فراز کون سا نام تجھے دوں؟

حسان خان

لائبریرین
یوں بھی گزری ہے کہ جب درد میں ڈوبی ہوئی شام
گھول دیتی ہے مری سوچ میں زہرِ ایام
زرد پڑ جاتا ہے جب شہرِ نظر کا مہتاب
خون ہو جاتا ہے ہر ساعتِ بیدار کا خواب
ایسے لمحوں میں عجب لطفِ دل آرام کے ساتھ
مہرباں ہاتھ ترے ریشم و بلّور سے ہاتھ
اپنے شانوں پہ مرے سر کو جھکا دیتے ہیں
جس طرح ساحلِ امید سے بے بس چہرے
دیر تک ڈوبنے والے کو صدا دیتے ہیں
یوں بھی گزری ہے کہ جب قرب کی سرشاری میں
چمک اٹھتا ہے نگاہوں میں ترے حسن کا شہر
نہ غمِ دہر کی تلچھٹ نہ شبِ ہجر کا زہر
مجھ کو ایسے میں اچانک ترا بے وجہ سکوت
کوئی بے فیض نظر یا کوئی تلوار سی بات
ان گنت درد کے رشتوں میں پرو دیتی ہے
اس طرح سے کہ ہر آسودگی رو دیتی ہے
کون سا نام تجھے دوں مرے ظالم محبوب
تو ہی قاتل ہے مرا تو ہی مسیحا میرا
(احمد فراز)
 

سید زبیر

محفلین
بہت خوبصورت کلام حسان خان !
اپنے شانوں پہ مرے سر کو جھکا دیتے ہیں
جس طرح ساحلِ امید سے بے بس چہرے
دیر تک ڈوبنے والے کو صدا دیتے ہیں
کیا بات ہے
 
Top