کون کيا ھے، who is who کے عنوان سے مشہور ھستيوں کے حالات زندگي اکثر چھپتے ھيں جنہيں بيشتر لوگ زيادھ شوق سے نہيں پڑھتے اور اکثر شکايت کرتے ھيں کہ کچھ تشنگي سے رھ جاتي ھے، شايد اس لئے فقط ان ھستيوں کا ذکر کيا جاتا ھے، جنہيں پبلک پہلے سے جانتي ھے، يا اس لئے کہ ان ھستيوں کي فقط تعريفيں ھي تعريفيں کي جاتي ھيں۔زمانہ بدل چکا ھے قدريں بھي بدل چکي ھيں، غالبا ان دنوں پڑہنے والے سواخ عمري کي سرخياں ھي نہيں جاننا چاھتے، وھ کچھ اور باتيں بھي معلوم کرنا چاھتے ھيں اور يہ کہ ان کي رائے ميں غير معروف ھستياں بھي توجہ کي مستحق ھيں۔چناچہ نئے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ھوئے کون کيا ھےکچھ يوں بھي مرتب کيا جسکتا ھے۔
ازبروماني
١٩٦٠ميں جوان ھوئے۔آپ کے شاعر بننے کے متعلق طرح طرح کي افواھين مشہور ھيں جن ميں سے کچھ تو بالکل غلط ھيں، سنا ھے کہ آپ ٦٤ ميں کسي لڑکي پر خواھ مخواہ عاشق ھوگئے تھے، محبوبہ نے شاعري کي قديم روايات کو مد نظر رکہتے ھوئے انہيں خوب ستايا ، پھر ٦٥ ميں کہيں غائب ھوگئي، محبوبہ کے چلے جانے کے بعد ان کي زندگي بالکل سنسان ھوگئي اور کچھ بھي نہ رہا، ۔۔۔۔۔۔۔سوائے ان کي بيوي اور پانچ بچوں کے۔
٦٦ميں محبت سے بيزرا ھو کر لڑکيوں کے متعلق سوچنا چھوڑديا اور عورتوں کے بارے ميں سچنےلگے۔ بڑئے نازک مزاج ھيں، ايک دعوت ميں سري پائے نوش کئے توذرا دير بعد سر ميں درد ھوگيا اور پاؤں ميں موچ آگئي۔فقط روماني چيزيں کھتے ھيں جو فلمي پرچون کي زينت بنتي ھيں۔
آپ بہت ھر دلعزيز ھيں، بڑي بڑي محفلوں مين جاچکے ھيں، فقط ايک مرتبہ جديد شاعري سے دور رھتے ھيں، چناچہ زندان، خرابے ، خوناب ، سامراج، طبقاتي شعور، سرخ سويرا، سبز دوپہر، عزمت آدم ، ذلت مردم۔۔۔۔۔۔۔۔اس قسم کي چيزوں کے پاس نہيں پھٹکتے۔
اظہر سماجي آپ بھي شاعر ھيں اور زنداں، خرابے، خوناب، سامراج، طبقاتي شعور وغيرہ پر جان چھڑکتے ھيں، دراصل آپ شاعري اس لئے کرتے ھيں کہ ازبر روماني کي خبر لے سکيں۔
جس دن ازبر صاحب نے شاعري چھوڑ دي آپ بھي ترک کرديں گے اور اپنا وقت کسي بہتر مشغلے ميں صرف کيا کريں گے۔
آغا کليم اختر
صديوں سے آپ کا خاندان پٹيالہ ميں اور بھٹنڈے کے درمياني علاقے ميں رھتا تھا،آپ کے بزرگوں ميں سے کوئي بھي دريائے سندہ کے پار نہيں گيا، پھر بھي آپ نے ديک لخت امير ھوجانے پر اپنے نام کے ساتھ آغا لگايا۔
آپ کاجنرل نالچبے حد وسيع ھے، محلے کا کوئي غير اھم، واقعہ ايسا نہیں جو آپ کو معلوم نہ ھو، شہر کي کوئي اونٹ پٹانگ بات آپ سے پوشيدھ نہیں۔آپ جانتے ہيں کہ دعوتوں ميں چوھدري صاحب سے لوگ متاثر محض اس لئے ھوتے ھيں کيونکہ موصوف بالکل خاموش رھتے تھے، اور يہ کہ خواجہ جو اتنے موٹے ھيں اور ھر وقت بھوک اڑجانے کي شکايت ميں مبتلا رھتے ھيں کہ وھ سوائے ناشتے لنچ اور ڈنر کے کچھ بھي تو نہيں کھاتے، آپ کو يہ بھي پتہ ھے کہ پڑوسيوں کے ہاں شور مچنا بند کيوں ھوگيا ھے اور شيخ صاحب خواھ مخواہ خوش اس لئےرھنے لگے ھيں کہ قنوطي لوگوں سے ادھار لينا شروع کر ديا ھے، کيونکہ سب جانتے ھيں کہ قنوطي کو قرض واپسي کي اميد ھي نہيں ھوتي۔
آپ کو خان صاحب کے استعفے نہ دينے کي اصل وجہ معلوم ھے، وھ يہ کہ خان صاحب کہيں ملازم ھي نہيں تھے اور يہ کہ شاھ صاحب اتنے کنجوس ھيں کہ جب تندرست ھوئے اور ڈاکڑ نےپچيس روپے في وزيٹ کے حساب سے دو سو پچاس کا بل بہيجا تو آپ نے واپس کرديا اور لکھ کہ دس کي جگہ ميں آپ کو پندرھ مرتبہ وزيٹ کروں گا۔کسي نے آپ کي فواہ پر دري اعتراض کيا تو کہنے لگے کہ يہ تو مشرقي ممالک کا محبوب مشغلہ ھے۔١٩٤٦ ميں آپ نے انکشاف کيا کہ شيخ صاحب کا کنبہ خاصا دلچسپ ھے ، شيخ صاحب کا پرانا نام ڈيوڈ فتومل اور ان کے سالے کا نام رابرٹ طوطا رام تھا ، مالي حالات بہتر ھونے پر دونوں علي الترتيب فتح حسين اور تيرتھ سين بن گئے ايک نے مارگيٹ کماري سے شادي کي اور دوسرے نے کسي اور سے۔مالي حالات اور سدھري تو آپ فتح ايس شيخ کہلاتے۔۔۔۔۔۔۔۔وغيرہ وغيرہ اس خبر پر سب خوش ھوئے ليکن شيخ صاحب نے جنہيں اپنے اصلي شيخ ھونے پر بڑا فخر ھے، بے حد خفا ھو کر بيان ديا۔۔۔۔۔کہ اب وھ نہ آغا ديکھيں گے اور نہ پيچھا، فورا ھتک عزت کا دعوي کريں گے۔ليکن اس کا نتيجہ حسب معمول کچھ نہ نکلا، بلکہ کئي برسوں تک پيشيوں پر اس قدر خرچ ھو اکہ تنگ آکر صلحہ کرني پڑي۔
اس سال آپ بڑي سفارشوں کے بعد مقامي پريس کلب کے ممبر بننے ، ليکن چند ھفتوں کے بعد ديگر ممبروں نے اعتراض کيا کہ آپ سہ پہر سے آدھي رات تک کلب ميں رھتے ھيں مگر ايک پائي خرچ نہيں کرتے، غالبا آپ بار پر جانے والوں کو گننے اور رقص ميں شامل ھونے والوں کو جھانکنے کے لئے ممبر بنے تھے۔
بي ايل مفکر
سنا ھے کہ بچپن ميں بلا کے ذھين تھے، شايد يہ غور وخوض کي عادت تھي، جس نے بعد ميں تجسس و تشويش کي شکل اختيار کرلي اور اب آپ ھر وقت کسي نہ کسي فکر ميں غلطاں رھتے ھيں، دراصل قصور آپ کي عادتوں کا ھے، مرچيںاور تمباکو آپ کي غذا کا اھمجز ھيں اور ورزش سے سدا کي نفرت ھے۔گھر کا طبيب ''خانگي ويد''، ''گھريلو ڈاکڑ'' کي قسم کي کتابيں بڑے انہماک سے پڑہتےھيں ان ميں سے ايک مہلک سي بيماري منتخب کرکے اس ميں مبتلا ھوجاتے ھيں اور اس وقت تک مبتلا رھتے ھيں جب تک اس سے بہتر مہلک بيماري نہیں مل جاتي ۔
٦٣ ميں دق کے مريض بنے رھے ، پھر کسي نے بتايا کہ دق کا تو علاج ھو سکتا ھے چناچہ ٦٤ ميں اپنے لئے ضعف دل تجويز فرمايا، ٦٥ ميں خون کے کم دباؤ کي شکايت رھي، ٦٦ ميں خون کے زيادھ دباؤ کي اور ٦٧ ميں نارمل دباؤ کي، پھر دو سال تک گردے کي بيمارياں ايک ايک کرکے سب۔
کسي نے طبي رسالے ميں پڑھايا کہ جگر کي رسولي بڑي خطرناک ھوتي ھے، لہذا ٨٠ميں جگر کي رسولي۔
اب تک متعدد جان ليوا بيماريوں کے مريض رھ چکے تھےاور متعدد ڈاکٹروں ميں سے کچھ کو اور زيادھ امير بنا چکے ھيں اور کچھ کي زندگياں تباھ کرچکے ھيں۔ھاضم دوائياں ان کا کھانا مرچ مصالحے ہضم کرتي ھيں، خواب آوار دوائيوں سے نيند آتي ھے اسپرين سے پراسرار درد دور ھوتے ھيں، سکون پيدا کرنے والي گوليوں سے زبردستي پيدا کيا ھوا ذہني انتشار کچھ دير کيلئےکم ھوجاتا ھے، پتہ نہيں ان کے اپنے اعضا دن بھر کيا کرتے ھيں۔معمولي سے معمولي عارضے کا جب تک بڑا سارا سائنٹفيک نام تلاش نہ کرليں مطمئن نہيں ھوتے چونکہ صاحب دولت ھيں اس لئے انواح و اقسام کے عارضوں ميں مبتلا ھونے کي توفيق رکھتے ھيں۔چند سال گزرے کہ رات کو بار بار ايک ہي خواب نظر آتا جس ميں ايسے شير سے ڈر جاتے جس نے کتے کي کھال پہني ھوئي ھوتي، دوستوں کے مشورے پر ايک ماہر نفسيات سے مشورھ کيا جس کا دعوي تھا کہ'' تين ماھ ميں شرطيہ شفا، ورنہ مرض واپس '' تين ماھ کے علاج کے بعد يہ فرق پڑا کہ خواب ميں کتا نظر آنے لگا جس نے شيرکي کھال پہني ھوئي تھي۔
اب چونکہ طبي کتابوں ميں لکھي ھوئي تقريبا ساري بيمارياں ختم ھوچکي ھيں اس لئے انہيں چھوڑ کر اور باتوں کا فکر کرنا شروع کرديا ھے ۔۔۔۔۔۔يعني فلاں کيا کہے گا؟ کہيں ايسا نہ ھوجائے؟ ہائے يوں کيوں نہ ھوا ؟ اف يو کيوں کر ھوگيا؟کبھي کوئي کہہ دے کہ آج آپ خوش نظر آرھے ھيں تو يہ جواب ملتا کہ آج ميرا موڈ ٹھيک نہيں ھے ۔پپچھلے سال سے يہ فکر لاحق ھے کہ ملک ميں ايک زبردست ادبي جمود آياھوا ھے۔ اگر چہ آپ کو ادب سے کئي ميل دور کا بھيواسطہ نہيں ، ليکن اس غم سے چہرے پر جھرياں پڑگئي ھيں۔چہرے کي جھريوں کا فکر الگ رھتا ھے۔
پدرم سلطاني اس قدر دبلے پتلے ھيں کہ پہلي مرتبہ ميں نظر ہي نہيں آتے ، اچھي طرح ديکھنے کے لئے تين چار مرتبہ غور سے ديکھنا پڑتا ھے۔
آپ نے گھر ميں جگہ جگہ تلواريں، ڈھاليں ، پيش قبض ، پستول اور خنجر سجا رکھے ھيں۔اور خاندان کے افراد کے کارنامے سنانا محبوب مشغلہ ھے۔۔۔۔۔يہ نعل تب کي ھے جب دادا جان کے چچا محاصرہ چين ميں لڑے تھے، ''غالبا محاصرين اور محصورين دونوں سے ، ان کے گھوڑے نے دشمن سپاھي کے دولتي رسيد کي اور نعل گر پڑي جو انہوں نے اٹھا کر جيب ميں رکھ لي''۔
يا '' يہ تلوار جنگ ھنومان گڑھ ميں استعمال ھوئي تھي، پڑ دادا کے ماموں نے اس سے دشمن کا ايک گھوڑا ھلاک کرديا''، دشمن سوار گھوڑے کے نيچے دب گيا ھوگا۔
اور'' اس پستول سے خسر صاحب کے بھائي نے ايک آدم خور شيرکو مارنا چاھا ، ليکن شير کي خوش قسمتي ملاحظہ ھوا کہ اسے عين وقت پر چھينک آگئي وھ ذرا سا اچھلا اور نشانہ خطا ھوگيا''۔
اس کے علاوھ ''خود دادا جان نے بطور ٹھيکيدار کئي لڑائيوں ميں حصہ ليا جنگ عظيم کے دوران بصرھ ميں لڑے، ٹھيکيداروں سے ايران ميں بڑي جواں مردي سے دشمن حريف ٹھيکيداروںکا مقابلہ کيا ، بڑے بڑے ممتاز افسروں کے ساتھ رھے، سب سے لڑے يہ ان کے تمغے ھيں''، جو انہوں نے کسي کباڑئيے سے خريدے تھے۔
کسي قنوطي واقف نے ڈرايا کہ اگر چور گھر ميں گھس آئے تو يہي ھتھيار اھل خانہ پر استعمال کرسکتے ھيں، اب آپ نے ساري چيزيں اتار کر ايک کمرے ميں بند کرکے مضبوط سا قفل لگاديا ھے ۔دوستوں کو پورا يقين ھے کہ آج تک آپ سے کوئي دليري کا کام سرزد نہيں ھوا۔اب دو تين سال سے بزرگوں کي دريا دلي کے قصے شروع کردئيےھيں، دادا جان کے خسر ہاتھي پر سير کو جارھے تھے، کسي فقير نے ہاتھي کي تعريف کردي، آپ نے فورا ہاتھي اس کےحوالے کيا اور پيدل چلے آئے ۔يا ''خسر کے دادا جان ريشمي رضائي اوڑھے کہيں جارھے تھے، کسي ضرورت مند نے سوال کيا، آپ نے فورا اتار کر اسے تھمادي اور بغير رضائي کے واپس چلے آئے'' ۔۔۔
بعد ميں باھر جانا بند کرديا ھوگا، شايد سال مين دو تين مرتہ باھر نکلتے ھوں گے، وھ بھي اندھيرے ميں۔آپ کي زبان بڑي تيز ھے ، اکثر دانتوں سے زبان کٹ جاتي ھے اور زبان سے دانت گھس چکے ھيں۔
ذکي الحس۔نئي دہلوي
اوائل جواني ميں لگاتار سگريٹ اور چا نوشي سے کافي بيزار رھے ھيں پھر آھستہ آھستہ عادت پڑگئي۔٦٠ ميں ايک دن اچھے بھلے بيٹھے تھے، پتہ نہيں کيا ھوا کہ يکايک نقاد بن گئے۔
تب نقاد ھيں اور کافي ھاؤس يا چا خانوں ميں رھتے ھيں ، کبھي کبھار حجامت کے سلسلے ميں اپنے گھر چلے جاتے ھيں۔ادبي رسائل کے شروع شروع کے پچيس تيس صفحات آپ کي تنقيدوں کے لئے مخصوص ھوچکے ھيں، جنہيں ايم ۔اے اردو کے طلباء کو مجبورا پڑھنا پڑتا ھے ۔
٦٧ ميں کسي نے کہا کہ اردو پر ان کي تنقيدوں کے صفحات تلوائے جائيں اور پھر سارے کا وزن کيا جائے تو تنقيديں کہيں بھاري نکليں گي، آپ سے شاباش سمجھ کر بہت خوش ھوئے اور رفتار دگني کردي۔
يہ اردو نثرکي نري خوش قسمتي ھے کہ آپ اسے زيادھ نہیں چھيڑتے ، آپ کا بيشتر وقت اردو شاعري کي خبر لينے ميں گزرتا ھے۔
ذکي الحس۔نئي دہلوي ان دنوں پي ايچ ڈي کے لئے مقالہ لکھ رھے ھيں ، جس کا لب لباب يہ ھے کہ غالب کي شاعري پر رنگين کا اثر غالب ھے، رنگين نے بيشتر موضوع مصحفي سے اخذ کئے، مصحفي کي شاعري کا ماخذ مير کا تخيل ھے، جنہوں نے بہت کچھ سراج دکني سے ليا، سراج دکني نے ولي دکني سے اور ولي دکني نے سب کچھ دکن سے چرايا۔۔۔چونکہ مقالہ رسائل کے لئے نہيں يونيورسٹي کيلئے ھيں، اس لئے آپ نے شعرا کو اتنا برا بھلا نہيں کہ جتنا کہ اکثر کہا کرتے تھے۔اگر چا اور سگرٹوں ميں غذائيت ھوتي ھے تو آپ کبھي کے پہلوان بن چکے ھوتے مگر حقيقت يہ ھے کہ آپ کي صحت کو ديکھ کر بڑي آساني سے عبرت حاصل کي جاسکتي ھے۔دراصل آپ کے روئيے اور تنقيد کا دارو مدار سگرٹوں اور چا کي پياليوں کي تعداد پر ھے، روزانہ پچاس سگرٹوں اور پچيس پياليوں تک تو آپ شاعري کے گناہ معاف کرسکتے ھيں، ليکن اس کے بعد آزاد شاعر تک کونہیںبخشے۔
٦٨ ميں آپ کو يوں ہي وھم سا ھوگيا تھا کہ آپ عوام ميں مقبول نہیں ھيں۔ليکن چھان بين کرنے کے بعد ٦٩ ميں معلوم ھوا کہ وھم بے بيناد تھا، فقط وھ جو انہیں اچھي طرح نہیں جانتے انہيں نظر انداز کرتے ھيں، ليکن جو جانتے ھيں وھ باقاعدہ ناپسند کرتے ھيں۔
اپنے آپ کو پتہ نہيں کيوں ، مظلوم اور ستايا ھوا سمجھتے ھيں اور اکثر زندگي کي محروميوں کي داستان کافي ھاؤس ميں سنايا کرتے ھيں۔۔۔۔۔جس کا خالصہ کچھ يوں ھے پہلے ان کے خواب تمام ھوئے ، پھر دانت تمام ھوئے ، پھر دوست تمام ھوئے، کم ازکم آپ کا يہي خيال تھا کہ وھ دوست تھے، اکثر کہا کرتے ھيں کہ آپ کو بني نوع انسان سے قطعا نفرت نہیں۔۔۔۔۔۔فقط انسان اچھے نہيں لگتے۔کہيل کود کو انٹلکچول پنے کا دشمن سمجھتے تھے، يہاں تک کہ لمبے لمبے سانس لينے سے بھي نفرت ھے۔٦٩ مں وزن کرتے وقت مشين سے کارڈ نکلا جس پر وزن پونے انتاليس سير کے علاوھ لکھا تھا۔۔۔۔۔ابھي کچھ اميد باقي ھے ، غير صحت مند حرکتيں چھوڑ کر ورزش کيجئيے ، صيح غذا اور اچھي صحبت کي عادت ڈالئيے اور قدرت کو مو قع ديں کہ آپ کي مدد کرسکے۔
آپ نے يہ کارڈ پھاڑ کر پھينک ديا حالانکہ اگر کسي مشين نے کبھي سچ بوال تو اس وزن کي مشين نے ٦٩ ميں بولا تھا۔
ريحانہ خانم ايم ۔اے۔ پي ايچ ڈي۔
سن پيدائش ايک راز ھے جو ھميشہ راز رھے گا۔کسي زمانے ميں آپ چھريري اور اسمارٹ تھيں اور اتني حسين تھيں کہ کھانستے ھوئے بھي خوبصورت لگا کرتيں ۔کانونٹ ميں تعليم پائي، آپ کا خيال ھے کہ شايد پچپن ميں ھيگل کے فلسفے سے متاثر ھوئي تھيں ، اور لڑکپن ميں شونپہار سے ، پھر کانٹ ، کنفيوشس، شلر، اور اسي قسم کي ديگر نام جہيں دوھرانا فيشن ميں شامل ھے، نے خيالات پر اثر ڈالا۔عذرا پاؤنڈ کو خاتون سمجھ کر بڑے انہماک سے پڑھا، ليکن جب پتہ چلا کہ يہ تو کوئي مردوا ھے تو فورا ترک کرديا۔
شروع ھي سے انٹکلچول بننے کا فيصلہ کرچکي تھيں، اس لئے عجيب و غريب مضامين لکھنے شروع کردئيے، مثلا'' اسکيمو قوم کا فوق البشر'' ،'' بدو لوگوں کا فلسفہ معاشيات''، ''کارلائل اور چيني ترکستان''،''سائيبيريا اور مہاتما بدھ'' وغيرھ، يہ اور ايسي اور چيزيں کالج يونين ميں شور غل کي پرواھ نہ کرتے ھوئے پڑھيں، ان دنوں عورت اور مرد کے حقوق پر حسب معمول کافي لے دے ھورھي تھي ، آپ بھي اس تحريک ميں شريک ھوگئيں۔
ريحانہ خانمايم ۔اے۔ پي ايچ ڈي۔ ايک تقرير جس پر حلقہ نسواں ميں واھ واھ ھوئي، آپ نے فرمايا کہ اگر کوئي مرد الٹي سيدھي حرکتيں کرے تو فقط يہ کہا جاتا ھے کہ فلاں مرد کتنا بے وقوف ھے، ليکن اگر کسي عورت سے وہي حرکتيں سرزد ھوں تو ساري عورتوں کو برا بھلا کہا جاتا ھے ، کہ يہ سب کي سب ايسي ہي ھوتي ھيں ۔۔۔۔۔کتني بے انصافي ھے؟
آپ نے يہ بھي بتايا کہ مرد ھميشہ جھوٹے دعوے کرتے ھيں، اکثر کہتے ھيں کہ تم سے شادي نہ ھوسکي تو خودکشي کرلوں گا، ليکن ان ميں سے اکثر بزدل زندھ رھتے ھيں۔٦٤ ميں ايسے کئي ليکچر اپني سہيليوں کو دئيے، دھواں دھار تقرريں گھر ميں کيں اور اپنے خيال ميں عورتوں کے حقوق کي سب سے اھم علمبردار بن گئيں ۔٦٦ ميں کسي ريسرچ کے بعد دو تين مقالے لکھے جو ضرور اعلے پائے کے ھوں گے کيونکہ وھ عام فہم نہیں تھے اور ان ميں سے ايک پر آپ کو ڈگري ملي تھي۔
آپ کي نظر شروع ہي سے کمزور رھي ليکن عينک سے چڑ تھي، اس لئے بينائي ٹيسٹ کرنے کے چارٹ جن پر مختلف حروف چھپے ھوتے ھيں، زباني رٹ لئيے، جب عزيزواقارب عينک لگوانے کا مشورہ ديتے تو آپ آنکھوں کے اسپيشلسٹ کے سامنے وھ حروف بغير ديھکے فرفر پڑہ کر سنا ديتيں۔پہلے آپ نے فيصلہ کيا تھا کہ پچيس سال سے پہلے شادي نہيں کريں گي ليکن بعد ميں مجبورا طے کرنا پڑا جب تک شادي نہ ھوسکي ، پچيس برس کي رھيں گي۔اسي سال آپ نے کيرير وومن بننے کا مصتم ارادھ کيا، جو بعد ميں ترک کرنا پڑا ، کيونکہ ملک ميں بيشتر لوگ کيرير کو وھ چيز سمجھتے ھيں جو سائيکل کے پيچھے لگي ھوئي ھوتي ھے، اس پر آپ کو اتنا غصہ آيا کہ اندھا دھند شادي کرڈالي اور خاوند کے بڑے بڑے بچوں کو بھي گھر ميں بلاليا۔
٦٨ ميں آپ کا وزن ايک من بيس سير تھا
٦٩ میں مشہور مقالہ چھوٹے بچوں کا ہر وقت ، دانت نکالنا چھپوايا جسيے نئےشادي شدہ لوگوں نے بڑي دلچسپي سے پڑھا۔٧٠ ميں وزن پونے دو من ايک بصيرت افروز مقالہ۔۔۔۔۔۔بھوت پريت سے بچوں کو محفوظ رکھنا۔٧١وزن دو من، جامع مضمون ۔۔۔۔۔۔بچوں سے بھوت پريت کو محفوظ رکھنا۔ان دنوں ريسرچ کررھي ھيں کہ شراتي بچوں کو زدکوب کرکے سدھارنا بہتر ھے يا مارکٹائي سے۔آپ کي خريدي ھوئي آلڈس ہکسلے، سٹيفن سپنڈر، جيمز جوائيس وغيرہ کي متعدد کتابيں کباڑيوں کے ہاں پہنچ چکي ھيں۔بي تھون، موزارٹ، شوپن وغيرھ کے گراموفون ريکارڈ بھي نوکروں نے ادھر ادھر کردئيے، اور يہ کلاسيکي مغربي موسيقي پڑوس کے ايک چھوٹے سے ھوٹل پر فلمي گانوں کے ساتھ انگلش بينڈ سمجھ کر بجاتي ھے۔آپ کے خاوند قطب الدين صاحب بھي آپ کے مکان ميں رھتے ھيں۔
شيخ رہبر عالم پرائمري جماعتوں ميں تين برس فيل ھونے اور مڈل ميں چار مرتبہ، ميٹرک ميں پانچ مرتبہ ناکامياب رھے جب ايف۔اے ميں چھٹا سال چل رہا تھا تو آپ پڑھائي چھوڑ کر اس جماعت ميں شامل ھوگئے جو اس قسم کے بھولے بھٹکے نوجوانوں کو ذرا سے کام کے عوض ظيفے ديا کرتي تھي۔
چناچہ پہلے سطح زمين کے اوپر کم کيا کرتے ، پھر زير زمين ميں کام کرنے کا فيصلہ کرليا۔
٦٦ ميں کافي ھاؤس کے مباحثوں ميں سرگرمي سے حصہ لينا شروع کيا۔
٦٧ جگہ جگہ ھوٹلوں ميں جوشيلي تقريريں کيں۔
٦٨ آخر آپ کي کوششيں کامياب ھوئيں اور آپ نے تين چار جگہ فساد کراديا اور حالات ناساز گار پاکر زير زمين چلے گئے، چھ مہينے کے بعد باھر نکلے۔
٦٩ ميں پمفلٹ تقسيم کئے اور وظيفے ميں اضافہ ھوگيا
٨٠خفيہ پوليس کے افراد سے ملاقات
٨١ دوست احباب کي نظروں سے اوجھل يعني زير زمين رھے۔
٨٢ نئے پمفلٹ اور وظيفے ميں اور اضافہ
٨٣ خفيہ پوليس
٨٤ نت نئے پمفلٹ وظيفے مين مزيد اضافہ
٨٥خفيہ پوليس
٨٦ ايک نہايت تلخ و ترش اور ھولنق مجموعہ کلام کسي سي لکھوا کر اس اميد پر چھپواديا کہ وھ ظبط ھوجائےگا۔ليکن مايوسي ھوئي کسي نے کتاب يا مصنف کا نوٹس نہیں ليا۔
٨٨ ميں پوليس جو خفيہ نہيں تھي۔
آخر تنگ آکر ايک فلم کمپني ميں ملازم ھوگئے۔آپ کے حق ميں صرف اتنا ھي کہا جا سکتا ھے کہ ابھي تک آپ نے کبھي باقاعدھ حوالات کي حوا يعني ھوا نہیں کھائي۔
ش۔م۔ مير جو کچھ ديکھتے ھيں اس پر يقين نہیں کرتے آپ کا بيشتر وقت ايسي باتوں کے متعلق سوچنے ميں گزرتا جو غير ، معمولي ھوں۔اخباروں کے ايڈيٹروں کے نام لگا تار خطوط لکھنا آپ کا محبوب مشغلہ ھے۔کسي اخبار ميں کسي شخص کا کيسے ھي موضوع پر خط چھپے آپ فورا اس کي ترديد کرتے ھيں مثلا اگر کوئي يہ کہے کہ سورج مغرب مييں غروب ھوتا ھے، تو آپ کسي طرح يہ ثابت کرنے کي کوشش کريں گے يہ بيان غلط ھے، سورج يا تو مغرب مغرب جنوب ميں غروب ھوتا ھے يا پھر مغرب شمال مغرب ميں۔٦٧ ميں فرمايا کہ اخباروںکو چاھئيے کہ جہاں گنتي کا ذکر آئے وہاں ھندسوں کي بجائے الفاظ استعمال کيا کريں، جيسے۔۔۔۔۔١١٠ افراد جوا کھيل رھے تھے۔۔۔۔کو جلدي ميں پڑہا جائے تو يوں لگے گا جيسے ايک سو دس افراد جوا کھيل رھے ھوں۔
٦٨ ميں صحت مند شہريت کي ترديد میں خطوط چھپوايا کہ اگر دنيا ميں سب لوگ شريف النفس اور پرھيز گار ھوجائيں تو نہ چورياں ھوں، نہ لڑائي جھگڑے اور حادثے ۔لہذا اخبار بالکل چھوٹے سے رھ جائیں، ريڈيو کي خبريں بور کرنے لگيں ، سنسني خيز کہانياں اور ناول بھي ختم ھو جائيں، لہذا پبلک کو شرارتي لوگوں کا ممنون ھونا چاھئيے کہ وھ بيہودھ حرکتوں سے زندگي ميں تنوع اور چہل پہل پيدا کرتے ھيں، آپ خود بھي شرارتوں کو پسند فرماتے ھيں۔
٦٩ ميں قرض کي برائيوں کے پمفلٹ پر تنقيد کي کہ ھم سب اخباروں ميں اکثر پڑھتے رھتے ھيں، کہ آج نيوزي لينڈ نے آسٹريليا سے پانچ کروڑ پاؤنڈ قرض ليا ھے يا انگلستان کو کينيڈا نے دس کرورڑ ڈالر ادھار دئيے ھيں ليکن کبھي کسي اخبار ميں ان قرضوں کي ادائيگي کا ذکر بھي نہیں کيا گيا آج فرانس نے اٹلي کا قرض چکا ديا، يا ہالينڈ نے اپنا حساب برابر کرديا ھو، جب بڑے بڑے ملک يوں ساري دنيا کے سامنے مقروض رھ سکتے ھيں تو ھم تم کسي شمار ميں ھيں۔۔۔۔۔۔۔دراصل آپ ھميشہ مقروض رھتے ھيں۔
ش۔م۔ مير ٨٠ ميں اخبار آپ کا يہ خط چپھا کہ انسان ميں کچھ خامياں اور بري عادتيں ھوں تو کوئي مضائفتہ نہیں، کينوکہ انہیں ترک کرکے وھ تسکين اور مسرت حاصل کرسکتا ھے ، ليکن اگر خوبياں ھي خوبياں ھو تو پھر کيا ترک کيا جاسکتا ھے اور تسکيں يا مسرت کيونکر حاصل ھوسکتي ھے؟ يہ بيان بھي حسب حال تھا۔٨١ ميں انسان کے اشرف المخلوقات ھونے پر مايوسي کا اظہار کيا کہ انساني جسم ميں اکثر اعضا غلط فٹ کئے گئے ھيں ، مثلا پيٹ جيسا ملائم حصہ جس پر ضرب لگانے کو خواھ مخواھ جي چاھتا ھے سامنے ھرگز نہیں ھونا چاھئيے تھا۔
اس طرح گھٹنے اور پنڈلي کے حصے ضرورت سے زيادھ سخت ھيں، اور بار بار ميز کرسيوں سے ٹکراتے ھيں، کان اور دم کے پٹھے اب تک جسم انساني کا حصہ ھيں، ظاھر ھے کہ يہ بھي کان کو اور دم ھلانے کيلئے استعمال ھوتے ھوں گے۔ اور اميد کي جاسکتي ھے کہ آئندھ بھي کبھي استعمال ھوسکتے ھيں۔اور يہ کہ ھم اپنے آپ کو چوپايوں سے محض اس لئے بہتر سمجھتے ھيں، کہ کسي طرح اگلي دو ٹانگيں سيدھے کھڑے ھونے میں کامياب ھوگئے ھيں اور ان اگلي ٹانگوں کو اپنے بازو سمجھتے ھيں، کبھي کبھي بيچارے گھوڑے اس طرح کھڑے ھونے کي ھارس شو ميں کوشش کرتے ھيں ليکن اب تک ناکام رھے ھيں، جس دن انہیں کاميابي ھوگئي ہمارا يہ اشرف المخلوقات والا ريکٹ ختم ھو جائے گا۔
٧٦ ميں مقالہ چھپوايا کہ تاريخي شہر پاٹلي پترا دراصل پنجابي نام ھے، اس لئے يا تو يہ شہر پنجاب ميں آباد تھا، يا پنجاب مشرقي ھندوستان کے اس شہر تک پھيلا ھوا ھوگا۔
لگتا يہي ھے کہ اسے پاٹلي صاحب کے پترا يعني بيٹے نے آباد کيا ھو، ويسے يہ بھي ممکن ھے کہ پاٹلي صاحب پارسي ھوں۔۔۔۔۔۔ جيسے پاٹلي والا۔٨٣ ميں اس امر پر حيرت کا اظہار کيا کہ سارے مذہب محض ايشیا ھي کي پيداوار کيوں ھيں، آج تک افريقہ ، يورپ ، آسٹريليا اور امريکہ میں کبھي کوئي پيغمبر پيدا نہیں ھوا۔
ش۔م۔مير
٧٤پ نے انقلاب فرانس کي اصلي وجہ دريافت کي اور بتايا کہ لوئي شانزدھم کےعہد ميں لوگ لوئيوں کي تعداد سے بالکل تنگ آچکے تھے، چار پانچ يا سات آٹھ لوئي ھوتے تو چنداں، مضائقہ نہ تھا، ليکن اکھٹے سولہ لوئي ۔۔۔۔۔۔۔ يہ سرا سر زيادتي تھي ، اگر فرانسيسي انقلاب کرکے فورا انسدانہ کرتے تو اب تک کم از کم ڈيڑھ سو لوئي ھوتا۔
٧٥ ميں انکشاف کيا کہ مشرق وسطے يعني مڈل ايسٹ کا نام صيح معلوم نہیں ھوتا، جو قوميں مغرب ميں بستي ھيں وھ اس خطے کو مشرق واسطے کہہ سکتي ھيں ليکن جہاں ھم رھتے ھيں وہاں سے ہمارے لئے يہ مغرب وسطے مڈل ويسٹ ھونا چاھئيے۔
٧٤ ميں بيان ديا کہ جس طرح پالم يعني ہتھيلي سے پامسٹري نے جنم ليا، اسي طرح کاؤنٹر پارٹ تلوے يعني سول سے سوليٹري ناجانے کيوں نہ شروع کي جاسکي ،کيونکہ پاؤں کا تلوا بھي اتنا ھي اھم ھے جتنا کہ ہتھيلي ، يقينا اس پر بھي کئي معني خيز لائينيں موجود ھوں گي۔۔۔۔۔قسمت کي بڑي لکيروں کے علاوھ چند چھوٹي لکيريں، پاؤں پسارنے ، پاؤں گن گن رکھنے، سر پر پاؤں رکھ کر بھاگنے، پاؤں پھيلانے، دبے پاؤں آنے ، پاؤں کے چکر وغيرھ کے بارے ميں بھي مل سکيں گي، آپ نے پرزور سفارش کي کہ اس سلسلے ميں فورا کام شروع ھوجانا چاھئيے۔
٧٧ ميں اس بات پر افسوس کيا کہ انگريز اس علاقے ميں اتنے طويل عرصے تک رھے ۔ ھم نے انگريزي سيکھ لي ليکن انہوں نے اردو کو بالکل نظر انداز کيا۔
مير صاحب نے کئي برس پرانا چشم ديد واقعہ رقم کيا کہ جب پہاڑ پور کے نواب صاحب گدي نشنين ھوئے تو جہاں ساري رعايا اور تقريب پر باھر سے آئے ھوئے ،معزز مہمان نواب صاحب پہاڑ پور۔۔۔زندھ باد کے نعرہ لگا رھے تھے وہاں رياست ميں متعين انگريز ريذيٹنٹ سب کے ساتھ مل کر بڑي سنجيدگي سے نواب صاحب پہاڑ پور ان دا بيگ چلا رھا تھا۔
ش۔م۔ مير
٧٨ ميں خراٹوں کے متعلق يہ بتايا کہ خراٹے دراصل اس زمانہ ما قبل تاريخ کي ياد گار ھيں جب انسان غاروں ميں رہا کرتا، غاروں ميں نہ کواڑ ھوتے، لہذا نہ قفل ، رات کو شکار کي تلاش ميں نکلے ھوئے خونخوار درندوں کو بھگانے کيلئے اسے رات کو سوتے وقت يا جاگتے ھوئے مجبورا نہايت بھيانکآوازيںنکالني پڑتي تھيں ، يہ عادت نسلا بعد نسلا جارھي ۔۔۔۔ اور پھر پختہ ھوگئي۔اب حالات کہيں بہتر ھوچکے ھيں ليکن جاگتے وقت تو نہیں، ليکن سوتے وقت وھي کچھ کرنا پڑتا ھے جو آباواجداد کيا کرتے تھے۔آھستہ آھستہ پبلک آپ کا نوٹس لينے لگي ھے يہ اور بات ھے کہ آپ کاغذ کا بزنس کرتے ھيں، اس قسم کي شہرت سے آپ کو کچھ کاروباري فائدہ ضرور پہنچتا ھوگا۔
شيام سندر سجن اصلي نام قاضي قلندر بخش
دس برس تک ايکسڑارھے، پانچ سال دلين، ، ان دونوں اسسٹنٹ ھيرو ھيں، چونکہ آپ اداکاري کے سلسلے ميں ضرورت سے زيادھ سنجيدھ ھوجاتے ھيں اس لئے ابھي تک ھيرو نہيں بن سکے، ليکن ہمارے ہاں ھيرو اور ھيروئن بننے کے لئے عمر کي کوئي قيد نہيں، پينتاليس برس کي ھيروئناور پچاس سال کے ھيرو اکثر ديکھنے ميں آتے ھيں، لہذا بھي مايوس نہیں ھوئے۔٦٦ ميں جب اصلي ھيرو قمار خانے ميں غل غپاڑھ غل زيادھ غپاڑھ کم، کرتے ھوئے پکڑا گيا تو آپ کو ھيرو بننے کے لئے کہا گيا، ھيرو کي مونچھيں لمبي لمبي ھوني چاھئيے تھيں کيونکہ فلم تاريخي تھي، چناچہ آپ نے چند ھفتے کي چھٹي مانگي تاکہ مونچھيں مطلوبہ سائز کي ھوجائیں، آپ کو مونچھيں پيش بھي کي گئيں مگر آپ کو نقلي چيزوں سے نفرت ھے۔
ڈائريکٹر نے کہا کہ اتني دير ميں تو اصلي ھيرو حراست سے واپس آجائے گا۔٦٧ ميں جب ھيرو دھوکہ بازي اور چوري کے مقدموں ميں ملوث ھوا تو آپ کودوبارھ چانس ديا گيا، ھيرو کے بال لمبے ھوا کرتے ھيں اور قلميں کافي نيچي، آپ نے نقلي بال لگانے سے انکار کرديا تھا اور پھرکچھ ھفتوں کي مہلت مانگي، ادھر پروڈيوسر صاحب ايک مشہور گانے والي سے سارے پلے بيک گانے ريکارڈ کرا چکے تھے، اگر چہ يہ فلم کي کہاني ابھي تک مکمل نہيں ھوئي تھي، انہیں پبلک کونئي دھنيں دينے کي جلدي تھي، لہذا وھ آپ کا انتظار نہ کرسکے اور پارٹ ايک اور ايکڑ کو ملا جس کي مونچھيں نوکدار تھيں سر کے بال کندھوں تک آئے تھے اور چہرے پر وھ اظہار تھا جو کھوئي گائے کے منہ پر ھوتا ھے۔آپ رول ميں جان ڈال ديتے ھيں، پارٹ کرتے وقت بالکل بھول جاتے ھيں کہ کميرے کے سامنے ھيں اور ايکٹنگ کررھے ھيں۔
شيام سندر سجن اصلي نام قاضي قلندر بخش ايک مرتبہ لڑائي کے سين ميں جوش آگيا اور ايک ايکڑ کے سر پر لکڑي کي چمکيلي تلوار دے ماري، بعد ميں کئي مرتبہ معافي مانگي تو معاملہ رفع دفع ھوا۔جلوہ ترا تاروں ميں ھے اور شمس و قمر ميں کا گانا گاتے ھوئے تاروں اور شمس پر آسمان کي طرف اشارھ کيا اور قمر پر بڑي بے ساختگي سے اپني کمر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر ھلايا۔پھر ايک دفعہ چور کا پارٹ کرتے ھوئے ايک بہت اونچي ديورا سے خواہ مخواہ چھلانگ لگادي اورگھٹنا توڑليا، کئي ھفتے ھسپتال ميں گزرے۔
غمناک سين آئے تو گليسرين کے آنسو ٹپکانے کے بجائے خوب بھوں بھوں کرکے روتے ھيں۔
رول ادا کرتے وقت جو تاريخي اور درباري لباس اسٹوڈيوں ميں پہنا اسےتبديل کئے بغير ميک اپ سميت گھر چلے جاتے ھيں، راستے ميں تماشائيوں بعض اوقات پوليس کے سپاھي پيچھے لگ جاتے ھيں۔چونکہ حسساس ہيں اس لئے جس ايکڑيس کے ساتھ پارٹ کرتے ھيں اس پر عاشق ھو کر خود کشي کي کوشش کرتے ھيں۔٧٦ ميں جب چوتھي مرتبہ ھسپتال ميں داخل ھوئے تو ڈاکڑوں نے صاف صاف کہہ ديا کہ اگر اسي طرح خود کشي کي مزيد کوششيش کي گئيں تو آپ کي صحتبالکل تباہ ہوجائے گي۔شروع سے آپ کو يہي شکايت ھے کہ يہاں آرٹسٹکي قدر نہيں ھوتي۔
صيح رقم خوش نويس
پہلے کچھ اور کيا کرتے تھے، ايک دن جنجھجھلا کر کاتب بن گئے۔آپ کي لکھي ھوئي عبارت پر پروئے پروئے موتيوں کا گماں ھوتا تھا۔زبان کے پکے ھيں، جب وھ وعدھ کرليتے ھيں، تو اسي سال کام مکمل کرکے رھتے ھيں، لکھتے وقت موقعے اور اپنے موڈ کے مطابق عبارت ميں ترميم کرتے جاتے ھيں، عالم و لسوزي کوعالم ڈلہوزي بچھڑا عاشق کو بچھڑا عاشق، سہروردي کو ردردي، سماجي بہبودگي کو سماجي بيہودگي، وادي بيل بنا دينے ميں کوئي۔
ازبروماني
١٩٦٠ميں جوان ھوئے۔آپ کے شاعر بننے کے متعلق طرح طرح کي افواھين مشہور ھيں جن ميں سے کچھ تو بالکل غلط ھيں، سنا ھے کہ آپ ٦٤ ميں کسي لڑکي پر خواھ مخواہ عاشق ھوگئے تھے، محبوبہ نے شاعري کي قديم روايات کو مد نظر رکہتے ھوئے انہيں خوب ستايا ، پھر ٦٥ ميں کہيں غائب ھوگئي، محبوبہ کے چلے جانے کے بعد ان کي زندگي بالکل سنسان ھوگئي اور کچھ بھي نہ رہا، ۔۔۔۔۔۔۔سوائے ان کي بيوي اور پانچ بچوں کے۔
٦٦ميں محبت سے بيزرا ھو کر لڑکيوں کے متعلق سوچنا چھوڑديا اور عورتوں کے بارے ميں سچنےلگے۔ بڑئے نازک مزاج ھيں، ايک دعوت ميں سري پائے نوش کئے توذرا دير بعد سر ميں درد ھوگيا اور پاؤں ميں موچ آگئي۔فقط روماني چيزيں کھتے ھيں جو فلمي پرچون کي زينت بنتي ھيں۔
آپ بہت ھر دلعزيز ھيں، بڑي بڑي محفلوں مين جاچکے ھيں، فقط ايک مرتبہ جديد شاعري سے دور رھتے ھيں، چناچہ زندان، خرابے ، خوناب ، سامراج، طبقاتي شعور، سرخ سويرا، سبز دوپہر، عزمت آدم ، ذلت مردم۔۔۔۔۔۔۔۔اس قسم کي چيزوں کے پاس نہيں پھٹکتے۔
اظہر سماجي آپ بھي شاعر ھيں اور زنداں، خرابے، خوناب، سامراج، طبقاتي شعور وغيرہ پر جان چھڑکتے ھيں، دراصل آپ شاعري اس لئے کرتے ھيں کہ ازبر روماني کي خبر لے سکيں۔
جس دن ازبر صاحب نے شاعري چھوڑ دي آپ بھي ترک کرديں گے اور اپنا وقت کسي بہتر مشغلے ميں صرف کيا کريں گے۔
آغا کليم اختر
صديوں سے آپ کا خاندان پٹيالہ ميں اور بھٹنڈے کے درمياني علاقے ميں رھتا تھا،آپ کے بزرگوں ميں سے کوئي بھي دريائے سندہ کے پار نہيں گيا، پھر بھي آپ نے ديک لخت امير ھوجانے پر اپنے نام کے ساتھ آغا لگايا۔
آپ کاجنرل نالچبے حد وسيع ھے، محلے کا کوئي غير اھم، واقعہ ايسا نہیں جو آپ کو معلوم نہ ھو، شہر کي کوئي اونٹ پٹانگ بات آپ سے پوشيدھ نہیں۔آپ جانتے ہيں کہ دعوتوں ميں چوھدري صاحب سے لوگ متاثر محض اس لئے ھوتے ھيں کيونکہ موصوف بالکل خاموش رھتے تھے، اور يہ کہ خواجہ جو اتنے موٹے ھيں اور ھر وقت بھوک اڑجانے کي شکايت ميں مبتلا رھتے ھيں کہ وھ سوائے ناشتے لنچ اور ڈنر کے کچھ بھي تو نہيں کھاتے، آپ کو يہ بھي پتہ ھے کہ پڑوسيوں کے ہاں شور مچنا بند کيوں ھوگيا ھے اور شيخ صاحب خواھ مخواہ خوش اس لئےرھنے لگے ھيں کہ قنوطي لوگوں سے ادھار لينا شروع کر ديا ھے، کيونکہ سب جانتے ھيں کہ قنوطي کو قرض واپسي کي اميد ھي نہيں ھوتي۔
آپ کو خان صاحب کے استعفے نہ دينے کي اصل وجہ معلوم ھے، وھ يہ کہ خان صاحب کہيں ملازم ھي نہيں تھے اور يہ کہ شاھ صاحب اتنے کنجوس ھيں کہ جب تندرست ھوئے اور ڈاکڑ نےپچيس روپے في وزيٹ کے حساب سے دو سو پچاس کا بل بہيجا تو آپ نے واپس کرديا اور لکھ کہ دس کي جگہ ميں آپ کو پندرھ مرتبہ وزيٹ کروں گا۔کسي نے آپ کي فواہ پر دري اعتراض کيا تو کہنے لگے کہ يہ تو مشرقي ممالک کا محبوب مشغلہ ھے۔١٩٤٦ ميں آپ نے انکشاف کيا کہ شيخ صاحب کا کنبہ خاصا دلچسپ ھے ، شيخ صاحب کا پرانا نام ڈيوڈ فتومل اور ان کے سالے کا نام رابرٹ طوطا رام تھا ، مالي حالات بہتر ھونے پر دونوں علي الترتيب فتح حسين اور تيرتھ سين بن گئے ايک نے مارگيٹ کماري سے شادي کي اور دوسرے نے کسي اور سے۔مالي حالات اور سدھري تو آپ فتح ايس شيخ کہلاتے۔۔۔۔۔۔۔۔وغيرہ وغيرہ اس خبر پر سب خوش ھوئے ليکن شيخ صاحب نے جنہيں اپنے اصلي شيخ ھونے پر بڑا فخر ھے، بے حد خفا ھو کر بيان ديا۔۔۔۔۔کہ اب وھ نہ آغا ديکھيں گے اور نہ پيچھا، فورا ھتک عزت کا دعوي کريں گے۔ليکن اس کا نتيجہ حسب معمول کچھ نہ نکلا، بلکہ کئي برسوں تک پيشيوں پر اس قدر خرچ ھو اکہ تنگ آکر صلحہ کرني پڑي۔
اس سال آپ بڑي سفارشوں کے بعد مقامي پريس کلب کے ممبر بننے ، ليکن چند ھفتوں کے بعد ديگر ممبروں نے اعتراض کيا کہ آپ سہ پہر سے آدھي رات تک کلب ميں رھتے ھيں مگر ايک پائي خرچ نہيں کرتے، غالبا آپ بار پر جانے والوں کو گننے اور رقص ميں شامل ھونے والوں کو جھانکنے کے لئے ممبر بنے تھے۔
بي ايل مفکر
سنا ھے کہ بچپن ميں بلا کے ذھين تھے، شايد يہ غور وخوض کي عادت تھي، جس نے بعد ميں تجسس و تشويش کي شکل اختيار کرلي اور اب آپ ھر وقت کسي نہ کسي فکر ميں غلطاں رھتے ھيں، دراصل قصور آپ کي عادتوں کا ھے، مرچيںاور تمباکو آپ کي غذا کا اھمجز ھيں اور ورزش سے سدا کي نفرت ھے۔گھر کا طبيب ''خانگي ويد''، ''گھريلو ڈاکڑ'' کي قسم کي کتابيں بڑے انہماک سے پڑہتےھيں ان ميں سے ايک مہلک سي بيماري منتخب کرکے اس ميں مبتلا ھوجاتے ھيں اور اس وقت تک مبتلا رھتے ھيں جب تک اس سے بہتر مہلک بيماري نہیں مل جاتي ۔
٦٣ ميں دق کے مريض بنے رھے ، پھر کسي نے بتايا کہ دق کا تو علاج ھو سکتا ھے چناچہ ٦٤ ميں اپنے لئے ضعف دل تجويز فرمايا، ٦٥ ميں خون کے کم دباؤ کي شکايت رھي، ٦٦ ميں خون کے زيادھ دباؤ کي اور ٦٧ ميں نارمل دباؤ کي، پھر دو سال تک گردے کي بيمارياں ايک ايک کرکے سب۔
کسي نے طبي رسالے ميں پڑھايا کہ جگر کي رسولي بڑي خطرناک ھوتي ھے، لہذا ٨٠ميں جگر کي رسولي۔
اب تک متعدد جان ليوا بيماريوں کے مريض رھ چکے تھےاور متعدد ڈاکٹروں ميں سے کچھ کو اور زيادھ امير بنا چکے ھيں اور کچھ کي زندگياں تباھ کرچکے ھيں۔ھاضم دوائياں ان کا کھانا مرچ مصالحے ہضم کرتي ھيں، خواب آوار دوائيوں سے نيند آتي ھے اسپرين سے پراسرار درد دور ھوتے ھيں، سکون پيدا کرنے والي گوليوں سے زبردستي پيدا کيا ھوا ذہني انتشار کچھ دير کيلئےکم ھوجاتا ھے، پتہ نہيں ان کے اپنے اعضا دن بھر کيا کرتے ھيں۔معمولي سے معمولي عارضے کا جب تک بڑا سارا سائنٹفيک نام تلاش نہ کرليں مطمئن نہيں ھوتے چونکہ صاحب دولت ھيں اس لئے انواح و اقسام کے عارضوں ميں مبتلا ھونے کي توفيق رکھتے ھيں۔چند سال گزرے کہ رات کو بار بار ايک ہي خواب نظر آتا جس ميں ايسے شير سے ڈر جاتے جس نے کتے کي کھال پہني ھوئي ھوتي، دوستوں کے مشورے پر ايک ماہر نفسيات سے مشورھ کيا جس کا دعوي تھا کہ'' تين ماھ ميں شرطيہ شفا، ورنہ مرض واپس '' تين ماھ کے علاج کے بعد يہ فرق پڑا کہ خواب ميں کتا نظر آنے لگا جس نے شيرکي کھال پہني ھوئي تھي۔
اب چونکہ طبي کتابوں ميں لکھي ھوئي تقريبا ساري بيمارياں ختم ھوچکي ھيں اس لئے انہيں چھوڑ کر اور باتوں کا فکر کرنا شروع کرديا ھے ۔۔۔۔۔۔يعني فلاں کيا کہے گا؟ کہيں ايسا نہ ھوجائے؟ ہائے يوں کيوں نہ ھوا ؟ اف يو کيوں کر ھوگيا؟کبھي کوئي کہہ دے کہ آج آپ خوش نظر آرھے ھيں تو يہ جواب ملتا کہ آج ميرا موڈ ٹھيک نہيں ھے ۔پپچھلے سال سے يہ فکر لاحق ھے کہ ملک ميں ايک زبردست ادبي جمود آياھوا ھے۔ اگر چہ آپ کو ادب سے کئي ميل دور کا بھيواسطہ نہيں ، ليکن اس غم سے چہرے پر جھرياں پڑگئي ھيں۔چہرے کي جھريوں کا فکر الگ رھتا ھے۔
پدرم سلطاني اس قدر دبلے پتلے ھيں کہ پہلي مرتبہ ميں نظر ہي نہيں آتے ، اچھي طرح ديکھنے کے لئے تين چار مرتبہ غور سے ديکھنا پڑتا ھے۔
آپ نے گھر ميں جگہ جگہ تلواريں، ڈھاليں ، پيش قبض ، پستول اور خنجر سجا رکھے ھيں۔اور خاندان کے افراد کے کارنامے سنانا محبوب مشغلہ ھے۔۔۔۔۔يہ نعل تب کي ھے جب دادا جان کے چچا محاصرہ چين ميں لڑے تھے، ''غالبا محاصرين اور محصورين دونوں سے ، ان کے گھوڑے نے دشمن سپاھي کے دولتي رسيد کي اور نعل گر پڑي جو انہوں نے اٹھا کر جيب ميں رکھ لي''۔
يا '' يہ تلوار جنگ ھنومان گڑھ ميں استعمال ھوئي تھي، پڑ دادا کے ماموں نے اس سے دشمن کا ايک گھوڑا ھلاک کرديا''، دشمن سوار گھوڑے کے نيچے دب گيا ھوگا۔
اور'' اس پستول سے خسر صاحب کے بھائي نے ايک آدم خور شيرکو مارنا چاھا ، ليکن شير کي خوش قسمتي ملاحظہ ھوا کہ اسے عين وقت پر چھينک آگئي وھ ذرا سا اچھلا اور نشانہ خطا ھوگيا''۔
اس کے علاوھ ''خود دادا جان نے بطور ٹھيکيدار کئي لڑائيوں ميں حصہ ليا جنگ عظيم کے دوران بصرھ ميں لڑے، ٹھيکيداروں سے ايران ميں بڑي جواں مردي سے دشمن حريف ٹھيکيداروںکا مقابلہ کيا ، بڑے بڑے ممتاز افسروں کے ساتھ رھے، سب سے لڑے يہ ان کے تمغے ھيں''، جو انہوں نے کسي کباڑئيے سے خريدے تھے۔
کسي قنوطي واقف نے ڈرايا کہ اگر چور گھر ميں گھس آئے تو يہي ھتھيار اھل خانہ پر استعمال کرسکتے ھيں، اب آپ نے ساري چيزيں اتار کر ايک کمرے ميں بند کرکے مضبوط سا قفل لگاديا ھے ۔دوستوں کو پورا يقين ھے کہ آج تک آپ سے کوئي دليري کا کام سرزد نہيں ھوا۔اب دو تين سال سے بزرگوں کي دريا دلي کے قصے شروع کردئيےھيں، دادا جان کے خسر ہاتھي پر سير کو جارھے تھے، کسي فقير نے ہاتھي کي تعريف کردي، آپ نے فورا ہاتھي اس کےحوالے کيا اور پيدل چلے آئے ۔يا ''خسر کے دادا جان ريشمي رضائي اوڑھے کہيں جارھے تھے، کسي ضرورت مند نے سوال کيا، آپ نے فورا اتار کر اسے تھمادي اور بغير رضائي کے واپس چلے آئے'' ۔۔۔
بعد ميں باھر جانا بند کرديا ھوگا، شايد سال مين دو تين مرتہ باھر نکلتے ھوں گے، وھ بھي اندھيرے ميں۔آپ کي زبان بڑي تيز ھے ، اکثر دانتوں سے زبان کٹ جاتي ھے اور زبان سے دانت گھس چکے ھيں۔
ذکي الحس۔نئي دہلوي
اوائل جواني ميں لگاتار سگريٹ اور چا نوشي سے کافي بيزار رھے ھيں پھر آھستہ آھستہ عادت پڑگئي۔٦٠ ميں ايک دن اچھے بھلے بيٹھے تھے، پتہ نہيں کيا ھوا کہ يکايک نقاد بن گئے۔
تب نقاد ھيں اور کافي ھاؤس يا چا خانوں ميں رھتے ھيں ، کبھي کبھار حجامت کے سلسلے ميں اپنے گھر چلے جاتے ھيں۔ادبي رسائل کے شروع شروع کے پچيس تيس صفحات آپ کي تنقيدوں کے لئے مخصوص ھوچکے ھيں، جنہيں ايم ۔اے اردو کے طلباء کو مجبورا پڑھنا پڑتا ھے ۔
٦٧ ميں کسي نے کہا کہ اردو پر ان کي تنقيدوں کے صفحات تلوائے جائيں اور پھر سارے کا وزن کيا جائے تو تنقيديں کہيں بھاري نکليں گي، آپ سے شاباش سمجھ کر بہت خوش ھوئے اور رفتار دگني کردي۔
يہ اردو نثرکي نري خوش قسمتي ھے کہ آپ اسے زيادھ نہیں چھيڑتے ، آپ کا بيشتر وقت اردو شاعري کي خبر لينے ميں گزرتا ھے۔
ذکي الحس۔نئي دہلوي ان دنوں پي ايچ ڈي کے لئے مقالہ لکھ رھے ھيں ، جس کا لب لباب يہ ھے کہ غالب کي شاعري پر رنگين کا اثر غالب ھے، رنگين نے بيشتر موضوع مصحفي سے اخذ کئے، مصحفي کي شاعري کا ماخذ مير کا تخيل ھے، جنہوں نے بہت کچھ سراج دکني سے ليا، سراج دکني نے ولي دکني سے اور ولي دکني نے سب کچھ دکن سے چرايا۔۔۔چونکہ مقالہ رسائل کے لئے نہيں يونيورسٹي کيلئے ھيں، اس لئے آپ نے شعرا کو اتنا برا بھلا نہيں کہ جتنا کہ اکثر کہا کرتے تھے۔اگر چا اور سگرٹوں ميں غذائيت ھوتي ھے تو آپ کبھي کے پہلوان بن چکے ھوتے مگر حقيقت يہ ھے کہ آپ کي صحت کو ديکھ کر بڑي آساني سے عبرت حاصل کي جاسکتي ھے۔دراصل آپ کے روئيے اور تنقيد کا دارو مدار سگرٹوں اور چا کي پياليوں کي تعداد پر ھے، روزانہ پچاس سگرٹوں اور پچيس پياليوں تک تو آپ شاعري کے گناہ معاف کرسکتے ھيں، ليکن اس کے بعد آزاد شاعر تک کونہیںبخشے۔
٦٨ ميں آپ کو يوں ہي وھم سا ھوگيا تھا کہ آپ عوام ميں مقبول نہیں ھيں۔ليکن چھان بين کرنے کے بعد ٦٩ ميں معلوم ھوا کہ وھم بے بيناد تھا، فقط وھ جو انہیں اچھي طرح نہیں جانتے انہيں نظر انداز کرتے ھيں، ليکن جو جانتے ھيں وھ باقاعدہ ناپسند کرتے ھيں۔
اپنے آپ کو پتہ نہيں کيوں ، مظلوم اور ستايا ھوا سمجھتے ھيں اور اکثر زندگي کي محروميوں کي داستان کافي ھاؤس ميں سنايا کرتے ھيں۔۔۔۔۔جس کا خالصہ کچھ يوں ھے پہلے ان کے خواب تمام ھوئے ، پھر دانت تمام ھوئے ، پھر دوست تمام ھوئے، کم ازکم آپ کا يہي خيال تھا کہ وھ دوست تھے، اکثر کہا کرتے ھيں کہ آپ کو بني نوع انسان سے قطعا نفرت نہیں۔۔۔۔۔۔فقط انسان اچھے نہيں لگتے۔کہيل کود کو انٹلکچول پنے کا دشمن سمجھتے تھے، يہاں تک کہ لمبے لمبے سانس لينے سے بھي نفرت ھے۔٦٩ مں وزن کرتے وقت مشين سے کارڈ نکلا جس پر وزن پونے انتاليس سير کے علاوھ لکھا تھا۔۔۔۔۔ابھي کچھ اميد باقي ھے ، غير صحت مند حرکتيں چھوڑ کر ورزش کيجئيے ، صيح غذا اور اچھي صحبت کي عادت ڈالئيے اور قدرت کو مو قع ديں کہ آپ کي مدد کرسکے۔
آپ نے يہ کارڈ پھاڑ کر پھينک ديا حالانکہ اگر کسي مشين نے کبھي سچ بوال تو اس وزن کي مشين نے ٦٩ ميں بولا تھا۔
ريحانہ خانم ايم ۔اے۔ پي ايچ ڈي۔
سن پيدائش ايک راز ھے جو ھميشہ راز رھے گا۔کسي زمانے ميں آپ چھريري اور اسمارٹ تھيں اور اتني حسين تھيں کہ کھانستے ھوئے بھي خوبصورت لگا کرتيں ۔کانونٹ ميں تعليم پائي، آپ کا خيال ھے کہ شايد پچپن ميں ھيگل کے فلسفے سے متاثر ھوئي تھيں ، اور لڑکپن ميں شونپہار سے ، پھر کانٹ ، کنفيوشس، شلر، اور اسي قسم کي ديگر نام جہيں دوھرانا فيشن ميں شامل ھے، نے خيالات پر اثر ڈالا۔عذرا پاؤنڈ کو خاتون سمجھ کر بڑے انہماک سے پڑھا، ليکن جب پتہ چلا کہ يہ تو کوئي مردوا ھے تو فورا ترک کرديا۔
شروع ھي سے انٹکلچول بننے کا فيصلہ کرچکي تھيں، اس لئے عجيب و غريب مضامين لکھنے شروع کردئيے، مثلا'' اسکيمو قوم کا فوق البشر'' ،'' بدو لوگوں کا فلسفہ معاشيات''، ''کارلائل اور چيني ترکستان''،''سائيبيريا اور مہاتما بدھ'' وغيرھ، يہ اور ايسي اور چيزيں کالج يونين ميں شور غل کي پرواھ نہ کرتے ھوئے پڑھيں، ان دنوں عورت اور مرد کے حقوق پر حسب معمول کافي لے دے ھورھي تھي ، آپ بھي اس تحريک ميں شريک ھوگئيں۔
ريحانہ خانمايم ۔اے۔ پي ايچ ڈي۔ ايک تقرير جس پر حلقہ نسواں ميں واھ واھ ھوئي، آپ نے فرمايا کہ اگر کوئي مرد الٹي سيدھي حرکتيں کرے تو فقط يہ کہا جاتا ھے کہ فلاں مرد کتنا بے وقوف ھے، ليکن اگر کسي عورت سے وہي حرکتيں سرزد ھوں تو ساري عورتوں کو برا بھلا کہا جاتا ھے ، کہ يہ سب کي سب ايسي ہي ھوتي ھيں ۔۔۔۔۔کتني بے انصافي ھے؟
آپ نے يہ بھي بتايا کہ مرد ھميشہ جھوٹے دعوے کرتے ھيں، اکثر کہتے ھيں کہ تم سے شادي نہ ھوسکي تو خودکشي کرلوں گا، ليکن ان ميں سے اکثر بزدل زندھ رھتے ھيں۔٦٤ ميں ايسے کئي ليکچر اپني سہيليوں کو دئيے، دھواں دھار تقرريں گھر ميں کيں اور اپنے خيال ميں عورتوں کے حقوق کي سب سے اھم علمبردار بن گئيں ۔٦٦ ميں کسي ريسرچ کے بعد دو تين مقالے لکھے جو ضرور اعلے پائے کے ھوں گے کيونکہ وھ عام فہم نہیں تھے اور ان ميں سے ايک پر آپ کو ڈگري ملي تھي۔
آپ کي نظر شروع ہي سے کمزور رھي ليکن عينک سے چڑ تھي، اس لئے بينائي ٹيسٹ کرنے کے چارٹ جن پر مختلف حروف چھپے ھوتے ھيں، زباني رٹ لئيے، جب عزيزواقارب عينک لگوانے کا مشورہ ديتے تو آپ آنکھوں کے اسپيشلسٹ کے سامنے وھ حروف بغير ديھکے فرفر پڑہ کر سنا ديتيں۔پہلے آپ نے فيصلہ کيا تھا کہ پچيس سال سے پہلے شادي نہيں کريں گي ليکن بعد ميں مجبورا طے کرنا پڑا جب تک شادي نہ ھوسکي ، پچيس برس کي رھيں گي۔اسي سال آپ نے کيرير وومن بننے کا مصتم ارادھ کيا، جو بعد ميں ترک کرنا پڑا ، کيونکہ ملک ميں بيشتر لوگ کيرير کو وھ چيز سمجھتے ھيں جو سائيکل کے پيچھے لگي ھوئي ھوتي ھے، اس پر آپ کو اتنا غصہ آيا کہ اندھا دھند شادي کرڈالي اور خاوند کے بڑے بڑے بچوں کو بھي گھر ميں بلاليا۔
٦٨ ميں آپ کا وزن ايک من بيس سير تھا
٦٩ میں مشہور مقالہ چھوٹے بچوں کا ہر وقت ، دانت نکالنا چھپوايا جسيے نئےشادي شدہ لوگوں نے بڑي دلچسپي سے پڑھا۔٧٠ ميں وزن پونے دو من ايک بصيرت افروز مقالہ۔۔۔۔۔۔بھوت پريت سے بچوں کو محفوظ رکھنا۔٧١وزن دو من، جامع مضمون ۔۔۔۔۔۔بچوں سے بھوت پريت کو محفوظ رکھنا۔ان دنوں ريسرچ کررھي ھيں کہ شراتي بچوں کو زدکوب کرکے سدھارنا بہتر ھے يا مارکٹائي سے۔آپ کي خريدي ھوئي آلڈس ہکسلے، سٹيفن سپنڈر، جيمز جوائيس وغيرہ کي متعدد کتابيں کباڑيوں کے ہاں پہنچ چکي ھيں۔بي تھون، موزارٹ، شوپن وغيرھ کے گراموفون ريکارڈ بھي نوکروں نے ادھر ادھر کردئيے، اور يہ کلاسيکي مغربي موسيقي پڑوس کے ايک چھوٹے سے ھوٹل پر فلمي گانوں کے ساتھ انگلش بينڈ سمجھ کر بجاتي ھے۔آپ کے خاوند قطب الدين صاحب بھي آپ کے مکان ميں رھتے ھيں۔
شيخ رہبر عالم پرائمري جماعتوں ميں تين برس فيل ھونے اور مڈل ميں چار مرتبہ، ميٹرک ميں پانچ مرتبہ ناکامياب رھے جب ايف۔اے ميں چھٹا سال چل رہا تھا تو آپ پڑھائي چھوڑ کر اس جماعت ميں شامل ھوگئے جو اس قسم کے بھولے بھٹکے نوجوانوں کو ذرا سے کام کے عوض ظيفے ديا کرتي تھي۔
چناچہ پہلے سطح زمين کے اوپر کم کيا کرتے ، پھر زير زمين ميں کام کرنے کا فيصلہ کرليا۔
٦٦ ميں کافي ھاؤس کے مباحثوں ميں سرگرمي سے حصہ لينا شروع کيا۔
٦٧ جگہ جگہ ھوٹلوں ميں جوشيلي تقريريں کيں۔
٦٨ آخر آپ کي کوششيں کامياب ھوئيں اور آپ نے تين چار جگہ فساد کراديا اور حالات ناساز گار پاکر زير زمين چلے گئے، چھ مہينے کے بعد باھر نکلے۔
٦٩ ميں پمفلٹ تقسيم کئے اور وظيفے ميں اضافہ ھوگيا
٨٠خفيہ پوليس کے افراد سے ملاقات
٨١ دوست احباب کي نظروں سے اوجھل يعني زير زمين رھے۔
٨٢ نئے پمفلٹ اور وظيفے ميں اور اضافہ
٨٣ خفيہ پوليس
٨٤ نت نئے پمفلٹ وظيفے مين مزيد اضافہ
٨٥خفيہ پوليس
٨٦ ايک نہايت تلخ و ترش اور ھولنق مجموعہ کلام کسي سي لکھوا کر اس اميد پر چھپواديا کہ وھ ظبط ھوجائےگا۔ليکن مايوسي ھوئي کسي نے کتاب يا مصنف کا نوٹس نہیں ليا۔
٨٨ ميں پوليس جو خفيہ نہيں تھي۔
آخر تنگ آکر ايک فلم کمپني ميں ملازم ھوگئے۔آپ کے حق ميں صرف اتنا ھي کہا جا سکتا ھے کہ ابھي تک آپ نے کبھي باقاعدھ حوالات کي حوا يعني ھوا نہیں کھائي۔
ش۔م۔ مير جو کچھ ديکھتے ھيں اس پر يقين نہیں کرتے آپ کا بيشتر وقت ايسي باتوں کے متعلق سوچنے ميں گزرتا جو غير ، معمولي ھوں۔اخباروں کے ايڈيٹروں کے نام لگا تار خطوط لکھنا آپ کا محبوب مشغلہ ھے۔کسي اخبار ميں کسي شخص کا کيسے ھي موضوع پر خط چھپے آپ فورا اس کي ترديد کرتے ھيں مثلا اگر کوئي يہ کہے کہ سورج مغرب مييں غروب ھوتا ھے، تو آپ کسي طرح يہ ثابت کرنے کي کوشش کريں گے يہ بيان غلط ھے، سورج يا تو مغرب مغرب جنوب ميں غروب ھوتا ھے يا پھر مغرب شمال مغرب ميں۔٦٧ ميں فرمايا کہ اخباروںکو چاھئيے کہ جہاں گنتي کا ذکر آئے وہاں ھندسوں کي بجائے الفاظ استعمال کيا کريں، جيسے۔۔۔۔۔١١٠ افراد جوا کھيل رھے تھے۔۔۔۔کو جلدي ميں پڑہا جائے تو يوں لگے گا جيسے ايک سو دس افراد جوا کھيل رھے ھوں۔
٦٨ ميں صحت مند شہريت کي ترديد میں خطوط چھپوايا کہ اگر دنيا ميں سب لوگ شريف النفس اور پرھيز گار ھوجائيں تو نہ چورياں ھوں، نہ لڑائي جھگڑے اور حادثے ۔لہذا اخبار بالکل چھوٹے سے رھ جائیں، ريڈيو کي خبريں بور کرنے لگيں ، سنسني خيز کہانياں اور ناول بھي ختم ھو جائيں، لہذا پبلک کو شرارتي لوگوں کا ممنون ھونا چاھئيے کہ وھ بيہودھ حرکتوں سے زندگي ميں تنوع اور چہل پہل پيدا کرتے ھيں، آپ خود بھي شرارتوں کو پسند فرماتے ھيں۔
٦٩ ميں قرض کي برائيوں کے پمفلٹ پر تنقيد کي کہ ھم سب اخباروں ميں اکثر پڑھتے رھتے ھيں، کہ آج نيوزي لينڈ نے آسٹريليا سے پانچ کروڑ پاؤنڈ قرض ليا ھے يا انگلستان کو کينيڈا نے دس کرورڑ ڈالر ادھار دئيے ھيں ليکن کبھي کسي اخبار ميں ان قرضوں کي ادائيگي کا ذکر بھي نہیں کيا گيا آج فرانس نے اٹلي کا قرض چکا ديا، يا ہالينڈ نے اپنا حساب برابر کرديا ھو، جب بڑے بڑے ملک يوں ساري دنيا کے سامنے مقروض رھ سکتے ھيں تو ھم تم کسي شمار ميں ھيں۔۔۔۔۔۔۔دراصل آپ ھميشہ مقروض رھتے ھيں۔
ش۔م۔ مير ٨٠ ميں اخبار آپ کا يہ خط چپھا کہ انسان ميں کچھ خامياں اور بري عادتيں ھوں تو کوئي مضائفتہ نہیں، کينوکہ انہیں ترک کرکے وھ تسکين اور مسرت حاصل کرسکتا ھے ، ليکن اگر خوبياں ھي خوبياں ھو تو پھر کيا ترک کيا جاسکتا ھے اور تسکيں يا مسرت کيونکر حاصل ھوسکتي ھے؟ يہ بيان بھي حسب حال تھا۔٨١ ميں انسان کے اشرف المخلوقات ھونے پر مايوسي کا اظہار کيا کہ انساني جسم ميں اکثر اعضا غلط فٹ کئے گئے ھيں ، مثلا پيٹ جيسا ملائم حصہ جس پر ضرب لگانے کو خواھ مخواھ جي چاھتا ھے سامنے ھرگز نہیں ھونا چاھئيے تھا۔
اس طرح گھٹنے اور پنڈلي کے حصے ضرورت سے زيادھ سخت ھيں، اور بار بار ميز کرسيوں سے ٹکراتے ھيں، کان اور دم کے پٹھے اب تک جسم انساني کا حصہ ھيں، ظاھر ھے کہ يہ بھي کان کو اور دم ھلانے کيلئے استعمال ھوتے ھوں گے۔ اور اميد کي جاسکتي ھے کہ آئندھ بھي کبھي استعمال ھوسکتے ھيں۔اور يہ کہ ھم اپنے آپ کو چوپايوں سے محض اس لئے بہتر سمجھتے ھيں، کہ کسي طرح اگلي دو ٹانگيں سيدھے کھڑے ھونے میں کامياب ھوگئے ھيں اور ان اگلي ٹانگوں کو اپنے بازو سمجھتے ھيں، کبھي کبھي بيچارے گھوڑے اس طرح کھڑے ھونے کي ھارس شو ميں کوشش کرتے ھيں ليکن اب تک ناکام رھے ھيں، جس دن انہیں کاميابي ھوگئي ہمارا يہ اشرف المخلوقات والا ريکٹ ختم ھو جائے گا۔
٧٦ ميں مقالہ چھپوايا کہ تاريخي شہر پاٹلي پترا دراصل پنجابي نام ھے، اس لئے يا تو يہ شہر پنجاب ميں آباد تھا، يا پنجاب مشرقي ھندوستان کے اس شہر تک پھيلا ھوا ھوگا۔
لگتا يہي ھے کہ اسے پاٹلي صاحب کے پترا يعني بيٹے نے آباد کيا ھو، ويسے يہ بھي ممکن ھے کہ پاٹلي صاحب پارسي ھوں۔۔۔۔۔۔ جيسے پاٹلي والا۔٨٣ ميں اس امر پر حيرت کا اظہار کيا کہ سارے مذہب محض ايشیا ھي کي پيداوار کيوں ھيں، آج تک افريقہ ، يورپ ، آسٹريليا اور امريکہ میں کبھي کوئي پيغمبر پيدا نہیں ھوا۔
ش۔م۔مير
٧٤پ نے انقلاب فرانس کي اصلي وجہ دريافت کي اور بتايا کہ لوئي شانزدھم کےعہد ميں لوگ لوئيوں کي تعداد سے بالکل تنگ آچکے تھے، چار پانچ يا سات آٹھ لوئي ھوتے تو چنداں، مضائقہ نہ تھا، ليکن اکھٹے سولہ لوئي ۔۔۔۔۔۔۔ يہ سرا سر زيادتي تھي ، اگر فرانسيسي انقلاب کرکے فورا انسدانہ کرتے تو اب تک کم از کم ڈيڑھ سو لوئي ھوتا۔
٧٥ ميں انکشاف کيا کہ مشرق وسطے يعني مڈل ايسٹ کا نام صيح معلوم نہیں ھوتا، جو قوميں مغرب ميں بستي ھيں وھ اس خطے کو مشرق واسطے کہہ سکتي ھيں ليکن جہاں ھم رھتے ھيں وہاں سے ہمارے لئے يہ مغرب وسطے مڈل ويسٹ ھونا چاھئيے۔
٧٤ ميں بيان ديا کہ جس طرح پالم يعني ہتھيلي سے پامسٹري نے جنم ليا، اسي طرح کاؤنٹر پارٹ تلوے يعني سول سے سوليٹري ناجانے کيوں نہ شروع کي جاسکي ،کيونکہ پاؤں کا تلوا بھي اتنا ھي اھم ھے جتنا کہ ہتھيلي ، يقينا اس پر بھي کئي معني خيز لائينيں موجود ھوں گي۔۔۔۔۔قسمت کي بڑي لکيروں کے علاوھ چند چھوٹي لکيريں، پاؤں پسارنے ، پاؤں گن گن رکھنے، سر پر پاؤں رکھ کر بھاگنے، پاؤں پھيلانے، دبے پاؤں آنے ، پاؤں کے چکر وغيرھ کے بارے ميں بھي مل سکيں گي، آپ نے پرزور سفارش کي کہ اس سلسلے ميں فورا کام شروع ھوجانا چاھئيے۔
٧٧ ميں اس بات پر افسوس کيا کہ انگريز اس علاقے ميں اتنے طويل عرصے تک رھے ۔ ھم نے انگريزي سيکھ لي ليکن انہوں نے اردو کو بالکل نظر انداز کيا۔
مير صاحب نے کئي برس پرانا چشم ديد واقعہ رقم کيا کہ جب پہاڑ پور کے نواب صاحب گدي نشنين ھوئے تو جہاں ساري رعايا اور تقريب پر باھر سے آئے ھوئے ،معزز مہمان نواب صاحب پہاڑ پور۔۔۔زندھ باد کے نعرہ لگا رھے تھے وہاں رياست ميں متعين انگريز ريذيٹنٹ سب کے ساتھ مل کر بڑي سنجيدگي سے نواب صاحب پہاڑ پور ان دا بيگ چلا رھا تھا۔
ش۔م۔ مير
٧٨ ميں خراٹوں کے متعلق يہ بتايا کہ خراٹے دراصل اس زمانہ ما قبل تاريخ کي ياد گار ھيں جب انسان غاروں ميں رہا کرتا، غاروں ميں نہ کواڑ ھوتے، لہذا نہ قفل ، رات کو شکار کي تلاش ميں نکلے ھوئے خونخوار درندوں کو بھگانے کيلئے اسے رات کو سوتے وقت يا جاگتے ھوئے مجبورا نہايت بھيانکآوازيںنکالني پڑتي تھيں ، يہ عادت نسلا بعد نسلا جارھي ۔۔۔۔ اور پھر پختہ ھوگئي۔اب حالات کہيں بہتر ھوچکے ھيں ليکن جاگتے وقت تو نہیں، ليکن سوتے وقت وھي کچھ کرنا پڑتا ھے جو آباواجداد کيا کرتے تھے۔آھستہ آھستہ پبلک آپ کا نوٹس لينے لگي ھے يہ اور بات ھے کہ آپ کاغذ کا بزنس کرتے ھيں، اس قسم کي شہرت سے آپ کو کچھ کاروباري فائدہ ضرور پہنچتا ھوگا۔
شيام سندر سجن اصلي نام قاضي قلندر بخش
دس برس تک ايکسڑارھے، پانچ سال دلين، ، ان دونوں اسسٹنٹ ھيرو ھيں، چونکہ آپ اداکاري کے سلسلے ميں ضرورت سے زيادھ سنجيدھ ھوجاتے ھيں اس لئے ابھي تک ھيرو نہيں بن سکے، ليکن ہمارے ہاں ھيرو اور ھيروئن بننے کے لئے عمر کي کوئي قيد نہيں، پينتاليس برس کي ھيروئناور پچاس سال کے ھيرو اکثر ديکھنے ميں آتے ھيں، لہذا بھي مايوس نہیں ھوئے۔٦٦ ميں جب اصلي ھيرو قمار خانے ميں غل غپاڑھ غل زيادھ غپاڑھ کم، کرتے ھوئے پکڑا گيا تو آپ کو ھيرو بننے کے لئے کہا گيا، ھيرو کي مونچھيں لمبي لمبي ھوني چاھئيے تھيں کيونکہ فلم تاريخي تھي، چناچہ آپ نے چند ھفتے کي چھٹي مانگي تاکہ مونچھيں مطلوبہ سائز کي ھوجائیں، آپ کو مونچھيں پيش بھي کي گئيں مگر آپ کو نقلي چيزوں سے نفرت ھے۔
ڈائريکٹر نے کہا کہ اتني دير ميں تو اصلي ھيرو حراست سے واپس آجائے گا۔٦٧ ميں جب ھيرو دھوکہ بازي اور چوري کے مقدموں ميں ملوث ھوا تو آپ کودوبارھ چانس ديا گيا، ھيرو کے بال لمبے ھوا کرتے ھيں اور قلميں کافي نيچي، آپ نے نقلي بال لگانے سے انکار کرديا تھا اور پھرکچھ ھفتوں کي مہلت مانگي، ادھر پروڈيوسر صاحب ايک مشہور گانے والي سے سارے پلے بيک گانے ريکارڈ کرا چکے تھے، اگر چہ يہ فلم کي کہاني ابھي تک مکمل نہيں ھوئي تھي، انہیں پبلک کونئي دھنيں دينے کي جلدي تھي، لہذا وھ آپ کا انتظار نہ کرسکے اور پارٹ ايک اور ايکڑ کو ملا جس کي مونچھيں نوکدار تھيں سر کے بال کندھوں تک آئے تھے اور چہرے پر وھ اظہار تھا جو کھوئي گائے کے منہ پر ھوتا ھے۔آپ رول ميں جان ڈال ديتے ھيں، پارٹ کرتے وقت بالکل بھول جاتے ھيں کہ کميرے کے سامنے ھيں اور ايکٹنگ کررھے ھيں۔
شيام سندر سجن اصلي نام قاضي قلندر بخش ايک مرتبہ لڑائي کے سين ميں جوش آگيا اور ايک ايکڑ کے سر پر لکڑي کي چمکيلي تلوار دے ماري، بعد ميں کئي مرتبہ معافي مانگي تو معاملہ رفع دفع ھوا۔جلوہ ترا تاروں ميں ھے اور شمس و قمر ميں کا گانا گاتے ھوئے تاروں اور شمس پر آسمان کي طرف اشارھ کيا اور قمر پر بڑي بے ساختگي سے اپني کمر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر ھلايا۔پھر ايک دفعہ چور کا پارٹ کرتے ھوئے ايک بہت اونچي ديورا سے خواہ مخواہ چھلانگ لگادي اورگھٹنا توڑليا، کئي ھفتے ھسپتال ميں گزرے۔
غمناک سين آئے تو گليسرين کے آنسو ٹپکانے کے بجائے خوب بھوں بھوں کرکے روتے ھيں۔
رول ادا کرتے وقت جو تاريخي اور درباري لباس اسٹوڈيوں ميں پہنا اسےتبديل کئے بغير ميک اپ سميت گھر چلے جاتے ھيں، راستے ميں تماشائيوں بعض اوقات پوليس کے سپاھي پيچھے لگ جاتے ھيں۔چونکہ حسساس ہيں اس لئے جس ايکڑيس کے ساتھ پارٹ کرتے ھيں اس پر عاشق ھو کر خود کشي کي کوشش کرتے ھيں۔٧٦ ميں جب چوتھي مرتبہ ھسپتال ميں داخل ھوئے تو ڈاکڑوں نے صاف صاف کہہ ديا کہ اگر اسي طرح خود کشي کي مزيد کوششيش کي گئيں تو آپ کي صحتبالکل تباہ ہوجائے گي۔شروع سے آپ کو يہي شکايت ھے کہ يہاں آرٹسٹکي قدر نہيں ھوتي۔
صيح رقم خوش نويس
پہلے کچھ اور کيا کرتے تھے، ايک دن جنجھجھلا کر کاتب بن گئے۔آپ کي لکھي ھوئي عبارت پر پروئے پروئے موتيوں کا گماں ھوتا تھا۔زبان کے پکے ھيں، جب وھ وعدھ کرليتے ھيں، تو اسي سال کام مکمل کرکے رھتے ھيں، لکھتے وقت موقعے اور اپنے موڈ کے مطابق عبارت ميں ترميم کرتے جاتے ھيں، عالم و لسوزي کوعالم ڈلہوزي بچھڑا عاشق کو بچھڑا عاشق، سہروردي کو ردردي، سماجي بہبودگي کو سماجي بيہودگي، وادي بيل بنا دينے ميں کوئي۔