ایوب جامی
محفلین
کون کیسے ٹوٹتا ہے
مشتاق احمد یوسفی کی کتاب حویلی سے اقتباس
وه سوچ بهی نہیں سکتےتهےکہ آدمی اندرسےٹوٹ بهی سکتاہے،اوریوں ٹوٹتاہےاورجب ٹوٹتاہےتواپنوں بیگانوں سےحد یہ کہ اپنےسب سےبڑے دشمن سے بهی صلح کرلیتاہے،یعنی اپنےآپ سے،اسی منزل پربصیرتوں کانزول ہوتاہے،دانش وبینش کےباب کھلتے ہیں۔
چشم ہوتوآئینہ خانہ ہےدہر،
منہ نظرآتےہیں دیواروں کےبیچ
ایسےبهی محتاط لوگ ہیں جو پیکار و فشار زیست سے بچنے کی خاطر خود کو بےعملی کےحصار عافیت میں قید رکهتے ہیں، یہ بهاری وقیمتی پردوں کی طرح لٹکے لٹکے ہی لیر لیرہو جاتے ہیں، کچھ گم صم گمبھیرلوگ اس دیوار کی مانند تڑختے ہیں،جس کی مہین سی دراڑ جو عمدہ پینٹ یا کسی آرائشی تصویر سے باآسانی چهپ جاتی ہے، اس بات کی غمازی کرتی ہےکہ نیو اندر ہی اندرکسی صدمے سے زمین میں دهنس رہی ہے،بعض لوگ چینی کے برتن کی طرح ٹوٹتے ہیں، کہ مسالے آسانی سے جڑ تو جاتے ہیں،مگر وه بال اور جوڑ پہلے نظرآتا ہے،برتن بعد میں،اس کے برعکس کچھ ڈهیٹ اور چپکو لوگ ایسے اٹوٹ مادے کے بنے ہوتے ہیں کہ چیونگ گم کی طرح کتنا ہی چباؤ ٹوٹنے کا نام نہیں لیتے، کھینچنے سےکھینچتے ہیں،چهوڑے سے سکڑ جاتے ہیں،آپ انہیں حقارت سےتهوک دیں تو جوتے سے اس بری طرح چپکتے ہیں،کہ چهٹائے سے نہیں چهوٹتے ره ره کر خیال آتا ہےکہ اس سے تو دانتوں تلے ہی بهلے تهے، کہ پپول تو لیتے ہیں، یہ چیونگ گم لوگ خود آدمی نہیں، پرآدم شناس ہیں، یہ کامیاب و کامران مکار لوگ ہیں،یہ وه ہیں جنہوں نے انسانوں کو دیکها، پرکها اور برتا ہے اورجب اسےکهوٹا پایا تو خود بهی کهوٹے ہو گئے وقت کی اٹھتی موج نے اپنے حباب کا تاج ان کے سرپہ رکها اورساعت گزراں نے اپنے تخت رواں پہ بٹهایا۔اور کچھ ایسے بهی ہیں کہ کار کے ونڈ اسکرین کی مانند ہوتے ہیں،ثابت و سالم ہیں تو سینہ عارف کی طرح شفاف کہ دوعالم کا نظاره کرلو، اور یکایک ٹوٹے تو ایسے ٹوٹے کہ نہ بال پڑا، نہ درکے نہ تڑخے، یکبارگی ایسےریزہ ریزہ ہوئےکہ ناعارف رہا، نہ دوعالم کی جلوه گری، نہ آئینے کا پتا کہ کہاں تها، کدهر گیا، نہ حذر رہا نہ خطر رہا، جورہی سو بےخبری رہی۔اور ایک انا ہےکہ یوں ٹوٹتی ہے جیسے جابرسلطانوں کا اقبال یا حضرت سلیمان کا عصا جس کی ٹیک لگائے وه کهڑے تهے، کہ روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی،لیکن ان کا قالب بےجان ایک مدت تک اسی طرح ایستاده رہا اورکسی کو شبہ تک نہ گزرا کہ وه رحلت فرما چکے ہیں، وه اسی طرح بےروح کهڑے رہےاور ان کےاقبال اور رعب و دبدبے سےکاروبارسلطنت حسب معمول سابق چلتا رہا، ادهر عصا کودهیرےدهیرے گھن اندر سے کهاتا رہا، یہاں تک کہ ایک دن وه چٹاخ سے ٹوٹ گیا اورحضرت سلیمان کا جسدخاکی فرش زمین پرآ رہا، اس وقت ان کی امت اور رعیت پر کهلا کہ وه دنیا سےپرده فرما چکے ہیں۔سو وه دیمک زده عصائے پندار و جلال جس کےبل قبلہ نے غلو غش زندگی گزاری آج شام ٹوٹ گیا اور زیست کرنے کا وه طنطہ اورهم همہ سرنگوں ہوا۔
میں پاپن ایسی جلی کوئلہ بھئی نہ راکھ
مشتاق احمد یوسفی کی کتاب حویلی سے اقتباس
وه سوچ بهی نہیں سکتےتهےکہ آدمی اندرسےٹوٹ بهی سکتاہے،اوریوں ٹوٹتاہےاورجب ٹوٹتاہےتواپنوں بیگانوں سےحد یہ کہ اپنےسب سےبڑے دشمن سے بهی صلح کرلیتاہے،یعنی اپنےآپ سے،اسی منزل پربصیرتوں کانزول ہوتاہے،دانش وبینش کےباب کھلتے ہیں۔
چشم ہوتوآئینہ خانہ ہےدہر،
منہ نظرآتےہیں دیواروں کےبیچ
ایسےبهی محتاط لوگ ہیں جو پیکار و فشار زیست سے بچنے کی خاطر خود کو بےعملی کےحصار عافیت میں قید رکهتے ہیں، یہ بهاری وقیمتی پردوں کی طرح لٹکے لٹکے ہی لیر لیرہو جاتے ہیں، کچھ گم صم گمبھیرلوگ اس دیوار کی مانند تڑختے ہیں،جس کی مہین سی دراڑ جو عمدہ پینٹ یا کسی آرائشی تصویر سے باآسانی چهپ جاتی ہے، اس بات کی غمازی کرتی ہےکہ نیو اندر ہی اندرکسی صدمے سے زمین میں دهنس رہی ہے،بعض لوگ چینی کے برتن کی طرح ٹوٹتے ہیں، کہ مسالے آسانی سے جڑ تو جاتے ہیں،مگر وه بال اور جوڑ پہلے نظرآتا ہے،برتن بعد میں،اس کے برعکس کچھ ڈهیٹ اور چپکو لوگ ایسے اٹوٹ مادے کے بنے ہوتے ہیں کہ چیونگ گم کی طرح کتنا ہی چباؤ ٹوٹنے کا نام نہیں لیتے، کھینچنے سےکھینچتے ہیں،چهوڑے سے سکڑ جاتے ہیں،آپ انہیں حقارت سےتهوک دیں تو جوتے سے اس بری طرح چپکتے ہیں،کہ چهٹائے سے نہیں چهوٹتے ره ره کر خیال آتا ہےکہ اس سے تو دانتوں تلے ہی بهلے تهے، کہ پپول تو لیتے ہیں، یہ چیونگ گم لوگ خود آدمی نہیں، پرآدم شناس ہیں، یہ کامیاب و کامران مکار لوگ ہیں،یہ وه ہیں جنہوں نے انسانوں کو دیکها، پرکها اور برتا ہے اورجب اسےکهوٹا پایا تو خود بهی کهوٹے ہو گئے وقت کی اٹھتی موج نے اپنے حباب کا تاج ان کے سرپہ رکها اورساعت گزراں نے اپنے تخت رواں پہ بٹهایا۔اور کچھ ایسے بهی ہیں کہ کار کے ونڈ اسکرین کی مانند ہوتے ہیں،ثابت و سالم ہیں تو سینہ عارف کی طرح شفاف کہ دوعالم کا نظاره کرلو، اور یکایک ٹوٹے تو ایسے ٹوٹے کہ نہ بال پڑا، نہ درکے نہ تڑخے، یکبارگی ایسےریزہ ریزہ ہوئےکہ ناعارف رہا، نہ دوعالم کی جلوه گری، نہ آئینے کا پتا کہ کہاں تها، کدهر گیا، نہ حذر رہا نہ خطر رہا، جورہی سو بےخبری رہی۔اور ایک انا ہےکہ یوں ٹوٹتی ہے جیسے جابرسلطانوں کا اقبال یا حضرت سلیمان کا عصا جس کی ٹیک لگائے وه کهڑے تهے، کہ روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی،لیکن ان کا قالب بےجان ایک مدت تک اسی طرح ایستاده رہا اورکسی کو شبہ تک نہ گزرا کہ وه رحلت فرما چکے ہیں، وه اسی طرح بےروح کهڑے رہےاور ان کےاقبال اور رعب و دبدبے سےکاروبارسلطنت حسب معمول سابق چلتا رہا، ادهر عصا کودهیرےدهیرے گھن اندر سے کهاتا رہا، یہاں تک کہ ایک دن وه چٹاخ سے ٹوٹ گیا اورحضرت سلیمان کا جسدخاکی فرش زمین پرآ رہا، اس وقت ان کی امت اور رعیت پر کهلا کہ وه دنیا سےپرده فرما چکے ہیں۔سو وه دیمک زده عصائے پندار و جلال جس کےبل قبلہ نے غلو غش زندگی گزاری آج شام ٹوٹ گیا اور زیست کرنے کا وه طنطہ اورهم همہ سرنگوں ہوا۔
میں پاپن ایسی جلی کوئلہ بھئی نہ راکھ