فرذوق احمد
محفلین
یہ کتاب میرے پاس بہت پُرانی پڑی ہوئی ۔تو میں نے سوچا کچھ یہاں بھی لکھ ہی ڈالوں ۔۔تو آج ہمت کر کے لکھ رہا ہوں ۔
مصنف کا نام تو خیر نہیں معلوم ۔تو اِس لیے کہ اس مصنف سے معذرت چاہوں ۔کیونکہ کتاب اپنی اصلی حالت میں تو ہے نہیں
کچھ صحفے بچے ہیں
مہاتما بُدھ کو نروان حاصل ہوتا ہے
اہلِ سیلون کا دعویٰ ہے کہ ان کے مُلک میں دنیا کا سب سے پُرانا درخت موجود ہے ۔ یہ اُسی درخت کی شاخ کاٹ کر لگایا گیا تھا
جس کے نیچے سدھارتھ گوتم کو عرفان کی روشنی ملی تھی اور اُس نے بُدھ یعنی بہت بڑے عارف کا لقب حاصل کیا تھا ۔ وہی روشنی بُدھ مت کی محرک روشنی بن گئی ۔
سدھارتھ گوتم (غالباََ چھٹی صدی قبل مسیح میں) میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوا جیس میں دولت کی ریل پیل تھی اور عیش و عشرت کے تمام سامان موجود تھے ۔شادی کو نو سال گُزر چُکے تھے اور ایک بچہ بھی پیدا ہو چکا تھا ۔جب اس کے دِل میں دکھیا انسانیت کے لیے جذبہ بیدار ہوا اور زندگی کی گہری حقیقتیں دریافت کرنے کی طلب پیدا ہوئی ۔وہ گھر بار چھوڑ کر ان رشیوں اور رِمیوں کے پاس پہنچا جو دنیا سے الگ تھلگ پہاڑوں کی تنہائی میں زندگی گزار رہے تھے ۔ یہ رشی اور منی علم اور نجات کی تلاش میں برت رکھتے ، کڑی ریاصتیں کرتے اور اپنے جسموں کو زیادہ زیادہ مشقتوں میں ڈالتے ۔گوتم نے ان کے تمام طور طریقے آزما دیکھے اور اس نتیجے پر پہنچا کے یہ لوگ بھی سچائی کا راستہ گُم کیے بیٹھے ہیں ۔
انہیں چھوڑ کر وہ جگہ جگہ سرگرداں پھرتا رہا ۔آخردریا کے کنارے ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا ۔وہیں زندگی کی حقیقت ایک روشنی کی شکل میں اس کے سامنے نمودار ہوئی ۔بنارس میں میں اسے اپنے چیلوں کی ایک جماعت مِل گئی جن کی مدد سے اس نے ہندوستان کی طول و عرض میں اپنی تعلیمات پھیلائیں ۔
اگرچہ بُدھ دھرم پورے ہندوستان کو ہندومت کی اثر سے نہ نکال سکا ،تاہم برما،سیلون ،کمبوڈیا،تھائی لینڈ، چین ۔اور جاپان میں اسں کہ بےشمار کے پیرو موجود ہیں اور اس کے حلم نیز زندگی کے عقائد کی پاکیزگی نے کروڑوں انسانوں کو متاثر کیا ہے ۔
مہاتمابُدھ نے جو اعتدال کا راستہ دکھلایا ،اس کا منشا یہ تھا کہ نہ تو تو انسان کو کو نفسانی خواہشات کا غلام بن جانا چاہیے اور نہ یہ کہ خواہشوں کو بالکل مار دینا چاہیے، بلکہ ان پر قابو پانا چاہیئے ۔اس نے چار سچائیوں کی تعلیم دی ۔وہ کہتا ہے اول تسکینِ نفس کی خواہش ، دوم مادی فائدوں کی خواہش اور سوم بقائے دوام کی خواہش سے رنج و الم پیدا ہوتا ہے چوتھی سچائی یہ ہے کہ انسان رنج سے پاک ہو کر روح کی تسکین کے لیے صحیح اصول اور صحیح اعمال کو اختیار کرے ۔ روح کی اسی تسکین کو اہلِ ہند نروان کہتے ہیں
مصنف کا نام تو خیر نہیں معلوم ۔تو اِس لیے کہ اس مصنف سے معذرت چاہوں ۔کیونکہ کتاب اپنی اصلی حالت میں تو ہے نہیں
کچھ صحفے بچے ہیں
مہاتما بُدھ کو نروان حاصل ہوتا ہے
اہلِ سیلون کا دعویٰ ہے کہ ان کے مُلک میں دنیا کا سب سے پُرانا درخت موجود ہے ۔ یہ اُسی درخت کی شاخ کاٹ کر لگایا گیا تھا
جس کے نیچے سدھارتھ گوتم کو عرفان کی روشنی ملی تھی اور اُس نے بُدھ یعنی بہت بڑے عارف کا لقب حاصل کیا تھا ۔ وہی روشنی بُدھ مت کی محرک روشنی بن گئی ۔
سدھارتھ گوتم (غالباََ چھٹی صدی قبل مسیح میں) میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوا جیس میں دولت کی ریل پیل تھی اور عیش و عشرت کے تمام سامان موجود تھے ۔شادی کو نو سال گُزر چُکے تھے اور ایک بچہ بھی پیدا ہو چکا تھا ۔جب اس کے دِل میں دکھیا انسانیت کے لیے جذبہ بیدار ہوا اور زندگی کی گہری حقیقتیں دریافت کرنے کی طلب پیدا ہوئی ۔وہ گھر بار چھوڑ کر ان رشیوں اور رِمیوں کے پاس پہنچا جو دنیا سے الگ تھلگ پہاڑوں کی تنہائی میں زندگی گزار رہے تھے ۔ یہ رشی اور منی علم اور نجات کی تلاش میں برت رکھتے ، کڑی ریاصتیں کرتے اور اپنے جسموں کو زیادہ زیادہ مشقتوں میں ڈالتے ۔گوتم نے ان کے تمام طور طریقے آزما دیکھے اور اس نتیجے پر پہنچا کے یہ لوگ بھی سچائی کا راستہ گُم کیے بیٹھے ہیں ۔
انہیں چھوڑ کر وہ جگہ جگہ سرگرداں پھرتا رہا ۔آخردریا کے کنارے ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا ۔وہیں زندگی کی حقیقت ایک روشنی کی شکل میں اس کے سامنے نمودار ہوئی ۔بنارس میں میں اسے اپنے چیلوں کی ایک جماعت مِل گئی جن کی مدد سے اس نے ہندوستان کی طول و عرض میں اپنی تعلیمات پھیلائیں ۔
اگرچہ بُدھ دھرم پورے ہندوستان کو ہندومت کی اثر سے نہ نکال سکا ،تاہم برما،سیلون ،کمبوڈیا،تھائی لینڈ، چین ۔اور جاپان میں اسں کہ بےشمار کے پیرو موجود ہیں اور اس کے حلم نیز زندگی کے عقائد کی پاکیزگی نے کروڑوں انسانوں کو متاثر کیا ہے ۔
مہاتمابُدھ نے جو اعتدال کا راستہ دکھلایا ،اس کا منشا یہ تھا کہ نہ تو تو انسان کو کو نفسانی خواہشات کا غلام بن جانا چاہیے اور نہ یہ کہ خواہشوں کو بالکل مار دینا چاہیے، بلکہ ان پر قابو پانا چاہیئے ۔اس نے چار سچائیوں کی تعلیم دی ۔وہ کہتا ہے اول تسکینِ نفس کی خواہش ، دوم مادی فائدوں کی خواہش اور سوم بقائے دوام کی خواہش سے رنج و الم پیدا ہوتا ہے چوتھی سچائی یہ ہے کہ انسان رنج سے پاک ہو کر روح کی تسکین کے لیے صحیح اصول اور صحیح اعمال کو اختیار کرے ۔ روح کی اسی تسکین کو اہلِ ہند نروان کہتے ہیں