کپتان کی مشکل!!!!!

شیزان

لائبریرین
2584_21719079.jpg
بشکریہ: روزنامہ"دنیا"​
17 اپریل- 2013​
 

شیزان

لائبریرین
لو اب وہ بھی کہہ رہے ہی کہ کپتان ۔۔۔ :p کیا الیکش سے قبل ہی کھیل ختم ہوگیا؟ :)
ہارون الرشید اور حسن نثار کے کالمز پڑھنے کے بعد تو ایسا ہی لگ رہا ہے۔۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جو آنکھیں بند کر کے کپتان کی حمایت میں بولتے رہے ہیں۔
 

زبیر مرزا

محفلین
پروفیسر رفیق اختر والی بات چونکا دینے والی ہے - ہم نے تو خیر کپتان صاحب کو انسان جانا ہے
وہ انسان جو خطا کا پُتلا ہے - بہرحال بہتری کی اُمید کی جاسکتی ہے
 

ساجد

محفلین
تحریک انصاف کیخلاف پراپیگنڈہ!
اگر آپ عمران خان کے ساتھ مخلص ہوتے تو اسے پراپیگنڈہ نہ کہتے۔ آپ کی بات سے "بے وقوف دوست سے دانا دشمن اچھا" والی بات یاد آ گئی۔ ہم بھی عمران کے دوست تھے لیکن بے وقوف نہ تھے اور اب "دشمنی" بھی عقل سے کرتے ہیں جذبات سے نہیں۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
السلام علیکم حالیہ دنوں میں محترم ہارون رشید صاحب اور چولٹھ حسن نثار کی پی ٹی آئی کے ٹکٹنگ پروسیس پر مشتمل کالمز کا بہترین جواب ایک صاحب نے دیا ہے جو کہ میں درج ذیل میں شئر کرنے جارہا ہوں یون سمجھئیے کہ موصوف نے میری سوچ کو زباں دے دی آپ بھی پڑھیئے اور سر دھنیئے ۔۔والسلام
دو مُلاّؤں میں مُرغی

ایک دیہاتی کی بیٹی اپنے محبوُب کےساتھ بھاگ گئی تو صُبح اُسکی خالی چارپائی دیکھ کر اُس کے باپ نے افسردگی سے کہا تھا، میری نیک اختر تو ولی اللہ تھی، اسے پہلے سے اِس حادثے کی خبر تھی ۔ ۔ ۔ ۔ کئی دِنوں سے اُٹھتے بیٹھتے کہتی تھی اگلے چند دِنوں میں اِس گھر سے ایک جی (فرد) کم ہو جائے گا اور دیکھ لو آج وہی ہو گیا۔
اِس تاریخی جُملے کا ماڈرن ورژن ھارون الرشید صاحب نے یوں پیش کیا کہ آپ تیس اکتوبر کے بعد متعدد بار لِکھ چُکے تھے کہ عمران خان پر الیکشن سے ذرا پہلے میڈیا کی ایسی منفی یلغار ہوگی کہ مثال ڈھونڈنے سے نہ مِلے گی ۔ ۔ ۔ بالآخر اُنہوں نے اپنی پیش گوئی سچ ثابت کر دِکھائی واقعی مثال نہیں مِلتی کہ ھارون صاحب بھی ایسے ہو جائیں گے۔ حسن نثار صاحب بھی اِسی ذیل میں آتے ہیں۔ خورشید ندیم صاحب کا کالم بھی اِس تسلسل کا حصہ ہے۔ ندیم صاحب کے ایک پُرانے قاری اور سامع کی حیثیت سے اِنکے خیالات سے مناسب حد تک آگاہی اور بہت حد تک اُن سے اتفاق کے باوجود عرض ہے کہ یہ بیس دِن ایسے تجزیوں اور اپنے کہے سمجھے کو درست ثابت کرنے کے نہیں ہیں بلکہ اُس موج کو بڑھنے دیں جو عمران خان صاحب نے پیدا کی ہے یہ کیا نتائج لے کر آتی ہے اُس پر ثقیل اور عمومی ناقابلِ فہم دلائل باری اور الفاظ سے کارو کاری سے اجتناب فرمائیں تو بہتوں کا بھلا ہونے کا اِمکان ہے ورنہ لِکھے کو کون ٹال سکتا ہے۔ دیہاتی کی بیٹی کے مانند آپکی ولائت سے کِسے تابِ انکار ہے۔

یہاں مبصرین کی کثیر تعداد نہ یوں جینے دیتی ہے نہ توں۔ ھارون الرشید صاحب رشید بھٹیوں، شیخ رشیدوں اور شاہ محمود قریشیوں سے دامن چھُڑا کر جماعتِ اسلامی سے دامن گیر ہو کر ایم کیو ایم سے پنجہ آزمائی پر مُصر ہیں تو حسن نثار صاحب بالکُل ہی برعکس اِن سب حضرات کے کھونٹے سے بندھے رہنے لیکن جماعت سے کنی کترا کر پی ٹی آئی کا سر ایم کیو ایم کے اوکھلو میں دینے کو فلاح بتاتے ہیں۔ ھارون صاحب کہتے ہین ایم کیو ایم کے خلاف لڑو، حسن نثار صاحب فرماتے ہیں اُن کیساتھ مِل کر لڑو ۔ ۔ ۔ ۔ اِس ’’معمولی سے فرق‘‘ کے باوجود اِس بات پر اتفاق ہے کہ عمران خان صاحب کی ٹکٹوں کی تقسیم کاری غلط ہے۔ خان صاحب کو سیاست آتی تو وہ ایک کو تو راضی رکھتے لیکن اُنہوں نے دونوں ہی مگر لگا لیئے۔

خورشید ندیم صاحب اور بہت سے ماہرینِ سماج کے مطابق پی ٹی آئی میں اکثریت اناڑی ہیں جیت نہیں سکتے۔ پُرانے پاپی جیت سکتے ہیں لیکن تبدیلی نہیں لا سکتے۔ مذہبی لوگ سیاست میں نہ آئیں، سیاسی لوگ مذہب میں نہ گھُسیں، زبان، ذات برادی اور دھڑے بندی کی سیاست نے حقیقی جمہوریت کا ستیاناس کر دیا ہے، کوئی اللہ کا بندہ اِس جمود کو توڑے، تبدیلی کا نعرہ زن ہو کر اُٹھے اور کاخ اُمراء کے در و دیوار ہِلا دے، بلکہ گِرا دے لیکن یہ کام اِس درجہ احتیاط اور رازداری سے کیا جائے کہ جی ایچ کیو کو بھی کانوں کان خبر نہ ہونے پائے ورنہ سب کو کھدیڑ کر یہ کام وہ خود سنبھال لیتے ہیں وغیرہ وغیرہ

فی الحال نہ اِن حضرات کی نیک نیتی موضوع ہے نہ دلائل سے سروکار کیونکہ الیکشنز میں بیس دن باقی ہیں۔ ہمارے آپکے بزرگوں نے جیسا لنگڑا، لوُلہا، بے بصیرت، بے بصارت، پسماندہ سا معاشرہ ہمارے حوالے کیا ہے خان صاحب نے اُس حاضر مال میں سے پوری دیانتداری اور جاںفشائی سے جو مناسب سمجھا آپ کی خدمت میں پیش کر دیا ہے اب قلم گھسائی کی بجائے گیارہ مئی کو رائے ونڈیوں کو ووٹ ڈال آؤ یا نواب شاہیوں کو، بھتہ خوروں کو یا دینی چوروں کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اِن میں سے اگر دِل نہیں مانتا تو ایک اُمید کی کِرن اُبھر رہی ہے اُسے روشن صبح بننے دو، اُجالا ہونے دو۔ واپس آ کر پہلوں نے جو تباہی کرنی ہے اُسکی گارنٹی ہے نئے جو بُرا بھلا کر سکتے ہیں اُسکا امکان ہے چناچہ ووٹ دے کر سائیڈ پکڑو کہ کِس طرف ہونا ہے۔ الیکشنز والے دِن اپنے حکمران منتخب کرنے کے فیصلے کوچوانوں، دہقانوں، ان پڑھوں، مضارعوں، گھی آٹا لے کر ووٹ دینے والے مجبوروں کے حوالے کر کے گھر میں ٹی وی کے سامنے فون پکڑ کر بیٹھے اپنی پُر مغز پیش گوئیوں کے درست ہونے پر پھُولے نہ سمانا اور مزید تبصروں کیلئے نیوز چینلز سے آنے والی کالز کا انتظار کرتے رہنا۔ باقی پانچ سال اِن حُکمرانوں کا ماتم کرنے اور اُن کی نالائقیوں پر وہی تبصرہ آرائی میں خرچ کرتے رہنا جو اب تک تسسل کے ساتھ کرتے کرتے تُمھارا پیشہ بن چُکا۔ سادہ، سیدھی بات ہے حصہ ڈالو یا دوسروں کا دیا وصول کرنے کیلئے تیار رہو۔

قصہ کوتاہ، آپکی سب باتیں درست ہونگی لیکن درست باتین کرنے کا یہ سب سے غلط وقت ہے۔
یہاں آراء کا انبار ہے عمل کا بحران ہے اور پیارا پاکستان ہے۔
 

زرقا مفتی

محفلین
کچھ کالم نگاروں کا خیال ہے کہ وہ بادشاہ گر ہیں ۔ لوگوں کی رائے بنا اور بگاڑ سکتے ہیں۔ اب میڈیا کا اور عمران خان کے ناقدین کا سارا زور اس بات پر ہے کہ وہ اکثریت حاصل نہیں کر سکے گا۔
عمران خان کا اپنا اسمِ اعظم ہے
ایاک نعبد و ایاک نستعین
اگر اللہ کی مدد شاملِ حال رہی تو سب اندازے تخمینے اُلٹ جائیں گے اور کامیابی اُس کا مقدر ہو گی انشاللہ
قوم کو اگر جھوٹے لُٹیروں اور ایک سیدھے سچے ایماندار مخلص انسان میں امتیاز کرنا نہیں آیا تو پہلے سے گہرے اندھیرے اس کا مقدر ہونگے
اگر آپ تبدیلی چاہتے ہیں تو خود اس کا آغاز کریں۔ خود سوچنا شروع کریں۔ خود قدم بڑھائیں ۔ مخلص ، دیانتدار ، تعلیم یافتہ اُمیدوار کو ووٹ دیں
 

زرقا مفتی

محفلین
فی الحال نہ اِن حضرات کی نیک نیتی موضوع ہے نہ دلائل سے سروکار کیونکہ الیکشنز میں بیس دن باقی ہیں۔ ہمارے آپکے بزرگوں نے جیسا لنگڑا، لوُلہا، بے بصیرت، بے بصارت، پسماندہ سا معاشرہ ہمارے حوالے کیا ہے خان صاحب نے اُس حاضر مال میں سے پوری دیانتداری اور جاںفشائی سے جو مناسب سمجھا آپ کی خدمت میں پیش کر دیا ہے اب قلم گھسائی کی بجائے گیارہ مئی کو رائے ونڈیوں کو ووٹ ڈال آؤ یا نواب شاہیوں کو، بھتہ خوروں کو یا دینی چوروں کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اِن میں سے اگر دِل نہیں مانتا تو ایک اُمید کی کِرن اُبھر رہی ہے اُسے روشن صبح بننے دو، اُجالا ہونے دو۔ واپس آ کر پہلوں نے جو تباہی کرنی ہے اُسکی گارنٹی ہے نئے جو بُرا بھلا کر سکتے ہیں اُسکا امکان ہے چناچہ ووٹ دے کر سائیڈ پکڑو کہ کِس طرف ہونا ہے۔ الیکشنز والے دِن اپنے حکمران منتخب کرنے کے فیصلے کوچوانوں، دہقانوں، ان پڑھوں، مضارعوں، گھی آٹا لے کر ووٹ دینے والے مجبوروں کے حوالے کر کے گھر میں ٹی وی کے سامنے فون پکڑ کر بیٹھے اپنی پُر مغز پیش گوئیوں کے درست ہونے پر پھُولے نہ سمانا اور مزید تبصروں کیلئے نیوز چینلز سے آنے والی کالز کا انتظار کرتے رہنا۔ باقی پانچ سال اِن حُکمرانوں کا ماتم کرنے اور اُن کی نالائقیوں پر وہی تبصرہ آرائی میں خرچ کرتے رہنا جو اب تک تسسل کے ساتھ کرتے کرتے تُمھارا پیشہ بن چُکا۔ سادہ، سیدھی بات ہے حصہ ڈالو یا دوسروں کا دیا وصول کرنے کیلئے تیار رہو۔


سو فیصد متفق
 

آبی ٹوکول

محفلین
شکر ہے اس حسن نثار جیسی چولٹھ سے تحریک انصاف کی جان چھوٹی جب سے اس نے تحریک انصاف کہ حمایت شروع کی تھی تحریک انصاف کہ ہمارے دوست تو بغلیں بجانا شروع ہوگئے تھے پر مجھے خطرہ محسوس ہونا شروع ہوگیا تھا کہ ہونہ ہو یہ "چولٹھ " بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے یا پھر شیہدوں میں اپنا نام لکھوانے کے لیے تحریک انصاف کی حمایت کررہا تھا شکر ہے کہ اب تحریک انصاف اس کے شر سے محفوظ ہوگئی اب تحریک نہ بھی جیتے تو کئی غم نہیں کم از کم حسن نثار جیسے اس جیت کا کریڈٹ لینے کہ حق دار تو نہ کہلائیں گے ۔۔والسلام
 

عمراعظم

محفلین
فی الحال نہ اِن حضرات کی نیک نیتی موضوع ہے نہ دلائل سے سروکار کیونکہ الیکشنز میں بیس دن باقی ہیں۔ ہمارے آپکے بزرگوں نے جیسا لنگڑا، لوُلہا، بے بصیرت، بے بصارت، پسماندہ سا معاشرہ ہمارے حوالے کیا ہے خان صاحب نے اُس حاضر مال میں سے پوری دیانتداری اور جاںفشائی سے جو مناسب سمجھا آپ کی خدمت میں پیش کر دیا ہے اب قلم گھسائی کی بجائے گیارہ مئی کو رائے ونڈیوں کو ووٹ ڈال آؤ یا نواب شاہیوں کو، بھتہ خوروں کو یا دینی چوروں کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اِن میں سے اگر دِل نہیں مانتا تو ایک اُمید کی کِرن اُبھر رہی ہے اُسے روشن صبح بننے دو، اُجالا ہونے دو۔ واپس آ کر پہلوں نے جو تباہی کرنی ہے اُسکی گارنٹی ہے نئے جو بُرا بھلا کر سکتے ہیں اُسکا امکان ہے چناچہ ووٹ دے کر سائیڈ پکڑو کہ کِس طرف ہونا ہے۔ الیکشنز والے دِن اپنے حکمران منتخب کرنے کے فیصلے کوچوانوں، دہقانوں، ان پڑھوں، مضارعوں، گھی آٹا لے کر ووٹ دینے والے مجبوروں کے حوالے کر کے گھر میں ٹی وی کے سامنے فون پکڑ کر بیٹھے اپنی پُر مغز پیش گوئیوں کے درست ہونے پر پھُولے نہ سمانا اور مزید تبصروں کیلئے نیوز چینلز سے آنے والی کالز کا انتظار کرتے رہنا۔ باقی پانچ سال اِن حُکمرانوں کا ماتم کرنے اور اُن کی نالائقیوں پر وہی تبصرہ آرائی میں خرچ کرتے رہنا جو اب تک تسسل کے ساتھ کرتے کرتے تُمھارا پیشہ بن چُکا۔ سادہ، سیدھی بات ہے حصہ ڈالو یا دوسروں کا دیا وصول کرنے کیلئے تیار رہو - متفق۔
 
Top