مدیحہ گیلانی
محفلین
کُچھ کشش دل بَروں میں ہے ہی نہیں
رنگ وہ محفلوں میں ہے ہی نہیں
ہر طرف تیری رُونمُائی ہے
اور کچھ آئنیوں میں ہے ہی نہیں
جو تُجھے مُنفرد بناتی ہے
بات وہ دُوسروں میں ہے ہی نہیں
میرا کتنا خیال ہے اُس کو
جو مرے دوستوں میں ہے ہی نہیں
سب کے سب سلسلے اُسی کے ہیں
جو مرے سلسلوں میں ہے ہی نہیں
وہ مرے رابطوں میں رہتا ہے
جو مرے رابطوں میں ہے ہی نہیں
ہاں وہی تو ہے مسئلہ میرا
جو مرے مسئلوں میں ہے ہی نہیں
جس کنارے ہمیں اُترنا ہے
وہ ترے ساحلوں میں ہے ہی نہیں
ہم جسے اپنا کہہ سکیں کھُل کر
کوئی اپنی صفوں میں ہے ہی نہیں
کیا کُشادہ دلی کی بات کریں
اب تو آنگن گھروں میں ہے ہی نہیں
کٹ گئے پیڑ ،اُڑ گئے طائر
کوئی نامہ بَروں میں ہے ہی نہیں
تُجھ سے ملنے کا کیا کوئی امکان
آنے والے دِنوں میں ہے ہی نہیں
جو مُسافر کا کچھ پتہ دیتی
گرد وہ راستوں میں ہے ہی نہیں
سیدھا رستہ ہے عشق کی منزل
یہ سفر دائروں میں ہے ہی نہیں
جس کی تسبیح لوگ پڑھتے تھے
نام وہ تذکروں میں ہے ہی نہیں
جس سے چہروں پہ نُور رہتا ہے
وہ اُجالا دِلوں میں ہے ہی نہیں
جس سے روشن تھے منبر و محراب
وہ دِیا طاقچوں میں ہے ہی نہیں
رقص کرتا ہے جوسرِ مقتل
وہ لہو تو رَگوں میں ہے ہی نہیں
سب کے شانوں پر سَر سلامت ہیں
کوئی سودا سَروں میں ہے ہی نہیں
اُس کا احسان مند ہوں میں سلیم
جو مرے مُحسنوں میں ہے ہی نہیں
سلیم کوثر