قرۃالعین اعوان
لائبریرین
ہاں اس لیئے میں نے انہیں سنجیدہ لیا آخر کو باہر بھی نکلنا پڑتا ہے اور کتوں کی حس کے بارے میں مجھے کوئی شبہ نہیںLolllll
تواس سےبہترہےناکہ کتوں کوہی سنجیدہ لیاجائے،،،،
ہاں اس لیئے میں نے انہیں سنجیدہ لیا آخر کو باہر بھی نکلنا پڑتا ہے اور کتوں کی حس کے بارے میں مجھے کوئی شبہ نہیںLolllll
تواس سےبہترہےناکہ کتوں کوہی سنجیدہ لیاجائے،،،،
ہاں اس لیئے میں نے انہیں سنجیدہ لیا آخر کو باہر بھی نکلنا پڑتا ہے اور کتوں کی حس کے بارے میں مجھے کوئی شبہ نہیں
جی بلکل کتاکی فطرت میں وفاداری ہےبہت،،،اتناوفادارتوآج کل انسان بھی نہیں رہےبہت سبق آموز موریل ہے اس کا۔۔۔ ہر ایک کی اپنی فطرت ہوتی ہے اور کتے کی بھی ایک اپنی فطرت ہوتی ہے جو کہ تبدیل نہیں ہو سکتی
ویسے کچھ انسان بھی کتوں جیسی فطرت کے ہوتے ہیں
ویسےکتا کتا ہی ہوتا ہے ۔۔۔ ظالم ہو یا کہ معصوم
ہا ناعینی مجھےتوکتوں سے بڑاڈرلگتاہے
ہوتے تو خطرناک ہیں ویسےہا ناعینی مجھےتوکتوں سے بڑاڈرلگتاہے
اچھا تم توبڑی بہادرہوعینی۔۔۔میں تواُس راستےسے گزرتی بھی نہیں جہاں پہ کُتاہوہوتے تو خطرناک ہیں ویسے
میں بھی اچانک سے ٹھٹھک جاتی ہوں سامنے آنے پر لیکن ایسا ڈر نہیں لگتا وہ ڈر بس پہلی نظر کا ہوتا ہے
اچھا تو تم اتنی ڈرپوک کیوں ہو آخر؟اچھا تم توبڑی بہادرہوعینی۔۔۔ میں تواُس راستےسے گزرتی بھی نہیں جہاں پہ کُتاہو
کیاپتہ،،،،اچھا تو تم اتنی ڈرپوک کیوں ہو آخر؟
میں تو یہ سوچ کر گزر جاتی ہوں کہ آخر کتے کو بھی کہیں جانا ہے
یعنی اب بھو بھو کرے گاکافی عرصہ پہلے ایک فلم دیکھی تھی جس میں مرغی کے بجائے اداکار کو کوا بریانی کھلائی گئی تھی اور وہ بعد میں کائیں کائیں کرنے لگا تھا۔
تو تم نے کیوں اس سے ریس لگانی ہوتی ہے؟کیاپتہ،،،،
اور میں یہ سوچ کےنہیں گزرتی کہ میں کُتے سے زیادہ تیزنہیں بھاگ سکتی
ارے نہیں،،،تو تم نے کیوں اس سے ریس لگانی ہوتی ہے؟
پطرس بخاری کے زمانے میں تو کتے کھچڑی نہیں کھایا کرتے تھے، آج کا پتہ کچھ نہیں۔
پتہ نہ ہونا بھی تو ہونق پن کی علامت ہے، صاحبو! انفارمیشن بلاسٹ کے اس دور میں ’’آج کا پتہ کچھ نہیں‘‘ واقعی کچھ عجیب سی بات نہیں کیا؟ منطقی طور پر تو یہ بالکل عجیب بات نہیں۔
محاورہ ہے نا! : ’’اتنا شور تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی‘‘۔ تو جناب، پھر وہ شور کیسے ہوا؟ ہونق پن کی ایک اور بات! ۔ مفہوم تو یہی ہے نا، کہ پتہ نہیں چلتا تھا کس نے کیا کہا۔ کچھ ایسا ہی معاملہ انفارمیشن بلاسٹ کے ساتھ ہے۔ مجھے جو انفارمیشن چاہئے وہ دوسری ہزاروں لاکھوں انفارمیشنز میں کہیں گم ہو گئی۔ یہ ہوئی نا، پتے کی بات۔
چلئے یہ تو پتہ چل گیا کہ پطرس بخاری کے دور کے کتے کچھ اور کیا کرتے تھے۔ ارے، ارے ارے!!!۔ دو غزلے، سہ غزلے، چہار غزلے کا ذکر بھولے سے بھی مت کیجئے گا! ایسا ہوا، تو پھر آپ کی اتنی ہجویں لکھی جائیں گی کہ آپ کو ہر ہجو قصیدہ لگے گی۔ آزما کر دیکھ لیجئے!!۔
شکریہ توآپ کابنتاہےبہت شکریہ، نیلم! آپ کا۔
غالبایعنی اب بھو بھو کرے گا
یہ بھی درست ہے لیکن میرے خیال میں ان سب اعمال کی تہہ میں ہماری کوئی نہ کوئی سوچ کارفرما ہوتی ہے۔۔۔سوچ کی بنیاد پر ہماری Perceptionsتشکیل پاتی ہیں اور انہی perceptionsکے ارد گرد ہمارے جذبات و محرکات کوئی نہ کوئی مخصوص شکل اختیار کرتے ہوئے مختلف قسم کے اعمال کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔۔۔چنانچہ اعمال کی بنیاد ہماری perceptionsپر ہے اور ان پرسپشنز کے بارے میں بنیادی اصول یہی ہے کہ "ہمارے باہر کی دنیا دراصل ہمارے اندر کی دنیا کا ایک عکس ہے"۔۔۔اور یہی اس کہانی کا موریل ہےمیراخیال ہےاس کاموریل یہ بنتاہےکہ
ہم جوکچھ دنیاکودےگےبدلےمیں ہمیں وہ ہی کچھ ملےگا
،،جوبوئےگےوہ ہی کاٹے کیں
۔۔جیسی کرنی ویسی بھرنی
زبردست بھیایہ بھی درست ہے لیکن میرے خیال میں ان سب اعمال کی تہہ میں ہماری کوئی نہ کوئی سوچ کارفرما ہوتی ہے۔۔۔ سوچ کی بنیاد پر ہماری Perceptionsتشکیل پاتی ہیں اور انہی perceptionsکے ارد گرد ہمارے جذبات و محرکات کوئی نہ کوئی مخصوص شکل اختیار کرتے ہوئے مختلف قسم کے اعمال کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔۔۔ چنانچہ اعمال کی بنیاد ہماری perceptionsپر ہے اور ان پرسپشنز کے بارے میں بنیادی اصول یہی ہے کہ "ہمارے باہر کی دنیا دراصل ہمارے اندر کی دنیا کا ایک عکس ہے"۔۔۔ اور یہی اس کہانی کا موریل ہے