کورونا وائرس نے دنیا کی معیشت کو تباہ کر دیا: رپورٹ

sobiaanum

محفلین
Urdu News
11july-dullar01.jpg

کورونا نے دنیا کی معیشت کو تباہ کر دیا اور دنیا بھر میں 3 اعشاریہ 8 ٹریلین ڈالرز کا معاشی خسارا رپورٹ ہوا۔

یونیورسٹی آف سڈنی کے مطابق عالمی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے 147 ملین افراد بے روزگار ہو گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق لاک ڈاؤن میں ائر لائنز اور سرحدیں بند ہونے کی وجہ سے وسیع تر ٹریول انڈسٹری سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے جبکہ عالمی اجرت میں 2.1 ٹریلین ڈالر یعنی پوری دنیا میں ہونے والی آمدنی میں 6 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

بین الاقوامی تجارت میں کمی کی وجہ سے دنیا کو 536 ارب کا نقصان ہوا۔

واضح رہے کہ اب تک عالمی وبا کورونا وائرس کے باعث دنیا بھر میں 5 لاکھ 62 ہزار 820 افراد ہلاک اور ایک کروڑ 26 لاکھ 25 ہزار 860 افراد متاثر ہو چکے ہیں۔

دنیا بھر میں کورونا سے متاثرہ افراد میں سے 73 لاکھ 61 ہزار سے زائد افراد صحتیاب ہو چکے ہیں۔

امریکہ میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 32 لاکھ 91 ہزار سے زائد ہو گئی ہے اور ایک لاکھ 36 ہزار 671 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

برازیل کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں 18 لاکھ 4 ہزار سے زائد مریض موجود ہیں اور 70 ہزار 524 اموات ہو چکی ہیں۔

بھارت میں کورونا مریضوں کی تعداد 8 لاکھ 22 ہزار سے زائد ہے اور ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 22 ہزار 144 ہو گئی ہے۔

روس میں کورونا مریضوں کی تعداد 7 لاکھ 13 ہزار سے زائد ہے۔

روس میں کورونا سے ہلاک ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد 11 ہزار 17 تک پہنچ گئی ہے۔

پیرو میں کورونا سے ہلاکتوں کی تعداد 11 ہزار 500 ہو گئی ہے جبکہ مجموعی کیسز کی تعداد 3 لاکھ 19 ہزار سے زائد ہے۔

اسپین میں کورونا سے ہلاکتوں کی تعداد 28 ہزار چار سو سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ مجموعی کیسز کی تعداد تین لاکھ سے بڑھ گئی ہے۔

کورونا وائرس سے چلی میں تین لاکھ 9 ہزار 274 افراد متاثر ہیں اور 6 ہزار 781 جاں بحق ہو چکے ہیں۔

برطانیہ میں کورونا سے اموات کی تعداد 44 ہزار 6 سو سے بڑھ گئی جبکہ 2 لاکھ 88 ہزار سے زائد افراد کورونا وائرس سے متاثر ہیں۔

برطانیہ میں کورونا ٹیسٹ اینڈ ٹریس سسٹم لاگو ہے اور کورونا مریضوں سے ملاقات کرنے والوں کو آئسولیٹ کیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیے: https://onlineindus.com/urdu/50255
 

سیما علی

لائبریرین
کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران دنیا میں قزاقی کے واقعات میں اضافہ ہوا
لو سی مارٹن بی بی سی نیوز سنگاپور
  • 18 جولائی 2020
_113475054_piracy.jpg

ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق حالیہ مہینوں میں ایشیا کے سمندروں میں قزاقی کے واقعات دگنے ہو جانے سے شدید تشویش پائی جاتی ہے۔

اس سال کے پہلے چھ مہینوں میں قزاقی کے پچاس واقعات ہوئے جبکہ گزشتہ برس یعنی سنہ 2019 کے پہلے چھ مہینے صرف 25 واقعات ہوئے تھے۔

آبنائے سنگاپور میں جو دنیا کی مصروف ترین تجاری آبی گزر گاہ ہے اور جہاز رانی کا مقبول سمندر راستہ ہے وہاں اس سال جنوری سے جون کے درمیان قزاقی کی 16 وارداتیں ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیے
قزاقی اور دنیا کے خطرناک ترین سمندر

ستر دن قزاقوں کی قید میں رہنے والا بحری عملہ کیسے آزاد ہوا؟

26 یرغمالی پانچ سال بعد صومالی قزاقوں کی قید سے رہا

ان وارداتوں میں اضافہ کی بڑی وجہ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی معاشی صورت حال ہے۔

یہ تفصیلات سمندری قزاقی اور سمندری جہازوں کے خلاف مسلح ڈکیتیوں کے بارے میں عالی تنظم ریجنل کاپوریشن ایگریمنٹ کی ششماہی رپورٹ میں شائع کی گئیں ہیں۔

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیش، انڈیا، انڈونیشیا، فلپائن، ویتنام اور بحیرہ جنوبی چین میں بھی ایسے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

مسلح ڈکیتی اور جہازوں کو لوٹنے کے ایسے واقعات کو قزاقی قرار دیا جاتا ہے جو کسی بھی ریاست یا ملک کی حدود سے باہر پیش آئیں۔

قزاقی کا سدباب کرنے والے ادارے کے سربراہ کا مصافومی کروکی کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ تشویش ناک ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر چھوٹی چھوٹی وارداتوں کا سدِباب نہ کیا جائے تو اس سے جرائم پیشہ عناصر کو بڑی وارداتیں کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔

یونیورسٹی آف ٹینسی کے سمندری قزاقی کے ماہر برینڈن پرن کا کہنا ہے مسلح چوری زیادہ تر موقع ملنے سے ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کبھی کبھی قزاقی کے ان واقعات میں مقامی ماہی گیر ملوث ہوتے ہیں تاکہ وہ اضافی آمدن حاصل کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ ایشیا میں کئی خطوں میں بے روزگار نوجوان کام کی تلاش میں انڈونیشیا کے علاقہ بٹم پہنچ جاتے ہیں۔

موقع پرستی کی قزاقی خشکی پر ہونے والی چوریوں کی طرح ہوتی ہے کہ آپ کوئی موقع دیکھتے اور ایک کوشش کرنے کا ارادہ کر لیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ تین سے آٹھ افراد چاقوں اور دیگر اسلحہ لے کر کسی چھوٹی سے کشتی میں سوار ہو کر بڑے جہازوں کے قریب آ کر اس پر چھڑ جاتے ہیں تاکہ ان کے ہاتھ جو کچھ لگے وہ لے کر فرار ہو جائیں۔

انہوں نے کہا کہ زیادہ چیزیں جو چرائی جاتی ہیں ان میں لوہے یا سٹیل کی اشیا، انجن کے پرزے، مواصلات کے آلے اور دیگر اشیا جو جہازوں کو عشرے پر رکھی ہوتی ہے جن میں عملے کی ذاتی اشیا بھی شامل ہیں اور جنہیں بلیک مارکیٹ میں آسانی سے فروخت کیا جا سکتا ہے۔

مستقبل کے بارے میں خطرات
مسٹر پرنز کا کہنا ہے کہ عالمی وبا کے دوران صورت حال سے تنگ آ کر مزید لوگ سمندر میں جرائم کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انہیں خطرہ ہے کہ کووڈ 19 کی وجہ سے عالمی تجاری میں کمی واقع ہو گی، غربت ور بے روزگاری بڑھے گی اور اس سے سمندری قزاقی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ تشویش اپنی جگہ موجود ہے کہ تجارت میں کمی کی وجہ سے کم لوگ بحری جہازوں پر موجود ہوں گے اور عملے میں نگرانی کرنے والا عملہ بھی کم ہو گا جس سے مسلحہ وارداتوں کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

ایشیا میں گو یہ اغوا کی وارداتیں خال خال ہی ہوتی ہیں لیکن ریکیپ کی رپورٹ میں اس سال جنوری میں ملایشیا میں پیش آنے والی واردات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

اس واردات میں عملے میں پانچ افراد کو اغوا کر لیا گیا تھا جو ابھی تک بازیاب نہیں کرائے جا سکیں ہیں۔

عالمی سطح پر بھی پرتشدد واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

بین الاقوامی میری ٹائم بیورو کے مطابق اس جنوری سے اب تک بحری جہازوں پر کام کرنے والے 77 افراد کو تاوان کے لیے اغوا کیا جا چکا ہے۔

مغربی افریقہ کے خطے خلیج گنی اس حوالے سے سب سے زیادہ خطرناک جگہ ہے جہاں اغوا بارئے تاوان کی نوے فیصد وارداتیں ہوتی ہیں۔
 
Top