جگر کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے ۔ جگر مراد آبادی

فرخ منظور

لائبریرین
بہت خوبصورت غزل ہے۔ دو تین فورم پر پوسٹ ہے۔ میں نے ون اردو سے اٹھائی ہے۔ اگر کسی کو شاعر کا نام پتہ ہو تو ضرور بتائیے۔ میرے خیال میں احمد فراز یا مصطفیٰ زیدی ہو سکتے ہیں۔ ایک شعر تو بہت ہی مانوس محسوس ہوتا ہے لیکن شاعر کا نام یاد نہیں آرہا۔
اللہ رے چشمِ یار کی معجز بیانیاں
ہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے


کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے
جب تک ہمارے پاس رہے، ہم نہیں رہے

یارب کسی کے رازِ محبت کی خیر ہو
دستِ جنوں رہے نہ رہے، آستیں رہے

دردِ غمِ فراق کے یہ سخت مرحلے
حیراں ہوں میں کہ پھر بھی تم، اتنے حسیں رہے

جا اور کوئی ضبط کی دنیا تلاش کر
اے عشق ! ہم تو اب تیرے قابل نہیں رہے

اللہ رے چشمِ یار کی معجز بیانیاں
ہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے

اس عشق کی تلافیء ما بعد دیکھنا
رونے کی حسرتیں ہیں جب آنسو نہیں رہے

 

جیہ

لائبریرین
نہیں تو۔۔۔۔۔۔۔ بس اس وقت ذہن منتشر ہے۔ تبصرہ بھی کروں گی۔۔۔۔۔ اور مزاحیہ تشریح بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر گستاخی میں شمار نہ ہو:)
 

الف نظامی

لائبریرین
ایک شعر تو بہت ہی مانوس محسوس ہوتا ہے لیکن شاعر کا نام یاد نہیں آرہا۔
اللہ رے چشمِ یار کی معجز بیانیاں
ہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے

پہلے مصرع سے تو یہ شعر ذہن میں آتا ہے:
دیکھو تو چشم ِیار کی جادو نگاہیاں
بیہوش اِک نظر میں ہوئی انجمن تمام
 

محمد وارث

لائبریرین
واقعی اچھی غزل ہے فرخ صاحب، شکریہ شیئر کرنے کیلیے۔ شاعر کے نام کا علم ہو تو ضرور بتایئے گا :)
 

جیہ

لائبریرین
لو جی یہ تو بقول غالب

وہ ہم سے بھی زیادہ خستہء تیغِ ستم نکلے


آپ سے کچھ امید تھی کہ شاعر کا نام آپ بتا دیں گے۔۔۔۔۔۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہائے ہائے۔ اب میں کیا کہوں۔ جن احباب سے امید تھی وہی آئے اور کچھ بتائے بغیر چل دئیے۔
:)
 

محمد وارث

لائبریرین
میں کسی انتخاب میں سے دیکھنے کی کوشش کرونگا، لیکن آج کل ذرا مشکل کام ہے کہ کتابیں سب بکھری ہوئی ہیں اور کچھ علم نہیں ہو رہا کہ کونسی کتاب کہاں پر ہے، اور پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ یہ غزل مل جائے گی سو فی الحال بغیر خالق کو جانے، تخلیق کا لطف اٹھائیے کہ ساری دنیا یہی کچھ کرتی ہے :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
ون اردو پر کسی نے بتایا ہے یہ اصغر گونڈوی کی غزل ہے۔ لیکن میں نے پوری کلیاتِ اصغر چھان ماری اور مجھے یہ غزل نہیں ملی۔ کیا اردو محفل پر کسی اور کے پاس اصغر گونڈوی کی کلیات ہے۔ تاکہ اس غزل کی تصدیق ہو سکے۔ میرے پاس مکتبۂ شعر و ادب کی چھپی ہوئی کلیاتِ اصغر ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بُہت عمدہ انتخاب ہے سخنور صاحب ۔
مصطفیٰ زیدی کی کلیات میں یہ کلام شامل نہیں ہے ۔!

بہت شکریہ شاہ صاحب۔ اوہ اچھا تو پھر کس کی غزل ہے یہ؟ عجیب مخمصے میں ڈالا ہوا ہے۔ خیر اگر آپ کے پاس کلیات مصطفیٰ زیدی ہے تو آپ اس میں سے انتخاب وقتا" فوقتا" پوست کردیا کریں۔ بہت نوازش ہوگی!
:)
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ شاہ صاحب! واہ واہ کیا بات ہے جناب آپ نے تو کمال مہربانی کردی زیدی کا کلام پوسٹ کرکے ابھی پڑھتا ہوں :)
 
کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے

غزل حضرت جگر مراد آبادی کی ہے۔ چند ایک اشعار کم تھے جنہیں درج کررہا ہوں، تاہم معلوم نہیں غزل مکمل ہوئی یا نہیں۔ آخری شعر میں لفظ مابعد کے بجائے مافات ہے جس کے معنی باوصف تلاش بسیار مجھے نہیں ملے، کسی کو معلوم ہو تو عنایت کردے۔ پروفیسر اقبال عظیم نے بھی مافات کا لفظ
یہ نہیں کہتا کہ میں ہر رنج سے محفوظ ہوں
لیکن اب مافات کا ماتم نہیں ہے کم سے کم
میں استعمال کیا ہے۔

اب لطف کی بات یہ ہے کہ معجز بیانیاں والا معروف شعر جگر سے منسوب نہیں مل رہا۔ ہوسکتا ہے اصغر گونڈوی کی اسی زمین میں کہی گئی کسی غزل میں ہو۔ جگر کی کلیات دیکھنے سے مسئلہ حل ہوسکتا ہے اگر کوئی دیکھ کر بتادے تو۔

کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے
جب تک ہمارے پاس رہے، ہم نہیں رہے

ایمان و کفر اور نہ دنیا و دیں رہے
اے عشق شادباش کہ تنہا ہمیں رہے

یارب کسی کے رازِ محبت کی خیر ہو
دستِ جنوں رہے نہ رہے، آستیں رہے

دردِ غمِ فراق کے یہ سخت مرحلے
حیراں ہوں میں کہ پھر بھی تم، اتنے حسیں رہے

جا اور کوئی ضبط کی دنیا تلاش کر
اے عشق ! ہم تو اب تیرے قابل نہیں رہے

مجھ کو نہیں قبول دو عالم کی وسعتیں
قسمت میں کوئے یار کی دو گز زمیں رہے

اللہ رے چشمِ یار کی معجز بیانیاں
ہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے

اس عشق کی تلافیء مافات دیکھنا
رونے کی حسرتیں ہیں جب آنسو نہیں رہے

(حضرت جگر مراد آبادی)۔
 
م

محمد سہیل

مہمان
پہلے تو سخنور صاحب کا بہت بہت شکریہ
آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہر ہر مصرعہ کتنالطف لے لے کر میں نے پڑھا۔۔۔
اس غزل کا کمال بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔۔۔
پھرحارث صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے شاعر کا نام تلاش کیا۔
حارث صاحب!
"مافات" کا مطلب ہے "جو کچھ ضائع ہو گیا"
دراصل یہ عربی کا لفظ ہے۔اس میں "ما" اسم موصول اور"فات" فعل ہے۔"فات" ماضی کا صیغہ ہے اور اس کا مصدر"الفوت" ہے۔
لفظ "فوت" اردو میں جس معنی کے لئے استعمال ہوتا ہے یعنی "مرجانا، ضائع ہوجانا" بس عربی میں بھی یہی معنی ہیں۔
گویا "لیکن اب مافات کا ماتم نہیں ہے کم سے کم" کا مطلب ہوا
لیکن اب گزشتہ ضائع شدہ کا غم نہیں ہے کم سے کم
 
مافات کے معنی ایک پرانی لغت میں مل گئے ہیں:
وہ چیز جو فوت ہوچکی ہو
یا
ایسا کام جسے کرنے کا وقت گزر گیا ہو۔

جگر کے شعر کا مفہوم ان معنوں کی روشنی میں بہت واضح ہے۔
 

مجاز

محفلین
دردِ غمِ فراق کے یہ سخت مرحلے
حیراں ہوں میں کہ پھر بھی تم، اتنے حسیں رہے

بہت خوب۔۔۔!!

بہت عمدہ کلام ہے۔۔ اور ابھی یہ ٹاپک پڑھتے ہوئے سرچ کے دوران، عابدہ پروین کی آواز میں یہ کلام ملا ہے، سن کر لطف آگیا ہے :)
شکریہ اتنی اچھی شئیرنگ کے لئے جناب:)
 
Top