ربیع م
محفلین
کپوارہ قتل عام کے 22برس
27جنوری 1994 کی شام کپوارہ کےلئے شام غریباں ثابت ہوئی
اشرف چراغ
کپوارہ// 27جنوری جب آتا ہے تو ہر برس کپوارہ کے عوام اس بد نصیب دن کی یادو ں سے تڑپ کر رہ جاتے ہیں اور 27جنوری کی شام ان کے لئے شام غریباں ہوتی ہے ۔گزشتہ22برسو ں کے دروان کپوارہ ضلع میں ایسے دلدوز اور المناک واقعات رو نما ہوئے جن کا بھولنا کسی درد دل رکھنے والے انسان کے لئے مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن بھی ہے ۔ قصبہ میں فوج نے 22برس قبل اندھا دھند فائرنگ کر کے 27افراد کو قتل کر کے درجنو ں گھرانے اجاڑ دئے ۔اس سانحہ سے کپوارہ اور اس کے ملحقہ علاقہ جات کے درجنو ں گھرانے ایسے ہیں جو آج بھی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں جبکہ اس سے قبل وہ آرام اورچین کی زندگی گزار رہے تھے لیکن اس کرب و بلا کے بعد ان کا جینا محال بن گیا جس کے نتیجے میں ان کے اہل خانہ آج بھی اشک بار اور دل آزردہ ہیں ۔
واقعہ کیسے پیش آیا
27جنوری 1994چلہ کلان کی سردی سے لوگ ٹھٹھر گئے تھے، دکاندار اپنی دکانو ں کو کھو لنے میں مصروف تھے کہ اچانک 10بجکر45منٹ فوج کی جانب سے فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔لوگ اپناکارو بار چھوڑ کرافرا تفری کے عالم میں جان بچانے کے لئے محفوظ مقامات کی طرف بھا گنے لگے لیکن فوج نے اس قدر فائرنگ کی کہ خوف کی وجہ سے لوگو ں نے بس اڈے میں گا ڑیو ں کے نیچے پناہ لی اور جو جہا ں تھا وہا ں ہی زمین پر لیٹ گیا لیکن اقبال مارکیٹ ،جامع مسجد روڈ اور بائی پاس سڑکو ں سے راہ چلتے لو گو ں کو فوج نے براہ راست نشانہ بنایا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ سڑکیں انسانی خون سے لال ہوگئیں۔
عینی شاہدین
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ فوج نے زخمیو ں کے اسپتال لے جانے کی کوشش کو بھی فائرنگ کر کے ناکام بنا دیا۔اس سانحہ میں زندہ بچ جانے والے ایک چشم دید گو اہ غلام محمد جو ایک سرکاری ملازم ہے نے بتا یا کہ وہ اپنی ڈیو ٹی کی طرف جارہا تھا کہ ریگی پورہ کے پوسٹ سے کپوارہ کے بائی پاس ،اقبال مارکیٹ اور جامع مسجد سڑکو ں کو براہ راست نشانہ بنا گیا جس کے بعد میںنے بس اڈے کے نزدیک ایک بس کے نیچے پناہ لی۔انہوں نے بتا یا کہ فائرنگ کے بعد فوج کی بھاری جمعیت قصبہ میں داخل ہوگئی اور جن لو گو ں نے دکانو ں میں پناہ لی ان میں کئی کو باہر نکال کر گولیو ں سے بھون ڈالا۔انہوں نے مزید بتا یا کہ یہ واقعہ جب مجھے یاد آتا ہے تو میرے رو نگٹھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ایک اور چشم دید گواہ جو قصبہ کے بائی پاس پر دکانداری کرتا ہے ،نے بتا یا کہ 25جنوری کی شام کو ہی فوج نے تمام دکاندارو ںکو دھمکی دے رکھی تھی کہ26جنوری کو دکانیں نہیں کھولی گئی تو اس کی سزا آپ کو بھگتنی پڑے گی لیکن 26 جنوری کو وادی بھر میں مکمل ہڑتال تھی جس کی وجہ سے ٹرانسپورٹ سروس بھی متاثر ہوئی۔انہو ں نے بتا یا کہ 27جنوری کو جب وہ حسب معمول کپوارہ پہنچ گئے تو اپنی دکانیں کھولنے لگے تو زور دار فائرنگ ہوئی اور بھاگتے ہوئے ایک مکان میں گھس گیا۔انہو ں نے بتا یا کہ جب فائرنگ کا سلسلہ رک گیا ور لو گو ں نے راحت کی سانس لی ،میں باہر نکلا تو ہر طرف انسانی لا شو ں کے ڈھیر لگ گئے تھے۔کئی لو گو ں نے بتا یا کہ فوج اور پولیس کے ما بین کئی روز سے عام شہریو ں کو ہرا سان کرنے کی پاداش میں محاذ آرائی چل رہی تھی اور نوبت ہاتھا پائی پر بھی پہنچ گئی اور اس محاذ آرائی میں 25جنوری کواس وقت شدت آگئی جب ایک فوجی گا ڑی ایک بزرگ شہری کو کچلنے جارہی تھی جس پر پولیس کے ایک کانسٹیبل اور ایک فوجی آفیسر کے درمیان لڑائی ہوئی۔26جنوری کو فوج کے غصہ میں مزید اضا فہ ہو اجو انہو ں نے فائرنگ کر نہتے 27شہریو ں پر اتارا اور انہیں 27جنوری کے روز گولیو ں سے بھون ڈالا۔ایک پولیس آفیسر جو آج ریٹا ئر ہوچکے ہیں، نے بتا یا کہ 31میڈیم ریجمنٹ سے وابستہ فوجی اہلکارو ں نے فیلڈ آفیسر ایس بخشی جو روڑ اوپنگ پارٹی کی سر براہی کر رہا تھا ، کی ہدایت پر ریگی پورہ ،ملہ پوسٹ اور دیگر مقامات سے براہ راست لو گو ں پر فائرنگ کرکے 27افراد کو جا ں بحق کیا۔جس کے بعد لو گو ں نے مظاہرے کئے۔انہو ں نے بتا یا کہ پولیس نے فوری طور ایک کیس زیر ایف آئی آر نمبر 13/1994US302,307درج کی جس کے بعد تحقیقات شروع ہوئی۔انہو ں نے بتا یا کہ 1997تک اس کیس کی شنوائی ہوئی اور اس میں ملوث اہلکارو ں کی نشاندہی بھی ہوئی۔لواحقین نے بتا یا کہ 21برس گزر گئے لیکن ان کے ساتھ کوئی بھی انصاف نہیں کیا گیا کیونکہ واقعہ میں ملو ث فوجی اہلکارو ں کی نشاندہی بھی ہوئی۔
سی آئی ڈی رپورٹ
پولیس کی سی آئی ڈی ونگ نے اس حوالے سے جو رپورٹ مئی 2012میں پیش کی اس میں کہا گیا کہ تحقیقات کے دوران پتہ چلا کہ 27جنوری 1994کو کپوارہ بازار میں سیکنڈ لیفٹنٹ ایس بخشی کی سربراہی میں’ روڑ اوپننگ پارٹی‘ تعینات کی گئی تھی اور انہوں نے بلا کسی اشتعال کے بس اڈہ کپوارہ میں گولیاں چلائی جس کے نتیجے میں کئی افراد جاںبحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ پولیس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اس حوالے سے پولیس سٹیشن کپوارہ نے ایک ایف آئی آر زیر نمبر 19/94زیر دفعات 302,307اور 149آر پی سی کے تحت درج کیا گیا اور تحقیقات کے دوران 18افراد کی نعشیں بر آمدہوئی اور 38زخمی ہوئے تھے۔ سی آئی ڈ ی ونگ کی طرف سے انسانی حقوق کمیشن کے پاس پیش کئے گئے رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ تحقیقات کے دوران کئی شاہدین کے بیانات بھی قلم بند کئے گئے جس کے دوران یہ سامنے آیا کہ فوج کی این سی اے سے وابستہ روڑ اوپننگ پارٹی کپوارہ سانحہ کیلئے ذمہ دار ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ تحقیقات کے دوران اگرچہ کئی بار متعلقہ یونٹ سے گزارش کی گئی کہ روڑ اوپننگ پارٹی میں شامل اہلکاروں کی شناخت کی جائے تاہم مذکورہ یونٹ نے کوئی جانکاری نہیں دی۔ رپورٹ میں اس بات کو ظاہر کیا گیا کہ اس کے بعد 28انفنٹری ڈیو یژن کپوارہ کے کرنل ،جنرل سٹاپ سے بھی رابطہ قائم کیا گیا تاہم انہوں نے جوابی مکتوب میں کہاکہ فوج نے ا س حوالے سے پہلے ہی کوٹ آف انکوائری شروع کی ہے تاہم مذکورہ کوٹ مارشیل کے حتمی فیصلے سے آگاہ نہیں کیا گیا اور بعد میں فوج کی طرف سے تحقیقاتی عمل میں تعاون نہ کرنے کی وجہ سے 1997میں اس کیس کو بند کیا گیا۔ 2004میں اس کیس کو دو بارہ کھو لا گیا اور اس وقت کے ایڈیشنل ایس پی نے فوج سے ضروری تفصیلات فراہم کرنے کی استدعا کی لیکن فوج نے پولیس کی کوئی معاونت نہیں کی۔لواحقین نے اپنا یہ مطالبہ پھر دہرایا کہ اس کیس کو از سر نو کھول کر ملو ث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر ان کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔
27جنوری 1994 کی شام کپوارہ کےلئے شام غریباں ثابت ہوئی
اشرف چراغ
کپوارہ// 27جنوری جب آتا ہے تو ہر برس کپوارہ کے عوام اس بد نصیب دن کی یادو ں سے تڑپ کر رہ جاتے ہیں اور 27جنوری کی شام ان کے لئے شام غریباں ہوتی ہے ۔گزشتہ22برسو ں کے دروان کپوارہ ضلع میں ایسے دلدوز اور المناک واقعات رو نما ہوئے جن کا بھولنا کسی درد دل رکھنے والے انسان کے لئے مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن بھی ہے ۔ قصبہ میں فوج نے 22برس قبل اندھا دھند فائرنگ کر کے 27افراد کو قتل کر کے درجنو ں گھرانے اجاڑ دئے ۔اس سانحہ سے کپوارہ اور اس کے ملحقہ علاقہ جات کے درجنو ں گھرانے ایسے ہیں جو آج بھی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں جبکہ اس سے قبل وہ آرام اورچین کی زندگی گزار رہے تھے لیکن اس کرب و بلا کے بعد ان کا جینا محال بن گیا جس کے نتیجے میں ان کے اہل خانہ آج بھی اشک بار اور دل آزردہ ہیں ۔
واقعہ کیسے پیش آیا
27جنوری 1994چلہ کلان کی سردی سے لوگ ٹھٹھر گئے تھے، دکاندار اپنی دکانو ں کو کھو لنے میں مصروف تھے کہ اچانک 10بجکر45منٹ فوج کی جانب سے فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔لوگ اپناکارو بار چھوڑ کرافرا تفری کے عالم میں جان بچانے کے لئے محفوظ مقامات کی طرف بھا گنے لگے لیکن فوج نے اس قدر فائرنگ کی کہ خوف کی وجہ سے لوگو ں نے بس اڈے میں گا ڑیو ں کے نیچے پناہ لی اور جو جہا ں تھا وہا ں ہی زمین پر لیٹ گیا لیکن اقبال مارکیٹ ،جامع مسجد روڈ اور بائی پاس سڑکو ں سے راہ چلتے لو گو ں کو فوج نے براہ راست نشانہ بنایا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ سڑکیں انسانی خون سے لال ہوگئیں۔
عینی شاہدین
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ فوج نے زخمیو ں کے اسپتال لے جانے کی کوشش کو بھی فائرنگ کر کے ناکام بنا دیا۔اس سانحہ میں زندہ بچ جانے والے ایک چشم دید گو اہ غلام محمد جو ایک سرکاری ملازم ہے نے بتا یا کہ وہ اپنی ڈیو ٹی کی طرف جارہا تھا کہ ریگی پورہ کے پوسٹ سے کپوارہ کے بائی پاس ،اقبال مارکیٹ اور جامع مسجد سڑکو ں کو براہ راست نشانہ بنا گیا جس کے بعد میںنے بس اڈے کے نزدیک ایک بس کے نیچے پناہ لی۔انہوں نے بتا یا کہ فائرنگ کے بعد فوج کی بھاری جمعیت قصبہ میں داخل ہوگئی اور جن لو گو ں نے دکانو ں میں پناہ لی ان میں کئی کو باہر نکال کر گولیو ں سے بھون ڈالا۔انہوں نے مزید بتا یا کہ یہ واقعہ جب مجھے یاد آتا ہے تو میرے رو نگٹھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ایک اور چشم دید گواہ جو قصبہ کے بائی پاس پر دکانداری کرتا ہے ،نے بتا یا کہ 25جنوری کی شام کو ہی فوج نے تمام دکاندارو ںکو دھمکی دے رکھی تھی کہ26جنوری کو دکانیں نہیں کھولی گئی تو اس کی سزا آپ کو بھگتنی پڑے گی لیکن 26 جنوری کو وادی بھر میں مکمل ہڑتال تھی جس کی وجہ سے ٹرانسپورٹ سروس بھی متاثر ہوئی۔انہو ں نے بتا یا کہ 27جنوری کو جب وہ حسب معمول کپوارہ پہنچ گئے تو اپنی دکانیں کھولنے لگے تو زور دار فائرنگ ہوئی اور بھاگتے ہوئے ایک مکان میں گھس گیا۔انہو ں نے بتا یا کہ جب فائرنگ کا سلسلہ رک گیا ور لو گو ں نے راحت کی سانس لی ،میں باہر نکلا تو ہر طرف انسانی لا شو ں کے ڈھیر لگ گئے تھے۔کئی لو گو ں نے بتا یا کہ فوج اور پولیس کے ما بین کئی روز سے عام شہریو ں کو ہرا سان کرنے کی پاداش میں محاذ آرائی چل رہی تھی اور نوبت ہاتھا پائی پر بھی پہنچ گئی اور اس محاذ آرائی میں 25جنوری کواس وقت شدت آگئی جب ایک فوجی گا ڑی ایک بزرگ شہری کو کچلنے جارہی تھی جس پر پولیس کے ایک کانسٹیبل اور ایک فوجی آفیسر کے درمیان لڑائی ہوئی۔26جنوری کو فوج کے غصہ میں مزید اضا فہ ہو اجو انہو ں نے فائرنگ کر نہتے 27شہریو ں پر اتارا اور انہیں 27جنوری کے روز گولیو ں سے بھون ڈالا۔ایک پولیس آفیسر جو آج ریٹا ئر ہوچکے ہیں، نے بتا یا کہ 31میڈیم ریجمنٹ سے وابستہ فوجی اہلکارو ں نے فیلڈ آفیسر ایس بخشی جو روڑ اوپنگ پارٹی کی سر براہی کر رہا تھا ، کی ہدایت پر ریگی پورہ ،ملہ پوسٹ اور دیگر مقامات سے براہ راست لو گو ں پر فائرنگ کرکے 27افراد کو جا ں بحق کیا۔جس کے بعد لو گو ں نے مظاہرے کئے۔انہو ں نے بتا یا کہ پولیس نے فوری طور ایک کیس زیر ایف آئی آر نمبر 13/1994US302,307درج کی جس کے بعد تحقیقات شروع ہوئی۔انہو ں نے بتا یا کہ 1997تک اس کیس کی شنوائی ہوئی اور اس میں ملوث اہلکارو ں کی نشاندہی بھی ہوئی۔لواحقین نے بتا یا کہ 21برس گزر گئے لیکن ان کے ساتھ کوئی بھی انصاف نہیں کیا گیا کیونکہ واقعہ میں ملو ث فوجی اہلکارو ں کی نشاندہی بھی ہوئی۔
سی آئی ڈی رپورٹ
پولیس کی سی آئی ڈی ونگ نے اس حوالے سے جو رپورٹ مئی 2012میں پیش کی اس میں کہا گیا کہ تحقیقات کے دوران پتہ چلا کہ 27جنوری 1994کو کپوارہ بازار میں سیکنڈ لیفٹنٹ ایس بخشی کی سربراہی میں’ روڑ اوپننگ پارٹی‘ تعینات کی گئی تھی اور انہوں نے بلا کسی اشتعال کے بس اڈہ کپوارہ میں گولیاں چلائی جس کے نتیجے میں کئی افراد جاںبحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ پولیس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اس حوالے سے پولیس سٹیشن کپوارہ نے ایک ایف آئی آر زیر نمبر 19/94زیر دفعات 302,307اور 149آر پی سی کے تحت درج کیا گیا اور تحقیقات کے دوران 18افراد کی نعشیں بر آمدہوئی اور 38زخمی ہوئے تھے۔ سی آئی ڈ ی ونگ کی طرف سے انسانی حقوق کمیشن کے پاس پیش کئے گئے رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ تحقیقات کے دوران کئی شاہدین کے بیانات بھی قلم بند کئے گئے جس کے دوران یہ سامنے آیا کہ فوج کی این سی اے سے وابستہ روڑ اوپننگ پارٹی کپوارہ سانحہ کیلئے ذمہ دار ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ تحقیقات کے دوران اگرچہ کئی بار متعلقہ یونٹ سے گزارش کی گئی کہ روڑ اوپننگ پارٹی میں شامل اہلکاروں کی شناخت کی جائے تاہم مذکورہ یونٹ نے کوئی جانکاری نہیں دی۔ رپورٹ میں اس بات کو ظاہر کیا گیا کہ اس کے بعد 28انفنٹری ڈیو یژن کپوارہ کے کرنل ،جنرل سٹاپ سے بھی رابطہ قائم کیا گیا تاہم انہوں نے جوابی مکتوب میں کہاکہ فوج نے ا س حوالے سے پہلے ہی کوٹ آف انکوائری شروع کی ہے تاہم مذکورہ کوٹ مارشیل کے حتمی فیصلے سے آگاہ نہیں کیا گیا اور بعد میں فوج کی طرف سے تحقیقاتی عمل میں تعاون نہ کرنے کی وجہ سے 1997میں اس کیس کو بند کیا گیا۔ 2004میں اس کیس کو دو بارہ کھو لا گیا اور اس وقت کے ایڈیشنل ایس پی نے فوج سے ضروری تفصیلات فراہم کرنے کی استدعا کی لیکن فوج نے پولیس کی کوئی معاونت نہیں کی۔لواحقین نے اپنا یہ مطالبہ پھر دہرایا کہ اس کیس کو از سر نو کھول کر ملو ث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر ان کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔