جاسم محمد
محفلین
کورونا کا سراب اور نیو ورلڈ آرڈر
02/04/2020 اکمل سومرو
برطانوی استعماریت کی ابتداء سے لے کر سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا کی سربراہی میں تشکیل پانے والے عالمی سیاسی و اقتصادی نظام نے دُنیا پر قبضہ کرنے کے مختلف حربوں کا استعمال کیا ہے۔ اٹھارویں صدی کے بعد سے، دُنیا بھر میں، جنم لینے والے بڑے بڑے قحط، وبائیں، جنگیں، بھوک و غربت کو استعماری طاقتوں نے مسلط کر رکھا ہے۔ ایڈم سمتھ کے اقتصادی اُصولوں کو اپنا کر عالمی استعمار نے جب دُنیا کی اقتصادیات کو قابو کیا تو افریقہ، ایشیاء، مشرق وسطیٰ حتیٰ کہ یورپ کے بعض ممالک اور امریکا کی عوام بھی ان سے محفوظ نہیں رہ سکی۔
اقتصادی منڈیوں پر قبضے کی ہوس نے پہلی و دوسری عالمی جنگ مسلط کی اور کروڑوں انسانوں کو ان جنگوں کا ایندھن بنایا، چونکہ استعمار کا مذہب صرف دولت سمیٹنا اور منڈیوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنا ہے لہذا انسانیت کا قتل بھی ان کے کاروبار کا حصہ ہوتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا نے انٹرنیشنل آرڈر کا نفاذ کیا اور نائن الیون کا سانحہ برپا کر کے نئی ضروریات کے مطابق نیو ورلڈ آرڈر رائج کیا۔ دو دہائیوں بعد یہ ثابت ہوچکا کہ نائن الیون کا سانحہ استعماری منصوبہ تھا، جس نے عالمی استعمار کی معاشیات کو نیا سہارا دیا، افغانستان، عراق، مصر، شام، لیبیاء اور تیونس میں جنگیں مسلط کرنے کے لیے نائن الیون نے جواز فراہم کیا باقی سب سراب ہے۔ یہ انتہائی باریک نکتہ ہے کہ عالمی استعمار نئے ایجنڈے کے نفاذ کے لیے پہلے جواز پیدا کرتا ہے اور پھر اس جواز کی بنیاد پر اقدامات اُٹھائے جاتے ہیں۔
عالمی استعمار کا مرکز متحدہ ہائے ریاست امریکا ہے، اقوام متحدہ کا ہیڈ کوارٹر تعمیر کرنے کے لیے ریکیفلیر خاندان نے زمین فراہم کی، یہ وہی خاندان ہے جہاں سے استعماریت کے سوتے پھوٹتے ہیں، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مرکزی دفتر بھی امریکا میں قائم ہیں۔ نصف صدی سے دُنیا کا نظام سیاست امریکی لاٹھی سے چلایا جارہا ہے۔ امریکا نے اپنے تئیں ایک عالمی حکومت تشکیل دے رکھی ہے، اس ضمن میں امریکا نے 2011 ء میں ڈاکٹرائن آف دی آرمڈ فورسز آف یونائیٹیڈ اسٹیٹس جاری کیا، پھر 2017 ء میں ایک توثیق شدہ دستاویز جاری ہوئی۔
یہ دستاویز بتاتی ہے کہ امریکا اقوام متحدہ کو امریکی فوج کے ماتحت ادارہ تصور کرتا ہے۔ کرہ ارض کے کسی بھی بھی علاقے میں امریکا جب سنٹرل ملٹری آپریشنز اینڈ کمانڈ تشکیل دیتا ہے تو اقوام متحدہ امریکی فوجی افسر کے ماتحت کام کرتا ہے، دُنیا کو یونی پولر تصور کے تحت امریکا عملی طور پر چلا رہا ہے تاہم یونی پولر کے تحت چلنے والے عالمی سیاسی و اقتصادی نظام کو اب نئی شکل کی ضرورت ہے، 2007 میں روسی صدر ولادیمر پوتن نے میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں نیو ورلڈ آرڈر کو پہلی بار مسترد کیا اور ایک دہائی بعد جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے ملٹی پولر ورلڈ کا تصور پیش کر دیا۔
انٹرنیشنل آرڈر کے نفاذ کے لئے عالمی مالیاتی ادارے اور ملٹی نیشنل کمپنیاں بہ طور آلہ کار کام کرتی ہیں اور ان کمپنیوں کے مالی مفادات کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کا ایجنڈا امریکی کے تزویراتی مقاصد کے تحت پیدا کیا گیا، 2012 ء میں ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ گلوبل وارمنگ کا تصور امریکا اور چین کے درمیان صنعتی مقابلہ بازی کے تصور کو ہمیشہ ختم کرنے کی خاطر پیدا کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ امریکا ماحولیاتی تبدیلی کے بین الاقوامی معاہدے سے دستبردار ہوا اور پھر ایران اور ترکی نے بھی اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی لیکن اس ایشو پر جس قدر سرمایہ کاری ہوچکی ہے اب یہ سراب حقیقت تصور کیا جاتا ہے۔
دوسری جانب عالمی سطح پر چین مینوفیکچرنگ پاور ہاؤس کا مرکز بن چکا ہے۔ 1970 میں پہلی بار امریکی صدر رچرڈ نکسن نے چین کا دورہ کر کے دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات پر زور دیا، بل کلنٹن، جارج بُش، باراک اوباما نے 1994 سے 2010 تک کی اپنی نیشنل سیکیورٹی سٹرٹیجی میں چین کے ساتھ تعاون کو ناگزیر قرار دیا، لیکن ملٹی نیشنل کمپنیوں کو یہ قبول نہیں رہا۔ چین کے ساتھ سابق سوویت یونین بھی اپنی طاقت کا اظہار کر رہا ہے، چین اپنی دفاعی طاقت کا 80 فیصد اسلحہ روس سے خریدتا ہے۔
افریشیائی ممالک میں بدلتی صورت حال، یورپ کا بدلتا سیاسی منظر نامہ اور وسائل پر قبضوں کے خفیہ منصوبوں نے نئے تقاضے پیدا کر دیے ہیں، یورپی یونین سے برطانیہ کے انخلاء کے بعد خطے کی پہلی سی سیاسی صورتحال نہیں رہے گی۔ امریکا نے نیٹو کے ساتھ مل کر مشرق وسطیٰ اور افریشیائی ممالک کی نئی جغرافیائی سرحدوں کی تشکیل کے لئے دو دہائیوں سے جنگیں مسلط کر رکھی ہیں لیکن مکمل کامیابی نہیں مل سکی۔ اس تناظر میں جب خود امریکی معیشت دباؤ کا شکار ہوئی تو 2009 ء میں مصنوعی معاشی بحران پیدا کر کے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ریلیف پیکجز دیے گئے۔ ٹھیک ایک دہائی بعد دُنیا کو مصنوعی وائرس میں مبتلا کر کے ایک نیا ایجنڈا نافذ کرنے کے منصوبے پر کام شروع کیا گیا ہے۔
درحقیقت نیو ورلڈ آرڈر کو نئی اُبھرتی معاشی طاقتوں نے مسترد کر دیا ہے، افریشیائی ممالک اب امریکی اجارہ داری کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں، چنانچہ دُنیا کی نئے سرے سے تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب نئی تقسیم تین اُصولوں پر کی جائے گی یعنی گلوبل پاور کا مرکز صرف ایک ملک نہیں ہوگا۔ اول؛ نیو پولز آف پاور، دوم؛ ریجنل پاورز اور سوم؛ لارج اکانومیز کی بنیاد پر دُنیا تقسیم ہوگی۔ ایک صدی سے دُنیا کے متعدد ممالک کی حیثیت محض صارف ریاست کی ہے، عالمی استعمار تیسری دُنیا کے ممالک کو اپنی طفیلی ریاستیں تصور کرتا ہے۔
گزشتہ ایک صدی کے سانحات میں سائنسدانوں، ماہرین سیاسیات، اقتصادیات، عمرانیات، مذہبی پیش واؤں اور میڈیا نے بہ طور استعماری آلہ کام کردار ادا کیا ہے چنانچہ عمومی سطح پر بحران یا وباؤں کو قدرتی آفت ڈیکلیئر کرانے کے لیے مذہبی طبقات کی مدد لی جاتی رہی ہے۔ جہاد افغانستان سے لے کر سانحہ نائن الیون، ان کرداروں کا پردہ چاک کر چکے ہیں۔
اب سوال ہے کہ کیا گزشتہ ایک مہینے سے پیدا ہونے والی عالمی صورت حال منصوبہ بندی کا حصہ ہے یا پھر قدرت کا فیصلہ؟ کیا کورونا وائرس ملٹی پولر دُنیا کی طرف بڑھنے کا برتھ سرٹیفیکیٹ ہوگا؟ انسانوں کو نادیدہ خوف میں مبتلا کر کے غلامی کا نیا طوق تیار کرنے کی منصوبہ بندی ایک دہائی سے جاری ہے، اس نئے ایجنڈے میں سائنسدان، حکمران طبقات، بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا بہ طور طاقت استعمال کیا جارہا ہے۔ ایک نادیدہ وائرس پر 18 مارچ 2015 ء میں بل گیٹس نے اپنی ٹیڈ ٹاک میں سوال اُٹھا کر ایک کروڑ انسانوں کی ہلاکت کی تنبہیہ کی تھی اور پھر سات ماہ بعد اس وائرس کی پروڈکشن پر کام ہوا اور مالی معاونت بل گیٹس کے ادارے گیٹس فاونڈیشن نے کی، یعنی یہ وائرس قدرتی نہیں بلکہ لیبارٹری میں تیار ہوا۔
منصوبہ بندی کے اگلے مرحلے میں، ڈیووس میں 2017 ء کے ورلڈ اکنامک فورم میں بل گیٹس کی کوشش سے کوالیشن فار ایپی ڈیمک پریپئیریڈنیس انوویشن یعنی سی ای پی آئی تشکیل پائی اور دو سال بعد نیو یارک میں اکتوبر 2019 ء کو 201 ایونٹ کرایا گیا یہ نام اس لیے تجویز دیا گیا کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ہر سال 200 سے زائد وائرس کے خلاف لڑتی ہے اور ایک نئے وائرس کے اضافے کے بعد اس کی تعداد 201 ہوجائے گی۔ اس لیے ایونٹ کو 201 کا نام دیا گیا۔
مصنوعی طور پر کی جانے والی اس سرگرمی میں حیاتیاتی جنگ کا نقشہ بنا کر دُنیا میں 18 مہینے تک وائرس سے پیدا ہونے والی وباء سے نمٹنے کی مشق ہوئی اور بتایا گیا کہ وائرس سے 6 کروڑ 50 لاکھ انسان ہلاک ہوں گے۔ اس مشق کے دو مہینوں بعد ہی کورونا وائرس کو دُنیا میں چھوڑ دیا گیا۔ اب اس مصنوعی وائرس کو قدرتی آفت یا گناہوں کا نتیجہ تصور کرنا محض حماقت اور خود فریبی کے سواء کچھ نہیں ہے۔
نیو یارک میں کی گئی اس مشق کے شرکاء کا شجرہ بھی قابل غور ہے۔ بہ طور ماہر شرکاء میں چائنیز سنٹر فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریونشن کے ڈائیریکٹر جارج فو گاؤ، سابق امریکی صدر اوباما کی ڈپٹی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اور امریکی سی آئی اے کی خاتون ڈپٹی ڈائیریکٹر ایورل ہینس، امریکی ادارے سی ڈی سی کے ڈائیریکٹر ریئیر ایڈمرل سٹیفن سی ریڈ، فارماسوٹیکل کمپنی جونسن اینڈ جونسن کے نائب صدر ایڈریان تھامس اور لفتھانسا گروپ ایئرلائن مارٹن نیوچل شریک ہوئے۔
جانسن اینڈ جانسن وہ کمپنی ہے جس نے ایبولا، ایچ آئی وی اور ڈینگی ویکسین تیار کی تھی۔ ماڈرینا اور کیور ویک اور جانسن اینڈ جانسن کمپنی کو ویکسین کی تیاری کے پراجیکٹ پر کام کرنے کے لیے کوالیشن فار ایپی ڈیمک پریپئیریڈنیس انوویشن کے ذریعے سے دو کروڑ 20 لاکھ ڈالرز کی فنڈنگ دی گئی۔ ڈبلیو ایچ او میں پہلی بار ایسے شخص کو ڈائیریکٹر تعینات کیا گیا جو گیٹس فاؤنڈیشن میں کام کرتا رہا۔
امریکا، یورپ اور ایشیائی ممالک کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن ہو چکے، دُنیا کا اقتصادی نظام جام ہو گیا ہے۔ بڑی بڑی کارپوریشنز، ملٹی نیشنل کمپنیاں، صنعتیں سب کچھ بند کر دیا گیا۔ اب ذرا سوچیئے کہ وائرس چھوڑ کر دُنیا کا اقتصادی پہیہ روکنے کے مقاصد کیا ہیں؟ کیا نیو امپیریل ایجنڈا نافذ کرنے کے لیے ایک نیا جواز پیدا کیا گیا ہے؟ عالمی سطح پر بندش کے حقیقی بینیفشری کون ہوں گے؟
چین و امریکا کے درمیان عالمی سطح پر اقتصادی ٹکراؤ ہے، چین اپنی 40 سالہ معاشی پالیسیوں کے باعث جی ڈی پی کا حجم 13 کھرب 60 ارب ڈالرز تک لا چکا ہے جبکہ امریکا کا یہ حجم 20 کھرب 50 ارب ڈالرز ہے۔ چین دُنیا کے 120 سے زائد ممالک تک اپنے تجارتی تعلقات مستحکم کر چکا ہے۔ افریشیائی ممالک پر چین کا اقتصادی کنٹرول آہستگی سے بڑھ رہا ہے، حتیٰ کہ امریکا کی مارکیٹ میں بھی چینی کمپنیوں کا اثر بڑھا ہے۔ دُنیا کی تمام بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہیڈ کوارٹرز امریکا ہیں ان کمپنیوں میں شامل ریکیفلر، روتھس چائلد اور گولڈ سمتھ خاندان گلوبل سیاسی و اقتصادی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں حتیٰ کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دُنیا بھر کے مرکزی بینک انھی کے کنٹرول میں ہے۔
ایک دہائی قبل پیدا کیے گئے مصنوعی معاشی بحران سے ملٹی نیشنل کمپنیوں نے امریکا کے قومی خزانے سے ریلیف پیکج حاصل کیے اور بحران کی براہ راست بینیفشری کمپنیاں ہی تھیں کیونکہ امریکا نے 7 کھرب ڈالرز کا بیل آؤٹ پیکج دیا تھا۔ نائن الیون کے بعد دُنیا پر جنگیں مسلط کرانے کی بینفشری امریکا کی اسلحہ ساز کمپنیاں ہیں۔ اب وائرس کے جواز پر مالی فائدہ حاصل کرنے میں سرفہرست فارماسیوٹیکل کمپنیاں ہیں۔ ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنیوں کے سی ای اوز نے دو مارچ کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی اس میں جیلیڈ سائنسز، گلیگسو سمتھ کلائن، جانسن اینڈ جانسن، ماڈرینا، فائزر، ریجنیرن اور سنوفی شامل ہیں، ان کمپنیوں کو کورونا ویکسین کی تیاری کا ٹاسک دیا گیا اور ان کمپنیوں کو امریکی خزانے سے فنڈنگ بھی کر دی گئی۔
انھی کمپنیوں کو امریکا کے فوڈ اینڈ ڈرگز ایڈمنسٹریشن یعنی ایف ڈی اے کی جانب سے ویکسین کی تیاری کا اجازت نامہ دیا گیا۔ دو روز قبل صدر ٹرمپ نے ایگزیکٹو اختیارات استعمال کر کے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے دو کھرب ڈالرز کے ریلیف پیکج پر دستخط کیے ہیں۔ یورپی یونین کے تحت کورونا پر تحقیق اور ویکسین کی تیاری کے لئے 10 کروڑ 40 لاکھ یوروز کا فنڈ رکھا گیا ہے، یہ فنڈز ملٹی نیشنل کمپنیوں کو فراہم کیے جا رہے ہیں۔ ایک دہائی قبل سوائن فلو کو ڈبلیو ایچ او نے وباء قرار دیا، برٹش میڈیکل جرنل کی رپورٹ کے مطابق فارما کمپنیوں نے 7 ارب ڈالرز کمائے تھے اور ڈبلیو ایچ او کے تحت گائیڈ لائنز لکھنے والے تینوں سائنسدانوں کو روچی، گلیکسو سمتھ کلائن نے پیسے فراہم کیے، بعد ازاں تینوں سائنسدانوں نے اعتراف بھی کیا۔ تھوڑے عرصے بعد ہی واضح ہوگیا کہ سوائن فلو اس قدر خطرناک نہیں تھا۔
کورونا وائرس سے پیدا کی گئی صورت حال میں یہ تصویر کا ایک رُخ ہے، اس وائرس کی بناء پر مزید مخفی مقاصد حاصل ہوں گے۔ وائرس چھوڑنے کا تجربہ کرنے کے بعد دُنیا کو لاک ڈاؤن کرنے کا ایک منصوبہ کامیاب ہوگیا، یعنی عالمی استعمار دُنیا کو اب کسی بھی وقت مکمل لاک ڈاون کر سکتا ہے۔ عالمی مالیاتی نظام کی تشکیل نو کرنے کے لیے یہ لاک ڈاؤن ناگزیر تھا، مصنوعی طریقے سے دکھائی جانے والی اقتصادی نمو کا فراڈ زیادہ دیر نہیں چلایا جاسکتا تھا۔
اس ضمن میں ٹائم میگزین نے مارچ 2014 ء میں اپنی تجزیاتی رپورٹ میں کہا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی دفعہ گزشتہ دو سالوں کے دوران عالمی تجارت کی شرح نمو عالمی جی ڈی پی کی نمو سے کم رہی ہے، یہ دراصل عالمی مالیاتی نظام کے اینگلو سیکسن مرکز کے لیے بڑا دھچکا تھا کیونکہ اس سسٹم کے تحت پیداواری بچت کو بڑھانے کے لیے دُنیا بھر میں حاشیہ بردار ریاستیں کام کرتی ہیں گویا عالمی مالیاتی نظام میں تبدیلیاں ناگزیر تھیں۔ ٹرمپ نے اپنی 2017 ء کی نیشنل سیکیورٹی پالیسی کی لانچنگ کے دوران کہا تھا کہ یورپ اور دُنیا کے دیگر ممالک کا انحصار چین پر بڑھ رہا ہے، اب ہمیں حریف ملک سے متعلق اپنی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرنا ہوگی۔ یہ دراصل اشاریے تھے جو مالیاتی نظام میں تبدیلیوں کی طرف کیے جارہے تھے۔
امریکی اسٹیبلشمنٹ انٹرنیشنل آرڈر کو اپنی پسند کے مطابق رائج رکھنا چاہتی ہے لیکن عالمی سطح پر اُبھرتے ہوئے نئے چیلنجز سے گلوبل سیاست کا دھارا بدلنے کو ہے۔ مثال کے طور پر سعودی عرب امریکا کی مشرق وسطیٰ میں خارجہ پالیسی سے نالاں ہے، سعودی عرب گلوبل آئل مارکیٹ میں اصلاحات کے لیے امریکا کا تعاون چاہتا ہے اور بالخصوص امریکی شیل آئل کی صنعت سے سعودی عرب خطرہ محسوس کرتا ہے، تیل کی پیداواری تنظیم اوپیک قیمتوں میں کمی کرنے کو تیار نہیں، روس اور سعودی عرب کے تعلقات قیمتوں میں کمی کے اختلاف پر سرد مہری کا شکار ہو چکے ہیں۔
رسد اور طلب کے عنصر کو متاثر کر کے تیل کی قیمتوں کو کنٹرول کیا جائے گا جس سے بڑی بڑی صنعتوں کو مالی فوائد حاصل ہوں گے۔ سعودی عرب ایک طرف خطے میں اپنی طاقت قائم رکھنے کا خواہاں ہے تو دوسری جانب امریکا کے تعاون کے بغیر آل سعود کی بادشاہت خطرے میں رہتی ہے۔ چنانچہ عالمگیریت کے موجودہ اقتصادی ماڈل کو عدم توازن اور مصنوعی گروتھ نے عالمی معیشت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ گویا وائرس سے پیدا کی گئی موجودہ عالمی صورتحال سے گلوبل مارکیٹ میں شرح نمو کو قدرتی نمو کے برابر لانے کا بندوبست ہو گا۔
اس کے ساتھ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی ری سٹرکچرنگ کریں گی جس میں ملازمتوں کے نئے ضابطے مرتب ہوں گے، اس وقت صرف امریکا میں اس وائرس کے بعد 8 کروڑ نوکریاں خطرے میں ہیں۔ دوسری جانب امریکا کے 2 کروڑ 70 لاکھ افراد کے پاس ہیلتھ انشورنس کی سہولت دستیاب نہیں ہے، انھیں انشورنس کی سہولت دینے کے لیے امریکا کو ایک نئے ہیلتھ پیکج کا اعلان کرنا ہوگا جس کے بینفیشری فارماسیٹوکل ادارے ہوں گے۔ فائیو جی ٹیکنالوجی پر امریکا و چین کی سرد جنگ عروج پر تھی، امریکا نے چین کی موبائل کمپنیوں کو نیشنل سیکیورٹی رسک قرار دے کر پاپندی عائد کر دی لاک ڈاون سے چین کا فائیو جی کا منصوبہ التواء کا شکار ہوگا، امریکا فائیو جی ٹیکنالوجی پر مکمل کنٹرول رکھنا چاہتا ہے۔
حالیہ صورتحال کے باعث چین کے ورچوئل ٹیکنالوجی کے منصوبے کو بریک لگے لگی۔ دوسری جانب امریکا جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سے افراد کی کڑی نگرانی کرنا چاہتا ہے تاکہ استعماری منصوبوں کے خلاف پنپنے والے مزاحمتی افکار و تحریکوں کو کنٹرول کیا جاسکے۔ یہ عین ممکن ہے کہ پوسٹ کورونا عہد میں ملٹی نیشنل کمپنیاں یہ شرط عائد کر دیں کہ صرف وہی افراد اپنی ملازمتیں جاری رکھ سکتے ہیں جن کا کورونا ٹیسٹ نیگیٹو ہے، اس پالیسی سے کمپنیاں اپنے کاروباری بوجھ کو کم کرنے میں کامیاب ہوں گی۔
کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی صورت حال سے تیسری دُنیا کے ممالک اور چھوٹی معیشتوں کی حامل ریاستوں کا اقتصادی نظام بُری طرح متاثر ہو رہا ہے، ان ریاستوں کو وائرس سے نمٹنے کے نام پر نئے قرضے جاری ہوں گے اور ان نئے قرضوں کے عوض ریاستی پالیسیوں کو جکڑنے کے نئے مطالبے ہوں گے۔ صحت کے نظام کو پرائیوٹائزڈ کرنے کے لیے نئی پالیسیاں لاگو ہوں گی تاکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کاروبار اور منافع میں وسعت لانے کا انتظام کیا جاسکے، عالمی سطح پر کورونا فنڈز میں جمع ہونے والی رقوم سے کمپنیوں کی مالی معاونت ہوگی۔
جو ریاستیں لاک ڈاون کی متحمل نہیں ہیں انھیں بھی عالمی دباؤ اور مقامی اسٹیبلشمنٹ کے حکم پر لاک ڈاؤن کرنا پڑا اور اس لاک ڈاؤن کے لیے عوامی زندگیوں کا سوال اُٹھایا گیا۔ کورونا وائرس کے بعد عالمی سطح پر ایک نیا جنگی خوف برپا کر دیا گیا ہے اب حریف ممالک کے خلاف جدید طرز کے جنگی ہتھیاروں اور جدید تربیت یافتہ فوج سے لڑے بغیر محض حیاتیاتی ہتھیار سے ہی زیر کیا جا سکتا ہے۔
یہ امر قابل فکر ہے کہ عالمی استعمار جو اقوام عالم کی زندگیوں کے ساتھ کھیل تماشا کرنے کا نیا حربہ استعمال کر رہا ہے وہیں پر عوامی زندگیوں کے تحفظ کا بھی پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ اہل فکر کو یہ سوال قائم کرنا چاہیے کہ کورونا وائرس تیار کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کے حالیہ نتائج کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ مطالبہ کیا جانا چاہیے کہ امریکا، چین، برطانیہ سمیت دُنیا کے جن ممالک میں بائیو وار سے متعلق لیبارٹریاں قائم کر کے وائرسز کی تیاری کی گئی ہے، ان لیبارٹریوں کو فوری بند کیا جانا چاہیے اور وہاں پر موجود وائرسز کو ڈسپوزڈ آف کرنے کا بندوبست کیا جائے۔ استعماری منصوبوں کے تحت چلنے والی یہ لیبارٹریاں انسانیت کو غلامی میں دھکیلنے اور ان کے قتل عام کا موجب بن سکتی ہیں۔
02/04/2020 اکمل سومرو
برطانوی استعماریت کی ابتداء سے لے کر سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا کی سربراہی میں تشکیل پانے والے عالمی سیاسی و اقتصادی نظام نے دُنیا پر قبضہ کرنے کے مختلف حربوں کا استعمال کیا ہے۔ اٹھارویں صدی کے بعد سے، دُنیا بھر میں، جنم لینے والے بڑے بڑے قحط، وبائیں، جنگیں، بھوک و غربت کو استعماری طاقتوں نے مسلط کر رکھا ہے۔ ایڈم سمتھ کے اقتصادی اُصولوں کو اپنا کر عالمی استعمار نے جب دُنیا کی اقتصادیات کو قابو کیا تو افریقہ، ایشیاء، مشرق وسطیٰ حتیٰ کہ یورپ کے بعض ممالک اور امریکا کی عوام بھی ان سے محفوظ نہیں رہ سکی۔
اقتصادی منڈیوں پر قبضے کی ہوس نے پہلی و دوسری عالمی جنگ مسلط کی اور کروڑوں انسانوں کو ان جنگوں کا ایندھن بنایا، چونکہ استعمار کا مذہب صرف دولت سمیٹنا اور منڈیوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنا ہے لہذا انسانیت کا قتل بھی ان کے کاروبار کا حصہ ہوتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا نے انٹرنیشنل آرڈر کا نفاذ کیا اور نائن الیون کا سانحہ برپا کر کے نئی ضروریات کے مطابق نیو ورلڈ آرڈر رائج کیا۔ دو دہائیوں بعد یہ ثابت ہوچکا کہ نائن الیون کا سانحہ استعماری منصوبہ تھا، جس نے عالمی استعمار کی معاشیات کو نیا سہارا دیا، افغانستان، عراق، مصر، شام، لیبیاء اور تیونس میں جنگیں مسلط کرنے کے لیے نائن الیون نے جواز فراہم کیا باقی سب سراب ہے۔ یہ انتہائی باریک نکتہ ہے کہ عالمی استعمار نئے ایجنڈے کے نفاذ کے لیے پہلے جواز پیدا کرتا ہے اور پھر اس جواز کی بنیاد پر اقدامات اُٹھائے جاتے ہیں۔
عالمی استعمار کا مرکز متحدہ ہائے ریاست امریکا ہے، اقوام متحدہ کا ہیڈ کوارٹر تعمیر کرنے کے لیے ریکیفلیر خاندان نے زمین فراہم کی، یہ وہی خاندان ہے جہاں سے استعماریت کے سوتے پھوٹتے ہیں، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مرکزی دفتر بھی امریکا میں قائم ہیں۔ نصف صدی سے دُنیا کا نظام سیاست امریکی لاٹھی سے چلایا جارہا ہے۔ امریکا نے اپنے تئیں ایک عالمی حکومت تشکیل دے رکھی ہے، اس ضمن میں امریکا نے 2011 ء میں ڈاکٹرائن آف دی آرمڈ فورسز آف یونائیٹیڈ اسٹیٹس جاری کیا، پھر 2017 ء میں ایک توثیق شدہ دستاویز جاری ہوئی۔
یہ دستاویز بتاتی ہے کہ امریکا اقوام متحدہ کو امریکی فوج کے ماتحت ادارہ تصور کرتا ہے۔ کرہ ارض کے کسی بھی بھی علاقے میں امریکا جب سنٹرل ملٹری آپریشنز اینڈ کمانڈ تشکیل دیتا ہے تو اقوام متحدہ امریکی فوجی افسر کے ماتحت کام کرتا ہے، دُنیا کو یونی پولر تصور کے تحت امریکا عملی طور پر چلا رہا ہے تاہم یونی پولر کے تحت چلنے والے عالمی سیاسی و اقتصادی نظام کو اب نئی شکل کی ضرورت ہے، 2007 میں روسی صدر ولادیمر پوتن نے میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں نیو ورلڈ آرڈر کو پہلی بار مسترد کیا اور ایک دہائی بعد جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے ملٹی پولر ورلڈ کا تصور پیش کر دیا۔
انٹرنیشنل آرڈر کے نفاذ کے لئے عالمی مالیاتی ادارے اور ملٹی نیشنل کمپنیاں بہ طور آلہ کار کام کرتی ہیں اور ان کمپنیوں کے مالی مفادات کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کا ایجنڈا امریکی کے تزویراتی مقاصد کے تحت پیدا کیا گیا، 2012 ء میں ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ گلوبل وارمنگ کا تصور امریکا اور چین کے درمیان صنعتی مقابلہ بازی کے تصور کو ہمیشہ ختم کرنے کی خاطر پیدا کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ امریکا ماحولیاتی تبدیلی کے بین الاقوامی معاہدے سے دستبردار ہوا اور پھر ایران اور ترکی نے بھی اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی لیکن اس ایشو پر جس قدر سرمایہ کاری ہوچکی ہے اب یہ سراب حقیقت تصور کیا جاتا ہے۔
دوسری جانب عالمی سطح پر چین مینوفیکچرنگ پاور ہاؤس کا مرکز بن چکا ہے۔ 1970 میں پہلی بار امریکی صدر رچرڈ نکسن نے چین کا دورہ کر کے دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات پر زور دیا، بل کلنٹن، جارج بُش، باراک اوباما نے 1994 سے 2010 تک کی اپنی نیشنل سیکیورٹی سٹرٹیجی میں چین کے ساتھ تعاون کو ناگزیر قرار دیا، لیکن ملٹی نیشنل کمپنیوں کو یہ قبول نہیں رہا۔ چین کے ساتھ سابق سوویت یونین بھی اپنی طاقت کا اظہار کر رہا ہے، چین اپنی دفاعی طاقت کا 80 فیصد اسلحہ روس سے خریدتا ہے۔
افریشیائی ممالک میں بدلتی صورت حال، یورپ کا بدلتا سیاسی منظر نامہ اور وسائل پر قبضوں کے خفیہ منصوبوں نے نئے تقاضے پیدا کر دیے ہیں، یورپی یونین سے برطانیہ کے انخلاء کے بعد خطے کی پہلی سی سیاسی صورتحال نہیں رہے گی۔ امریکا نے نیٹو کے ساتھ مل کر مشرق وسطیٰ اور افریشیائی ممالک کی نئی جغرافیائی سرحدوں کی تشکیل کے لئے دو دہائیوں سے جنگیں مسلط کر رکھی ہیں لیکن مکمل کامیابی نہیں مل سکی۔ اس تناظر میں جب خود امریکی معیشت دباؤ کا شکار ہوئی تو 2009 ء میں مصنوعی معاشی بحران پیدا کر کے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ریلیف پیکجز دیے گئے۔ ٹھیک ایک دہائی بعد دُنیا کو مصنوعی وائرس میں مبتلا کر کے ایک نیا ایجنڈا نافذ کرنے کے منصوبے پر کام شروع کیا گیا ہے۔
درحقیقت نیو ورلڈ آرڈر کو نئی اُبھرتی معاشی طاقتوں نے مسترد کر دیا ہے، افریشیائی ممالک اب امریکی اجارہ داری کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں، چنانچہ دُنیا کی نئے سرے سے تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب نئی تقسیم تین اُصولوں پر کی جائے گی یعنی گلوبل پاور کا مرکز صرف ایک ملک نہیں ہوگا۔ اول؛ نیو پولز آف پاور، دوم؛ ریجنل پاورز اور سوم؛ لارج اکانومیز کی بنیاد پر دُنیا تقسیم ہوگی۔ ایک صدی سے دُنیا کے متعدد ممالک کی حیثیت محض صارف ریاست کی ہے، عالمی استعمار تیسری دُنیا کے ممالک کو اپنی طفیلی ریاستیں تصور کرتا ہے۔
گزشتہ ایک صدی کے سانحات میں سائنسدانوں، ماہرین سیاسیات، اقتصادیات، عمرانیات، مذہبی پیش واؤں اور میڈیا نے بہ طور استعماری آلہ کام کردار ادا کیا ہے چنانچہ عمومی سطح پر بحران یا وباؤں کو قدرتی آفت ڈیکلیئر کرانے کے لیے مذہبی طبقات کی مدد لی جاتی رہی ہے۔ جہاد افغانستان سے لے کر سانحہ نائن الیون، ان کرداروں کا پردہ چاک کر چکے ہیں۔
اب سوال ہے کہ کیا گزشتہ ایک مہینے سے پیدا ہونے والی عالمی صورت حال منصوبہ بندی کا حصہ ہے یا پھر قدرت کا فیصلہ؟ کیا کورونا وائرس ملٹی پولر دُنیا کی طرف بڑھنے کا برتھ سرٹیفیکیٹ ہوگا؟ انسانوں کو نادیدہ خوف میں مبتلا کر کے غلامی کا نیا طوق تیار کرنے کی منصوبہ بندی ایک دہائی سے جاری ہے، اس نئے ایجنڈے میں سائنسدان، حکمران طبقات، بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا بہ طور طاقت استعمال کیا جارہا ہے۔ ایک نادیدہ وائرس پر 18 مارچ 2015 ء میں بل گیٹس نے اپنی ٹیڈ ٹاک میں سوال اُٹھا کر ایک کروڑ انسانوں کی ہلاکت کی تنبہیہ کی تھی اور پھر سات ماہ بعد اس وائرس کی پروڈکشن پر کام ہوا اور مالی معاونت بل گیٹس کے ادارے گیٹس فاونڈیشن نے کی، یعنی یہ وائرس قدرتی نہیں بلکہ لیبارٹری میں تیار ہوا۔
منصوبہ بندی کے اگلے مرحلے میں، ڈیووس میں 2017 ء کے ورلڈ اکنامک فورم میں بل گیٹس کی کوشش سے کوالیشن فار ایپی ڈیمک پریپئیریڈنیس انوویشن یعنی سی ای پی آئی تشکیل پائی اور دو سال بعد نیو یارک میں اکتوبر 2019 ء کو 201 ایونٹ کرایا گیا یہ نام اس لیے تجویز دیا گیا کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ہر سال 200 سے زائد وائرس کے خلاف لڑتی ہے اور ایک نئے وائرس کے اضافے کے بعد اس کی تعداد 201 ہوجائے گی۔ اس لیے ایونٹ کو 201 کا نام دیا گیا۔
مصنوعی طور پر کی جانے والی اس سرگرمی میں حیاتیاتی جنگ کا نقشہ بنا کر دُنیا میں 18 مہینے تک وائرس سے پیدا ہونے والی وباء سے نمٹنے کی مشق ہوئی اور بتایا گیا کہ وائرس سے 6 کروڑ 50 لاکھ انسان ہلاک ہوں گے۔ اس مشق کے دو مہینوں بعد ہی کورونا وائرس کو دُنیا میں چھوڑ دیا گیا۔ اب اس مصنوعی وائرس کو قدرتی آفت یا گناہوں کا نتیجہ تصور کرنا محض حماقت اور خود فریبی کے سواء کچھ نہیں ہے۔
نیو یارک میں کی گئی اس مشق کے شرکاء کا شجرہ بھی قابل غور ہے۔ بہ طور ماہر شرکاء میں چائنیز سنٹر فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریونشن کے ڈائیریکٹر جارج فو گاؤ، سابق امریکی صدر اوباما کی ڈپٹی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اور امریکی سی آئی اے کی خاتون ڈپٹی ڈائیریکٹر ایورل ہینس، امریکی ادارے سی ڈی سی کے ڈائیریکٹر ریئیر ایڈمرل سٹیفن سی ریڈ، فارماسوٹیکل کمپنی جونسن اینڈ جونسن کے نائب صدر ایڈریان تھامس اور لفتھانسا گروپ ایئرلائن مارٹن نیوچل شریک ہوئے۔
جانسن اینڈ جانسن وہ کمپنی ہے جس نے ایبولا، ایچ آئی وی اور ڈینگی ویکسین تیار کی تھی۔ ماڈرینا اور کیور ویک اور جانسن اینڈ جانسن کمپنی کو ویکسین کی تیاری کے پراجیکٹ پر کام کرنے کے لیے کوالیشن فار ایپی ڈیمک پریپئیریڈنیس انوویشن کے ذریعے سے دو کروڑ 20 لاکھ ڈالرز کی فنڈنگ دی گئی۔ ڈبلیو ایچ او میں پہلی بار ایسے شخص کو ڈائیریکٹر تعینات کیا گیا جو گیٹس فاؤنڈیشن میں کام کرتا رہا۔
امریکا، یورپ اور ایشیائی ممالک کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن ہو چکے، دُنیا کا اقتصادی نظام جام ہو گیا ہے۔ بڑی بڑی کارپوریشنز، ملٹی نیشنل کمپنیاں، صنعتیں سب کچھ بند کر دیا گیا۔ اب ذرا سوچیئے کہ وائرس چھوڑ کر دُنیا کا اقتصادی پہیہ روکنے کے مقاصد کیا ہیں؟ کیا نیو امپیریل ایجنڈا نافذ کرنے کے لیے ایک نیا جواز پیدا کیا گیا ہے؟ عالمی سطح پر بندش کے حقیقی بینیفشری کون ہوں گے؟
چین و امریکا کے درمیان عالمی سطح پر اقتصادی ٹکراؤ ہے، چین اپنی 40 سالہ معاشی پالیسیوں کے باعث جی ڈی پی کا حجم 13 کھرب 60 ارب ڈالرز تک لا چکا ہے جبکہ امریکا کا یہ حجم 20 کھرب 50 ارب ڈالرز ہے۔ چین دُنیا کے 120 سے زائد ممالک تک اپنے تجارتی تعلقات مستحکم کر چکا ہے۔ افریشیائی ممالک پر چین کا اقتصادی کنٹرول آہستگی سے بڑھ رہا ہے، حتیٰ کہ امریکا کی مارکیٹ میں بھی چینی کمپنیوں کا اثر بڑھا ہے۔ دُنیا کی تمام بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہیڈ کوارٹرز امریکا ہیں ان کمپنیوں میں شامل ریکیفلر، روتھس چائلد اور گولڈ سمتھ خاندان گلوبل سیاسی و اقتصادی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں حتیٰ کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دُنیا بھر کے مرکزی بینک انھی کے کنٹرول میں ہے۔
ایک دہائی قبل پیدا کیے گئے مصنوعی معاشی بحران سے ملٹی نیشنل کمپنیوں نے امریکا کے قومی خزانے سے ریلیف پیکج حاصل کیے اور بحران کی براہ راست بینیفشری کمپنیاں ہی تھیں کیونکہ امریکا نے 7 کھرب ڈالرز کا بیل آؤٹ پیکج دیا تھا۔ نائن الیون کے بعد دُنیا پر جنگیں مسلط کرانے کی بینفشری امریکا کی اسلحہ ساز کمپنیاں ہیں۔ اب وائرس کے جواز پر مالی فائدہ حاصل کرنے میں سرفہرست فارماسیوٹیکل کمپنیاں ہیں۔ ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنیوں کے سی ای اوز نے دو مارچ کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی اس میں جیلیڈ سائنسز، گلیگسو سمتھ کلائن، جانسن اینڈ جانسن، ماڈرینا، فائزر، ریجنیرن اور سنوفی شامل ہیں، ان کمپنیوں کو کورونا ویکسین کی تیاری کا ٹاسک دیا گیا اور ان کمپنیوں کو امریکی خزانے سے فنڈنگ بھی کر دی گئی۔
انھی کمپنیوں کو امریکا کے فوڈ اینڈ ڈرگز ایڈمنسٹریشن یعنی ایف ڈی اے کی جانب سے ویکسین کی تیاری کا اجازت نامہ دیا گیا۔ دو روز قبل صدر ٹرمپ نے ایگزیکٹو اختیارات استعمال کر کے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے دو کھرب ڈالرز کے ریلیف پیکج پر دستخط کیے ہیں۔ یورپی یونین کے تحت کورونا پر تحقیق اور ویکسین کی تیاری کے لئے 10 کروڑ 40 لاکھ یوروز کا فنڈ رکھا گیا ہے، یہ فنڈز ملٹی نیشنل کمپنیوں کو فراہم کیے جا رہے ہیں۔ ایک دہائی قبل سوائن فلو کو ڈبلیو ایچ او نے وباء قرار دیا، برٹش میڈیکل جرنل کی رپورٹ کے مطابق فارما کمپنیوں نے 7 ارب ڈالرز کمائے تھے اور ڈبلیو ایچ او کے تحت گائیڈ لائنز لکھنے والے تینوں سائنسدانوں کو روچی، گلیکسو سمتھ کلائن نے پیسے فراہم کیے، بعد ازاں تینوں سائنسدانوں نے اعتراف بھی کیا۔ تھوڑے عرصے بعد ہی واضح ہوگیا کہ سوائن فلو اس قدر خطرناک نہیں تھا۔
کورونا وائرس سے پیدا کی گئی صورت حال میں یہ تصویر کا ایک رُخ ہے، اس وائرس کی بناء پر مزید مخفی مقاصد حاصل ہوں گے۔ وائرس چھوڑنے کا تجربہ کرنے کے بعد دُنیا کو لاک ڈاؤن کرنے کا ایک منصوبہ کامیاب ہوگیا، یعنی عالمی استعمار دُنیا کو اب کسی بھی وقت مکمل لاک ڈاون کر سکتا ہے۔ عالمی مالیاتی نظام کی تشکیل نو کرنے کے لیے یہ لاک ڈاؤن ناگزیر تھا، مصنوعی طریقے سے دکھائی جانے والی اقتصادی نمو کا فراڈ زیادہ دیر نہیں چلایا جاسکتا تھا۔
اس ضمن میں ٹائم میگزین نے مارچ 2014 ء میں اپنی تجزیاتی رپورٹ میں کہا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی دفعہ گزشتہ دو سالوں کے دوران عالمی تجارت کی شرح نمو عالمی جی ڈی پی کی نمو سے کم رہی ہے، یہ دراصل عالمی مالیاتی نظام کے اینگلو سیکسن مرکز کے لیے بڑا دھچکا تھا کیونکہ اس سسٹم کے تحت پیداواری بچت کو بڑھانے کے لیے دُنیا بھر میں حاشیہ بردار ریاستیں کام کرتی ہیں گویا عالمی مالیاتی نظام میں تبدیلیاں ناگزیر تھیں۔ ٹرمپ نے اپنی 2017 ء کی نیشنل سیکیورٹی پالیسی کی لانچنگ کے دوران کہا تھا کہ یورپ اور دُنیا کے دیگر ممالک کا انحصار چین پر بڑھ رہا ہے، اب ہمیں حریف ملک سے متعلق اپنی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرنا ہوگی۔ یہ دراصل اشاریے تھے جو مالیاتی نظام میں تبدیلیوں کی طرف کیے جارہے تھے۔
امریکی اسٹیبلشمنٹ انٹرنیشنل آرڈر کو اپنی پسند کے مطابق رائج رکھنا چاہتی ہے لیکن عالمی سطح پر اُبھرتے ہوئے نئے چیلنجز سے گلوبل سیاست کا دھارا بدلنے کو ہے۔ مثال کے طور پر سعودی عرب امریکا کی مشرق وسطیٰ میں خارجہ پالیسی سے نالاں ہے، سعودی عرب گلوبل آئل مارکیٹ میں اصلاحات کے لیے امریکا کا تعاون چاہتا ہے اور بالخصوص امریکی شیل آئل کی صنعت سے سعودی عرب خطرہ محسوس کرتا ہے، تیل کی پیداواری تنظیم اوپیک قیمتوں میں کمی کرنے کو تیار نہیں، روس اور سعودی عرب کے تعلقات قیمتوں میں کمی کے اختلاف پر سرد مہری کا شکار ہو چکے ہیں۔
رسد اور طلب کے عنصر کو متاثر کر کے تیل کی قیمتوں کو کنٹرول کیا جائے گا جس سے بڑی بڑی صنعتوں کو مالی فوائد حاصل ہوں گے۔ سعودی عرب ایک طرف خطے میں اپنی طاقت قائم رکھنے کا خواہاں ہے تو دوسری جانب امریکا کے تعاون کے بغیر آل سعود کی بادشاہت خطرے میں رہتی ہے۔ چنانچہ عالمگیریت کے موجودہ اقتصادی ماڈل کو عدم توازن اور مصنوعی گروتھ نے عالمی معیشت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ گویا وائرس سے پیدا کی گئی موجودہ عالمی صورتحال سے گلوبل مارکیٹ میں شرح نمو کو قدرتی نمو کے برابر لانے کا بندوبست ہو گا۔
اس کے ساتھ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی ری سٹرکچرنگ کریں گی جس میں ملازمتوں کے نئے ضابطے مرتب ہوں گے، اس وقت صرف امریکا میں اس وائرس کے بعد 8 کروڑ نوکریاں خطرے میں ہیں۔ دوسری جانب امریکا کے 2 کروڑ 70 لاکھ افراد کے پاس ہیلتھ انشورنس کی سہولت دستیاب نہیں ہے، انھیں انشورنس کی سہولت دینے کے لیے امریکا کو ایک نئے ہیلتھ پیکج کا اعلان کرنا ہوگا جس کے بینفیشری فارماسیٹوکل ادارے ہوں گے۔ فائیو جی ٹیکنالوجی پر امریکا و چین کی سرد جنگ عروج پر تھی، امریکا نے چین کی موبائل کمپنیوں کو نیشنل سیکیورٹی رسک قرار دے کر پاپندی عائد کر دی لاک ڈاون سے چین کا فائیو جی کا منصوبہ التواء کا شکار ہوگا، امریکا فائیو جی ٹیکنالوجی پر مکمل کنٹرول رکھنا چاہتا ہے۔
حالیہ صورتحال کے باعث چین کے ورچوئل ٹیکنالوجی کے منصوبے کو بریک لگے لگی۔ دوسری جانب امریکا جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سے افراد کی کڑی نگرانی کرنا چاہتا ہے تاکہ استعماری منصوبوں کے خلاف پنپنے والے مزاحمتی افکار و تحریکوں کو کنٹرول کیا جاسکے۔ یہ عین ممکن ہے کہ پوسٹ کورونا عہد میں ملٹی نیشنل کمپنیاں یہ شرط عائد کر دیں کہ صرف وہی افراد اپنی ملازمتیں جاری رکھ سکتے ہیں جن کا کورونا ٹیسٹ نیگیٹو ہے، اس پالیسی سے کمپنیاں اپنے کاروباری بوجھ کو کم کرنے میں کامیاب ہوں گی۔
کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی صورت حال سے تیسری دُنیا کے ممالک اور چھوٹی معیشتوں کی حامل ریاستوں کا اقتصادی نظام بُری طرح متاثر ہو رہا ہے، ان ریاستوں کو وائرس سے نمٹنے کے نام پر نئے قرضے جاری ہوں گے اور ان نئے قرضوں کے عوض ریاستی پالیسیوں کو جکڑنے کے نئے مطالبے ہوں گے۔ صحت کے نظام کو پرائیوٹائزڈ کرنے کے لیے نئی پالیسیاں لاگو ہوں گی تاکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کاروبار اور منافع میں وسعت لانے کا انتظام کیا جاسکے، عالمی سطح پر کورونا فنڈز میں جمع ہونے والی رقوم سے کمپنیوں کی مالی معاونت ہوگی۔
جو ریاستیں لاک ڈاون کی متحمل نہیں ہیں انھیں بھی عالمی دباؤ اور مقامی اسٹیبلشمنٹ کے حکم پر لاک ڈاؤن کرنا پڑا اور اس لاک ڈاؤن کے لیے عوامی زندگیوں کا سوال اُٹھایا گیا۔ کورونا وائرس کے بعد عالمی سطح پر ایک نیا جنگی خوف برپا کر دیا گیا ہے اب حریف ممالک کے خلاف جدید طرز کے جنگی ہتھیاروں اور جدید تربیت یافتہ فوج سے لڑے بغیر محض حیاتیاتی ہتھیار سے ہی زیر کیا جا سکتا ہے۔
یہ امر قابل فکر ہے کہ عالمی استعمار جو اقوام عالم کی زندگیوں کے ساتھ کھیل تماشا کرنے کا نیا حربہ استعمال کر رہا ہے وہیں پر عوامی زندگیوں کے تحفظ کا بھی پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ اہل فکر کو یہ سوال قائم کرنا چاہیے کہ کورونا وائرس تیار کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کے حالیہ نتائج کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ مطالبہ کیا جانا چاہیے کہ امریکا، چین، برطانیہ سمیت دُنیا کے جن ممالک میں بائیو وار سے متعلق لیبارٹریاں قائم کر کے وائرسز کی تیاری کی گئی ہے، ان لیبارٹریوں کو فوری بند کیا جانا چاہیے اور وہاں پر موجود وائرسز کو ڈسپوزڈ آف کرنے کا بندوبست کیا جائے۔ استعماری منصوبوں کے تحت چلنے والی یہ لیبارٹریاں انسانیت کو غلامی میں دھکیلنے اور ان کے قتل عام کا موجب بن سکتی ہیں۔