کچھ اشعار ۔ برائے اصلاح

شاہد شاہنواز

لائبریرین
عشق ہے نعرہ ء ہو سے روشن
مے کدہ جام و سبو سے روشن
چارہ ء ظلمت شب اور ہو کیا
کر چراغوں کو لہو سے روشن

تجھ سے بدلے جو تری ذات بدل
اپنی اس قوم کی اوقات بدل
سرجھکا کر نہ بھٹک شرمندہ
غور کر، صورتِ حالات بدل

جن کو حالات نے سمجھایا ہو
چھوڑتے ہی نہیں اک پل محنت
ہے سکوں صرف اجل پر موقوف
زندگی ہے تو مسلسل محنت

ہم نے آنکھوں کو جھکا رکھا ہے
خواہشِِ دید نہیں چھوڑی ہے
اس نے انکار کیا ہے لیکن
ہم نے امید نہیں چھوڑی ہے

بوجھ شاہد وہ جس کا سہہ نہ سکے
دل پہ برپا وہ قیامت نہ کرو
اب ہے کیوں ترکِ محبت کا خیال
ہم نہ کہتے تھے محبت نہ کرو

اپنی عادات کی مصیبت سے
آپ دامن چھڑا نہیں سکتے
آپ چہرہ بدل تو سکتے ہیں
آپ خود کو چھپا نہیں سکتے ۔۔۔

برائے تبصرہ و اصلاح ۔۔ بخدمت اساتذہ سخن

محترم الف عین صاحب
اور محمد یعقوب آسی صاحب
 
سارے قطعات اچھے ہیں، اور مضبوطی سے بنے گئے ہیں۔ مزید جناب الف عین صاحب۔

ہاں، اس قطعے کا پہلا مصرع مجھے وزن سے خارج محسوس ہو رہا ہے:
بوجھ شاہد وہ جس کا سہہ نہ سکے​
دل پہ برپا وہ قیامت نہ کرو​
اب ہے کیوں ترکِ محبت کا خیال​
ہم نہ کہتے تھے محبت نہ کرو​
دیکھ لیجئے گا۔

شاہد شاہنواز
 

الف عین

لائبریرین
سارے قطعات اچھے ہیں، اور مضبوطی سے بنے گئے ہیں۔ مزید جناب الف عین صاحب۔

ہاں، اس قطعے کا پہلا مصرع مجھے وزن سے خارج محسوس ہو رہا ہے:

دیکھ لیجئے گا۔

شاہد شاہنواز
عزیزم شاہد شاہنواز کی کمزوری یہی ہے کہ وہ ان بحور میں گڈمڈ کر دیتے ہیں۔
باقی قطعات بہت خوب ہیں
 
عزیزم شاہد شاہنواز کی کمزوری یہی ہے کہ وہ ان بحور میں گڈمڈ کر دیتے ہیں۔
باقی قطعات بہت خوب ہیں


یہ دونوں بحور گڈمڈ ہو جایا کرتی ہیں۔ پچھلے دنوں وہ جو فی البدیہہ طرح شعر کا سلسلہ تھا، اُس میں مجھے سے بھی ہو گئی پھر میں نے مزمل شیخ بسمل سے بھی مشورہ کیا کہ کیا ہو۔
توجہ تو بہر حال دینی پڑے گی۔
 
یہ دونوں بحور گڈمڈ ہو جایا کرتی ہیں۔ پچھلے دنوں وہ جو فی البدیہہ طرح شعر کا سلسلہ تھا، اُس میں مجھے سے بھی ہو گئی پھر میں نے مزمل شیخ بسمل سے بھی مشورہ کیا کہ کیا ہو۔
توجہ تو بہر حال دینی پڑے گی۔


اس مراسلے کو ”دوستانہ“ کی جگہ ”استادانہ“ سمجھا جائے۔ :)
 
واہ! کیا ’’استادی‘‘ ہے جنابِ شیخ!
حضرتِ شیخ کا تو شاعری میں ویسے بھی بہت اہم مقام ہے، چاہے طعن و تشنیع کا نشانہ ہی کیوں نہ رہے۔


طعن و تشنیع سے تو غالب و میر بھی نہ بچ سکے جناب محمد یعقوب آسی صاحب
اب روئے زار زار کیا، کیجئے ہائے ہائے کیوں؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
طعن و تشنیع سے تو غالب و میر بھی نہ بچ سکے جناب محمد یعقوب آسی صاحب
اب روئے زار زار کیا، کیجئے ہائے ہائے کیوں؟
یہاں جو میرا قطعہ زار زار رو رہا ہے اور ہائے ہائے کر رہا ہے، کچھ توجہ اس پر بھی:
بوجھ شاہد وہ جس کا سہہ نہ سکے
دل پہ برپا وہ قیامت نہ کرو
اب ہے کیوں ترکِ محبت کا خیال
ہم نہ کہتے تھے محبت نہ کرو ۔۔۔؟
سرخ مصرع کس طرف چلا گیا اور باقی کے کس وزن پر ہیں، یہ بتائیے پھر میں کوشش کرتا ہوں ۔۔۔
 
یہاں جو میرا قطعہ زار زار رو رہا ہے اور ہائے ہائے کر رہا ہے، کچھ توجہ اس پر بھی:
بوجھ شاہد وہ جس کا سہہ نہ سکے
دل پہ برپا وہ قیامت نہ کرو
اب ہے کیوں ترکِ محبت کا خیال
ہم نہ کہتے تھے محبت نہ کرو ۔۔۔ ؟
سرخ مصرع کس طرف چلا گیا اور باقی کے کس وزن پر ہیں، یہ بتائیے پھر میں کوشش کرتا ہوں ۔۔۔


سرخ مصرع:
فاعلاتن مفاعلن فعِلن (خفیف)

باقی مصرعے:
فاعلاتن فعِلاتن فعلن (رمل)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
بوجھ سہہ پائے نہ جس کا وہ کبھی
دل پہ برپا وہ قیامت نہ کرو۔۔۔
۔۔۔ کیا یہ اب ٹھیک ہے؟ ۔۔۔

کچھ اور اشعار ہیں، ان پر بھی آپ کی رائے درکار ہے:
دشمنوں سے تو بچاتا ہے اگر دین اپنا
ان کی نظروں میں یہ اقدام فقط چوری ہے
ترے اسلام کا اب نام ہے دہشت گردی
رہ گئی امن پسندی، تو وہ کمزوری ہے
۔۔ ۔
اپنے یاروں پہ بھروسہ یوں نہیں کرسکتے
ہم نے حالات کے طوفان بہت دیکھے ہیں
جس طرح وقت بدل جاتا ہے، اکثر ہم نے
یوں بدلتے ہوئے انسان بہت دیکھے ہیں
۔۔۔۔
اس کے دو مصرعے وزن سے خارج ہیں، جہاں تک مجھے محسوس ہورہا ہے، لیکن یہاں پوسٹ کرنے کا مقصد دیگر پہلوؤں پر روشنی ڈالنا ہے:
ہم کو بس غم دئیے جاتے ہیں یونہی صدیوں سے
اور کسی غم کا مداوا نہیں ہونے دیتے
جانے کیا لوگ ہیں پتھر کے زمانے کے یہاں
اک نئے عہد کو پیدا نہیں ہونے دیتے ۔۔ ۔
۔۔۔
ان کی تصویروں سے رکھتے ہیں سجا کر کمرے
اپنے اسلاف سے یہ کام لیا جاتا ہے
مملکت نام پہ اسلام کے حاصل جو ہوئی
اس میں اسلام کا بس نام لیا جاتا ہے
۔۔۔
باب رحمت بھی ہوا بند مسلمانوں پر
آسماں کی یہ گواہی نہیں دیکھی جاتی
آگ اور خون کے دریا سے بچا لے ہم کو
ہم سے یا رب یہ تباہی نہیں دیکھی جاتی
۔۔۔
 

شوکت پرویز

محفلین
آگ اور خون کے دریا سے بچا لے ہم کو
بہتری:
یہاں "اور" دو حرفی باندھا گیا ہے جو ذرا گراں لگتا ہے، اس میں آگ اور خون کی نشست بدد دیں تو یہ ثقالت بھی دور ہو جاتی ہے
خون اور آگ کے دریا سے بچا لے ہم کو
"آگ" چونکہ "آ" سے شروع ہو رہا ہے اس لئے "اور" مکمل (سہ حرفی) پڑھا جا سکتا ہے؛ اور کا "ر" آگ" کے آ میں وصل ہو جائے گا۔۔
جیسے استاد غالب کا یہ مصرعہ:
وائے دیوانگیِ شوق کہ ہر دم مجھ کو
آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں ہونا
 
میں تو عرض کر چکا صاحب!

سارے قطعات اچھے ہیں، اور مضبوطی سے بنے گئے ہیں۔ مزید جناب الف عین صاحب۔

ہاں، اس قطعے کا پہلا مصرع مجھے وزن سے خارج محسوس ہو رہا ہے:

دیکھ لیجئے گا۔

شاہد شاہنواز


واہ! کیا ’’استادی‘‘ ہے جنابِ شیخ!
حضرتِ شیخ کا تو شاعری میں ویسے بھی بہت اہم مقام ہے، چاہے طعن و تشنیع کا نشانہ ہی کیوں نہ رہے۔


روئیے زار زار کیا کیجئے ہائے ہائے کیوں


مزید کوئی دو تین گھنٹے بعد دیکھتے ہیں۔ ابھی کچھ مہمان آ رہے ہیں۔
 
بوجھ شاہد وہ جس کا سہہ نہ سکے
دل پہ برپا وہ قیامت نہ کرو​
اب ہے کیوں ترکِ محبت کا خیال​
ہم نہ کہتے تھے محبت نہ کرو ۔۔۔ ؟​

اس میں ’’نہ‘‘ دوحرفی کا مسئلہ ہے۔ علمائے عروض کو قبول ہو تب بھی ذوقِ سلیم کو منظور نہیں۔ یہاں اگر ’’مت‘‘ قابلَ قبول ہو تو بدل لیجئے۔
دل کا مذکور پہلے مصرعے میں ہوتا تو وہ ’’کدھر کو‘‘ جانے والی کیفیت نہ ہوتی۔
 
دشمنوں سے تو بچاتا ہے اگر دین اپنا​
ان کی نظروں میں یہ اقدام فقط چوری ہے​
ترے اسلام کا اب نام ہے دہشت گردی​
رہ گئی امن پسندی، تو وہ کمزوری ہے​

مفہوم در بطنِ شاعر ۔۔۔ یہ پتہ نہیں چل رہا کہ شاعر اس الزام کا حامی ہے یا مخالف۔ یہ پتہ چلنا چاہئے، سمتیہ ضروری ہے صاحب۔
 
اپنے یاروں پہ بھروسہ یوں نہیں کرسکتے​
ہم نے حالات کے طوفان بہت دیکھے ہیں​
جس طرح وقت بدل جاتا ہے، اکثر ہم نے​
یوں بدلتے ہوئے انسان بہت دیکھے ہیں​

اس میں عجزِ بیان ہے۔ بات سمجھ میں آ رہی ہے اور ساتھ ہی یہ محسوس ہو رہا ہے کہ شاعر خود اس اظہار پر مطمئن نہیں۔
 
ہم کو بس غم دئیے جاتے ہیں یونہی صدیوں سے
اور کسی غم کا مداوا نہیں ہونے دیتے
جانے کیا لوگ ہیں پتھر کے زمانے کے یہاں
اک نئے عہد کو پیدا نہیں ہونے دیتے ۔۔ ۔
۔۔۔
ان کی تصویروں سے رکھتے ہیں سجا کر کمرے
اپنے اسلاف سے یہ کام لیا جاتا ہے
مملکت نام پہ اسلام کے حاصل جو ہوئی
اس میں اسلام کا بس نام لیا جاتا ہے
۔۔۔
باب رحمت بھی ہوا بند مسلمانوں پر
آسماں کی یہ گواہی نہیں دیکھی جاتی
آگ اور خون کے دریا سے بچا لے ہم کو
ہم سے یا رب یہ تباہی نہیں دیکھی جاتی
۔۔۔

یہ تینوں بڑے موضوعات ہیں، ان پر اظہار کو بھی وسیع تر ہونا چاہئے۔ تشفی نہیں ہو پا رہی۔
 
Top