غزل قاضی
محفلین
کِرَن
چھُپ گئے رات کے دامن میں ستارے لیکن
ایک ننھا سا دیا اب بھی ہے ہم راہ و نشاں
ایک ننھا سا دیا اور یہ شب کی یورش
اور یہ ابر کے طوفاں ، یہ کُہرا ، یہ دُھواں
لیکن اس ایک تصور سے نہ ہو افسردہ
ساعتیں اب بھی نیا جوش لئے بیٹھی ہیں
سنگِ رہ اور کئی آئیں گے لیکن آخر
منزلیں گرمئی آغوش لئے بیٹھی ہیں
اک نئے عہد کی امید، نئی صبح کی ضو !!
اس اندھیرے سے اُبھرتے ہیں چراغاں کتنے
زیست کے جامۂ صد چاک کا ماتم کیسا !
زیرِ تخلیق ہیں خلّاق گریبَاں کتنے
چھُپ گئے رات کے دامن میں ستارے لیکن
یہ تری شُعلہ نوائی کا نیا دَور سہی !
عزم ِ پرواز کی توہین سے مایوس نہ ہو
ایک بار اور سہی ، اور سہی ، اور سہی
(مصطفیٰ زیدی)
روشنی