کرشن چندر کچرا بابا ۔ کرشن چندر کا تحریر کردہ ایک شاہکار افسانہ

جب وہ ہسپتال سے باہر نکلا تو اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور اس کا سارا جسم بھیگی ہوئی روئی کا بنا معلوم ہوتا تھا اور اس کا جی چلنے کو نہیں چاہتا تھا وہیں فٹ پاتھ پر بیٹھ جانے کو چاہتا تھا۔قاعدے سے اسے ابھی تک ایک ماہ اور ہسپتال میں رہنا چاہیے تھا مگر ہسپتال والوں نے اس کی چھٹی کر دی تھی، ساڑھے چار ماہ تک وہ ہسپتال کے پرائیوٹ وارڈ میں رہا تھا اور ڈیڑھ ماہ تک جنرل وارڈ میں اس اثناء میں اس کا گردہ نکال دیا گیا تھا اور اس کی آنتوں کا ایک حصہ کاٹ کے آنتوں کے فعل کو درست کیاگیا تھا، ابھی تک اس کے کلیجے کا فعل راست نہیں ہوا تھا اسے ہسپتال سے نکل جانا پڑا، کیونکہ دوسرے لوگ انتظار کر رہے تھے، جن کی حالت اس سے بھی بدترتھی۔ ڈاکٹر نے اس کے ہاتھ میں ایک لمبا سا نسخہ دے دیا اور کہا یہ ٹانک پیو اور مقوی غذا کھاو¿، بالکل تندرست ہو جاﺅگے، اب ہسپتال میں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مگر مجھ سے چلا نہیں جاتا، ڈاکٹر صاحب؟ اس نے کمزور آواز میں احتجاج کیا، گھر جاو¿ چند دن بیوی خدمت کرے گی بالکل ٹھیک ہو جاﺅ گے، بہت ہی دھیرے دھیرے لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے فٹ پاتھ پر چلتے اس نے سوچا گھر؟ میرا گھر کہاں ہے؟ چند ماہ پہلے ایک گھر ضرور تھا ، ایک بیوی بھی تھی،جس کے ایک بچہ ہونے والا تھا، وہ دونوں اس آنے والے بچے کے تصور سے کس قدر خوش تھے، ہو گی دنیا میں زیادہ آبادی ، مگر وہ تو ان دونوں کا پہلا بچہ تھا۔ دلاری نے اپنے بچے کیلئے بڑے خوبصورت کپڑے سئیے تھے اور ہسپتال میں لاکر اسے دکھائے تھے اور ان کپڑوں کی نرم سطح پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ اپنے بچے کو بانہوں میں لے کر اسے پیار کر رہا ہوں، مگر پھر اگلے چند مہینوں میں بہت کچھ لٹ گیا، جب اس کے گردے کا پہلا آپریشن ہوا تو دلاری نے اپنے زیور بیچ دئیے کہ ایسے ہی موقعوں کے لئے ہوتے ہیں، لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ زیور عورت کے حسن کی افزائش کے لئے ہوتے ہیں، وہ تو کسی دوسرے درد کا مداوا ہوتے ہیں، شوہر کا آپریشن، بچے کی تعلیم، لڑکی کی شادی، یہ بینک ایسے ہی موقعوں کے لئے کھلتا ہے اور خالی کردیا جاتا ہے، عورت تو اس زیور کی تحویل دار ہوتی ہے اور زندگی میں مشکل سے پانچ چھ بار اسے اس زیور کو پہننے کی توفیق حاصل ہوتی ہے۔گردے کے دوسرے آپریشن سے پہلے دلاری کا بچہ ضائع ہوگیا، وہ تو ہوتو ہی دلاری کو دن رات جو کڑی مشقت کرنا پڑ رہی تھی، اس میں یہ خطرہ سب سے پہلے موجود تھا، ایسے لگتا جیسے دلاری کا یہ چھریرا سنہرا بدن اس قدر کڑی مشقت کے لئے نہیں بنایا گیا، اس لئے وہ دانا فرزانہ بچہ ہی میں سے کہیں لٹک گیا تھا، ناسازگار موحول دیکھ کر اور ماں باپ کی پتلی حالت بھانپ کر اس نے خود ہی پیدا ہونے سے انکار کر دیا، بعض بچے ایسے ہی عقلمند ہوتے ہیں، دلاری کئی دنوں تک ہسپتال نہیں آسکی، اور جب اس نے آکے خبر دی تو وہ کس قدر رویا تھا، اگر اسے معلوم ہوتا کہ آگے چل کر اسے اس سے کہیں زیادہ رونا پڑے گا، تو وہ اس حادثے پر رونے کے بجائے خوشی کا اظہار کرتا۔گردے کے دوسرے آپریشن کے بعد اس کی نوکری جاتی رہی، طویل علالت میں سہی ہوتا ہے، کوئی کہاں تک انتظار کرسکتا ہے، بیماری انسان کا اپنا ذاتی معاملہ ہے،اس لئے اگر وہ چاہتا کہ اس کی نوکری قائم رہے تو اسے زیادہ دیر تک بیمار نہ پڑنا چاہیے، انسان مشین کی طرح ہے، اگر ایک مشین طویل عرصے کے لئے بگڑی رہتی ہے تو اسے اٹھا کے ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے اور اس کی جگہ نئی مشین آجاتی ہے کیونکہ کام رک نہیں سکتا، بزنس بند نہیں ہوسکتا اور وقت تھم نہیں سکتا، اس لئے جس سے معلوم ہو کہ اس کی نوکری بھی جاتی رہی ہے تو اسے شدید دھچکا سا لگا، جسے اس کا دوسرا گردہ بھی نکال لیا گیا، اس دھچکے سے اس کے آنسو بھی خشک ہوگئے، اصلی اور بڑی مصیبت میں آنسو نہیں آتے، اس نے محسوس کیا صرف دل کے اند ایک خلا محسوس ہوتا ہے، زمین قدموں کے نیچے سے کھسکتی معلوم ہوتی اور رگوں میں خون کے بجائے خوف دوڑتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ کئی دنوں تک وہ آنے والی زندگی کے خوف اور دہشت سے سو نہیں سکا تھا، طویل علالت کے خرچے بھی طویل ہوتے ہیں، اور زیر بار کرنے والے ہولے ہولے گھر کی سب قیمتی چیزیں چلی گئیں، مگر دلاری نے ہمت نہیں ہاری، اس نے ساڑھے چار ماہ تک ایک ایک چیز بیچ دی اور آخر میں نوکری بھی کرلی، وہ ایک فرم میں ملازم ہوگئی تھی، اور روز اپنی فرم کے مالک کو لے کر ہسپتال بھی آتی تھی، وہ ایک دبلا پتلا، کوتاہ قد، ادہیڑ عمر کا شرمیلا آدمی دکھائی دیتا تھا، کم گو اور میٹھی مسکراہٹ والا، صورت شکل سے وہ کسی بڑی فرم کا مالک ہونے کے بجائے کتابوں کی کسی دکان کا مالک معلوم ہوتا تھا،دلاری اس کی فرم میں سو روپے مہینے پر نوکر ہوگئی تھی، چونکہ وہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھی، اس لئے اس کا کام لفافوں پر ٹیکٹس لگانا تھا۔ یہ تو بہت آسان کام ہے؟ دلاری کے شوہر نے کہا۔ فرم کا باس بولا کام تو آسان ہے، مگر جب دن میں پانچ چھ سو خطوں پر ٹکٹس لگانی پڑیں تو اسی طرح کا کام بہت آسان کام کے بجائے بہت مشکل کام ہوجاتا ہے۔ اور وہ اس منزل سے گزر چکا تھا جس کا وہ کسی کو قصور وار نہیں ٹھہراسکتا تھا، اتنی چوٹیں پے در پے اس پر پڑی تھیں کہ وہ بالکل بوکھلا گیا، بالکل سناٹے میں آگیا وہ باطل دم بخور تھا، اب اس کی مصیبت اور تکالیف میں کسی طرح کا کوئی جذبہ یا آنسو نہیں رہ گیا تھا، بار بار ہتھوڑے کی زربیں کھا کھا کراس کا دل دھات کے ایک پترے کی طرح بے حس ہوگیا، اس لئے آج جب اسے ہسپتال سے نکالا گیا تو اس نے ڈاکٹر کوکسی ذہنی تکلیف کو دور کرنے کی شکایات نہیں کی تھی، اس نے اس سے یہ نہیں کہا تھا کہ اب وہ اس ہسپتال سے نکل کر کہاں جائے گا؟اب اس کا کوئی گھر نہیں تھا،کوئی بیوی نہیں تھی،کوئی بچہ نہیں،کوئی نوکری نہیں، اس کا دل خالی تھا، اس کی جیب خالی تھی، اور اس کے سامنے ایک خالی اور سپاٹ مستقبل تھا۔ مگر اس نے یہ سب کچھ نہیں کہا تھا،اس نے صرف یہ کہا تھا؟ ڈاکٹر صاحب مجھ سے چلا نہیں جارہا ہے، بس یہی ایک حقیقت تھی جو اسے اس وقت یاد تھی، باقی ہر بات اس کے دل سے محو ہوسکتی ہے، اس وقت چلتے چلتے وہ صرف یہ محسوس کر سکتا تھا کہ اس کا جسم گیلی روئی کا بنا ہوا ہے ،اس کی ریڑھ کی ہڈی کسی پرانی شکستہ چارپائی کی طرح چٹخ رہی ہے، دھوپ بہت تیز ہے، روشنی نشتر کی طرح چبھتی ہے، آسمان پر ایک میلے اور پیلے رنگ کا وارنش پھرا ہوا اور فضا میں تاریک تر کرتے اور چستیاں سی غلیظ مکھیوں کی طرح بھنبھنار رہی ہیں اور لوگوں کی نگاہیں بھی گندے لہو اور پیپ کی طرح اس کے جسم سے چسپا کر رہ جاتیں، اسے بھاگ جانا چاہیے، کہیں ان لمبے الجھے بجلی کے تاروں والے کھمبوں اور ان کے درمیان گڈ مڈ ہونے والے راستوں سے کہیں دور تھا، اپنا بھائی بھی یاد آیا جو افریقہ میں تھا، سن سن سن ایک ٹرام اس کے قریب سے اندر گھستی چلی جار رہی تھی اور پوری ٹرام کو اپنے جسم کے اندر چلتا ہوا محسوس کرسکتا تھا، اسے ایسا محسوس ہوا جسیے وہ کوئی انسان نہیں ہے ایک گھسا پٹہ راستہ ہے۔ دیر تک وہ چلتا رہا، ہانپتا رہا اور چلتا رہا، اندازے سے ایک موہوم سمت کی طرف چلتا رہا، جدھر کبھی اس کا گھر تھا، حالانکہ اسے معلوم تھا کہ اب اسکا کوئی گھر نہیں ہے، مگر وہ جانتے ہوئے بھی ادھر ہی چلتا رہا، گھر جانے کی عادت سے مجبور ہو کر مگر دھوپ بہت تیز تھی، اس کے سارے جسم میں چیونٹیاں سی رینگ رہی تھیں، اور وہ کسی مسافر سے راستہ ہی پوچھ کے،معلوم کر لے یہ شہر کا کونسا حصہ ہے، ہولے ہولے اس کے کانوں میں ٹراموں اور بسوں کا شور بڑھنے لگا، نگاہوں میں دیواریں ٹیڑھی ہونے لگیں، عمارتیں گرنے لگیں، بجلی کے کھمبے گڈ مڈ کرنے لگے، پھر اس کی آنکھوں تلے اندھیرا اور قدموں تلے بھونچال سا آیااور وہ یکا یک زمین پر گر پڑا۔ جب ہوش میں آیا تو رات ہو چکی تھی، ایک نیم خنک سا اندھیرا چاروں طرف چھایا ہوا تھا، اس نے آنکھیں کھول کردیکھا کہ جس جگہ پر گرا تھا اب تک وہیں پڑا ہے، یہ فٹ پاتھ ایک ایسا تھا جس کے عقب میں دو طرفہ دو دیواریں تھی دوسری شمال سے مغرب کو، اور وہ دونوں دیوروں کے اتصال پر لیٹاہوا تھا، یہ دونوں دیوریں کوئی چار فٹ کے قریب بلند تھیں، یہاں پر امرود اور جامن کے پیڑ تھے اور ان پیڑوں کے پیچھے کیا تھا وہ اسے اس وقت تک نہیں نظر نہیں آیا تھا،دوسری طرف مغربی دیوار کے سامنے پچیس تیس فٹ کا فاصلہ چھوڑ کر ایک پرانی عمارت کا عقب تھا، سہ منزلہ عمارت تھی اور منزل میں پیچھے کی طرف صرف ایک کھڑکی تھی اور چھ بڑے عقبی پائپ تھے، عقبی پائپ اور مغربی دیوار کے بیچ میں پچیس تیس فٹ چوڑی ایک اندھی گلی بن گئی تھی، جس کے تین طرف دیوار تھی اور چوتھی طرف سڑک تھی، کہنیوں پر زور دے کر ذرا سا اوپر اٹھا کر اور ادھر ادھر دیکھنے لگا، سڑک بالکل خالی تھی، سامنے کی دکانیں بند تھیں اور فٹ پاتھ کے اندھے سالوں میں کہیں کہیں بجلی کے کمزور بلب جھلملا رہے تھی، چند لمحوں کے لئے اسے یہ ٹھنڈی تاریکی بہت بھلی معلوم ہوئی چند لمحوں کے لئے اس نے اپنی آنکھیں بند کرکے سوچا شاید وہ کسی مہربان سمندر کے پانیوں میں ڈوب رہا ہے۔ مگر اس احساس سے وہ اپنے آپ کو صرف چند لمحوں تک دھوکہ دے سکے کیونکہ اب اس نے محسوس کرلیا کہ اس پر شدید بھوک طاری ہوچکی ہے، چند لمحوں کی خوشگوار خنکی کے بعد اس نے محسوس کرلیا کہ وہ شدید طور پر بھوکا ہے، جس سے اس کی آنتوں کے فعل کو بیدار کرکے اس کے ساتھ کسی طرح کی بھلائی نہیں کی، اس کے معدے کے اندر عجیب اینٹھن سی ہو رہی تھی اور آنتیں اندر ہی اندر تڑپ تڑپ کر روٹی کا سوال کر رہی تھیں اور اس وقت اس کے نتھنے کسی شہری انسان کے نتھنوں کی طرح نہیں کسی جنگلی جانور کے نتھنوں کی طرح کام کر رہے تھے، عجیب عجیب سی بوئیں اس کی ناک میں آرہی تھیں، بوﺅں کی ایک سمفنی تھی جو اس کے احساس پر پھیلی ہوئی تھی اور حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ اس سمفنی کے ایک ایک سرے کا الگ الگ وجود پہچان سکتا تھا، یہ جامن کی خوشبو ہے، یہ امرود کی ، یہ رات کی رانی کے پھولوں کی، یہ تیل میں تلی ہوئی پوریوں کی، یہ پیاز اور لہسن میں بگھارے ہوئے آلوو¿ں کی، یہ مولی کی ، یہ ٹماٹر کی، یہ کسی سڑے گلے پھل کی، یہ پیشاب کی، یہ پانی میں بھیگی ہوئی مٹی کی جو غالباً بانسوں کے جھنڈ سے آرہی ہے۔ وہ ہر بو کی نوعیت، شدت، سمت اور فاصلے تک کا اندازہ کرسکتا ہے، یکایک اسے یہ احساس بھی ہوا اور وہ اس بات پر چونکا بھی کہ کس طرح سے بھوک نے اس منحفی قوتوں کو بیدار کردیا۔ مگر اس امر پر زیادہ غور کئے بغیر اس نے اس طرف گھسٹنا شروع کر دیا، جدھر سے اسے تیل میں تلی ہوئی پوریوں اور لہسن سے بگھارے ہوئے آلوو¿ں کی بو آئی تھی، وہ دھیرے دھیرے اندھی گلی کے اندر گھسٹنے لگا، کیونکہ وہ اپنے جسم میں چلنے کی سکت بالکل نہیں پاتا تھا، پھر اسے ایسا محسوس ہوتا جیسے کوئی دھوبی اس کی آنتوں کو پکڑ کر مروڑ رہا ہے، پھر اس کے نتھنے میں پوریوں اور آلو کی آشتہا بو آئی اور وہ بے قرار ہو کر ادھ مندھی آنکھوں سے اپنے تقریبابے جان سے جسم کو ادھر گھسیٹنے کی کوشش کرتا،جدھر سے آلو ، پوری کی بو آرہی تھی، کچھ عرصے کے بعدجب وہ اس جگہ پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ مغربی دیوار اور اس کے سامنے کی پچھواڑے کے پائیوں کے درمیان پچیس تیس فٹ کے فاصلے میں مستطیل نما کچرے کا ایک بہت بڑا کھلا آہنی ٹب رکھا ہے۔ یہ ٹب کوئی پندرہ فٹ چوڑا ہوگا اور تیس فٹ لمبا اور اس میں طرح طرح کا کوڑا کرکٹ بھرا ہے گلے سٹرے پھلوں کے چھلکوں اور ڈبل روٹیوں کے غلیظ ٹکڑے اور چائے کی پتیاں اور ایک پرانی جیکٹ اور بچوں کے گندے پوتڑے اور انڈے کے چھلکے اور اخبار کے ٹکڑ اور رسالوں کے پھٹے اوراق اور روٹی کے ٹکڑے اور لوہے کی لونیاں اور پلاسٹک کے ٹوٹے ہوئے کھلونے اور مٹر کے چھلکے اور پودینے کے پتے اور کیلے کی چھلکوں پر چند ادھ کھائی پوریاں۔۔۔۔۔۔۔اور الو کی بھاجی، پوریوں اور آلو کی بھاجی کو دیکھ کرگویا اس کی آنتیں ابل پڑیں، اس چند لمحوں کے لئے اپنے بے قرار ہاتھ روک لئے، مگر دوسری بدبوو¿ں کے مقابلے میں اس کے نتھنوں میں اگلے چند ثانیوں تک پوری اور بھاجی کو دیکھ کی اشتہار آمیز خوشبو اسی طرح تیز تر ہوگئی جیسے کسی سمفنی میں یکایک کوئی خاص سر ایک دم اونچے ہوجاتے ہیں اور یکا یک تہذیب کی آخری دیواریں ڈھے گئیں اور اس کے کانپتے ھوئے بے قرار ہاتھوں نے کیلے کے اس پتے کو دبوچ لیا اور وہ اک وحشیانہ گرسنگی سے متاثر ہو کر ان پوریوں پر ٹوٹ پڑا۔ پوری بھاجی کھاکے اس نے کیلے کے پتے کو بار بار چاٹا اور ایسے شفاف کر کے چھوڑ دیا، جیسے قدرت نے اسے بنایا تھا، پتے چاٹنے کے بعد اس نے اپنی انگلیاں چاٹیں اور لمبے لمبے ناخنوں میں بھری ہوئی آلو کی بھاجی زبان کی نوک سے نکال کے کھائی اور جب اس سے بھی اس کی تسلی نہ ہوئی تو اس نے ہاتھ بڑھا کر کوڑے کے ڈھیر کو گھنگھولتے ہوئے اس میں سے پودینے کے پتے نکال کر کھائے اور مولی کے دو ٹکڑے اور ایک آدھا ٹماٹر اپنے منہ میں ڈال کر مزے سے اس کا رس پیا اور وہ سب کچھ کھا چکا تو اس کے سارے جسم میں نیم گرم غنودگی کی اک لہر اٹھی اور وہ وہیں ٹب کے کنارے گر کر سوگیا۔ آٹھ دس روز اسی نیم غنودگی اور نیم بے ہوہوشی کے عالم میں گزرے، وہ گھسٹ گھسٹ کر ٹب کے قریب جاتا اور جو کھانے کو ملتا کھالیتا اور جب اشتہا آمیز بوو¿ں کی تسکین ہوجاتی اور وہ دوسری گندی بوئیں ابھرنے لگتیں تو وہ گھسٹ گھسٹ کر ٹب سے فٹ پاتھ کے نکڑ پر چلا جاتا، اور عقبی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتا یا سو جاتا۔ پندرہ بیس روز کے بعد ہولے ہولے اس کے جسم میں طاقت ابھرنے لگی، ہولے ہولے وہ اپنے ماحول سے مانوس ہونے لگا، یہ جگہ کتنی اچھی ہے، یہاں دھوپ نہیں تھی، یہاں درختوں کا سایہ تھا ، اندھی گلی سنسان اور ویران تھی یہاں کوئی نہیں آتا تھا، کبھی کبھی عقبی عمارت سے کوئی کھڑکی کھلتی تھی اور کوئی ہاتھ پھیلا کر نیچے کے ٹب میں روز مرہ کا کوڑا پھینک دیتا تھا، یہ کوڑا جو اس کا روزی رساں تھا، اس کے شب و روز کا رازق تھا، اس کی زندگی کا محافظ تھا، دن میں سڑک چلتی تھی، دکانیں کھلتی تھیں، لوگ گھومتے تھے، بچے ابابیلوں کیءطرح چہکتے ہوئے سڑک سے گزر جاتے تھے، عورتیں رنگین پتنگوں کی طرح ڈولتی ہوئی گزر جاتی تھیں، لیکن یہ ایک دوسری دنیا تھی، اس دنیا میں اس کا کوئی علاقہ نہ تھا، اس دنیا میں اب اس کا کوئی نہ تھا، اور وہ اس کے لئے موہوم سائے بن گئے اور اس سے باہر میدان اور کھیت اور کھلا آسمان ایک بے معنی تصور، گھر، کام کاج،زندگی سماج،جدوجہد بے معنی الفاظ جو گل سڑ کر اس کوڑے کچرے کے ڈھیر میں مل کر غتر بود ہوگئے، اس دنیا سے اس نے منہ موڑ لیا تھا اور اب یہی اس کی دنیا تھی،پندرہ فٹ لمبی اور تیس فت چوڑی۔ ماہ و سال گزرتے گئے اور اس نکٹر پر بیٹھا بیٹھا ایک پرانے ٹھنٹھہ کی طرح اور کسی پرانی یاد گار کی طرح سب کی نظروں میں مانوس ہوتا چلاگیا وہ کسی سے بات نہیں کرتا تھا کسی کو فیض نہیں پہنچاتا تھا، کسی سے بھیک نہیں مانگتا تھا، لیکن اگر وہ کسی دن وہاں سے اٹھ کر چلا جاتا تو اس علاقے کے ہر فرد کو اس امر پر حیرت ہوتی اور شاید کسی قدر تکلیف بھی ہوتی۔ سب لوگ اسے کچرا بابا کہتے تھے، کیونکہ یہ سب کو معلوم تھا کہ وہ صرف کچرے کے ٹب میں سے اپنی خوراک نکال کر کھاتا ہے اور جس دن اسے وہاں سے کچھ نہ ملتا وہ بھوکا ہی سو جاتا، برسوں سے راہ گیر اور ایرانی رسٹوران والے اس کی عادت کو پہچان گئے تھے، اور اکثر عمارت کی عقبی کھڑکیوں سے اب کوڑے کے علاوہ خوردہ نوش کی دوسری چیزیں بھی پھینکی جاتیں، صیح و سالم پوریاں اور بہت سی بھاجی اور گوشت کے ٹکڑے اور ادھ چوسے آم اور چٹنی اور کباب کے ٹکڑے اور کھیر میں لتھڑے ھوئے پتل، ناو¿نوش کی ہر نعمت کچرا بابا کو اس ٹب میں سے مل جاتی ہیں، کبھی کبھی کوئی پھٹا ہوا پاجامہ، کوئی ادھڑی ہوئی نیکر، کوئی تار تار شکتہ قمیض پلاسٹک کا گلاس، یہ کچرے کا ٹب کیا تھا، اس کے لئے ایک کھلا بازار تھا، جہاں وہ دن دہاڑے سب کی آنکھوں کے سامنے مڑ گشت کیا کرتا تھا، جس دکان سے جو سودا چاہتا مفت لیتا تھا، وہ اس بازار کا اس نعمت غیر مترقبہ کا واحد مالک تھا، شروع شروع میں چند بلیوں اور خارش زدہ کتوں نے شدید مزاحمت کی تھی، مگر اس نے مار مار کر سب کو باہر نکال دیا، اور اب اس کچرے کے ٹب کا واحد مالک تھا اور اور اس کے حق کو سب نے تسلیم کرلیا تھا، مہینے میں ایک بار میونسپلٹی والے آتے ہیں، اور اس ٹب کو خالی کرکے چلے جاتے تھے اور کچرا بابا ان سے کسی طرح کی مزاحمت نہیں کرتا تھا، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ دوسرے دن ٹب پھر اسی طرح بھرنا شروع ہوجائے گا اور اس کو اعتقاد تھا کہ اس دنیا سے نیکی ختم ہوسکتی ہے لیکن غلاظت ختم نہیں ہوسکتی رفاقت ختم ہوسکتی ہے، لیکن غلاظت اور گندگی کبھی ختم نہیں ہوسکتی، ساری دنیا سے منہ توڑ کر اس نے جینے کا آخری طریقہ سیکھ لیا تھا۔ مگر یہ بات نہیں ہے کہ اسے باہر کی دنیا کی خبر نہ تھی، جب شہر میں چینی مہنگی ہوجاتی تو مہینوں کچرے کے ٹب میں مٹھائی کے ٹکڑے کی صورت نظر نہیں آتی، جب گندم مہنگی ہو جاتی تو ڈبل روٹی کا ایک ٹکڑا تک نہ ملتا، جب سگریٹ مہنگے ہو تو تو سگریٹ کے جلے ہوئے ٹکڑے اتنے چھوٹے ملتے کہ انہیں سلگا کر پیا بھی نہیں جاسکتا۔ جب بھینگوں نے ہڑتال کی تھی تو مہینے تک اس کے ٹب کی کسی نے صفائی نہیں کی تھی،اور کسی روز اس کو ٹب میں اتنا گوشت نہیں ملتا تھا، جتنا بقر عید کے روز اور دیوالی کے دن توٹب کے مختلف کونوں سے مٹھائی کے بہت سے ٹکڑے مل جاتے تھے۔باہر کی دنیا کا کوئی حادثہ یا واقعہ ایسا نہ تھا۔ جس کا سراغ وہ کچرے کے ٹب سے دریافت نہ کرسکتا تھا، دوسری جنگ عظیم سے لے کر عورتوں کے خفیہ امراض تک، مگر باہر کی دنیا سے اب اسے کسی طرح کی کوئی دلچسپی نہ رہی تھی، پچیس سال تک وہ اس کچرے کے ٹب کے کنارے بیٹھا بیٹھا اپنی عمر گزار رہا تھا، شب و روز، ماہ و سال، اس کے سر سے ہوا کی لہروں کی طرح گزرتے گئے، اور اس کے سر کے بال سوکھ سوکھ کر ربٹر کی شاخوں کی طرح لٹکنے لگے، اس کی کالی داڑھی کھچڑی ہوگئی، اس کے جسم کا رنگ ملگجامٹ میلا اور سبزی مائل ہوتا گیا، وہ اپنے مضبوط بالوں، پھٹے چیتھڑوں اور بدبو دار جسم سے راہ چلتے لوگوں کو خود بھی کچرے کا ایک ڈھیر دکھائی دیتا تھا جو کبھی کبھی حرکت کرتا تھا اور بولتا تھا، کسی دوسرے سے نہیں صرف اپنے آپ سے زیادہ سے زیادہ کچرے کے ٹب سے۔ کچرا بابا ان لوگوں سے کچھ کہتا نہیں تھا، مگر انکی حیرت کو دیکھ کر دل میں ضرور سوچتا ہوگا کہ اس دنیا میں کون ہے جو کسی دوسرے سے گفتگو کرتا ہے اس دنیا میں جتنی گفتگو ہوتی ہے انسانوں کے درمیان نہیں ہوتی بلکہ صرف اپنی ذاتی اور اس کی کسی غرض کے درمیان ہوتی ہے، دوسروں کے درمیان جو بھی گفتگو ہوتی ہے وہ دراصل ایک طرح کی خود کلامی ہوتی ہے، یہ دنیا ایک بہت بڑا کچرے کا ڈھیر ہے جس میں سے ہر شخص اپنی غرض کا کوئی ٹکڑا، فائدے کا کوئی ٹکڑا، فائدے کا کوئی چھلکا یا منافع کا کوئی چیتھڑا دبوچنے کیلئے ہر وقت تیار رہتا ہے اورکہتا ہوگا یہ لوگ جو مجھے حقیر، فقیر یا ذلیل سمجھتے ہیں، ذرا اپنی روح کے پچھواڑے میں تو جھانک کر دیکھیں، وہاں اتنی غلاظت بھری ہے کہ جسے صرف موت کا فرشتہ ہی اٹھا کر لے جائے گا۔ اسی طرح دن پر دن گزرتے گئے ملک آزاد ہوئے، ملک غلام ہوئے حکومتیں آئیں، حکومتیں چلی گئیں، مگر یہ کچرے کا ٹب وہیں رہا اور اس کے کنارے بیٹھنے والا کچرا بابا اسی طرح نیم غنودگی میں بے ہوشی کے عالم میں دنیا سے منہ موڑے ہوئے زیر لب کچھ بد بداتا رہا کچرے کے ٹب کو گھنگھولتا رہا۔ تب ایک رات اندھی گلی میں جب وہ ٹب سے چند فت کے فاصلے پر دیوار سے پیٹھ لگائے اپنے پھٹے چیتھڑوں میں دبکا سورہاتھا، اس نے رات کے سناٹے میں ایک خوف ناک چیخ سنی اور وہ ہڑبڑا کر نیند سے جاگا، پھر اس نے ایک زور کی تیز چیخ سنی اور گھبراکر کچرے کے ٹب کی طرف بھاگا، جدھر سے یہ چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ کچرے کے ٹب کے پاس جاکر اس نے ٹٹولا ، تو اس کا ہاتھ کسی نرم نرم لوتھڑے سے جا ٹکرایا اور پھر ایک زور کی چیخ بلند ہوئی، کچرا بابا نے دیکھا کہ ٹب کے اندر ڈبل روٹی کے ٹکڑوں، چچوڑی ہوئی ہڈیوں، پرانے جوتوں، کانچ کے ٹکڑوں، آم کے چھلکوں، باسی دینیوں اور ٹھرے کی ٹوٹی ہوئی بوتلوں کے درمیان ایک نوزائیدہ بچہ ننگا پڑا ہے اور اپنے ہاتھ پاو¿ں ہلاہلا کر زور زور سے چیخ رہا ہے۔ چند لمحوں تک کچرا بابا حیرت میں ڈوبا ہوا جامد و ساکت اس ننھے انسان کو دیکھتا رہا جو اپنے چھوٹے سے سینے کی پوری قوت سے اپنی آمد کا اعلان کر رہاتھا، چند لمحوں تک وہ چپ چاپ ، پریشان، پھٹی پھٹی آنکھوں سےاس منظر کو دیکھتا رہا پھر اس نے تیزی سے آگے جھک کر کچرے کے ٹب سے اس بچے کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیا۔ مگر بچہ اس کی گود میں جاکر بھی کسی طرح چپ نہ رہا، وہ اس زندگی میں نیا نیا آیا تھا اور بلک بلک کر اپنی بھوک کا اعلان کر رہا تھا، ابھی اسے معلوم نہ تھا کہ غریبی کیا ہوتی ہے، مامتا کس طرح بزدل ہوجاتی ہے، زندگی کیسے حرام بن جاتی ہے، وہ کس طرح ملیے پیکٹ اور غلیظ بنا کرکچرے کے ٹب میں ڈال دی جاتی ہے، ابھی اسے یہ سب کچھ معلوم نہ تھا ابھی وہ صرف بھوکا تھا اور رو رو کر اپنے پیٹ پر ہاتھ مار رہا تھا۔ کچرا بابا کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ وہ کیسے اس بچے کو چپ کرائے اس کے پاس کچھ نہ تھا، نہ دودھ نہ چسنی، اسے تو کوئی لوری بھی یاد نہیں تھی، وہ بے قرار ہو کر بچے کو گود میں لے کر دیکھنے لگا اور تھپتھپانے لگا اور گہری نیند سے رات کے اندھیرے میں چاروں طرف دیکھنے لگا ، کہ اس وقت بچے کے لئے دودھ کہاں سے مل سکتا ہے، لیکن جب اسکی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تو اس نے جلدی سے کچرے کے ٹب سے آم کی ایک گھٹلی نکالی اور اس کا دوسرا سرا بچے کے منہ میں دے دیا۔ ادھ کھائے ہوئے آم کا میٹھا میٹھا رس جب بچے کے منہ میں جانے لگا تو وہ روتا روتا چپ ہوگیا اور چپ ہوتے ہوتے کچرا بابا کی بانہوں میں سو گیا، آم کی گھٹلی کھسک کر زمین پر جا گری اور اب بچہ اس کی بانہوں میں بے خبر سو رھا تھا، آم کا پیلا پیلا رس ابھی تک اس کے نازک لبون پر تھا اور اس کے نھنے سے ہاتھ نے کچرا بابا کا انگوٹھا بڑے زور سے پکڑ رکھا تھا۔ ایک لمحے کیلئے کچرا بابا کے دل میں خیال آیا کہ وہ بچے کو یہیں پھینک کر کہیں بھاگ جائے، دھیرے سے کچرا بابا نے اس بچے کے ہاتھ سے اپنے انگھوٹے کو چھڑانے کی کوشش کی،مگر بچے کی گرفت بڑی مضبوط تھی اور کچرا بابا کا ایسے محسوس ہوا جسیے زندگی نے اسے پھر سے پکڑ لیا ہے، اور دھیرے دھیرے جھٹکوں سے اسے اپنے پاس بلارہی ہے، یکایک اسے دلاری کی یاد آجاتی ہے، اور وہ بچہ جو اس کی کوکھ میں کہیں ضائع ہو گیا تھا اور یکا یک کچرا بابا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، آج سمندر کے پانیوں میں اتنے قطرے نہ تھے جتنے آنسو اس کی آنکھوں میں تھے، گزشتہ پچیس برسوں میں جتنی میل اور غلاظت اس کی روح پر جم چکی ہے وہ اس طوفان کے ایک ہی ریلے میں صاف ہوگئی۔ رات بھر کچرا بابا اس نوزائیدہ بچے کو اپنی گود میں لئے بے چین اور بے قرار ہو کرفت پاتھ پر ٹہلتا رہا اور جب صبح ہوئی اور سورج نکلا تو لوگوں نے دیکھا کہ کچرا بابا آج کچرے کے ٹب کے پاس نہیں ہے، بلکہ سڑک پار نئی تعمیر ہونے والی عمات کے نیچے کھڑا ہو کر اینٹیں ڈھو رہا ہے اور اس عمارت کے قریب گل مہر کے ایک پیڑ کی چھاو¿ں میں ایک پھولدارکپڑے میں لپٹتا اک ننھا بچہ منہ میں دودھ کی چسنی لئے مسکرا رہا ہے۔
 
کوئی بات نہیں شاہ صاحب ! وہ کیا ہے کہ خبر ہو جائے تو ایسی قیمتی تحریر چھوٹنے کا ڈر نہیں ہوتا نا :) :)
یہ افسانہ مدتوں پہلے سب رنگ ڈائجسٹ میں پڑھا تھا اس ڈائجسٹ میں ایک سلسلہ تھا اردو ادب کا عطر اور اس میں بہت شاہکار تحریریں شائع ہوا کرتی تھیں :)
 

نایاب

لائبریرین
کرشن چندر کی تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زندگی کے رازوں کی امین
یہ دنیا بلاشبہ کچرے کا ٹب۔۔۔ ۔ اور ہم سب اس کے گرد ڈیرہ ڈالے بھوک کے ستائے کچرا بابا کی مثال ۔۔
بہت دعائیں محترم سید بادشاہ
 
کرشن چندر کی تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زندگی کے رازوں کی امین
یہ دنیا بلاشبہ کچرے کا ٹب۔۔۔ ۔ اور ہم سب اس کے گرد ڈیرہ ڈالے بھوک کے ستائے کچرا بابا کی مثال ۔۔
بہت دعائیں محترم سید بادشاہ
بہت خوب تجزیہ :)
بہت سی دعائیں
 

قیصرانی

لائبریرین
سجنو چپ دا روزہ تے نئیں :)
تحریر پر تبصرہ کرنے کا موڈ تھا لیکن پھر سطر سامنے آ گئی تو انسان کے ناشکرا ہونے پر دل ہی نہیں چاہا کہ کچھ لکھوں :(
، شروع شروع میں چند بلیوں اور خارش زدہ کتوں نے شدید مزاحمت کی تھی، مگر اس نے مار مار کر سب کو باہر نکال دیا
 
Top