نوآموز
محفلین
ایک مُسافر نے کسی شہر کی سرائے میں اُتر کر سرائے والے سے کہا کوئی نائی بُلوا دو، تو میں خط بنوا لُوں۔سرائے والے نے ایک نائی کو بُلایا۔ نائی نے حجامت بنانے سے پہلے مُسافر سے پُوچھا: ” حُضور! مزدُوری کیا مِلے گی؟“مُسافر نے کہا۔ ”ارے پُوچھتا کیا ہے۔ کُچھ دے دیں گے۔“ اس پر نائی نے خط بنا دیا اور مُسافِر نے دو آنے نِکال حوالے کیے، مگر نائی نے کہا۔ ”جضور! کچھ دینے کا اِقرار ہُوا ہے۔ اب زبان نہ بدلیے۔ میں تو کچھ ہی لُوں گا۔ مسافر نے اور دو آنے پھینک دِیے۔ لیکن نائی نے کہا۔ ” میں تو روپیہ لُوں نہ دو روپے 'کپھ' ہی لُوں گا تو پنڈ چھوڑوں گا۔“ سب لوگ نائی کی اِس حُجت سے تنگ آ گئے ۔ مگر اُس کی بات پُوری کرنے کی تجویز کسی کی سمجھ میں نہ آتی تھی۔ اِتنے میں اسکُول بند ہونے پر سرائے والے کا لڑکا بھی گھر واپس آیا۔ لڑکا تھوڑی دیر تو لوگوں کی باتیں سُنتا ریا۔ پِھر چُپکے سے گھر جا کر ایک چنگیر میں ایک طرف روٹی کا ٹکڑا، دوسری طرف دو پیسے، تیسری طرف ایک پوسٹ کارڈ اور چوتھی طرف ایک کیلا رکھ کر مُسافر کے پاس لے آیا اور کہا۔ ”آپ گھبرائیں نہیں، میں اِس چنگیر میں بُہت کُچھ رکھ لایا ہُوں۔ نائی سے کُہہ دیجیے ، اِس میں سے جو کچھ وہ چاہے، اُٹھا لے۔“ مسافر بُہت خوش ہُوا اور نائی سے کہا تو وہ اپنا سا مُنہ لے کر رُہ گیا۔ یہ دیکھ کر لوگ لڑکے کی دانائی پر دنگ رہ گئے۔ مسافر نے لڑکے کو شاباش اور انعام دے کر پوچھا۔ ”بیٹا! یہ تو بتاؤ کہ تُمھیں یہ بات سُوجھ کہاں سے گئی۔“ لڑکے نے جواب دیا۔ ” جناب! یہ سب عِلم ہی کی برکت ہے۔ میں نے ایک دفعہ کِسی کِتاب میں اَیسا ہی قِصّہ پڑھا تھا وُہ یاد آگیا۔“