت دی جارہی ہوگی کہ یہ کنٹرول سے باہر ہے، اوراس کے تمام ماننے والوں کے عقائد ایک جیسے ہیں، سیاسیات اور معاشی نا انصافی سب کچھ ایک ہی ہے۔ Time for Kids بچوں کو مسلسل یہی سبق دے رہا ہے کہ ہم اور ہیں اور مسلمانوں کی ثقافت کچھ اور۔مسلمان اور ان کی اقدار دونوں برائی ہیں جب کہ امریکی اور ان کی اقدار سب سے بہترین ہیں۔
باب چہارم: اسلام کی وضاحت کرتے سیاستدان: تقلید پسند اور متضاد علم
سیڈ سوال کرتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک کلچر کے لوگ دوسرے کلچر سے نا واقفیت کے باوجود اس پر مکمل رائے قائم کر لیں ؟اس کے جواب میں وہ کہتا ہے کہ یہ مغرب کا وطیرہ بن چکا ہے کہ وہ دوسرے کلچر کے لوگوں کے بارے میں رائے قائم کر لیتے ہیں ۔ بیکن کہتا
ہے کہ :
“Human knowledge is only what human beings have made. External reality, then, is no more the modifications of the human mind.”
انسانی علم محض وہی ہے جو اس نے بنا لیا ہے ۔ حتمی سچائی تو یہی ہے کہ انسانی دماغ کی مزید تبدیلی نہیں کی جاسکتی ۔(یعنی انسان نے بہت سوچ سمجھ کے بعد بہت سے علوم بنائے ہیں اور ان میں اب مزید تبدیلیاں واقع نہیں ہورہیں۔)
تاہم مغربی لوگوں کے ہاں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں معروضی علم وجود میں نہیں آرہا ۔یورپی دوسرے کلچرز کو تجارت، فتح یا حادثے کی صورت میں رونما ہونے والی کلچر کی صورت میں دیکھتے اور بیان کرتے ہیں۔Interestکی جڑیں ضرورت سے جڑی ہوتی ہیں اور ضرورت سامراجیت کو بھوک، خوف اور دلچسپی و تجسس کے تحت اکٹھا رہنے پر اکساتی ہے۔ امریکیوں نے برطانویوں سے جو کچھ سیکھا ہے یا لیا ہے وہ اسی کی بنیاد پر ہمارے کلچر کو دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔قدیم کلچرز کا تعلق ہمیشہ کمرشل، سامراجی کالونیوں اور فوجوں کی بڑھوتری سے رہا ہے۔جب تک ایک کلچر کو دوسرے کلچر کے قریب ترین رہنے کا موقع میسر نہیں آتا، یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کی تفہم کی جائے ۔ اسلام کی تفہیم کے حوالے سے مغرب میں کچھ بھی ’’آزاد ‘‘نہیں ہے بلکہ یہ کسی نا کسی ایجنڈے کے تحت ہے۔
امریکہ اور یورپ دونوں کی خبروں میں اسلام تضحیک کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔مغرب میں اسلام کے پڑھے لکھے فہیم جو کہ میڈیا، گورنمنٹ اور زمینی اہمیت کے جانکار لوگ ہیں سبھی کے سب اس نظریے کے حامی ہیں کہ اسلام مغرب کا دشمن ہے جس کے نتیجے میں اسلام کے حوالے سے منفی خیالات پروان چڑھ رہے ہیں۔اسی حوالے سے پرنسٹن میں چار سیمینار منعقد ہوئے جو کہ امریکہ کے فنڈڈ تھے ۔ ا ن میں بار بار اسی بات پر زور دیا جاتا رہا کہ اسلام ایکMake-believeدنیا میں رہتے ہیں جہاں پر خاندان آزاد نہیں ۔ مزید یہ کہ تمام لیڈرز نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں اور معاشرہ بھی ابھی پختہ نہیں ہے۔ ان سیمیناروں میں اسلام کے تشخص کو خراب کرنے کی پوری کوشش کی گئی اور مقررین کے خطابات سے لگتا تھا جیسے مغرب میں اسلام کے حوالے سے ایمر جنسی نا فذ ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوررنگ اسلام جیسی کتاب پر امریکہ میں تنقید کی گئی اور اسے آڑھے ہاتھوں لیا گیا ۔
ایڈورڈ کہتا ہے کہ اسلام میں تین قسم کے متضاد علوم ہیں اور تین ہی طاقتیں ہیں۔ ایک نوجوان علماء کا گروپ ہے جو کہ سیاسی طور پر شفافیت اور ایمانداری کے قائل ہیں ۔ دوسری قسم بزرگ علماء کی ہے جو کہ متشدد قسم کے خیالات کے پابند لوگوں کے خلاف ہیں۔تیسرا لکھاری ، مفکرین اور مصلح لوگوں کا گروہے جنہیں اسلام کا ماہر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ یہ جنگ اور سامراجیت کے مخالف ہیں۔یہ ملائیت کے خلاف ہیں، مفکرین اور اساتذہ ہیں۔ایڈورڈ کہتا ہے کہ تینوں قسم کے لوگوں کا مکمل علم اور ادراک ہی انسان کو اس قابل بنا سکتا ہے کہ وہ کوئی رائے قائم کر سکے۔ ورنہ وہ ہر خبر اور بات پر محض سرِ تسلیم خم کرنے والوں میں سے ہوجاتے ہیں۔ اپنی بات کومنطقی انجام تک پہنچا کر ختم کرتے ہوئے سیڈ یہ خیال پیش کرتا ہے کہ علم کوکسی خاص قوم، نسل یا مذہب کا زاویے سے سمجھنے کے بجائے سیاسی اور انسانی دونوں حوالوں سے سمجھا اورحاصل کرنا ضروری ہے ۔
جب کوئی بچہ Time for Kidsکا رسالہ اٹھاتا ہے تو وہ اس لکھاری پر انحصار کرتا ہے جو کہ اسے باہر کی دنیا سے ملاقات کروانے میں پل کا کردار ادا کرتا ہے کہ وہ اسے حقائق تک پہنچائے گا یا رسائی کو ممکن بنائے گا۔ یہ لکھاری بچوں کے حوالے سے ماہر ہوتے ہیں اور جو کہ ان کی سوچ اور خیالات کو اپنی مضموم مقاصد کے تحت ڈھال لیتے ہیںیا مسلسل ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان لکھاریوں کا اسلام دشمنی اور ملک کے معاشی ، معاشرتی و سیاسی اداروں سے گہرا تعلق ہے جو کہ دراصل ملک کو چلارہے ہیں۔امریکی میں اقدار اور علم کو سمجھنے کے لیے اکیڈمیز، کانگریس، میڈیا ،یونیورسٹیوں اور وزارتِ خارجہ کے دفاتر سے مدد لی جاتی ہے ۔ شہری ہونے کے ناطے ان اداروں پر بھروسہ کیا جاتا ہے کہ وہ جو کچھ کہیں گے اور بتائیں گے اس میں اغلاط کے امکانات بہت کم اور سچائی بہت زیادہ ہوگی ۔ تاہم اسلام کے حوالے سے جہاں ان کے مفادات ہوتے ہیں وہ عملی اور تجرباتی ، دونوں سطحوں پر بھرپور محاز قائم کرتے ہیں۔ اب اس ساری صورتِ حال میں چونکہ Time for Kidsرسالہ امریکہ کے اداروں کے چندے پر چلتا ہے اس لیے وہ شروع ہی سے بچوں کے ذہن میں اسلام کو خطرنا ک اور بربریت کے شاہکار کی تصویر نقش کرتا ہے۔ بعد میں ایسے تصورات کو امریکی سپاہیوں اور افغانی سپاہیوں کی صورت میں اور بھی اجاگر کیا جاتا ہے ۔ یعنی امریکی
سپاہی دنیا کے بہترین اور حق پرست انسان جبکہ افغانی سپاہی یا مجاہد بد ترین لوگ ۔
When a journal views Islam as a commodity and not as a culture, the images corresponding to Islam will distort the child’s objective knowledge. That child will then consume the contaminated interpretation as a projection of reality.
ترجمہ: جب کسی رسالے میں اسلام کو ایک کلچر کے بجائے ایک بھیڑ چال کے طور پر دکھایا جاتا ہے تو بچہ حقیقی علم تک پہنچنے سے قاصر رہا ہے ۔ پھر یہی بچہ متعصب ہوئے بنا سوچ نہیں پاتا اور نا ہی حقائق کا علم حاصل کرپانے میں کامیاب ہو پاتا ہے ۔
American children are the future of this country, and if their initial exposure to Islam is from the government, corporations or universities, who have connections with one another, the information they are receiving is pure commodity. This leaves the future leaders of the “great” nation targets of consumer globalization
ترجمہ: اگرچہ امریکی بچے اس ملک کا سرمایہ ہیں ۔اگر ابتدا ء ہی میں انہیں ان کے معزز اداروں جیسی یونیورسٹیوں، میڈیااور گورنمنٹ کی جانب سے اسلام کو اس طرح منفی انداز میں پیش کیا جائے گا تواس سے اس بڑی قوم کی بنیادی جڑیں مضبوط نہیں ہو پاتی اور وہ گلوبلائزیشن کے دور میں مادی فوائد کا بندہ ہو کر رہ جاتا ہے ۔
باب پنجم :علم اوراس کی وضاحت
سیڈ کے مطابق علم کا تعلق تاریخ سے ہوتا ہے اور یہ انسانی معاشرے میں نتائج نکالنے اور کوئی فیصلہ کرنے کا نام ہے ۔ حتیٰ کہ اگرچہ تاریخ حقائق کی بازیافت کا نام ہے ، حقائق اس حوالے سے انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کہ ان سے کیا نتائج اخذ کیے جاتے ہیں۔جب کہ کسی چیز کی سمجھ بوجھinterpretationکا تعلق کسی دوسری چیز کی سمجھ بوجھ سے براہ راست ہوتا ہے ۔ اسے اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی تحریر اصل نہیں ہوتی ۔ در حقیقت اس کی کوئی نا کوئی توجیہہ یا شبیہہ انسانی دماغ میں ضرور موجود ہوتی ہے جو اسے سمجھنے میں مدد دیتی ہے ۔ سیڈ کے مطابق interpretationچار چیزوں سے تعلق رکھتی ہے یا ان پر منحصر ہوتی ہے : interpreterسمجھانے والا کون ہے ؟وہ کس سے مخاطب ہے ؟سمجھانے میں اس کا کیا مقصد مضمر ہے ؟ اور کس تاریخی واقعے کے ساتھ اس کے ادراک interpretationکی کوشش کی جارہی ہے ۔ تمام قسم کی interpretation کا تعلق دماغی سرگرمی ، اسے بنانے اور بگاڑنے سے ہوتاہے ۔ عبارت کی interpretation کا تعلق ہمارے کلچر سے ہے اور اس کو اس وقت تک ہر گز نہیں سمجھا جاتا جب تک کہ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھنا چاہیے۔
جب کسی چیز کی interpretation کی جاتی ہے تو اس میں محسوسات، عادات، وابستگی ہر چیز کے تعلق کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے ۔ کوئی بھی شخص جب interpretation کرتا ہے تو کلچر کی اقدار جس میں بعض چیزوں کی اجازت اور بعض سے منع کیا گیا ہوتا ہے ، کے تحت کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ کسی بھی چیز کو اپنے نقطہ نظر کے مطابق ہی دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ ایسے میں اس کے وہ خیالات جو اس کے کلچر کے اقدار کے زیرِ اثر ہوتے ہیں اگر interpretation ہونے والی چیز یا بات سے متصادم ہوتے ہیں تو وہ انہیں چھوڑ دیتا ہے یا اس کی نفی کرتا ہے جب کہ اگر اس کی اقدار کے مطابق ہوں تو ان کی تائید کرتا ہے ۔سیڈ کہتا ہے کہ جہاں طلب یا دلچسپی نا ہو وہاں ممکن ہی نہیں کہ interpretation، علم یا سمجھنے کی طاقت موجود ہو۔ سیڈ اس حوالے سے ہنس جارج گڈمیرHans-Georg Gadamer کا حوالہ دیتا ہے :
“A person trying to understand a text is prepared for it to tell him something.”
ترجمہ: ایک شخص جو کسی تحریر کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے در اصل وہ اس کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوتا ہے ۔ یا ۔ وہ چیز بھی اسے ادراک دیتی ہے ۔
سیڈ اس بات کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے کہ ہمارامعاشروں، مذاہب اور کلچرز کے حوالے سے جو علم ہے وہ اشخا ص کے ذاتی علم اور دوسرے بہت سے بالواسطہ نتائج کے مجموعے سے نکلتا ہے۔جو کچھ علم کو اچھا یا برا بناتا ہے وہ معاشروں کی ضروریات سے مشروط ہوتا ہے۔ کوئی بھی چیز کاخا لص تجزیہ نہیں ہوتا کیوں کہ اس کی بنیاد گزشتہ تجربات کی بنیاد پر ہوتی ہے ۔ یہ تجربات و مشاہدات جو تعلیم اسے مہیا کی گئی ہوتی ہے اس سے ، اس کے تعلیمی اداروں، گورنمنٹ اور میڈیا سے ملتی ہے۔ اس لیے کسی اجنبی کلچر کے بارے میں جونظریات اور خیالات لوگوں تک پہنچائے جاتے ہیں وہ اپنی مرضی سے ہی پہنچا ئے جاتے ہیں ۔ ایسی صورتِ حال میں اس کلچر سے متعلق چیزیں غلط انداز میں سیکھی اور سکھائی جاتی ہیں جس کی ایک بڑی مثا ل اسلام یا مسلمانوں کا کلچر ہے ۔
سیڈ کے مطابق آج کے دور میں اسلام کو مغرب نے تیل کی سیاست اور اس کے بحران ، بنیاد پرستی، دہشت گردی ، میڈیا میں مذاق بنانے اور خوامخواہ اس کی غلط توجیہات پیش کرنے کے لیے پسند کیا ہوا ہے ۔ جب کبھی اسلام کے بارے میں معلومات پیش کی جاتی ہیں تو اس کو بہت ساری پہلے بیان کی گئی باتوں کے ساتھ ملا کر پیش کیا جاتا ہے ۔
سیڈ کی کتاب کے حوالے سے نیٹ پر موجود ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر سیڈ کے بتائے گئے حقائق کو درست مان لیا جائے تو انداز ہ ہوگا کہ مغرب اپنے بچوں کو اسلام کے حوالے سے کیا تعلیمات دے رہا ہے اور کس طرح اسلام کے تشخص کو برباد کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔
If Said is correct in stating that all views are connected and based upon other interpretations, the children reading Time for Kids, will create a foundation of Islam based on the American projection of their culture and country in the future. Whether or not a particular reader comes across the “other side” to the Islamic culture, his or her interpretation will still have connection to the message presented in Time for Kids.
بچوں کے حوالے سے Charlotte Ryan’s نے بھی اپنے آرٹیکل “Prime Time Activism”میں سیڈ کی بات کا اعادہ کرتے ہوئے یہ لکھا ہے :
Time for Kids is presenting a frame of cultural resonances: cultural stereotypes are used to reinforce general social goals.
ایڈورڈ سیڈ کی کتاب کے حوالے سے Islam and Edward Said: An Overviewعنوان کے تحت آرٹیکل میں
ڈھاکہ یونیورسٹی کے انگلش ڈیپارٹمنٹ غلام غوث القادری اور بنگلہ دیش یونیورسٹی کے انگلش یونیورسٹی کے حبیب اللہ نے ایک مقالہ پڑھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :
ایڈ ورڈ کی کتاب کا بہت سی ادبی اصطلاحات کے ساتھ ساتھ (ادب کے مطالعے کے ساتھ ساتھ )مو ضو عی مطالعہ بھی کیا گیا تاکہ یہ دیکھا اور جانچا جا سکے کہ ایڈورڈ نے جو کچھ مغرب کے بارے میں کہا ہے آیا وہ درست ہے یا نہیں ؟اس میں یہ بھی جانچنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس کی یہ کتاب مغربی عفریت (ان کے میڈیا، سیاستدانوں اور دانشوروں کی سوچ اور اسلام کو بدنام کرنے کی با قاعدہ سازش )کے خلاف اسلام کے دفاع کی کوشش ہے ۔ ایڈورڈ کی اس کوشش کی بنیاد اس کے سکالر ہونے ، ذہانت اور مصمم ارادے کی ترجمان ہے۔ یہ بین الاقوامی سیاسی صورتِ حال کی تفہیم بھی کرتی ہے اور اس کے اسلام سے تعلق کو بھی وا ضح کرتی ہے۔ سیڈ کی یہ کاوش اسلام کے بارے میں غورو فکر کرنے والوں کی آنکھیں روشن کرے گی ۔ سیڈ نے اپنے آپ کو امریکہ اور مغرب میں ایک تجزیہ کاراور حقیقت نگار کے طور پر پیش کیا ہے اور مغرب کی ابہام پرستی اور جھوٹ کی کھل کر نفی کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
وکی پیڈیا پر ایڈورڈ کی کتاب کا ملخص اس طرح پیش کیا گیا ہے:
ایڈورڈ سیڈ کہتا ہے کہ علم طاقت ہے اور وہ لو گ سب سے زیادہ طاقتور ہیں جو مغرب کے میڈیا کو کنٹرول کرتے ہیں۔ کیوں کہ وہ لوگوں کی پسند نا پسند کو سمجھنے اور بدل دینے کی پوری طاقت رکھتے ہیں۔ عقل ایک شخص کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ سوچے ، سمجھے، سوال کرے اور اپنی اچھائی برائی کو جان پائے۔ اسلام کے مطابق یہ اس کا شعور ہی ہے جو اسے اشرف المخلوقات بناتا ہے۔ انسان فطری طورپر ایک آزاد خیال اور شعور والا ہے لیکن مغربی میڈیا چاہتا ہے کہ وہ عقل و شعور چھوڑ کر صر ف و صرف اسی کی بات مانے۔ کسی خیال کو بنا کسی سوال یا سوچ وچار کے مان لینا در اصل کم عقلی اور بے شعوری ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ایک شخص کو یہ اختیار دے دینا کہ دوسرا ہی اس کے لیے سوچے اور اس کے لیے فیصلہ کرے۔ وہ میڈیا کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ اس قابل ہے کہ معلومات کو کنٹرول اورفلٹر کر سکے، لوگوں کو جو دکھانا چاہتا ہے وہ دکھا سکے اور جو چھپانا چاہتا ہے وہ چھپا سکے۔معلومات کے اس دور میں، سیڈ کہتا ہے کہ یہ میڈیا ہی ہے جو معلومات کو فلٹر کرتاہے ۔اس حوالے سے اس کا کہنا ہے کہ مغرب نے معیار مقرر کر لیا ہے کہ اسلام کے بارے میں کیا بتائے اور کیا نہ بتائے ۔اسلام کو مغرب ظالم دکھاتا ہے (خواتین کا حجاب میں ہونا مغرب کے لیے ظلم کی علامت ہے
جب کہ ان کی Nuns، Mothersجو حجاب اوڑھتی ہیں وہ فخر کی علامت ہے ) سنگسار(زنا کی صورت میں سنگسار ان کے ہاں ظلم ہے جب کہ امریکہ میں دنیا بھر سے زیادہ زنا ہوتے ہیں اور دیگر بہت سے ممالک میں منشیات کی سزا موت ہے اس پر امریکہ کبھی گفتگو نہیں کرتا )کتابیں جلانا (ان کے خیال میں مسلمان علم دشمن ہیں اور کتابیں جلاتے ہیں جبکہ ان کے آباؤ اجداد نے جو دنیا بھر میں لائبریریاں جلائیں وہ قابلِ فخر ہے مزیدیہ کہ وہ یہ فرضی کہانی سناتے ہیں کہ مسلمان علم دشمن ہیں حالانکہ ایسا نہیں)بہت سے معاملات میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں (شراب کا استعمال اور جوا منع ہے ۔جس سے مغرب کو بہت تکلیف ہے)یہ متشدد ہیں(الجزائر، لبنان اور سوڈان کی مثالیں)جاہل ہیں(پاکستان، سعودی عرب اور سوڈان کی مثالیں)دنیا بھر میں ان کی وجہ سے جھگڑے ہیں(فلسطین ،کشمیر اورانڈونیشیا)بہت خطرناک ہیں (ایران اور ترکی)۔
and Said claims that the media has determined very selectively what Westerners should and should not know about Islam and the Muslim world. Islam is portrayed as oppressive (women in Hijab); outmoded (hanging, beheading and stoning to death); anti-intellectualist (book burning); restrictive (bans on post- and extramarital affairs, alcohol and gambling); extremist (focusing on Algeria, Lebanon and of course Egypt); backward (Pakistan, Saudi Arabia and the Sudan); the cause of worldwide conflict (Palestine, Kashmir and Indonesia); and dangerous (Turkey and Iran).
سیڈ کہتا ہے کہ مغربی میڈیا نہیں چاہتا کہ کسی بھی طرح لوگ اسلام کے بارے میں یہ جانیں کہ مرد اور عورتیں برابر ہیں، اسلام برائی اور جرم سے روکتا ہے اور اس کے خلاف بھی ہے، اسلام ٹھوس تشخص کا مذہب ہے اوراخلاقیات کے ضابطے کا پابند ہے، اسلام معاشرتی طور پر بھائی چارے اور برابری کے تصور پر قائم ہے اور یہ بھی کہ اسلام ایک روحانی اور عملی مذہب ہے ۔سیڈ دعویٰ کرتا ہے کہ اسلام کے متعلق بے ہودہ اور بے معنی جھوٹی باتیں زور و شور سے آزادی، مقصدیت، جمہوریت اور ترقی کے نام پر پھیلائی جارہی ہیں ۔
حوالہ جات
۰۱۔ https://en.wikipedia.org/wiki/Covering_Islam
۰۲۔. Edward W. Said, Covering Islam (New York: First Vintage Book Edition, 1997) , P 48
۰۳۔Edward W. Said, Covering Islam (New York: First Vintage Book Edition, 1997) P 65.
۰۴۔Edward W. Said, Covering Islam (New York: First Vintage Book Edition, 1997) Flap
۰۵۔Edward W. Said, Covering Islam (New York: First Vintage Book Edition, 1997)P 18
۰۶۔Edward W. Said, Covering Islam (New York: First Vintage Book Edition, 1997)P 46
۰۷۔Edward W. Said, Covering Islam (New York: First Vintage Book Edition, 1997)P 48
۰۸۔Edward W. Said, Covering Islam (New York: First Vintage Book Edition, 1997) P 65.
۰۹۔ https://en.wikipedia.org/wiki/Covering_Islam
۔ ۔ ۔ ۔ ۔