سید زبیر
محفلین
نایاب محمود احمد غزنوی نیلم حسان خان کاشفی باباجی شمشاد تلمیذ نیرنگ خیال فرحت کیانی مہ جبین حسیب نذیر گِل فرخ منظور
ماھر القادری
کچھ اور ہے اب گردش دُنیا مرے آگے
ماضی مِرے پیچھے ہے نہ فردا مرے آگے
اللہ رے تری مست نگاہوں کا تصور
رکھے ہی رہے ساغر و مینا مرے آگے
اُلجھیں ترے رخسار سے گستاخ نگاہیں
تو اور ہومجروح ِتماشا مرے آگے
دیکھی ہے مری آنکھ نے کلیوں کی تباہی
اُٹھا ہے تبسم کا جنازہ مرے آگے
میں خود بھی سندہوں مرے نقاد سے کہہ دو
دیتا ہے کتابوںکا حوالہ مرے آگے
پروانہ ہو یا شمع ہو بلبل ہو کہ گل ہو
جمتا نہیں اب رنگ کسی کا مرے آگے
ناصح اگر آئیں تو ذرا سوچ سمجھ کہ
الفاظ کا جادو نہیں چلتا مرے آگے
میں دوش کسی اور کو دیتا نہیں ماھر
آیا مری تقدیر کا لکھا مرے آگے
ماھر القادری