کچھ ادبی لطیفے۔ تشکر علی گڑھ اردو کلب

اکمل زیدی

محفلین
ساغر نظامی کی بہن بھی شاعرہ تھیں اور مینا تخلص رکھتی تھیں۔ ماجد حیدرابادی سے چونکہ ساغر صاحب کی چشمکیں چلتی رہتی تھیں اس لئے ساغر صاحب مشاعرے میں اس شرط پر جاتے تھے کہ ماجد صاحب کو نہیں بلایا جائے گا۔ ایک مشاعرے میں صدارت ساغر نظامی کی تھی۔ چونکہ ماجد صا حب مدعو نہیں تھے اس لئے وہ مشاعرہ سننے کے لئے سامعین میں آ کر بیٹھ گئے۔ لوگوں کو جب پتہ چلا تو سب نے شور مچا دیا کہ ماجد صاحب کو ضرور سنیں گے اور مجبورا” منتظمیں کو ماجد صاحب کو دعوت سخن دینی پڑی۔ ماجد صاحب مائک پر آئے تو کہنے لگے کہ چونکہ مجھے مدعو نہیں کیا گیا تھا اس لئے کوئی غزل ساتھ نہیں ہے البتہ دو شعر فی البدییہ کہے ہیں جناب صدر اجازت دیں تو پیش کروں۔ اجازت ملتے پر یہ دو شعر سنائے
پھر آ گیا ہے لوگو بر سا ت کا مہینا
لازم ہوا ہے اب تو سب کو شراب پینا
پہنچا جو میکدے میں حیران رہ گیا میں
الٹا پڑا تھا ساغر اوندھی پڑی تھی مینا
:laugh:
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ناصر کاظمی کتوں سے بہت ڈرتے تھے۔ کتے کو دور سے دیکھ کر راستہ بدل جاتے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ پیٹ میں آٹھ ٹیکے لگوانے سے بہتر ہے کہ آدمی اپنا سفر دو فرلانگ اور لمبا کر لے۔ انہوں نے چڑیوں‘ راستوں‘ گلیوں اور سڑکوں سے آشنائی پیدا کی مگر کتے سے راہ ورسم نہ بڑھا سکے۔ کبھی کبھی وہ اس خوف سے کسی نہ کسی کو اپنا ہم سفر بنا لیتے تھے جو انہیں گھر تک پہنچا آئے۔
شدید سردی کا موسم تھا۔ رات کو ایک بجے مجھے ہاسٹل کے چپڑاسی نے کہا کہ آپ کو ناصر کاظمی بلا رہے ہیں۔ میں نیچے اترا تو ولز ہوسٹل کے لان میں ناصر کاظمی ٹہل رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر بولے:
’’کیا کر رہے ہو؟‘‘
’’پڑھ رہا تھا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’تم پڑھ رہے ہو۔ رات کا قافلہ روانہ ہونے کو ہے۔‘‘
میں اپنے کمرے میں گیا۔ میرا روم میٹ دانش رضا سو رہا تھا۔ میں نے چپکے سے اس کا اوورکوٹ اٹھایا جو اس نے پچھلی شام ہی لنڈے سے خریدا تھا اور نیچے اتر کر ناصر کاظمی کے ساتھ ہو لیا۔ انار کلی‘ سٹیشن‘ میکلوڈ روڈ مال سے ہوتے ہوئے ہم کرشن نگر میں داخل ہوئے۔ تین بج چکے تھے۔ کتے بوکھلائے ہوئے پھر رہے تھے۔ کتوں کے سلسلے میں‘ میں ناصر سے بھی زیادہ ڈرپوک تھا مگر میں نے کبھی ان پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ ہم کتوں سے بچتے بچاتے ناصر کاظمی کے گھر تک آئے۔ انہوں نے دستک دی۔ دروازہ کھلا وہ اندر داخل ہوئے۔ مجھے خدا حافظ کہا اور دروازہ بند کر لیا۔ میں واپسی کے لئے پلٹا تو دس کتوں کا ایک جاندار دستہ میرے سامنے کھڑا تھا میں نے ڈرتے ڈرتے قدم بڑھایا تو وہ بھونکنے لگے۔ میں چلا تو پیچھے دوڑے۔ میں دوڑا تو انہوں نے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا۔ ناصر کاظمی کا گھر بالکل چند قدم پر تھا۔ مجھے اور تو کچھ سوجھا نہیں میں نے اوورکوٹ اتار کر چاروں طرف لہرایا تو کتے اور شیر ہو گئے۔ اپنے اس دفاعی قدم میں میں نے ذرا تیزی دکھائی تو کوٹ میرے ہاتھ سے چھوٹ کر ایک کتے پر جا گرا اور گرا بھی اس طرح کہ اوورکوٹ کے بازوؤں میں اس کا سر پھنس گیا۔ وہ اس وقت آفت ناگہانی سے گھبرا گیا اور اوورکوٹ کے بازو سے اپنا سر نکالنے کے لئے چاروں طرف گھومنے لگا۔ کتے کو اپنے سر کی پریشانی تھی۔ مجھے اس کوٹ کی پریشانی تھی جو دانش رضا نے کل خریدا تھا۔ کتے کے چاروں طرف چکر لگانے سے سب کتے کوٹ کو اک بلا سمجھ کر بھاگ گئے اور میں کتے سے کوٹ چھیننے کی تگ ودو کرنے لگا۔ کتا 50 گز کے دائرے میں دیر تک بھاگتا رہا اور میں کتے کے پیچھے دوڑتا رہا۔ آخر کتے نے زور لگا کر سر کو کوٹ کے بازو سے نکالا۔ کوٹ اچھل کر دور جا گرا۔ کتے کے چہرے پر بلا کا خوف تھا۔ اس نے چند لمحے کوٹ کے بے ترتیب بکھرے بازوؤں کو دیکھا اور پھر بھونکنے کی بجائے ایک خوفناک چیخ مار کر بھاگ گیا۔ میں نے جا کر کوٹ اٹھایا تو ناصر کاظمی نے اپنی کھڑکی سے جھانک کر کہا:
’’یار کتے سے بچنے کا یہ تو بہت آسان طریقہ ہے۔ Good‘ میں یوں ہی ڈرتا رہا۔ کل میں بھی ایک اوورکوٹ خریدوں گا۔‘‘ اور کھڑکی بند کر لی۔😁😁😁

-پروفیسر عقیل روبی
 
Top