ریحان احمد ریحانؔ
محفلین
تو ہی کچھ کھول یہ کیا رازِ نہاں ہے سائیں
ہر نفس زیست کا کیوں شعلہ بجاں ہے سائیں
ہم نے ہر درد کو سمجھا ہے عنایت تیری
تجھ کو اس بات کا احساس کہاں ہے سائیں
تیرے معیار کے قابل تو نہیں ہے پھر بھی
یہ رہا جسم، یہ دل اور یہ جاں ہے سائیں
شہر در شہر یوں آوارہ نہ جانے کب سے
میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں تو کہاں ہے سائیں
کچھ نہیں بدلا ،ہے مظلوم بھی ظالم بھی وہی
وہی گردن ہے وہی تیغ و سناں ہے سائیں
ان سے محرومئ الفت کا گلہ کیا کرنا
جن کو حق بات سماعت پہ گراں ہے سائیں
کیا کہوں اب تو مری وحشتِ جاں کے باعث
میرا اندازِ تکلم بھی فغاں ہے سائیں
شکریہ۔
ہر نفس زیست کا کیوں شعلہ بجاں ہے سائیں
ہم نے ہر درد کو سمجھا ہے عنایت تیری
تجھ کو اس بات کا احساس کہاں ہے سائیں
تیرے معیار کے قابل تو نہیں ہے پھر بھی
یہ رہا جسم، یہ دل اور یہ جاں ہے سائیں
شہر در شہر یوں آوارہ نہ جانے کب سے
میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں تو کہاں ہے سائیں
کچھ نہیں بدلا ،ہے مظلوم بھی ظالم بھی وہی
وہی گردن ہے وہی تیغ و سناں ہے سائیں
ان سے محرومئ الفت کا گلہ کیا کرنا
جن کو حق بات سماعت پہ گراں ہے سائیں
کیا کہوں اب تو مری وحشتِ جاں کے باعث
میرا اندازِ تکلم بھی فغاں ہے سائیں
شکریہ۔
آخری تدوین: