مطلع کا مصرع اولی ہو گیا تھا، پھر کوشش کر کے غزل مکمل کی ہے۔ امید کرتا ہوں کہ احباب کو پسند آئے گی
کون کس حال میں پھرتا ہے وہ سب جانتا ہے
آدمی اپنی ہی نیت کو بھی کب جانتا ہے
میں تو پہچان سکا ہوں نہ ابھی تک خود کو
کس لیے پھرتا ہوں آوارہ یہ رب جانتا ہے
جانتا ہے کہ کہاں ہے مری منزل بے شک
وہ جو پتھر کے چٹخنے کا سبب جانتا ہے
بولتا رہتا ہے رب جانے نہ کیا کیا آخر
ایک انجان جو بس بات کا ڈھب جانتا ہے
ہے اسی علم کی بخشش کہ مجھے علم ہوا
کوئی کچھ جانتا پہلے تھا نہ اب جانتا ہے
بیٹھا رہتا ہے خموش ایک ہی کونے میں کہیں
وہ جو کچھ جاننے والا تھا کہ جب جانتا ہے
جب کہ رہتا نہیں کچھ پاس گنوانے کو عظیم
آدمی اپنی تباہی کو بھی تب جانتا ہے
*****
کون کس حال میں پھرتا ہے وہ سب جانتا ہے
آدمی اپنی ہی نیت کو بھی کب جانتا ہے
میں تو پہچان سکا ہوں نہ ابھی تک خود کو
کس لیے پھرتا ہوں آوارہ یہ رب جانتا ہے
جانتا ہے کہ کہاں ہے مری منزل بے شک
وہ جو پتھر کے چٹخنے کا سبب جانتا ہے
بولتا رہتا ہے رب جانے نہ کیا کیا آخر
ایک انجان جو بس بات کا ڈھب جانتا ہے
ہے اسی علم کی بخشش کہ مجھے علم ہوا
کوئی کچھ جانتا پہلے تھا نہ اب جانتا ہے
بیٹھا رہتا ہے خموش ایک ہی کونے میں کہیں
وہ جو کچھ جاننے والا تھا کہ جب جانتا ہے
جب کہ رہتا نہیں کچھ پاس گنوانے کو عظیم
آدمی اپنی تباہی کو بھی تب جانتا ہے
*****