مجھے تو دونوں کپتانوں سے گلہ ہے کہ وہ ڈھنگ سے کام نہیں کرتے۔
باہمی رابطوں کا فقدان، ذاتی فخر، غرور، انا اور ناقص مشیروں کا ساتھ۔ ان دونوں کو اپنے اردگرد موجود کاسہ لیسوں کی چھانٹی کرنا ہو گی۔
جو باتیں میرے جیسے موٹی عقل والے کی سمجھ میں آ جاتی ہیں کہ کیا ہونا چاہیے اور کیا نہیں وہ ان اتنے تجربے کار جہاں دیدہ لوگوں کی سمجھ کیوں نہیں آتیں۔
انھیں ہم سے بہت بہتر سمجھ آتی ہے، پر عمل نہیں کرتے یا پاتے۔
اکثر مجھے ان دونوں کی نیّتوں پر شبہ ہوتا ہے۔
پھر سوچتا ہوں کہ دلوں کے حال تو اللہ ہی جانتا ہے۔
ہر دو کپتان یقیناً سیاست میں کچھ نہ کچھ ذاتی مفاد بھی رکھتے ہوں گے، لیکن کسی ایک کی نیت پر بھی شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا۔اللہ پاک قران مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
"إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ مَن يَضِلُّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ"
در حقیقت تمہارا رب زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اُس کے راستے سے ہٹا ہوا ہے اور کون سیدھی راہ پر ہے۔
آپ نے بلکل ٹھیک کہا۔ نیتوں کا حال اسی پر چھوڑ دینا چاہیے
پھر یہ بھی سوچتا ہوں کہ ایسے اچھے دلوں کا کیا فائدہ کہ جب اُن کا فیض ہی عوام تک نہ پہنچے۔
ہمارا ایک چھوٹا سا گھر جس میں تین، چار افراد ہوں وہ بھی مختلف گھریلو مسائل اور ضروریات زندگی پر باہمی مشاورت کے بغیرنہیں چل پاتا، تو ایک 20 کروڑ کی ریاست کیسے چل سکتی ہے ؟
اٹھارہ بیس کروڑ کی آبادی والی ایک ایسی ریاست جس میں زبان، نسل، مسلک اور صوبائیت کو دن دگنی رات چگنی ترقی دینے والے مداری روزانہ نت نئے تماشے لگائے عوام کو الجھائے رکھتے ہوں، وہاں کسی اچھے کام کا فیض پہنچ بھی کیسے پائے۔
ایسی ریاست میں حکومت کرنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے جب اس کے اردگرد موجود ممالک میں دوست کم اور موقع کی تاک میں رہنے والے زیادہ ہوں۔ کوئی بھی ریاست اتنی بڑی آبادی کو پچاس ساٹھ فیصد بھی مطمئن نہیں کر سکتی اور ہم انسان تو ہیں ہی ناشکرے۔ مل جائے تب بھی ڑوں ڑوں اور نا ملے تب بھی ۔۔۔۔۔۔۔