نیرنگ خیال
لائبریرین
اکادمی ادبیات میں شاکر القادری صاحب کے اعزاز میں دی گئی تقریب میں تلمیذ سر سے پہلی ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد فون پر رابطہ رہنے لگا۔ پنجابی کے حوالے سے مجھے جب بھی کسی مشکل کا سامنا ہوتا۔ میں فوراً اصغر صاحب سے رابطہ کرتا۔ اکثر فون آتا تو سلام کے بعد ان کے مخصوص انداز میں یہی جملہ ہوتا۔ "نین صااب کیہ حال نیں۔ عشبہ کیسی اے؟" پھر محمد زین العابدین کی پیدائش کے بعد اس کو بھی کبھی نہیں بھولے۔ گزشتہ تین سالوں میں مہینے میں کم سے کم بھی دو بار تو لازماً ان سے بات ہوا کرتی تھی۔
ایک بار کچھ عرصہ گزرا اور ان کا فون نہ آیا۔ مجھے کسی سبب سے پتا چلا کہ آنکھ کا آپریشن ہوا ہے۔ میں نے جب فون پر گلہ کیا تو ہنسنے لگ پڑے۔ کہتے "اوہ یار بس اے معاملات تے چلدے ای رہندے نیں۔ " جبکہ خود ہر وقت دوسروں کا خیال رکھتے۔ ایک دن مجھے فون کر کے کہنے لگے کہ آپ کی عاطف بٹ سے کتنا عرصہ ہوا بات نہیں ہوئی۔ میں نے عرض کیا سر، کافی عرصہ ہوگیا۔ بتانے لگے ، اس کا بیٹا بیمار ہے اور ہسپتال داخل ہے۔ ایک دوسرے کےحالات پوچھتے رہا کرو۔
اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی قلم کی مشقت کو نہ چھوڑا اور کام کو جاری رکھا۔ کبھی برائی کی بات پر توجہ نہیں کی۔ ان سے کتنی ہی ملاقاتوں میں کبھی ان کے منہ سے کسی کی برائی نہیں سنی۔ ہمیشہ کسی کی مثبت بات کی تعریف کرتے ہی دیکھا۔ صاحب علم لوگوں کی قدر کرتے۔ اور خود بھی اس قدر علمی شخصیت ہونے کے باوجود اس پر کبھی غرور نہ کرتے تھے۔ یہ رسمی باتیں نہیں ہیں۔ یہ اس شخصیت کے سچے پہلو ہیں۔
سید زبیر صاحب کے گھر ان سے دو بار ملاقات ہوئی۔ ان دونوں کی آپس کی گفتگو سے بہت کچھ سیکھا۔ اس بار بھی رمضان کے شروع میں فون آیا۔ تھوڑی سی گپ شپ ہوئی۔ عید پر سر کا فون نہیں آیا۔ مجھے انتظار تھا۔ لیکن کچھ مصروفیت ایسی ہوئی کہ میں چاہ کر بھی فون نہ کر سکا۔ ایک بار کوشش کی لیکن بھلا ہو ہمارے ملک میں اعلیٰ نیٹ ورک سروسز کا۔ دوسرے دن یہ خبر ملی کہ اصغر سر اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ موت برحق ہے۔ ہم سب نے اس دنیا سے جانا ہے۔ لیکن اپنے پیاروں عزیزوں کی کمی سے جو خلا بن جاتا ہے۔ وہ کبھی پر نہیں ہوتا۔ تلمیذ سر کی محبت ہمیشہ میرے ساتھ رہے گی۔ میں جانتا ہوں کہ وہ اب کبھی نہیں آئیں گے۔ اب ان کا کوئی بھی تبصرہ مجھے پڑھنے کو نہیں ملے گا۔ لیکن جانے کیوں ابھی تک اس بات پر یقین نہیں آرہا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند کرے۔ اور ان کی آرام گاہ کو جنت کے باغات میں سے ایک باغ بنا دے۔ آمین
انا للہ وانا الیہ راجعون
ایک بار کچھ عرصہ گزرا اور ان کا فون نہ آیا۔ مجھے کسی سبب سے پتا چلا کہ آنکھ کا آپریشن ہوا ہے۔ میں نے جب فون پر گلہ کیا تو ہنسنے لگ پڑے۔ کہتے "اوہ یار بس اے معاملات تے چلدے ای رہندے نیں۔ " جبکہ خود ہر وقت دوسروں کا خیال رکھتے۔ ایک دن مجھے فون کر کے کہنے لگے کہ آپ کی عاطف بٹ سے کتنا عرصہ ہوا بات نہیں ہوئی۔ میں نے عرض کیا سر، کافی عرصہ ہوگیا۔ بتانے لگے ، اس کا بیٹا بیمار ہے اور ہسپتال داخل ہے۔ ایک دوسرے کےحالات پوچھتے رہا کرو۔
اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی قلم کی مشقت کو نہ چھوڑا اور کام کو جاری رکھا۔ کبھی برائی کی بات پر توجہ نہیں کی۔ ان سے کتنی ہی ملاقاتوں میں کبھی ان کے منہ سے کسی کی برائی نہیں سنی۔ ہمیشہ کسی کی مثبت بات کی تعریف کرتے ہی دیکھا۔ صاحب علم لوگوں کی قدر کرتے۔ اور خود بھی اس قدر علمی شخصیت ہونے کے باوجود اس پر کبھی غرور نہ کرتے تھے۔ یہ رسمی باتیں نہیں ہیں۔ یہ اس شخصیت کے سچے پہلو ہیں۔
سید زبیر صاحب کے گھر ان سے دو بار ملاقات ہوئی۔ ان دونوں کی آپس کی گفتگو سے بہت کچھ سیکھا۔ اس بار بھی رمضان کے شروع میں فون آیا۔ تھوڑی سی گپ شپ ہوئی۔ عید پر سر کا فون نہیں آیا۔ مجھے انتظار تھا۔ لیکن کچھ مصروفیت ایسی ہوئی کہ میں چاہ کر بھی فون نہ کر سکا۔ ایک بار کوشش کی لیکن بھلا ہو ہمارے ملک میں اعلیٰ نیٹ ورک سروسز کا۔ دوسرے دن یہ خبر ملی کہ اصغر سر اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ موت برحق ہے۔ ہم سب نے اس دنیا سے جانا ہے۔ لیکن اپنے پیاروں عزیزوں کی کمی سے جو خلا بن جاتا ہے۔ وہ کبھی پر نہیں ہوتا۔ تلمیذ سر کی محبت ہمیشہ میرے ساتھ رہے گی۔ میں جانتا ہوں کہ وہ اب کبھی نہیں آئیں گے۔ اب ان کا کوئی بھی تبصرہ مجھے پڑھنے کو نہیں ملے گا۔ لیکن جانے کیوں ابھی تک اس بات پر یقین نہیں آرہا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند کرے۔ اور ان کی آرام گاہ کو جنت کے باغات میں سے ایک باغ بنا دے۔ آمین
انا للہ وانا الیہ راجعون